ایک ای میل پیغام موصول ہوا جس میں لکھا ہے ''مولانا عبدالعزیز پر تو آپ نے کالم لکھ مارا ہے‘ اچھا کیا۔ کچھ اپنے آج کل کے ہیرو‘ جناب عمران خان صاحب کے بارے میںفرما دیتے تو تشنگی باقی نہ رہتی۔ انہوں نے کچھ زیادہ نہیں فرمایا اس واقعے کے بارے میں‘ ٹی ٹی پی کا تو انہوں نے نام بھی نہیں لیا۔ خیر اندیش ڈاکٹر فاروق ڈوگر‘‘۔ کچھ لوگوں میں اتنا زہر بھرا ہوتا ہے کہ وہ جنازے کے ساتھ چلتے ہوئے بھی‘ ٹچکر کرنے سے باز نہیں آتے۔ ان دنوں میں ہی نہیں ہر قلم کار‘ پشاور کے قومی سانحے کے حوالے سے غم و اندوہ کے جذبات کا اظہار کر رہا ہے اور اپنی اپنی بساط کے مطابق ان درندہ صفت افراد کی مذمت میں مصروف ہے۔ مولانا عبدالعزیز نے نہ صرف مذمت سے انکار کیا بلکہ اپنے انداز میں ان کے مکروہ فعل کا جواز بھی پیش کرنے کی کوشش کی۔ آج انہی مولانا کے خلاف‘ پاکستان کے شہروں اور قصبوں میں مذمتی جلوس نکل رہے ہیں۔ مذکورہ قاری کو یہ حوصلہ تو نہیں پڑا کہ ایسے کسی جلوس میں شامل ہو کر سوگواروں پر طنز کے تیر چھوڑتے‘ انہیں گوشہ تنہائی میں بیٹھا ہوا یہ ناچیز ضرور نظر آ گیا اور مجھے نشانہ بنانے کی جرات مندی کا مظاہرہ کر کے داد شجاعت دے ڈالی۔ عمران خان اس سانحے کے بعد جو کچھ عملی اور زبانی طور سے کر رہے ہیں‘ اگر محترم قاری نفرت میں اندھیائے ہونے کی وجہ سے‘ میڈیا پر کچھ دیکھ نہیں پائے اور اخبار میں پڑھ نہیں سکے تو میں بتا دیتا ہوں کہ عمران خان اس صدمے میں نہ صرف پوری قوم کے ساتھ شریک غم ہیں بلکہ انہوں نے جو تحریک ڈیڑھ سال میں منظم کر کے‘ پورے ملک میں پھیلا دی تھی اور اس کے نتائج حاصل ہونے جا رہے تھے‘ عمران خان نے ذرا تاخیر کئے بغیر‘ اسے فوری طور پر معطل کر دیا اور پاکستان کے تمام قومی رہنمائوں کے ساتھ آبیٹھے اور اس فیصلے میں بھی شریک ہوئے‘ جس کے تحت قومی رہنمائوں نے دہشت گردوں کے خلاف‘ حتمی اقدامات پر اتفاق رائے کیا۔ اگر میرے محترم قاری کے سینے میں اب بھی ٹھنڈک نہیں پڑی تو وہ آج سارے میڈیا پر نشر ہونے والی عمران خان کی پریس کانفرنس کو انٹرنیٹ سے نکال کر‘ اپنے کانوں سے سن لیں اور آنکھوں سے دیکھ لیں۔
کسی نے ٹھیک کہا تھا کہ ''زخم سے ڈر نہیں لگتا‘ اوچھے وار سے گھن آتی ہے‘‘۔ جو شقی القلب لوگ اپنے سڑے ہوئے اور متعفن جذبات کا اظہار کرتے ہوئے‘ یہ کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردوں نے معصوم بچوں کا قتل عام کر کے‘ آپریشن ضربِ عضب کا جواب دیا ہے‘ جس میں پاک فوج نے ان کے بچوں کو مارا‘ اس کا جواب وزیر داخلہ چوہدری نثار نے دے دیا کہ پاک فوج نے اس آپریشن میں کسی خاتون اور بچے کو نقصان نہیں پہنچایا اور ہر طرح کے حملے میں یہ خیال رکھا کہ بچوں اور خواتین کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ انہیں بچانے کے لئے اپنے حملوں کے رخ بدل کر‘ دہشت گردوں کو بچ نکلنے کے مواقع بھی دئیے تاکہ عورتوں اور بچوں کو نقصان نہ پہنچے۔ اس کے باوجود‘ اگر کسی بچے یا خاتون کو نقصان پہنچ گیا‘ تو اس کی بنیادی ذمہ داری ان بزدلوں پر عائد ہوتی ہے‘ جنہوں نے اپنی جان بچانے کے لئے عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنایا۔ وہ اتنے ہی بہادر ہوتے تو میدان میں آ کر مقابلہ کرتے۔ چوہوں کی طرح بِلوں میں چھپ کر‘ گھات میں بیٹھے بھیڑیے کی طرح حملے نہ کرتے۔ یہ جو اپنے آپ کو اسلام کے سپاہی کہتے ہیں‘ سامنے سے للکار کر مقابلے کی دعوت کیوں نہیں دیتے؟ ان سے تو داعش والے اچھے ہیں‘ جو کھلم کھلا حملہ کر کے مخالفین کا مقابلہ کرتے ہیں۔ خود بھی مرتے اور انہیں بھی مارتے ہیں اور زمین کے جس ٹکڑے پر ان کا کنٹرول قائم ہوا‘ وہاں کھل کر قبضہ کر کے بیٹھے ہیں‘ چوہوں کی طرح چھپے نہیں۔ اپنے علاقوں کی حفاظت کے لئے‘ مقابلے کرتے ہیں۔ ہمارے بچوں کے قاتلوں سے تو یہ بھی نہ ہوا۔ چورو ں کی طرح چھپ کر آئے۔ نہتے اور معصوم بچوں پر گولیاں برسائیں اورا پنے آپ کو بموں سے اڑا لیا۔ جو لوگ اسلام کے نام پر‘ ایسے لوگوں کا دفاع کرتے ہیں‘ انہیں کم از کم اس پر ہی شرم آجانا چاہئے کہ ایسی بزدلانہ قتل و غارت گری مسلمانوں نے کب کی تھی؟
میں تو ان چند صحافیوں میں شامل تھا‘ جنہوں نے جنرل ضیا کی پالیسیوں پر اس وقت ببانگ دہل تنقید کی‘ جب وہ امریکی جنگ لڑنے کے لئے اپنی خدمات پیش کر رہے تھے اور اپنے افسروں کو حکم دے رہے تھے کہ برادر مسلم ملک‘ افغانستان کے کلمہ گو شہریوں کے گھروں پر چوروں کی طرح چھپ کر حملے کریں اور اسے جہاد کا نام دیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ سوویت افواج سے لڑنے کے لئے گئے تھے ‘ ان کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے؟ کہ روسی تو 1989ء میں افغانستان خالی کر گئے تھے۔ اس کے بعد سے آج تک کون کس کو مار رہا ہے؟ کیا پاکستانی قوم نے اپنی فوج اس لئے تیار کی تھی کہ وہ کرائے کی جنگیں لڑتی پھرے؟ کشمیری عوام کی جنگ آزادی کی پیٹھ میں اس وقت چھرا گھونپے جب عالمی برادری ان کی جدوجہد آزادی کی بھرپور حمایت کر رہی تھی اور خود بھارت کے اندر بھی کشمیر پر جارحانہ قبضے کی مخالفت میں رائے عامہ ہموار ہونے لگی تھی۔ میرا اشارہ کارگل ایڈونچر کی طرف ہے۔ یہی وہ ایڈونچر تھا‘ جس نے مقبوضہ کشمیر میں کامیابی کی طرف بڑھتی ہوئی تحریک آزادی پر دہشت گردی کی تہمت لگوائی اور اس کے بعد سے آج تک‘ کشمیریوں کی جنگ آزادی مشکل مراحل سے گزر رہی ہے۔
اسلام کا نام لینے والے ان دہشت گردوں نے‘ پاکستان میں ایسا کون سا کام کیا ہے‘ جو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو؟ اس کے برعکس انہوں نے ہر وہ کام کیا‘ جس کی اسلام میں ہرگز اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے مساجد میں نمازیوں کے جسموں کے پرخچے اڑائے اور مساجد کو شہید کیا۔ انہوں نے بچوں اور بچیوں کے سکول بموں سے اڑائے۔ انہوں نے بازاروں اور گلی محلوں میں بم چلا کر عورتوں‘ بچوں‘ بوڑھوں اور اپاہجوں تک کو بھون ڈالا۔ انہوں نے طالبات کی بسیں جلا کر‘ انہیں زندہ آگ میں جلا ڈالا۔ انہوں نے ہمارے ملک‘ جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے‘ کے امن و امان کو تباہ و برباد کر کے‘ لوگوں کے کاروبار اجاڑ دئیے۔ پاکستان کی معیشت تباہ کر دی اور ہمارے ملک میں سرمایہ کاری مشکل ہو گئی۔ انہوں نے اپنی سرپرستی کرنے والے‘ چند مدرسوں کی وجہ سے تمام مدرسوں کے بارے میں شکو ک و شبہات پیدا کر دئیے اور حکومت کو سمجھ نہیں آ رہی کہ چند مدرسوں کی مدد سے پاکستانیوں کو برباد کرنے والوں کے خلاف کارروائی کیسے کرے؟ جب تک دہشت گردوں کو پناہ دینے والے بعض مدرسوں کے منتظمین از خود مسلمانوں کے قاتلوں کو پناہ دینے سے انکار نہیں کرتے‘ یہ مسئلہ پاکستانی معاشرے کے لئے بہت بڑی تباہی کی وجہ بنے گا اور اس کے ذمہ دار‘ ان چند مدرسوں کے منتظمین ہوں گے‘ جن کی وجہ سے بستی بستی‘ گائوں گائوں خون ریزی ہو گی۔ پاکستان میں مدارس کو جو آزادی اور خود مختاری حاصل ہے‘ اسے بر قرار رکھنے کے لئے‘ مدرسوں کے منتظمین کو آگے بڑھ کر قوم کا ساتھ دینا ہو گا۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو نہ صرف انہیں وہ عزت ملے گی‘ جس کے وہ مستحق ہیں بلکہ عام مسلمان شہری بھی بے گناہوں کو نقصان پہنچانے کے گناہ سے بچے رہیں گے۔ ورنہ اس طرح خاموشی سے بیٹھ کر‘ کوئی اپنے بچوں کو نہیں مروا سکتا۔ پھر حکومت پر دبائو آئے گا کہ وہ مدرسوں پر اپنا کنٹرول قائم کرے۔ نتیجے میں ظاہر ہے ان کی آزادی اور خود مختاری متاثر ہو گی‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کنٹرول کرنے کے نام پر‘ برسر اقتدار جماعتیں غیر مناسب پابندیاں بھی لگا سکتی ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر تمام مدارس کے منتظمین خود ہی اجتماعی طور پر یہ فیصلہ کر لیں کہ وہ‘ اپنے مدرسوں میں کسی مشکوک فرد کو پناہ نہیں دیں گے اور اگر کوئی مشکوک شخص پناہ کے لئے آیا‘ اسے پولیس کے حوالے کر دیں گے‘ تو دہشت گردی کے عفریت پر توقع سے بھی جلد‘ قابو پایا جا سکتا ہے۔ ورنہ باہمی اعتماد کا فقدان‘ کھلے تصادم کی طرف لے جا سکتا ہے اور پھر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ خون ریزی کتنی دور تک پھیل سکتی ہے؟ گلی گلی لال مسجدیں بنیں گی تو امن کہاں ہو گا؟
سچی بات یہ ہے کہ یہ جنگ لڑنے کے لئے‘ قوم کو پہلی مرتبہ ایک خالص سپاہی ملا ہے‘ ورنہ جنرل ضیا الحق سے لے کر‘ جنرل کیانی تک جتنے بھی فوجی سربراہ آئے‘ انہوں نے دہشت گردوں کی کسی نہ کسی انداز میں سرپرستی جاری رکھی۔ وہ ایسا نہ کرتے تو بقول وزیر اعظم‘ کینسر کا یہ مرض اس بری طرح سے نہ پھیلتا۔ انہی جنرلوں کی وجہ سے‘ آج اس کینسر کی جڑیں گلی گلی‘ محلے محلے پھیل گئی ہیں‘ انہیں احتیاط سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر نہ کاٹا گیا تو ہمارا پورا وجود ہی گل سڑ کے ختم ہو جائے گا۔ یہ ہماری سلامتی اور بقا کی جنگ ہے۔ اس کی مخالفت میں تحریر و بیان تو کیا‘ ایک اشارہ بھی برداشت نہیں کرنا چاہئے۔