"NNC" (space) message & send to 7575

یوں بھی ہوتا ہے

عراقی ٹیلیویژن پر ایک انتہائی دلچسپ ریئلٹی شو دکھایا جا رہا ہے‘ جو ہمارے لئے بھی دلچسپ ہونا چاہیے۔ عراقی حکومت بھی دہشت گردوں سے نبرد آزما ہے۔ داعش کے دہشت گرد ‘ طالبان سے کہیں زیادہ سفاک اور بے رحم ہیں۔ عراق ‘ ان کے ساتھ اسلحہ کی جنگ بھی لڑ رہا ہے‘ لیکن ساتھ اپنی قدیم تہذیبی روایات کے مطابق‘ ذہنی اور نفسیاتی محاذ پر بھی متحرک ہے۔ یہ شو اسی پالیسی کا حصہ ہے۔ اس شو میں داعش کے جنگی قیدیوں کو‘ ہتھکڑیوں میں ‘بطور مہمان بلایا جاتا ہے اور ان کے مقابل داعش کے درندہ صفت سپاہیوں کے ظلم و ستم کا شکار ہونے والے متاثرہ خاندانوںکو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ اب تک آپ جان چکے ہوں گے کہ داعش کی زد پر آنے والے کسی بھی ہدف کو زندہ نہیں چھوڑا جاتا۔ وہ قتل کرتے ہیں اور بڑی بے رحمی سے قتل کرتے ہیں۔ جو شو میں نے دیکھا‘ اس میں دو درجن سے زیادہ مہمانوں میں ظلم کا شکار ہونے والا صرف ایک اپاہج نوجوان تھا‘ جسے لاشوں کے درمیان مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا گیا تھا۔ جب اسے عراقی فوجیوں نے لاشوں میں سے ڈھونڈ کر نکالا تو وہ زخموں سے چور تھا۔ اسے ہسپتال پہنچایا گیا۔ جسم کا باقی حصہ تو ٹھیک کر لیا گیا لیکن ٹانگیں بیکار ہو چکی تھیں۔ وہیل چیئر پر بیٹھ کے وہ شو میں شریک ہوا‘ جو اب اس کی زندگی کا حصہ بن چکی تھی۔ باقی تمام مہمان متاثرہ خاندانوں پر مشتمل تھے‘ جن میںبیٹے‘ بھائی ‘ شوہر‘ بیویاں‘ بچے اور بزرگ شامل تھے۔ کسی نوجوان کی ماں ہلاک ہوئی تھی تو کسی بوڑھے باپ کا بیٹا گرفتار کر کے لے جایا گیا تھا۔ کسی کی بیٹی اغوا کر کے بیچ دی گئی تھی۔ کسی کا بھائی ہلاک کر دیا گیا تھا۔ غرض داعش کے جتنے بھی متاثرین وہاں بلائے گئے تھے‘ ان کے خاندان سے تعلق رکھنے والے کئی کئی افراد‘ داعش والوں کی درندگی کا شکار ہو چکے تھے۔ 
داعش کے قیدی‘ جب ویگنوں سے اتار کے شو میں لائے جا رہے تھے تو ستم رسیدہ مہمان اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ سب کے سب صدموں سے نڈھال تھے۔ کوئی بری طرح سے چیخ چیخ کر رو رہا تھا‘ کوئی خاموشی سے اپنے آنسو پونچھ رہا تھا۔ عورتیں بلند آواز میں رو رہی تھیں۔ غرض ہر کوئی یوں اظہار غم کر رہا تھاجیسے اسے اپنے آپ پر قابو نہ رہا ہو۔ اپنے عزیزوں کے قاتلوں کو یوں سامنے دیکھ کر جو حالت کسی بھی مظلوم کی ہو سکتی ہے‘ وہ ان کی ہو رہی تھی۔ انسانی فطرت کے مطابق تھوڑا وقت گزرنے پر‘ آہستہ آہستہ متاثرین نے اپنے جذبات پر کنٹرول کیا ۔ شو کے منتظمین نے گرفتار شدہ دہشت گردوں کو ‘ مظلوموں سے کچھ فاصلے پر ان کے سامنے کھڑا کر دیا۔ پہلے اینکر نے شو کی غرض و غایت بیان کی۔ وہ بتا رہا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کو اس شو میں اکٹھا کیا جو ایک دوسرے کو حالت جنگ میں ملے۔ ان میں ایک فریق اپنے سامنے موجود مظلوموں کے عزیزوں پر تشدد کر کے‘ انہیں موت کے منہ میں دھکیل چکا تھا اور دوسرے فریق کو اپنے عزیزوں کی لاشیں دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوئی تھیں اور وہ یہ تک نہیں جانتے تھے کہ ان کی تجہیزوتکفین بھی کسی نے کی ہے یا اسی طرح گڑھے کھود کر دبا دیا گیا ہے۔ داعش کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ گھیرے میں آئے ہوئے لوگوں کو خواہ وہ نہتے شہری ہوں یا مسلح افراد‘ بے دردی سے قتل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی اپنی مرضی ہوتی ہے کہ کن لوگوں کو قطار میں کھڑا کر کے گولیاں مارنا ہیں؟ کن لوگوں کو زمین پر لٹا کر ہلاک کرنا ہے؟ کن لوگوں سے اپنی قبریں کھدوا کر‘ انہیں اندر اترنے کا حکم دیناہے اور گولیوں سے ہلاک کر کے قبر ہی کے اندر ڈھیر کر نا ہے؟ پھر اسی کے ساتھیوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اس کی قبر پر مٹی ڈالیں۔بعض قریب المرگ مرد اور خواتین جو زخموں سے کراہتے ہوئے سانس لے رہے ہوتے ہیں‘ انہیںاسی حالت میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ داعش کے مظالم کی تفصیلات اتنی ہیبت ناک ہیں کہ انہیں پوری طرح بیان کرنا مشکل ہے۔ بہرحال‘ اینکر یہ سارے حالات بیان کرنے کے بعد‘ ایک متاثرہ خاندان کے مردوں اور عورتوں کو بلا کر‘ دہشت گردوں کے سامنے پیش کرتا ہے اور پھر مظلوموں سے کہتا ہے کہ وہ اپنے اہل خاندان پر توڑے گئے مظالم کی جتنی تفصیل انہیں معلوم ہے‘ دہشت گردوں کو سنائیں اور پھر خاندان والوں پر جو گزری اس کی تفصیل بیان کریں۔ غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے اہل خاندان رو رو کر اپنی تکالیف بیان کرتے ہیںکہ ان کے پیاروں کی موت کے نتیجے میں ان پر کیا گزر رہی ہے۔ اینکر درمیان میں لقمے دیتے ہوئے جلادوں کو محسوس کرا رہا ہوتا ہے کہ انہوں نے انسانیت پر کتنا ظلم ڈھایا؟ وہ دہشت گردوں کے انسانی جذبات کو بیدار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انہیں انسانی دکھوں کے کرب اور تکلیف کا احساس دلاتا ہے۔ کئی دہشت گردوں کے چہروں پر شرمندگی کے آثار ظاہر ہوتے ہیں ۔ کچھ خاموش کھڑے رہتے ہیں۔ کچھ کی آنکھوں سے آنسو بھی چھلکنے لگتے ہیں۔ اینکر ‘ ان کے اندر کے مرے ہوئے انسان کو جگانے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی کوشش کامیاب ہوتی ہے ۔ کوئی شاید نہ بھی ہوتی ہو۔ لیکن جتنے مناظر میں دیکھ پایا‘ ان میں دہشت گرد عمومی طور پر نادم‘ پریشان اور پشیمانی کی حالت میں نظر آئے۔ ایک نوجوان‘ جس نے اپنے سامنے کھڑے خاندان کے تین افراد کو اذیتیں دے کر ہلاک کیا تھا‘ ان کی والدہ‘ بہنوں‘ بیبیوں‘ بچوں اور بوڑھے باپ کو دھاڑیں مار کر روتے دیکھا۔ وہ بین کرنے کے انداز میں اس سے پوچھ رہے تھے کہ ہم سے تمہاری کیا دشمنی تھی؟ اور جن کو تم نے ہلاک کیا‘ انہوں نے تمہارا کیا بگاڑا تھا؟ قاتل کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے؟ جس دردوغم کا اظہار وہ خاندان کر رہا تھا اور جس بری طرح سے وہ رو رہے تھے‘ انہیں دیکھ کر پہلے تو نوجوان قاتل کے چہرے پر غم کے آثار نمودار ہوئے‘ پھر اس کی 
آنکھوں میں آنسو آئے اور آخر میں وہ دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے فریاد کرنے لگا کہ اسے یہیں پر پھانسی لگا دی جائے۔ مظلوم رو رو کر اپنی آپ بیتی سنا رہے تھے اور سامنے کھڑے دہشت گردوں میں سے کوئی اظہار افسوس کر رہا تھا‘ کوئی شرمندہ نظر آ رہا تھا اورچند ایسے تھے جو رو رو کر اپنے لئے سزائوں کا مطالبہ کر رہے تھے اور اینکر ساتھ ساتھ ان کی کیفیت بیان کر رہا تھا۔ جو ''سب ٹائیٹل‘‘ انگریزی میں چل رہے تھے‘ ظاہر ہے ان میں پوری کیفیت کی ترجمانی کرنا تو ممکن نہیں تھا۔ عربی زبان یوں بھی بہت فصیح و بلیغ زبان ہے‘ لیکن بغداد کی زبان کو مستند اور فصیح و بلیغ سمجھا جاتا ہے۔ عرب دنیا میں اس زبان کو بڑے واضح اور موثر انداز میں بولا جاتا ہے ‘ اس کی پورے عالم عرب میں تقلید کی جاتی ہے۔ میں جذبات کی ان گہرائیوں تک تو نہیں پہنچ پایا جو عمدہ اور فصیح عربی زبان میں بیان ہو رہے تھے‘ لیکن سب ٹائیٹلز پڑھ کر جتنی سمجھ آ رہی تھی‘ اس سے بھی میں ایک عجیب کیفیت سے گزرتا رہا۔ پہلے تو قاتل اور مقتولوں کے اہل خاندان کو یکجا کرنے کا منفرد خیال ہی میرے لئے انوکھا تھا۔ اس طرح کی جدت اور ندرت اہل بغداد ہی پیدا کر سکتے ہیں۔ 
یہ پروگرام دیکھنے کے بعد‘ فطری امر تھا کہ میں اپنے وطن میں دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے ہونے والے اقدامات کا جائزہ لیتا‘ جیسا کہ میں نے کیا۔ قارئین کو معلوم ہے کہ میں نے دہشت گردی پر قابو پانے کے سرکاری طریقوںپر اظہار اطمینان نہیںکیا۔ میرے نزدیک جو انداز اور طریقے ہم اختیار کر رہے ہیں‘ ان کے نتیجے میں دہشت گردی کم نہیں ہو گی بلکہ اس میں اضافہ ہو گا اور اس کا زیادہ نقصان پاکستان ہی کو اٹھانا پڑے گا۔ ہمارے ملک کے بہت سے علاقے پہلے ہی حکومتی کنٹرول میں نہیں رہ گئے۔ بلوچستان کے بہت بڑے علاقے میں تو سرکاری ملازمین جا ہی نہیں سکتے۔ یہی صورت حال فاٹا کی ہے۔ فوج کے تحفظ کے بغیر وہاں کے مقامی باشندے بھی نقل و حرکت نہیں کر سکتے۔ کراچی بھی حکومتی کنٹرول میں نہیں آ رہا۔ سندھ اور پنجاب کے شہروں کے اندر بھی امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ دار فورسز بے بس نظر آ رہی ہیں۔ دہشت گردوں کے مقدمات کی سماعت کے لئے فوج کو بلانا پڑا ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ عدلیہ کے بس کا نہیں رہ گیا یا کم ازکم حکومت یہی سمجھ رہی ہے۔مجھے حکومت کے سارے منصوبوں میں ایک بھی ایسا نظر نہیں آ رہا جس میں دہشت گردوں کو واپس معاشرے کا حصہ بنانے کی راہیں نکالی گئی ہوں۔ وہ پہلے ہی وحشت اور درندگی کا شکار ہیں۔حکومت ان کے لئے انسانیت کی طرف واپسی کے لئے کسی بھی قسم کا راستہ مہیا نہیں کر رہی۔ انتہاپسندی کا جواب‘ انتہاپسندی سے دیا جا رہا ہے اور یہ امید لگائی جا رہی ہے کہ اس طرح سے حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ تشدد بیج کر ‘ ہم امن کیسے اگا سکتے ہیں؟
نوٹ:- گزشتہ کل کے کالم میں ایک غلط لفظ نے جملے کا پورا مفہوم ہی بدل دیا ۔ اصل جملہ یوں تھا ''عمران خان کو ہرروز تقریر کرنا پڑتی تھی اور دھاندلی دھاندلی کی تکرار عوام کو جلد ہی بیزار کر سکتی تھی۔‘‘ مجھ پر مہربانی کرتے ہوئے بیزار کی جگہ بیدار لکھ دیا گیا۔ معذرت خواہ ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں