میں نے گزشتہ کل کے کالم میں سیاچن کے ایک شہید کا ذکر کیا تھا۔پوری طرح یاد نہ ہونے کی بنا پر نام نہیں لکھ پایا۔ احتیاط کا تقاضا یہی تھا۔ آج پشاور سے ایک کرم فرما نے فون کر کے‘ مجھے پوچھا کہ ''آپ نے اس شہید کا نام کیوں نہیں لکھا؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ ''مجھے اپنی یادداشت پر شک تھا۔ میرے ذہن میں اقبال کا نام آیا تھا۔ لیکن شک کی بنا پر لکھنے کا حوصلہ نہ ہوا۔‘‘ کال کرنے والے صاحب نے بتایا ''شہید کا نام یہی تھا۔‘‘میں نے درخو است کی کہ'' اس کے حوالے سے مزید کچھ جانتے ہوں تو بتا دیں۔‘‘ انہوں نے بتایا ''کیپٹن اقبال شہید کے بارے میں آپ نے ان کی یادگار کا ذکر نہیں کیا۔ جو یقینا آپ کے علم میں نہیں ہو گی۔ اٹک پر جو پل پنجاب اور سرحد کو ملاتا ہے‘ اس کا نام اقبال شہید برج رکھ دیا گیا تھا۔ ٹول پلازہ بھی اقبال شہید ہی سے منسوب ہے۔ مگر وہاں اس کا نام درج نہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ جس بھارتی افسر کی گولی سے‘ اقبال شہید ہوا تھا‘ اس نے پاک فوج کے ذریعے ‘اقبال کے اہل خاندان کو خط بھیجا۔ جس میں اس نے اظہارافسوس کرتے ہوئے بتایاکہ میری اقبال سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔ ہم دونوں اپنی ڈیوٹیوں پر تھے۔ مجھے فائر کا آرڈر ملا اور میں نے تعمیل کر دی۔ مجھے اس نوجوان کی وفات پر دکھ ہے اور میں آپ کے غم میں برابر کا شریک ہوں۔ اس کے ساتھ ہی میں اقبال کی عظمت کا بھی اعتراف کرتا ہوں کہ اس سانحے سے پہلے کئی بار اقبال سے میرا آمنا سامنا ہوا‘ کیونکہ اس وقت ہم دونوں کو فائر کا آرڈر نہیں تھا۔ اس نے مجھ پر گولی نہیں چلائی۔‘‘ یہ 1986ء کا واقعہ ہے۔ میں نے کالم بھی اسی سال لکھا تھا۔ ٹیلی فون کرنے والے قاری نے‘ کل مجھے بتایا کہ اقبال کی میت ‘ اس کے اہل خاندان کو ایک سال بعد موصول ہوئی تھی۔ یہ واقعہ ایک عجیب اتفاق ہے۔اسے بھی اتفاق ہی سمجھئے کہ مجھے بھی فون کرنے والے قاری کا نام پوچھنا یاد نہ رہا اور وہ بھی نہیں بتا پائے۔
لیجئے جناب!''تھا جس کاانتظار‘ وہ شہکار آ گیا۔‘‘ وزیراعظم نوازشریف نے‘ حق دوستی ادا کرتے ہوئے‘ جناب آصف زرداری کا خدشہ دور کر دیا۔ انہوں نے فرمایا تھا ''ایسا نہ ہوکہ میں اور نوازشریف اندر ہو جائیں؟‘‘ اب دونوں کو تحفظ مل گیا ہے کہ ہر مقدمہ‘ فوجی عدالت میں جانے سے پہلے‘ حکومت کے سامنے پیش ہو گا۔ اس کی منظوری کے بعد عدالت میں جائے گا۔ نوازشریف تو سوفیصد محفوظ ہو گئے‘ جبکہ آصف زرداری کا تحفظ‘ پچاس فیصد ہو سکا۔ سیاستدانوں کے تعلقات کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ جب آصف زرداری کا مقدمہ فوجی عدالت میں پیش ہونے کے لئے وزیراعظم کے سامنے آئے گا۔ اگر اس وقت دونوں کے باہمی تعلقات خراب ہوئے‘ تو زرداری صاحب کا مقدمہ فوجی عدالت میں جا سکتا ہے‘ جبکہ نوازشریف پوری طرح محفوظ ہیں‘ کیونکہ ان کے اقتدار کی مدت‘ دو سال کے بعد ختم ہو گی اور دوسال کے بعد‘ فوجی عدالتیں بھی ختم ہو جائیں گی۔ اس بل میں اتھارٹی منقسم کر دی گئی ہے۔ پہلے مقدمے کو فوجی عدالت میں بھیجنے کا فیصلہ‘ حکومت کرے گی۔ اس کے بعد مقدمے کا فیصلہ فوجی عدالت کرے گی۔ جس نظام میں اتھارٹی تقسیم ہو جائے‘ اس پر ہمواری سے عملدرآمد مشکل ہوجاتا ہے۔ فوجی عدالت کا مطلب ہی یہ ہے کہ ملز م کی گرفتاری‘ تفتیش اور مقدمہ تیار کرنے کا کام‘ فوجی ہی کریں۔ فوج کے پاس اپنا شعبۂ قانون جسے جیگ برانچ کہتے ہیں‘ موجود ہے۔یہ شعبہ زیادہ کام ہونے کی صورت میں مزید وکلا کی خدمات حاصل کر سکتا ہے اور فوجی عدالت میں ملزم کے وکلا کو بھی‘ ملزم کی صفائی پیش کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ انصاف کی ذمہ داری فوج کے سپرد کرنے کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ فوجی چونکہ سول معاملات میں ملوث نہیں ہوتے‘ اس لئے عام طور سے وہ لحاظ داری اور سفارش سے مبرا رہتے ہیں۔ دوسری اور ٹھوس وجہ بھی ہے کہ جج حضرات کو دہشت گرد دھمکیاں دے کر ‘خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اس کی وجوہ موجود ہیں۔ متعدد جج حضرات ‘ جن میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج عارف اقبال بھٹی بھی شامل ہیں‘ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ دینے پر ‘ گولیوں کا نشانہ بنے اور سندھ ہائی کورٹ کے ایک محترم جج جسٹس مقبول باقر کو تو ایک طاقتور بم کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی‘ جس میں 9بے گناہ شہری شہید ہو گئے تھے ۔ جج صاحب زخمی ہوئے لیکن اللہ نے ان کی زندگی محفوظ رکھی۔ کچھ جج ایسے تھے‘ جنہیں جیل میں لے جا کر مقدمے کی سماعت کرائی گئی اور کئی دفعہ اس تجویز پر غور ہوا کہ جج صاحب کا چہرہ چھپا کر ‘ مقدمے کی سماعت کرائی جائے۔ پاکستان کے وسائل محدود ہیں۔ ورنہ جو ملک استطاعت رکھتے ہیں‘ ان کے ہاں جج یا جیوری کسی اور مقام پر ہوتی ہے اور ملزم دوسرے مقام پر۔ سوال جواب ٹیلیویژن پر ہوتے ہیں۔ ٹی وی کی سکرین پر صرف ملزم دکھائی دیتے ہیں جبکہ جج اور جیوری کے چہرے سکرین پر نہیں آتے۔ ان تمام احتیاطوں کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ ججوں کو زندگی کا تحفظ حاصل رہے۔ ہو سکتا ہے آگے چل کر پاکستان میں بھی ایسا انتظام ہو جائے‘ لیکن فی الحال ہمارے جج صاحبان کو ملزموں کا سامنا ہی کرنا پڑتا ہے۔ اس لحاظ سے فوجی جج‘ ہمیشہ بہادر ثابت ہوئے ہیں۔ وہ اپنے پیشے کے لحاظ سے بھی بہادر ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ فرض کی ادائی کے دوران‘ جو موت بھی آئے گی وہ شہادت ہو گی۔ میرے خیال میں فوجی عدالتیں بنانے کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ فوجی حضرات نہ تو سفارش اور عزیزداری کے زیراثر آتے ہیں اور نہ ہی خوفزدہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سینئر قانون دان احمر بلال صوفی کی رائے ہے کہ ''حکومت شدت پسندوں کے خلاف‘ باضابطہ اعلان جنگ کر کے‘ ملک میں جنگ کے خصوصی قوانین نافذ کر دے ۔ اس قانون کے تحت فوجی عدالتیں بنائی جا سکتی ہیں۔ انہیں بین الاقوامی اور مقامی قانون کے تحت آئینی تحفظ حاصل ہو گا۔ اس مقصد کے لئے حکومت کو آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت حالت جنگ میں ہونے کا اعلان کرنا پڑے گا۔ اسے بعض بنیادی حقوق معطل کرنے کا اختیار مل جائے گا۔ اس صورت میں حکومت کو نہ تو آئین میں ترمیم کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی اس طریقے سے بننے والی عدالتوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکے گا۔ حکومت کو صرف ایک نوٹیفیکیشن جاری کرنا پڑے گا کہ وہ کسی ایسی جماعت‘ گروہ یا اس کے افراد کے خلاف حالت جنگ میں ہے‘ جس نے پاکستانی آئین کو ماننے سے انکار کیا ہے اور ان سے پاکستانی شہریوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہے۔ حکومت ہائی کورٹ کے انسانی حقوق سے متعلق مقدمات سننے کے اختیار کو‘ معطل کر سکتی ہے۔ یہ جنگی قانون بین الاقوامی سطح پر قابل قبول ہے اور بہت سے ملکوں میں اس سے پہلے استعمال کیا جا چکا ہے۔ تازہ مثال عراق کی ہے۔ جہاں اسی طریقے کو استعمال کر کے خصوصی عدالتیں لگائی گئیں۔ بنگلہ دیش نے انہی اختیارات کو استعمال کر کے‘ خصوصی عدالتیں قائم کیں۔ان عدالتوں نے متعدد ملزموںکو پھانسی کی سزا سنائی۔ فوجی عدالتوں کے مخالف آئینی ماہرین بھی‘ جنگی حالت کا اعلان ہونے پر ‘ خصوصی عدالتوں کی مخالفت سے گریز کریں گے۔‘‘ صوفی بلال احمر کہتے ہیں کہ ''میں ذاتی طور پر خصوصی فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف ہوں اگر وہ جنگی حالت نافذ کئے بغیر بنائی جائیں۔ کیونکہ اس صورت میں ایک مستقل متوازی نظام عدل قائم ہو جائے گا۔ آرٹیکل 245 کے تحت حکومت کو ایک خاص مدت اور علاقے کا تعین کرنا پڑے گا‘ جس میں یہ خصوصی عدالتیں بنائی جا سکیں گی۔ اس طرح یہ ملک کے سول عدالتی نظام سے متصادم نہیں ہوں گی۔ واضح رہے‘ پاکستان کے آئین میں جنگ کے قانون کو علیحدہ سے‘ ایک باب کی شکل میں قلمبند نہیں کیا گیا۔‘‘ احمر بلال صوفی کہتے ہیں ''آئین کے مختلف آرٹیکلز کو ملا کر ان پر آسانی سے عمل کیا جا سکے گا۔ البتہ حکومت کو تھوڑی سی توجہ اور محنت سے یہ آرٹیکلز جمع کر کے‘ انہیں استعمال میں لانا پڑے گا۔‘‘
سیاستدانوں نے عوام کے دبائو اور فوج کے موڈ کو دیکھتے ہوئے ‘ فوجی عدالتوں کا نام استعمال تو کر لیا‘ لیکن مداخلت کا اختیار اپنے پاس رکھا۔عوام بھی خوش‘ فوج بھی مطمئن اورحتمی فیصلہ سازی کا اختیار‘ پھر بھی حکومت کے پاس۔فوجی عدالت میں مقدمہ وہی جائے گا‘ جسے حکومت فوجی عدالت کو بھیجے گی۔ جہاں پاکستانی سیاستدانوں کی حکومت کا عمل دخل ہو گیا‘ وہاں نہ دھاندلی سے بچا جا سکتا ہے‘ نہ رشتے داروں اور حامیوں کی سفارشوں سے۔ یعنی سب کچھ جوں کا توں رہے گا۔ البتہ عمران کی احتجاجی تحریک معطل ہو گئی۔ دھاندلی کے انتخابی نتائج مزید محفوظ ہو گئے۔ حکومت یونہی چھوٹے چھوٹے وقفے لے کر 2018ء تک پہنچنے کی کوشش کرتی رہے گی۔ سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کا چیلنج کیسے ختم ہو گا؟ عوام کی زندگی معمول پر کب آئے گی اور ملک معاشی بحران سے کب نکلے گا؟