عمران خان کی شادی کے سوال پر‘ جو لوگ سانحہ پشاور کی مثال دے کر ''نعرہ تکلیف‘‘ بلند کر رہے ہیں‘ ان کا مسئلہ شادی کی تقریبات نہیں۔ اس شادی کو جتنا سادہ اور باوقار رکھا گیا‘ اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ سانحہ پشاور کے غم کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے‘ صرف ضروری رسومات ادا کی گئیں۔ نہ مہندی کی رسمیںادا ہوئیں۔ نہ برات آئی۔نہ دعوتیں اڑائی گئیں۔ نہ گانا بجانا ہوا۔ نہ بھنگڑے ڈالے گئے۔ دلہن سادگی سے سسرال میں آئیں اور گھر کے ایک کمرے میں رسم نکاح ادا ہوئی۔ دعائے خیر کی گئی۔ گھر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں چند خواتین نے شادی بیاہ کے تھوڑے سے گیت گائے اور بھانڈوں کے ایک گروپ نے گھر کے گیراج یا برآمدے میں چند منٹ بھنگڑاڈال دیا۔اللہ اللہ خیرسلا۔ بعد میں بھی نہ کوئی دعوت ہو گی۔ نہ شادیانے بجیں گے اور نہ ہلاگلا ہو گا۔ آج یتیم بچوں کو کھانا کھلا دیا جائے گا اور شادی کی تقریبات ختم ہو جائیں گی۔ اسی طرح ریحام کی طرف سے مستحقین کو مٹھائی اور کھانے بھجوائے جائیں گے۔ میرا خیال ہے‘ نعرہ تکلیف بلند کرنے والوں میں‘ وہ خواتین اور حضرات شامل ہیں‘ جنہیں اس شادی سے جذباتی صدمہ پہنچا۔ ان میں ہزاروں خواتین اور حضرات ہیں‘ جن کے اپنے خواب ٹوٹ گئے۔ ان کے دوست احباب کو چاہیے کہ انہیںدلاسہ دیں۔ کوئی بھی باشعور اور محبوب شخصیت‘ دوسروں کے خواب زندہ رکھنے کے لئے‘ اپنی زندگی کو تنہائیوں کی نذر نہیں کر سکتی۔ وہ پرانا زمانہ تھا‘ جب فلموں کے ہیرو اور ہیروئنیں اس ڈر سے شادی نہیں کرتی تھیں کہ فلم دیکھنے والے شائقین کی تعداد کم ہو جائے گی۔ دلیپ کمار اور مدھوبالا نے بلاوجہ اپنی اور شائقین کی جوانیاں ضائع کرا دیں ۔ اب دنیا حقیقت پسند ہو چکی ہے۔ بڑی سے بڑی محبوب اور مقبول شخصیت بھی‘ حسب ضرورت شادی کر کے‘ بہت سے پرستاروں اور حاسدوں کے دل توڑنے میں ‘قباحت محسوس نہیں کرتی۔
نوجوان وفاقی وزیر‘ احسن اقبال کو سب سے زیادہ فکر یہ تھی کہ خان صاحب کا ولیمہ خراب نہ ہو۔ انہوں نے بار بارکہا کہ'' ہم انہیں کنٹینر میں ہنی مون نہیں منانے دیں گے۔ ہم 18جنوری سے پہلے پہلے جوڈیشل کمیشن بنا دیں گے۔‘‘وہ ہنی مون میں اس قدر دلچسپی لے رہے تھے کہ اگر ان سے پوچھ لیا جاتا کہ 18جنوری تک دلہن مہیا نہ ہو سکی تو؟ ان کے تیوروں سے لگتا تھا کہ جواب میں وہ کہتے ''ہم اس کا بندوبست بھی کر دیں گے۔‘‘
دلچسپ ردعمل مولانا فضل الرحمن کا تھا۔ پتہ نہیں‘ وہ اپنی نوجوانی پر زور دے رہے تھے یا عمران خان کی پختہ عمری پر؟ لیکن صاف معلوم ہو رہا تھا کہ وہ اپنی جوانی کا ماتم کر رہے تھے۔ ''یہ بھی کیا جوانی کہ عمران خان مجھ سے بڑے ہیں اور دوسرا نمبر لگا گئے۔ میں ان سے چھوٹا ہو کر بھی ابھی تک نہیں لگا سکا۔‘‘مولانا خاطر جمع رکھیں‘ ان کے والد بزرگوار 75سال کی عمر میں‘ ایک کم سن کو‘ بیاہ کر لے آئے تھے۔ اس پر مولانا کوثر نیازی نے پاکستان کی قومی اسمبلی میں انہیںمبارکباد دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''اللہ تعالیٰ نے مفتی صاحب کو 75 سال کی عمر میں چاند سا بیٹا عطا فرمایا ہے۔‘‘ پتہ نہیں مولانا پچپن کے پیٹے میں ہی کیوں مایوس ہو چلے ہیں؟کچھ لوگ ہوتے ہیں کہ صرف ایک ہی عمر میں‘ زندگی گنوا بیٹھتے ہیں اور کچھ دو‘ تین بلکہ چار عمریں پا لیتے ہیں۔ مولانا نے سن رکھا ہوگا کہ شادی عمر بھر کی قید ہے۔ عمران دو عمریں تو پا چکے ہیں۔ اللہ انہیں زندگی دے اور نصیب نے اسی طرح یاوری کی‘ تو ایک دو عمروں کی قید ‘خان صاحب مزید بھی کاٹ سکتے ہیں۔
خان صاحب ہر معاملے میں خوش نصیب واقع ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شادی کے بعد پہلے سال بیوی بولتی ہے اور شوہر سنتا ہے۔ دوسرے سال شوہر بولتا ہے اور بیوی سنتی ہے۔ تیسرے سال دونوں بولتے ہیں اور پڑوسی سنتے ہیں۔ خان صاحب نے پڑوس کا جھنجھٹ ہی نہیں پالا۔ دوردور تک کسی کا گھر نہیں‘ جہاں پڑوسی دونوں کی گرما گرم گفتگو سن سکیں۔صاحبزادہ احمد رضا قصوری بھی‘ خان صاحب کی شادی پر انہیں ایک لطیفے کی سلامی دے چکے ہیں۔ انہوں نے ٹی وی کے ایک ٹاک شو میں یہ سلامی‘ ایک لطیفے کی صورت پیش کی۔ لطیفہ یہ تھا کہ شیر کی شادی میں ایک چوہا ناچ ناچ کے ہلکان ہوا جا رہا تھا۔ شیر کے والد صاحب نے اپنے دوستوں سے پوچھا کہ ''یہ کس خوشی میں ناچتا پھر رہا ہے؟‘‘ انہوں نے بتایا کہ شام ہی سے مسلسل ناچ رہا ہے۔ جس پر شیر کے والد صاحب نے اسے قریب بلا کر پوچھا کہ ''بھئی! شادی تو شیر کی ہے‘ تم کس خوشی میں ناچ رہے ہو؟‘‘ چوہے نے جواب دیا ''سر جی! شادی سے پہلے میں بھی شیر تھا۔‘‘ یہ تو سب جانتے ہیں کہ عمران خان بڑے ماہر شکاری ہیں۔ شکار کے ہر موسم میںدوستوںکے ساتھ‘ پہاڑوں اور جنگلوں میں نکل جاتے اور خوب نشانہ بازی کرتے۔ گزشتہ دو سال سے وہ انتخابی یا احتجاجی مہم میں‘ مسلسل مصروف چلے آ رہے ہیں۔ شکار پر جانے کا موقع نہیں ملا۔ لیکن نشانہ پھر بھی انہوں نے کمال کا لگا دیا۔خدا جانے یہ نشانہ لگا کر ‘ انہوں نے کس کس کی نیندیں اڑائی ہیں؟ پوچھنے کی ضرورت نہیں‘ یہ جتنی عورتیں اور مرد ''نعرہ تکلیف‘‘ لگا رہے ہیں‘ یہ وہی ہیں‘ جن کی نیندیں خان صاحب کی شادی سے اڑ گئی ہیں۔
ابھی تک حیرت ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے‘ خان صاحب کو شادی پر کوئی پیغام نہیں بھیجا۔ ایسا نہ ہو کہ وہ بیگم ریحام خان کو شکریے کا پیغام بھیجیں کہ ''آپ نے خان صاحب سے شادی کر کے‘ حکومت کے اور میرے مستقبل کو محفوظ کر دیا۔‘‘ بے شک خان صاحب کا دھرنا اور جلسے ایک بہت بڑے سانحہ کی وجہ سے بند ہوئے‘ لیکن یہ دوبارہ شروع ہو سکتے تھے۔ اب اس کا انحصار بیگم صاحبہ پر ہو گا کہ وہ کتنا عرصہ‘ خان صاحب کو گھر میں مصروف رکھتی ہیں اور کب انہیں گھر سے باہر بھیج کر ن لیگیوں کی نیندیں حرام کرتی ہیں؟میرا خیال ہے ‘ اتنے دن تو خان صاحب ضرور مصروف رہیں گے‘ جب تک‘ ان سے پیار کرنے والوں کی اڑی ہوئی نیندیں‘ واپس نہیں آ جاتیں۔ انسان خوشی سے تو جلد فارغ ہو سکتا ہے‘ صدمے سے جلد نکلنا مشکل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ خان صاحب کے پرستار اور پرستاریوں کو‘ جلد ہمت اور حوصلہ دے تاکہ خان صاحب کے جلسوں اور جلوسوں کی رونق بحال ہو سکے اور خواجہ سعد رفیق اینڈ کمپنی کے بیانات کی فیکٹری میں پھر سے کام شروع ہو۔ پھر رونقیں لگیں۔ میڈیا میں خیال آرائی کی جا رہی ہے کہ وزیراعظم بنی گالا آ کر‘ عمران خان کو خود مبارکباد دیں گے‘ مگر میں زیادہ پرامید نہیں‘ کیونکہ وہ‘ چوہدری نثار اور اپنے چند مشیروں کے ساتھ خان صاحب کے گھر آئے تھے اور میاں صاحب جیسے خوش خوراک مہمان کو‘ عمران خان کے گھر آ کر جو مایوسی ہوتی ہے‘اس کا ایک تجربہ کرنے کے بعد‘ میاں صاحب شاید ہی بنی گالا کا رخ کریں۔ لیکن خان صاحب جیسی اہم شخصیت کو مبارک دینے کا موقع ہاتھ سے نہیں گنوانا چاہیے۔ اگر وہ خان صاحب کے گھر آتے ہوئے اپنے ساتھ‘ دو چار حلقوں کے ووٹوں کے تھیلے لیتے آئیں اور ان میں جعلی ووٹ بھرے ہوں‘ تو خان صاحب کے لئے شادی کا‘ اس سے بہتر تحفہ نہیں ہو سکتا۔ جس دن وہ ایسا کریں گے‘ اس دن دنیا پہلی بار دیکھے گی کہ خان صاحب نے جی بھر کے اپنے مہمان کی خاطرتواضع کی۔ حتیٰ کہ چائے کے ساتھ ایک بسکٹ بھی رکھ دیا۔میاں صاحب خوش قسمت ہوں گے اگر خان صاحب کے گھر پر ان کی اتنی شاندار تواضع ہو جائے۔ میرے غریب خانے پر خان صاحب 20برس پہلے تشریف لائے تھے۔ میں نے حسب توفیق لنچ میں گھر کا کھانا پیش کر دیا تھا۔ 18سال سے اس انتظار میں ہوں کہ کھانے پر نہ سہی‘ خان صاحب چائے پر ہی بلا لیں۔ مگر وہ اصولوں کے سخت پابند ہیں۔ خان صاحب نے جمائما گولڈ سمتھ سے علیحدگی کی وجوہ ‘عوام کو بڑی تفصیل سے بتا رکھی ہیں‘ لیکن جمائما نے آج تک لب کشائی نہیں کی۔ وہ کسی کو کیا بتائیں کہ انہوں نے علیحدگی کیوں اختیار کی؟ رفاقت خواہ کتنی ہی طویل ہو‘ انسان بہرحال انسان ہے۔ کبھی تو خیال آیا ہو گا کہ مجھے بھی کھانے کا پوچھ لیا جائے۔ صرف پوچھ لیا جائے۔ اس کے سوا تو جمائما نے بھی شاید ہی کبھی کچھ سوچا ہو۔ آخر میں ‘ میں وزیراعظم نوازشریف کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ عمران خان نے شادی کر کے‘ ان کے ذہن سے ایک بہت بڑا بوجھ اتار دیا۔