"NNC" (space) message & send to 7575

اگلی دھاندلی کا انتظار

وہ خورشید شاہ‘ جو موجودہ حکومت کو بچانے کے لئے سردھڑ کی بازی لگانے پر تُلے تھے اور ہر اس قوت کو للکار رہے تھے‘ جو اس حکومت پر تنقید کرتی یا اس سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد کا ساتھ دیتی۔ آج انہوں نے حیرت سے کہا: ''کیا تماشا ہے کہ وزرا کی انکوائری افسران نے کی؟‘‘ شاہ صاحب نے جس حکومت کو بچانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی‘ آج وہ اپنے کرتب دکھانے پر آ گئی ہے تو شاہ صاحب گلہ کر رہے ہیں۔ کم ازکم انہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ انکوائری کے اس تماشے پر اظہارحیرت کریں ۔ گزشتہ 9دن سے‘ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے عوام عذاب سے گزر رہے ہیں اور آخری دنوں میں سندھ کی حکومت کو بھی لُوٹ مار کے اس کھیل میں اپنا حصہ لینے کا موقع دیا گیا۔ یعنی وہاں بھی پٹرول غائب کر کے‘ سندھ حکومت نے بھی عوام کو لوٹنے میں اپنی باری لینا شروع کر دی۔ عوامی احتجاج اسی کے خلاف تو تھا۔عمران کے حامی ٹھیک کہتے ہیں کہ اگر دھرنا جاری رہتا تو پٹرول کی یہ ملک گیر قلت پیدا کر کے‘ عوام کو اندھادھند لوٹنے کا‘ یہ بے رحمانہ شوق پورا کرنے سے پہلے‘ حکمران دس مرتبہ سوچتے۔ عمران نے تو سانحہ پشاور کے غم میں دھرنے اور جلسوں کا سلسلہ روکا‘ حکومت نے اس کا فائدہ اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ حقیقت میں پوری قوم ہی عظیم سانحے پر ماتم کناں تھی۔ غم میں ڈوبے ہوئے اہل وطن کو پٹرول سے محروم کر کے‘ جس بے رحمی کے ساتھ لوٹا گیا‘ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اصل میں تو پی آئی اے کی طرح‘ پی ایس او کا کباڑہ کر کے‘ اسے دوستوں اور حواریوں میں نجکاری کے نام پر بطور تحفہ پیش کرنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ پی ایس او کو انہی تیاریوں کے سلسلے میں برباد کرنے کا عمل تیز کیا گیا تھا۔ اس دوران تیل کی جو قلت پیدا ہوئی‘ اس نے تو اقتدار پر قابض مافیا کے وارے نیارے کر دیئے۔خیال تھا کہ اس کامیاب تجربے کے بعد حکمران‘ نجکاری کے فیصلے پر عملدرآمد روک کر‘ پی ایس او کی نجکاری کے لئے پکڑا ہوا بیانہ ہی واپس کر دیںگے۔ نجکاری میں جتنی دولت صرف ایک بار ملنا تھی‘ اس سے زیادہ رقم تو ہفتے دس دن کے لئے پٹرول کی قلت پیدا کر کے کمائی جا سکتی ہے۔عالمی اداروں کے اندازوں کے برعکس‘ موجودہ حکمران پھر سے یہ خواب دیکھنے لگے ہیں کہ اب ان کی حکومت‘ اپنی مدت اقتدار ضرور پوری کر لے گی۔ اس طرح لوٹ مار کا سیزن لگانے کے لئے مزیدچار سال مل جائیں گے۔ 
میں نے ایک دو دن پہلے لکھ دیا تھا کہ جتنی کمیٹیاں چاہے بنا دی جائیں اور انکوائریاں کرا لی جائیں‘ لوٹ مار کے اصل ملزم ہاتھ نہیں آئیں گے۔ البتہ ان سرکاری ملازمین کا تختہ ضرور کر دیا جائے گا‘ جنہوں نے تیل کی متوقع قلت روکنے کی کوشش کی تھی۔ اب دستاویزی ثبوت سامنے آ چکے ہیں۔ یہ پی ایس او کے افسروں کی طرف سے اپنی وزارت کو لکھے گئے متعدد خطوط ہیں‘ جن میں انہوں نے واویلا کیا تھا کہ ملک میں تیل کی قلت کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ اگر فوراً پی ایس او کو سہارا نہ دیا گیا تو عوام مشکلات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ ان بے وقوفوں کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ حکومت تو خود بلیک مارکیٹ کا سالانہ بازار سجانے کی تیاریاں کر رہی ہے اور ایک پنتھ دو کاج کے اصول پر دونوں ہاتھوں سے جیبیں بھرنے کو بے تاب ہے۔ اب انہیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ پٹرول کی قلت پر کس طرح دونوں ہاتھوں سے عوام کے اربوں روپے چھینے گئے؟ پی ایس او کی نجکاری سے جتنی دولت بٹوری جا سکتی تھی‘ اس کے برابر کی رقم تو چند روز پٹرول کی بلیک سے حاصل ہو گئی اور پی ایس او کا مرغا پھر بھی ہاتھ میں ہے۔ جب چاہیں گے‘ اسے بیچ کر بھاری رقم کما لیں گے۔دائو لگ گیا تو اگلے سال پھر قلت پیدا کر کے‘ اربوں روپے عوام کی رگوں سے نچوڑ لئے جائیں گے اور رہ گیا پی ایس او کا مرغا تو جب حکومت خطرے میں نظر آئی‘ اس کی نجکاری کر کے بھی مزید اربوں روپے ہاتھ لگیں گے۔ رہ گئی رائے عامہ تو اب اس کی پروا کس کو ہے؟ عمران کی تحریک میں شامل ہو کر‘ عوام حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرنے جا رہے تھے۔ اب وہ تحریک رک گئی ہے۔ لوگ گھروں کو چلے گئے ہیں۔ پارلیمنٹ جیب میں ہے۔ جو چند دانے ادھر ادھر اچھلنے کی کوشش کریں گے‘ ان کولوٹ مار کے مواقع میں کچھ گنجائش دے دی جائے گی اور اگر تسلی نہ ہوئی تو مزاج درست کرنے کے لئے نیب موجود ہے۔ایک زمانہ تھا نوازشریف اور شہبازشریف‘ عوامی مقبولیت پر بہت بھروسہ کرتے تھے۔ ان کے خلاف چھوٹی سی خبر بھی چھپ جاتی تو اس وقت تک سوتے نہیں تھے‘ جب تک اس کی وضاحت یا تردید نہ چھپوا دیں۔ آج انہیں رائے عامہ کی پروا تک نہیں۔ لوگ پٹرول پمپوں پر کھڑے ہو کر سینے پیٹیں‘ گو نواز گو کے نعرے لگائیں‘ عورتیں جھولیاں اٹھا کر بددعائیں دیں‘ ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ رینگتی بھی ہے تو وہ اپنی قوت ارادی کے زور پر اسے محسوس تک نہیں کرتے۔ پٹرول کی بلیک کا جو دس روزہ بازار لگایا گیا‘ اس نے تو جمہوری حکومت کے حوصلے انتہائی بلند کر دیئے ہیں۔سب کا خیال تھا کہ پٹرول کی قلت سے عوام کو جتنی تکلیف پہنچی ہے اور جس طرح انہوں نے حکومت کے خلاف انتہائی تلخ جذبات کا اظہار کیا ہے‘ اسے دیکھ کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے کوئی نہ کوئی ایسا فیصلہ ضرور کیا جائے گا‘ جس سے ثابت ہو کہ حکومت کو عوام کی تکلیف کا پورا احساس ہے اور اس نے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک بھی پہنچا دیا ہے۔ میڈیا سے لے کر عام آدمی تک‘ ہر کسی نے چند ایک ذمہ داروں کے بارے میں اندازے کر لئے تھے۔ کوئی براہ راست شاہدخاقان عباسی کا نام لے رہا تھا‘ کسی نے اس قلت کا سہرا خواجہ آصف کے سر باندھا۔ اکثریت نے 54سرکاری کمیٹیوں کے سربراہ‘ اسحق ڈار پر نظریں جما رکھی تھیں اور ہر کسی کی زبان پر ایک ہی بات تھی کہ ملک کے خزانے سے‘ ایک چارٹرڈ اکائونٹنٹ جس بے رحمی سے کھیل رہا ہے‘ عوام کو اس سے ضرور نجات دلا دی جائے گی اور بعض لوگ تو اس قلت اور بلیک مارکیٹ کا ذمہ دار براہ راست وزیراعظم کو ٹھہرا رہے تھے۔ غیرمعمولی حالات میں وزیراعظم کو ہلانے کے لئے حالات موزوں نہیں۔ لیکن ایک آدھ وزیرکا بوریا بستر تو بندھتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ لیکن یہ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ حکومت ‘ عوامی آہ وبکا اور واویلے کو حقارت سے ٹھوکر مار کے‘ آگے نکل جائے گی۔ہمیں صرف آمروں کا تجربہ ہے۔ اتنی موٹی کھال تو کسی آمر کی بھی نہیں تھی‘ جتنی موٹی کھال جمہوریت کی ثابت ہو رہی ہے ۔
ایوب خان کے خلاف چینی کی مہنگائی پر شور مچا تھا۔ چند ہی جلوس نکلے تو انہوں نے حکومت چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک ڈکٹیٹر میں اتنی شرم تھی۔ یحییٰ خان نے مغربی پاکستان میں شکست کھانے کے بعد بھی‘ اپنا آئین نافذ کرنے کا اعلان کر کے‘ اقتدار میں رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ لیکن جب فوج کے چند نوجوان افسروں نے احتجاج کیا تو یحییٰ خان کو بھی شرم آ گئی اور وہ اقتدار سے دستبردار ہو گئے۔ ضیاالحق سختی کے ساتھ اپنا مارشل لا چلا رہے تھے کہ سندھ میں چند احتجاجی مظاہرے ہو گئے۔ انہوں نے فوراً ہی اپنی ضد چھوڑ کر‘ انتخابی عمل شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔ ڈکٹیٹر ہونے کے باوجود ان میں بھی کچھ شرم تھی۔ لیکن اب کے تو جی کمال ہو گیا۔دارالحکومت میں 126دن تک زبردست احتجاجی دھرنا چلتا رہا۔ لوگ روز حکومت کے خلاف نعرے لگاتے۔ ماڈل ٹائون میں قتل عام ہوا۔ اسلام آباد میں اندھادھند گولیاں چلائی گئیں۔ خطرناک آنسو گیس چھوڑی گئی۔ عمران خان کے تاریخی احتجاجی جلسے منعقد ہوئے۔ جتنے زیادہ عرصے تک مسلسل گو نواز گو کے نعرے لگائے گئے وہ بھی ہماری سیاسی تاریخ کا ایک ریکارڈ ہے۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں کسی آمر نے اتنی دیر تک گوگو کے نعرے برداشت نہیں کئے‘ جتنی دیر موجودہ حکومت خندہ پیشانی سے برداشت کر رہی ہے۔ آمروں نے عوام کے سامنے سر جھکا دیا۔ لیکن موجودہ حکومت ہے کہ اس کا سر آج بھی بلند ہے۔ بھٹوصاحب کے دور میں اپوزیشن نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر کے‘ ازسرنو انتخابات کا مطالبہ کیا۔ چند روز ہی تحریک چلی تھی کہ بھٹو صاحب نے دوبارہ انتخابات کا مطالبہ تسلیم کر لیا اور ضیاالحق بغاوت نہ کرتے تو انتخابات کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں۔ یہ حکومت 20مہینوں سے دھاندلی کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کے متفقہ اعتراض اور احتجاج کے باوجود سینہ تان کے چیلنج دے رہی ہے کہ ''جس میں ہمت ہے ہم سے انتخابی دھاندلی کی بات منوا لے۔‘‘ ایسی بہادری کا مقابلہ تو پنجاب پولیس بھی نہیں کر سکتی۔ وہ بھی ایک چورسے چوریاں منوانے کی کوشش میں‘ تشدد کرتے کرتے تھک گئی تو سب انسپکٹر نے کہا: ''کوئی ایسا طریقہ ہے جس سے تم چوری مان جائو؟‘‘ چور نے فرمائش کی: ''مجھے ایک کپ چائے پلا دیں۔‘‘ جلدی جلدی چائے منگوا کر اسے پیش کر دی گئی۔ چور نے اطمینان سے چائے کا کپ ختم کیا اور بولا: ''چوریوں کی بات تو چھوڑیئے تھانیدار صاحب! آپ مجھ سے یہ منوا کر دکھا دیں کہ میں نے چائے پی ہے۔‘‘ پولیس نے بے بسی کے ساتھ اپنی ہار مان لی۔ عوام کو بھی اب ہار مان کر‘ اگلی دھاندلی کا انتظار شروع کر دینا چاہیے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں