"NNC" (space) message & send to 7575

گھن تو لگ گیا

زیادہ دنوں کی بات نہیں کہ تمام پارلیمانی پارٹیوں نے بقول ان کے ''جمہوریت بچانے کے لئے‘‘ حکومت کا ساتھ دیا تھا۔اپنی پارٹی کے ساتھیوں سے زیادہ وزیراعظم کی حمایت میں اپوزیشن کے لیڈروں نے بڑھ چڑھ کر تقریریں کیں اور تحریک انصاف کے صدر جناب جاوید ہاشمی نے تو اپنی زندگی کا سب سے خطرناک دائو لگاتے ہوئے ایک مبینہ سازش کا انکشاف بھی کیا‘ جو وزیراعظم نوازشریف کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے تیار کی گئی تھی۔ اس سازش میں انہوں نے تقریباً تمام اداروں کو لپیٹ مارا۔ پارلیمنٹ کی نام نہاد اپوزیشن کے کم حوصلہ لیڈروں کو بھی ہمت پڑ گئی کہ وہ بڑھ چڑھ کر وزیراعظم کی حمایت کریں۔ لیکن پارلیمنٹ کے اس متفقہ اظہار اعتماد کے بعد بھی‘ حکومت کے قدم نہیں جم سکے۔ دھرنے اسی طرح برقرار رہے اور دھرنوں کے محدود اجتماعات کو دیکھ کر‘ ارباب اقتدار کے جو حوصلے بڑھے تھے‘ وہ اس وقت گھبراہٹ میں بدلنے لگے‘ جب عمران خان اپنی تحریک کو جلسوں کے ذریعے مختلف شہروں میں لے گئے۔ کوئی شہر ایسا نہیں تھا‘ جہاں عمران کو غیرمعمولی پذیرائی نہ ملی ہو۔ خلقت اس طرح امڈ کر ان جلسوں میں شریک ہوئی‘ جیسے وہ حکومت کے خلاف بھری بیٹھی ہو۔ اگر جلسوں کا یہ سلسلہ ذرا اور آگے بڑھتا‘ توحکومت کی بے بسی اور پسپائی قریب آ گئی تھی۔ اچانک سانحہ پشاور رونما ہوا۔ پورے ملک میں صف ماتم بچھ گئی۔ پاک فوج پر تو یوں گزری جیسے دہشت گردوں نے سینہ چیر کے اس کا کلیجہ نکال لیا ہو۔ مگر اس سانحہ عظیم کا سب سے زیادہ فائدہ ڈولتی ڈگمگاتی حکومت کو پہنچا۔وزیراعظم نے پشاور میں جو پہلی آل پارٹیز کانفرنس بلائی تھی‘ اس میں وزیراعظم کی باڈی لینگویج دیکھنے سے پتہ چل رہا تھا کہ انہیں صدمہ بھی بہت ہے اور ان سے اپنی خوشی بھی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ اتنے عظیم سانحے کے بعد‘ عوام کسی احتجاجی تحریک میں شریک ہونے سے گریز کریں گے۔ عمران نے دھرنا ختم کر کے‘ تحریک کو معطل کرنے کا اعلان فوراً ہی کر دیا تھا۔ جس طرح قومی سانحے کی بنا پر‘ نوازشریف ایک یقینی خطرے سے بچ نکلے تھے‘ اس پر انہیں خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے‘ فوری طور سے عوام اور منتخب نمائندوں کی مایوسی کو امیدوں میں بدلنے کی کوشش شروع کر دینا چاہیے تھی۔
توقعات کے عین خلاف‘ جیسے ہی حکومت خطرات سے باہر نکلتی نظر آئی‘ وزیراعظم نے دیکھتے ہی دیکھتے پرانی طرز اختیار کر کے ‘ منتخب نمائندوں سے بھی منہ پھیر لیا۔ پارلیمنٹ اور سینٹ میں آنا بھی چھوڑ گئے۔ سینٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین سے ملاقاتیں بھی بند ہو گئیں۔ خورشیدشاہ دو تین بار موقع نکال کر وزیراعظم سے مل آئے۔ لیکن جیسے ہی مطلوبہ تقرری ہو گئی‘ سنا ہے کہ خورشید شاہ کی ملاقاتیں بھی بند ہو گئیں۔وزیراعظم نے کابینہ کی میٹنگ بلانا تو بالکل ہی چھوڑ دیا ہے۔ چہیتے وزیروں کا ایک گروپ ہے‘ جو ہر وقت انہیں گھیرے میں لئے رکھتا ہے اور جو باقی وقت بچتا ہے‘ وہ عالی جاہ سمدھی صاحب کے لئے مخصوص رہتا ہے۔ پہلے یہ اعزاز شہبازشریف کو دیا جاتا تھا۔ اب سمدھیاپے کا رشتہ زیادہ غالب آ گیا ہے۔ یوں بھی صوبہ شہبازصاحب کے حوالے ہے۔ اس لئے وفاقی حکومت کی پالیسیوں میں‘ ان کا زیادہ عمل دخل نہیں رہ گیا۔ خصوصاً وہ خارجہ امور اور مالیاتی پالیسیوں میں جو ان پٹ دیا کرتے تھے‘ وہ بھی سمدھیاپے کی نظر ہونے لگی۔ حد یہ ہے کہ پٹرول کی قلت سے جب عوام تکلیف کی شدت سے بلبلانے لگے‘ تو چار پانچ روز کے بعد شہبازشریف نے‘ اس بحران سے فوری نکلنے کے لئے کچھ اقدامات تجویز کئے۔ لیکن ان میں سے بھی کسی پر عمل نہ ہوا اور جب عوام کے صبر کے پیمانے چھلکتے ہوئے نظر آئے‘ تب وزیراعظم کو فکر پڑی اور جب انہوں نے اپنا روایتی دبدبہ بروئے کار لاتے ہوئے‘ ذمہ داروں پر دبائو ڈالا‘ تو دوسرے ہی دن سے آہستہ آہستہ پٹرول دستیاب ہونے لگا اور چار دن کے بعد حالات معمول پر آ گئے۔ پہلے نوازشریف کی کارکردگی کے ریکارڈ اور طرح کے ہوا کرتے تھے۔ ہر وقت ان کی نظر اس پہ رہتی تھی کہ عوام کے لئے مشکلات کہاں ہیں؟ وہ ان کی راحت اور آرام کے لئے جس قدر ممکن ہو‘ منصوبے بناتے اور زیرعمل لاتے رہے۔ اس بار تو یہ بھی نہ ہوا۔ توانائی کا مسئلہ اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ ن لیگ اس کی بنیاد پر مہم چلا کر ‘ اپنی انتخابی فتح کو منوانے میں کامیاب ہو گئی۔ حالانکہ خود ن لیگ سمیت‘ جس جس نے الیکشن میں حصہ لیا تھا‘ ان سب کی ایک ہی شکایت تھی کہ زبردست دھاندلی ہوئی ہے۔ عمران خان کو سب سے زیادہ شکایت تھی۔ انہوں نے بھی انتخابی نتائج کو ماننے کا اعلان کرتے ہوئے صرف یہ کہا کہ ہم دھاندلی کو نہیں مانیں گے اور اس کے لئے بھی انہوں نے صرف چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کر دیا۔ لیکن جس طریقے سے حکومت نے اس مطالبے کی مزاحمت کی‘ اس سے عوام کے اندر یہ تاثر شدید ہوتا گیا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔اگر سب کچھ ٹھیک ہے تو حکومت‘ قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں دوبارہ گنتی سے کیوں گھبرا رہی ہے؟ بعد از خرابی بسیار‘ جب متنازعہ حلقوں میں دوبارہ گنتی شروع ہوئی‘ تو لوگوں کو سمجھ آنے لگی کہ حکومت نے اب تک دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیوں نہیں مانا تھا؟ دو متنازعہ حلقوں کی گنتی سے ثابت ہو گیا کہ ہر حلقے میں 35سے40ہزار ووٹ مشکوک ہیں اور انہیں ڈبوں میں ڈالتے وقت قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے تھے۔ حکومت کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اب صرف یہ کہا جا رہا ہے کہ کچھ بے ضابطگیاں ہوئی ہیں لیکن یہ دھاندلی نہیں۔ الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کہتے ہیں کہ ''بے ضابطگی ہی کو تو دھاندلی کہتے ہیں۔‘‘
حکومت اب ضد لگا کے بیٹھ گئی ہے کہ وہ جوڈیشل کمیشن کے دائرہ اختیار کا تعین کرتے وقت ‘ ایسی شرائط رکھے گی کہ کمیشن دھاندلی ڈھونڈ بھی لے‘ تو وہ اس کا تعین نہیں کر سکے گا۔ مثلاً شرط یہ ہو گی کہ کمیشن دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ یہ ثابت کرے کہ انتخابی مشینری نے نوازلیگ کو کامیاب کرانے کے لئے سازش کی تھی۔ نہ نو من تیل ہو گا‘ نہ رادھا ناچے گی۔ بے ضابطگی سے ڈالے گئے کس بیلٹ پیپر پر لکھا ہو گا کہ یہ اس لئے کی جا رہی ہے کہ ن لیگ کو ہرایا جائے؟حکمران جماعت کو یہ وہم ہو گیا ہے کہ اس کو لاحق خطرات اب ٹل چکے ہیں۔ اب اسے جوڈیشل کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں رہ گئی۔ اس بھرپور اطمینان کا نتیجہ یہ ہے کہ اس نے روزمرہ کی ذمہ داریوں پر توجہ دینا بھی چھوڑ دیا ہے۔ آج کے زمانے میں کونسی حکومت اور کاروباری ادارہ ہے‘ جو کھلی تجارت کے اصول نہیں سمجھتا؟ جسے یہ پتہ نہ ہو کہ روزمرہ کی ضروریات کی اشیاء کا ذخیرہ کب ختم ہو گا؟ نئی خریداری کب کرنا ہو گی؟ اور سپلائی لائن کیسے برقرار رہے گی؟ جس کو یہ کام بھی نہیں آتے‘ اسے یہ ذمہ داری اٹھانے کا کوئی حق نہیں۔ ایسے مسائل صرف بدنیتی اور کرپشن کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ذخیرہ اندوز تو قوم کے مجرم ہوتے ہیں اور حکومتیں ان کے خلاف کارروائیاں کرتی ہیں۔ جب حکومت خود ذخیرہ اندوزی شروع کر دے‘ تو عوام کو بلیک مارکیٹ اور محرومیوں سے کون بچا سکتا ہے؟ پٹرول کی حالیہ بلیک مارکیٹنگ سے حاصل ہونے والے اربوں روپے‘ اس بات کے ضامن ہیں کہ جب تک موجودہ حکومت باقی رہے گی‘ ہر چار چھ مہینے کے بعد یہ بلیک ہوا کرے گی۔ پٹرول کی قلت پیدا ہو گی۔ بھوکے ننگے پٹرول پمپوں پر قطاریں بنا کر‘ حکومت کو بدنام کریں گے۔میڈیا ‘ خبریں اور تجزیئے چھاپ کر ‘ حکومت کی نیک نامی پر دھبے لگائے گا۔ جس طرز کی حکمرانی اس وقت ہو رہی ہے‘ اس میں وہ سب کچھ ہونے سے رک ہی نہیں سکتا‘ جو ہونے جا رہا ہے۔ جس وقت عوام مسائل سے دوچار ہوں اور حکمران یہ سمجھنے لگیں کہ ان کا اقتدار ناقابل شکست ہو چکا ہے‘ تو اصل میں وہی وقت شکست کی ابتدا کا ہوتا ہے۔ ایوب خان کے خلاف‘ انہیںاقتدار سے باہر کرنے کی تحریک اس وقت کامیاب ہوئی‘ جب وہ 10سالہ جشن ترقی منا رہے تھے۔ گھن لگے ہوئے ذخیرے میں گندم کے دانے دور سے صحیح ثابت دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن مٹھی میں لے کر دبانے پر پچک جاتے ہیں۔ گھن کی پہلی جھلک سرگودھا میں منظرعام پر آ گئی‘ جب لگاتارلوڈشیڈنگ سے تنگ آئے ہوئے عوام احتجاج کے لئے سڑک پر آ گئے اور حکمران جماعت کے لیڈروں اور منتخب نمائندوں نے اس جلوس میں شامل ہو کر لوڈشیڈنگ کے خلاف نعرے لگائے۔ نمایاں ترین نعرہ تھا ''گو نوازگو۔‘‘یہ اس بات کی پہلی نشانی ہے کہ پارٹی کے اندرحکومت کے لئے کیا جذبات پیدا ہو چکے ہیں؟ گھن لگنا تو شروع ہو چکا۔ مجھے اس کا علم نہیں کہ جب گھن لگنا شروع ہو جائے‘ تو اس کا علاج کیا بھی جا سکتا ہے یا نہیں؟ سنا تو یہی ہے دیمک کی کھائی ہوئی لکڑی اور گھن کے کھائے ہوئے دانہ گندم کو‘ دوبارہ اصلی حالت میں نہیں لایا جا سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں