گزشتہ کل کے کالم میں ''مینار شہداء یا شہید مینار‘‘ کی جو تجویز پیش کی گئی تھی‘ قارئین کو پسند آئی۔ بیرون ملک سے جناب افتخار احمد نے بذریعہ ای میل پیش کش کر دی ہے کہ وہ اس نیک کام کے لئے‘ فوری طور پر 10ہزار‘ اور کچھ دنوں بعد ایک لاکھ روپے دینے کو تیار ہیں۔ اسی قسم کے جذبات کا اظہار متعدد قارئین نے بھی کیا ہے اور بعض حضرات تو اتنے بے چین ہیں کہ مجھ سے ہی پوچھ رہے ہیں کہ وہ اپنے عطیات کس پتے پر بھیجیں؟۔ عرض یہ ہے کہ میں کسی بڑے کام کی ہمت نہیں رکھتا اور نہ ہی مجھ میں اتنی جرأت ہے کہ پاکستانی معاشرے میں‘ اپنے آپ کو ایسی خدمت کے لئے پیش کروں‘ جس پر کسی بھی وقت جوابدہی کی ضرورت پڑ جائے۔ اسی لئے میں نے عبدالستار ایدھی اور عمران خان کے نام لکھے تھے کہ یہ دونوں آزمودہ شخصیات ہیں۔ نیک کام کرنے میں اچھی شہرت کی مالک ہیں۔ ذوالنورین احمد نے بھی ای میل میں اس تجویز سے اتفاق کیا اور مجھے مشورہ دیا کہ میں ذاتی طور پر عمران خان سے درخواست کروں کہ وہ اس کام کو اپنے ذمے لے کر عملی اقدامات کریں۔ میرا خیال ہے کہ انہیں متعدد ذرائع سے یہ تجویز پہنچ چکی ہو گی۔ ذوالنورین صاحب کے جذبات بھی اس کالم کے ذریعے کسی نہ کسی طرح‘ عمران خان تک پہنچ ہی جائیں گے۔ ممکن ہے وہ اس کارِ خیر میں پہل کر کے‘ اپنے حوالے سے اپنی قوم کے لئے‘ ایک اور یادگار چھوڑ جائیں۔ میرے نزدیک یہ ایک ایسی یادگار ہو گی‘ جس کی زیارت کرنے والے بچے اور نوجوان وطن عزیز کے لئے‘ قربانی دینے کے جذبے سے سرشار ہو کر‘ عملی زندگی میں قدم رکھیں گے۔ قوم کی خدمت کے لئے خون بہانا ہی واحد ذریعہ نہیں‘ ہم قوم کی اقتصادی ترقی‘ خوش حالی اور دفاع میں اپنا حصہ ڈال کر بھی دفاع کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ دفاع محض دشمن سے لڑنے کا نام نہیں بلکہ دشمن کے حوصلے پست کرنے کا نام ہے۔ اللہ کرے پاکستان‘ جو ایٹمی طاقت بن چکا ہے‘ دیگر تمام شعبوں میں تربیت حاصل کر کے‘ ترقی کے ایسے مقام پر پہنچ جائے جہاں دشمن اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی ہمت بھی نہ کر سکے۔
سانحہ پشاور کو تین ہفتے گزر چکے ہیں۔ آج بھی تیسری آل پارٹیز کانفرنس ہو رہی ہے۔ شام کے چھ بجنے کو آئے ہیں‘ ابھی تک کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ پہلی اے پی سی کے بعد‘ عوام کو جو توقعات پیدا ہوئی تھیں‘ وہ چند ہی روز میں کمزور پڑنے لگی تھیں کہ دوسری اے پی سی بلا لی گئی۔ اس کے بعد‘ بے یقینی کا ایسا دور آیا کہ عوام کے لئے سمجھنا مشکل ہو گیا کہ کون کیا چاہتا ہے؟ سب اپنی اپنی بولیاں بولنے لگے۔ تاثر یہ تھا کہ فوجی عدالتوں کے قیام پر‘ اتفاق رائے ہو چکا ہے اور کسی بھی لمحے پارلیمنٹ اس کی گنجائش نکال کر‘ عملی اقدامات کے لئے راستہ ہموار کر دے گی لیکن چند وکلاء کرام نے اپنی شہرت کے عین مطابق‘ فوجی عدالتوں کے مسئلے کو متنازعہ بنا دیا۔ طرح طرح کے شکوک و شبہات ظاہر کئے گئے اور تمام پارٹیاں‘ جنہوں نے دو کل جماعتی کانفرنسوں میں اتفاق رائے کا اظہار کیا تھا‘ دونوں میں کئے گئے فیصلوں پر‘ شکوک و شبہات کا اظہار کرنے لگیں اور آج شام تک کانفرنس کے اندر سے جو خبریں باہر آئی ہیں‘ ان سے لگ رہا ہے کہ اتفاق رائے کے حصول کی کوشش ابھی تک ابتدائی مراحل میں ہے۔ جنرل راحیل شریف کے نام سے‘ جو رائے باہر آئی‘ اس کے مطابق‘ انہوں نے کہا کہ ''خصوصی عدالتوں کا قیام فوج کی خواہش نہیں‘‘۔ چیف آف آرمی سٹاف کا یہ دفاعی لہجہ ظاہر کر رہا ہے کہ انہیں فوجی عدالتوں کے قیام پر‘ طے شدہ فیصلوں پر پھر سے شروع ہونے والی اکتا دینے والی بحث پسند نہیں آئی۔ یہ طور طریقے فوجی مزاج کے مطابق بھی نہیں ہوتے۔ فوجی قیادت دوٹوک انداز میں کسی بھی زیر غور مسئلے پر مناسب بحث و مباحثے کے بعد‘ جو فیصلہ کر لیتی ہے‘ اسے دوبارہ زیر غور لانے پر وقت ضائع نہیں کرتی اور ایسا ممکن بھی نہیں۔ فوج کی تربیت میں یہ شامل ہوتا ہے کہ اسے دشمن کی چالوں کا فوری اور بروقت جواب دینا ہے۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
فوجی عدالتوں کے سوال پر بحث کو طول پکڑتے دیکھ کر‘ چیف آف آرمی سٹاف نے سیاست دانوں سے اصل میں یہ کہا ہے کہ وہ فوج کا نام لے کر‘ ایک لاحاصل بحث کو جو طول دئیے جا رہے ہیں‘ اسے چھوڑیں اور جلد از جلد کوئی فیصلہ کر کے ہمیں عملی اقدامات کا حکم دیں۔ دانشورانہ مباحث کے نہ تو پہلے کبھی نتائج نکلے ہیں اور نہ اب نکالے جا سکتے ہیں۔ تین ہفتوں کی ان گنت میٹنگوں میں ایک لاحاصل اور بے نتیجہ بحث‘ فوج کے ساتھ ساتھ‘ عوام کی بیزاری میں بھی اضافہ کر رہی ہے اور کچھ لوگ تو محسوس کرنے لگے ہیں کہ ہمارے سیاست دان کوئی بھی فوری اور اہم فیصلہ کرنے کے قابل نہیں۔ کارگل پر ہم یہی تماشہ دیکھ چکے ہیں۔ فوجی قیادت نے تجویز پیش کر کے‘ فیصلے کا انتظار کیا ہو گا اور جب غور‘ مزید غور اور مزید غور کے روایتی طور طریقے‘ طول پکڑنے لگے تو فوج نے آگے بڑھ کر اقدام کر دیا‘ نتیجے میں ہمیں تکلیف دہ نتائج اور صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔
فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پہلے ہی مصروف ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں مصدقہ معلومات تو حاصل نہیں لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ وزیر اعظم کو نامعلوم ذرائع سے‘ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی دعوت آئی ہو گی اور انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو‘ فوراً ہی نہ صرف مذاکرات کا اعلان کر دیا بلکہ اس مقصد کے لئے ایک ٹیم تشکیل دے کر‘ ناموں کا بھی اعلان کر دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو حکومتی ٹیم تشکیل دی گئی‘ اس کے بیشتر اراکین طالبان کے حامی تھے۔ مولانا سمیع الحق‘ جو دہشت گردوں کے ''والد‘‘ کی حیثیت سے مشہور ہیں اور
پروفیسر ابراہیم‘ جن کی جماعت کے امیر نے حکیم اللہ محسود کی موت کو شہادت قرار دے دیا تھا اور فوجی افسروں اور جوانوں کی شہادت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ اور ان جیسے حضرات‘ پاکستانی قوم کی نمائندگی کرنے کے لئے طالبان سے مذاکرات کرتے رہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان مذاکرات سے پاکستان کو کیا حاصل ہونا تھا؟ توقع کے مطابق یہی ہوا کہ طالبان مذاکرات کو طول دے کر‘ اپنے ٹھکانے شمالی وزیرستان سے باہر منتقل کرتے گئے اور جب فوج نے دیکھا کہ دہشت گرد‘ تیزی سے محفوظ ٹھکانوں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں تو اسے بادلِ نخواستہ ''آپریشن ضربِ عضب‘‘ شروع کرنا پڑا۔ اگر مذاکرات سے پہلے آپریشن کا حکم دیا جاتا تو فوج‘ دہشت گردوں پر اچانک حملہ کر کے‘ ان کی حقیقی قوت پر بھرپور ضرب لگانے کو تیار تھی۔ گزشتہ تین ہفتوں سے جو ''کانفرنس‘ کانفرنس اور مذاکرات مذاکرات‘‘ کا کھیل چل رہا تھا‘ کیا اس عرصے کے دوران‘ دہشت گرد غافل بیٹھے رہے ہوں گے؟ جو عقل مند آدمی بگلے کے سر پر موم رکھنے کے لئے دبے پائوں اس کی طرف بڑھنے لگتا ہے‘ کیا کوئی بگلا اس کے انتظار میں اپنی جگہ بیٹھا رہ سکتا ہے؟۔ یہ تو پھر دہشت گرد ہیں اور جدید طرزِ جنگ کے طور طریقے اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان کے متعدد آپریشن یاد کر کے دیکھئے۔ کیا وہ جی ایچ کیو کے حساس ترین علاقے میں اسلحہ سمیت نہیں پہنچ گئے تھے؟ کیا مہران بیس کی اعلیٰ ترین سکیورٹی کو ناکام بناتے ہوئے ہمارے دو‘ اواکس طیارے تباہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے؟ کیا ٹیکسلا کی حساس ترین فیکٹری تک پہنچ کر‘ انہوں نے متعدد افراد کو شہید نہیں کر دیا تھا؟ کیا وہ کامرہ ایئر بیس کے ساری حفاظتی انتظامات کو‘ ناکام بنا کر‘ دہشت گردی سے رک گئے تھے؟ کیا طویل کانفرنسوں میں‘ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے زیر بحث آنے والی تجاویز سے دہشت گرد‘ بے خبر رہ جاتے ہوں گے؟ ایک طرف ہم انتہائی عیار‘ بے اصول‘ بے رحم اور سفاک دشمن کے خلاف آپریشن کی تیاریاں کر رہے ہیں اور دوسری طرف سیاسی جلسہ عام بلا کر‘ اپنے منصوبوں پر بحث بھی کر رہے ہیں اور ساتھ انہیں فراخ دلی سے مہلت بھی دیتے چلے جا رہے ہیں کہ جب ہم عملی اقدامات شروع کریں تو وہ اپنے دفاع کی تیاریاں مکمل کر چکے ہوں۔ جنگی منصوبے‘ چوراہوں میں نہیں بنائے جاتے۔ ان کا حکم‘ ملک کا چیف ایگزیکٹو انتہائی رازداری کے ساتھ‘ فوجی قیادت کو دیتا ہے اور وہ دشمن پر اچانک حملہ کر کے‘ اسے بے خبری میں نشانہ بنا دیتی ہے۔ رازداری سے حملہ کرنے کا موقع تو ہم گنوا چکے۔ جن خطوط پر ایکشن پلان کی تیاریاں کی جا رہی ہیں‘ ان پر لمبے لمبے مباحثے کئے ہوں گے۔ کانفرنس کے اندر سے جو کچھ میڈیا میں آیا ہے‘ ایکشن پلان بھی اسی کے تحت بنائے جا رہے ہیں تو پھر کامیابی اسی طرح مل سکتی ہے‘ جیسے موجودہ حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف ہر مرتبہ حاصل کی اور اگر یہ کانفرنسیں‘ محض دکھاوے کی چیز تھیں اور منصوبہ کہیں اور بنایا گیا تو اس میں ضرور کامیابی مل سکتی ہے مگر جتنا وقت گزار دیا گیا‘ اس کا کچھ نہ کچھ نقصان تو بہرحال اٹھانا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے۔