یہ تاریخ کی ستم ظریفی بلکہ جبر ہے کہ وہ مسلم معاشرے ‘ جنہوں نے تہذیب و تمدن کی تعمیروترقی میں قائدانہ کردار ادا کیا‘ آج وہ انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کی فیکٹریاں بنے ہوئے ہیں اور جن قوموں نے عظیم تہذیب و ترقی کے بانیوں کو اس حالت میں پہنچایا‘ وہ مظلوم اور انسانی اقدار کے محافظ بنے ہوئے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے‘ وہ اپنے نام نہاد ''دفاع ‘‘کے لئے ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑتے ہیں‘ ان کا ذکر نہیں کرتے۔ فلسطینی‘ دنیا کی انتہائی امن پسند اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال قوم تھی۔ وہ ارض مقدس کے نگہبان تھے‘ جہاں تمام آسمانی کتابوں کے ماننے والوں کی عبادت گاہیں موجود تھیں۔ وہ ان کی حفاظت کرتے۔ زیارتوں پر آنے والوں کو تحفظ بھی دیتے اور میزبانی بھی کرتے۔ یہ معاشرہ ‘ جو امن کا گہوارہ تھا‘ اس میں دنیا کی بدترین اور سفاک قوم ‘صہیونیوں کو زبردستی لا کر بٹھا دیا گیا اور پھر تاریخ کا وہ بدترین دور شروع ہوا‘ جس نے پوری کی پوری ایک قوم کو اس کے وطن کی زمینوں‘ جائیدادوں اور گھروں سے محروم کر کے‘ خانہ بدوشوں میں بدل دیا اور جب انہوں نے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کی تو ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے لگے۔ وہ اپنے وطن میں رہنے کا حق مانگ رہے تھے‘ جو غاصبوں نے زبردستی چھین لیا تھا۔ اپنے گھروں میں آباد ہونا چاہتے تھے۔ وہ اپنے کھیتوں کو سرسبزوشاداب رکھتے ہوئے‘ دنیا کے بہترین پھل اور غذائیں پیدا کیا کرتے تھے۔ ان کا گناہ صرف یہ تھا کہ وہ اپنے وطن کو غاصبوں سے نجات دلانے کے خواہش مند تھے۔ انہوں نے اپنی آزادی اور حقوق کی واگزاری کے لئے عالمی قوانین اور ضابطوں کا احترام کر کے‘ انصاف کی بھیک مانگی۔ یو این کے ہرفیصلے کو قبول کیا‘ لیکن امن کے نام نہاد پرچارک‘ ان کی دادرسی کو نہیں آئے اور مظلوم‘ عالمی قوانین کا احترام کرتے ہوئے‘ اپنی کھوئی ہوئی آزادی اور مقبوضہ علاقوں میں پُرامن زندگی گزارنے کا حق حاصل نہ کر سکے۔ یہ تھی وہ صورتحال‘ جس میں مایوسی کی انتہائوں پر جا کر‘ انہوں نے جانوں پر کھیل جانے کا فیصلہ کیا‘ لیکن کسی کی جان نہیں لی۔ صرف مسافر طیارے اغوا کر کے اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کی۔ دنیا نے اس پر بھی ان کی دادرسی کرنے کے بجائے انہیں دہشت گرد قرار دے دیا اور اس ایک ''جرم‘‘ کو بنیاد بنا کر‘ فلسطینی قوم کو ملیامیٹ کرنے کا سفاکانہ عمل شروع کر دیا‘ جو آج تک جاری ہے۔ آدھی سے زیادہ فلسطینی قوم غیر ملکوں میں بکھری پڑی ہے اور جو باقی ہیں‘ وہ یہودیوں کے جبر کے نظام میں غلاموں جیسی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہ جب بھی تڑپ کر اپنی آزادی کے حق کے لئے‘ ہاتھ پیر مارتے ہیں‘ انہیں بے رحمی سے کچل دیا جاتا ہے۔ جس کی بدترین مثالیں غزہ پر کی جانے والی بمباریاں ہیں۔ ان کے شکستہ گھروں‘ سکولوں اور ہسپتالوں پر جدیدترین جیٹ طیاروں سے بمباری کی جاتی ہے۔ ان کے حال پر خود ظالموں کے ساتھیوں کو تو رحم آجاتا ہے‘ مگر انصاف کا نام لینے والی عالمی رائے عامہ کے‘ کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ ایک فلسطینی ‘انتہائی مایوسی کی حالت میں اپنے آپ کو بم سے اڑا لیتا ہے‘ تو وہ دہشت گرد ہے اور ان کی نہتی آبادیوں پر ہزاروں ٹن بارود پھینک کر‘ سب کچھ تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے‘ تو اس کا کوئی نوٹس نہیں لیتا۔
افغان عوام نے اپنے آمر حکمرانوں سے نجات پانے کے لئے‘ جب نور محمد ترہ کئی کی قیادت میں انقلاب برپا کیا‘ تو گھر بیٹھے ہوئے امریکیوں نے‘ ان کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ پاکستان میں بیٹھے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ان کی قومی حکومتوں کے خلاف سازشیں کیں۔ وہاں مسلح مداخلت کار داخل کئے۔ انہیں ہر طرح کے اسلحہ اور دولت سے نوازا گیا تاکہ وہ اپنے ہی ملک میں‘ اپنے ہی لوگوں کی حکومتوں کے خلاف سازشیں کریں۔ نورمحمد ترہ کئی کی حکومت کے خلاف سازش کی گئی اور انہیں اقتدار سے محروم کر کے جیل میں پھینک دیا گیا۔ اس کے باوجودانہیں زندہ رہنے کی اجازت نہ ملی۔ جیل کے اندر ہی قتل کر دیا گیا‘ جبکہ باہر خبر پھیلا دی گئی کہ وہ فوت ہو گئے ہیں۔ ان کی جگہ حفیظ اللہ امین نے لی۔ اس کے بارے میں کہا گیا کہ امریکی ایجنٹ ہے۔ وہ بھی زیادہ عرصہ اقتدار میں نہ رہ سکا اور ببرک کارمل نے آ کر روسیوں کی مدد سے کابل پر قبضہ کر لیا۔ اسی کے دور میں سوویت افواج‘ افغانستان میں داخل ہو گئیں اور جنگ نے نیا رخ اختیار کر لیا۔ ببرک کارمل کا افغان حکمران طبقوں میں‘ خاص اثرورسوخ نہیں تھا۔ اسے بھی جلد ہی اقتدار چھوڑ کے روس واپس جانا پڑا اور اس کی جگہ انٹیلی جنس چیف ڈاکٹر نجیب اللہ نے لی۔ اس وقت تک افغان باغی‘ جو ایک ہی تنظیم کا حصہ تھے‘ آپس میں برسرپیکار ہو گئے۔ نجیب اللہ کو پھانسی دے کر اس کی لاش کئی دن تک چوراہے میں لٹکائے رکھی گئی اور تباہی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا۔ اس دور میں نام نہاد مجاہدین نے ایک دوسرے کے خلاف‘ کابل پر بمباری کر کے‘ اس خوبصورت شہر کو کھنڈرات میں بدل دیا۔ پورے ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو گئی۔ سارے دہشت گرد گروہ‘ ایک دوسرے کا خون بہانے میں مصروف تھے۔ مرکزی اتھارٹی کا وجود نہ رہا۔ یہ وقت تھا‘ جب امریکہ نے طالبان کو جمع کر کے‘ پاکستانی ملائوں کی قیادت میں‘ انہیں افغانستان پر قبضہ کرنے میں مدد دی۔ ملا عمر ان کا رہنما تھااور پاکستان کی مدد سے‘ ان طالبان نے دیکھتے ہی دیکھتے‘ افغانستان پر قبضہ کر کے‘ مذہبی آمریت کھڑی کر دی اور پاکستان اور امریکہ نے ان کی بھرپور پشت پناہی کی‘ لیکن اقتدار میں آتے ہی‘ یہ آپے سے باہر ہو گئے۔ جس پر امریکہ نیٹوفورسز کی مدد سے‘ افغانستان پر حملہ آور ہوا۔ طالبان کی حکومت تو ختم ہو گئی‘ امریکہ نے پٹھو حکومتیں بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ جس کی آخری نشانی حامد کرزئی تھا۔ جسے نام نہاد جمہوری طریقے سے‘ امریکی سنگینوں کے سائے میں اقتدار پر قابض کیا گیا۔آج بھی وہاں اقتدار کی جنگ جاری ہے۔ امریکیوں کی تربیت یافتہ افواج اور انہی کے مسلط کردہ حکمران‘ طالبان سے برسرپیکار ہیں۔ کوئی نہیں جانتا یہ خونریزی کب رکے گی؟
دوسری طرف شرق اوسط میں بھی‘ وہاں کی حکومتوں کے خلاف دہشت گردوں کو متحرک کر دیا گیا۔ وہاں جیسے بھی حکمران تھے‘ انہوں نے کم از کم معمول کی زندگی کو محفوظ رکھا ہوا تھا۔ ظلم اور جبر شرق اوسط کے حکمرانوں کا پسندیدہ طرز حکومت ہے۔ امریکہ نے ان حکومتوں کے خلاف دہشت گردوں کو منظم کیا۔ شامی باغیوں کی مدد کی۔ عراق میں شیعہ سنی فساد برپا کر کے‘ دوبارہ اپنی فوجیں وہاں داخل کر دیں۔ کردوں کو مسلح کر کے‘ ترکی کے خلاف مزاحمتی تحریک کو مضبوط کیا۔ غرض دہشت گردوں کو مسلح اور طاقتور بنانے میں‘ امریکہ اور اس کے اتحادی ہی سازشیں کرتے رہے۔ اب تک افغانستان‘ عراق اور شام کے حکومتی ڈھانچوں کو تتربتر کیا جا چکا ہے اور دہشت گرد فرقہ واریت کی آڑ میں ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں۔ دونوں طرف امریکہ اور اس کے حواریوں کا اسلحہ اور پیسہ چل رہا ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں‘ خصوصاً داعش‘ امریکہ اور حزب اللہ ‘ ایران کے زیراثر مانی جاتی ہیں۔ تفصیل میں جائے بغیر عرض کروں گا کہ شرق اوسط کے خطے میں‘ جو نئی خانہ جنگی شروع کر کے‘ ریاستی ڈھانچوں کی توڑپھوڑ کی جائے گی‘ اس کا واحد مقصد مسلمانوں میں خانہ جنگی کی آگ بھڑکا کر‘ انہیں ایک دوسرے کے ہاتھوں تباہ و برباد کرانا ہے۔ اس نئی جنگ میں ایک طرف ایران ہو گا اور دوسری طرف سعودی عرب۔ ایران اپنی حامی حکومتوں اور تنظیموں کی مدد کر کے‘ سنی حکمران طاقتوں کی توڑپھوڑ کرے گا اور امریکہ کے زیراثر کام کرنے والے دہشت گرد‘ سنی حکومتوں کی مدد سے‘ شیعہ طاقتوں کو تباہ و برباد کریں گے۔ یہ منصوبہ تکمیل کی طرف اس وقت بڑھے گا‘ جب پاکستانی ریاست کو‘ ایک دوسرے سے متحارب باغیوں کی باہمی لڑائی میں دھکیل کر‘ فرقہ واریت کی آگ بھڑکائی جائے گی۔ گزشتہ چند روز کے دوران ‘راولپنڈی اور پیرس میں دہشت گردی کی وارداتیں شیعہ سنی جنگ کے ابتدائی نمونے ہیں۔ پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کو شیعہ ایرانی ایجنٹوں کی کارکردگی قرار دیا جا رہا ہے اور راولپنڈی میں دھماکے کا تازہ واقعے کو شیعہ کمیونٹی پر حملہ قرار دیا جا رہا ہے‘ جبکہ جس امام بارگاہ کو اڑانے کی کوشش کی گئی‘ اس میں ہونے والی تقریب شیعہ اور سنیوں کا مشترکہ اجتماع تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کی تحریکیں‘ اب خطے کی مسلمان حکومتوں کے بس کی بات نہیں رہ گئیں۔ ان سارے ملکوں کے حکمران طبقوں کا ‘عوام سے کوئی واسطہ نہیں۔ ان کی لوٹ مار اور عوامی مسائل سے لاتعلقی کے نتیجے میں‘ عوام نے بے بسی کے عالم میں اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ وہ حکومت سے اصلاح احوال کا مطالبہ کرتے ہیں‘ تو ریاستی مشینری انہیں کچلنا شروع کر دیتی ہے اور لاتعلق ہو کر بیٹھتے ہیں‘ تو فرقہ ورانہ حملوں میں عوام کا خون بہایا جاتا ہے۔ پاکستانی ریاست کے حکمران طبقے انتہائی کوتاہ اندیش اور نااہل ہیں۔ بہترین حکومتی مشینری کو‘ حکمران طبقوں نے مفادات کی جنگ میں ناکارہ بنا کے رکھ دیا ہے۔ اگر خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کو صحیح تناظر میں دیکھا جائے‘ تو درحقیقت یہاں کی تمام دہشت گردی کی سرپرست وہی قوتیں ہیں‘ جو دہشت گردی کا ذمہ دار مسلمانوں کو قرار دیتی ہیں۔ جبکہ مسلمانوں کو اس راستے پر دھکیلنے کے ذمہ دار سامراجی حکمران ہیں۔ ان کی بے رحمی اور سفاکی کا تجربہ افغانستان میں جاری ہے۔ شرق اوسط کی ریاستوں میں دہشت گرد تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں۔ ان میں سے بیشتر تنظیمیں خود کو امریکہ کا مخالف قرار دیتی ہیں‘ جبکہ اس کے پٹھو اسرائیل کے اندر‘ ان میں سے کسی نے ایسی موثر تخریب کاری نہیں کی‘ جیسی کہ وہ مسلم دنیا میں کر رہے ہیں۔ ہمارے مذہبی سیاستدانوں کا حال تو یہ ہے کہ وہ پاکستان کی سلامتی اور دفاع کے لئے جان دینے والوں کو‘ شہید تسلیم کرنے کو تیار نہیں‘ جبکہ دہشت گردوں کو وہ ڈنکے کی چوٹ پر شہید قرار دیتے ہیں۔ مجھے عوام سے کوئی شکایت نہیں۔ یہاں تمام ذرائع ابلاغ پر حکمران طبقوں کا قبضہ ہے اور جو چند سرپھرے حقائق کو بے نقاب کرتے ہیں‘ ان کی منظم کردار کشی کر کے ہراساں کیا جاتا ہے۔میں ایک وسیع موضوع پر ہاتھ ڈال بیٹھا ہوں۔ کوشش کروں گا کہ وقتاً فوقتاً اس وسیع و عریض منظرنامے کے ایک ایک حصے پر فوکس کر کے‘ حقائق کی نشاندہی کروں۔