5فروری کے جلوس اور مظاہرے‘ ماضی کی نسبت زیادہ پرہجوم‘ پرجوش اور پرغضب تھے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت میں‘ بی جے پی برسراقتدار آ گئی ہے۔ پاکستانی عوام کا خیال ہے کہ مودی حکومت ‘اب مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کے لئے آئینی شق370کو ختم کرنے کی خواہش مند ہے۔مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت نے‘ جو نام نہاد انتخابات منعقد کرائے‘ ان میں بی جے پی کی کامیابی کے لئے‘ ہر قسم کے جائز و ناجائز حربے استعمال کئے گئے۔ فوج کا دبدبہ اور بیوروکریسی کے جوڑتوڑ کے علاوہ ‘بی جے پی کے سرمایہ دار سرپرستوں نے بھی‘ ان انتخابات میں بھرپور کردار ادا کیا۔ لیکن کشمیری عوام نے ردعمل میں‘ ماضی کی نسبت انتخابات میں زیادہ جوش و خروش کے ساتھ بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔ یہ درحقیقت‘ بی جے پی کے ہتھکنڈوں پر وادی کشمیر کے عوام کا ردعمل تھا۔ ماضی میں کشمیری مسلمان‘ بھارت کے انتخابی ڈھونگ سے الگ تھلگ رہتے تھے۔ کانگریس کے حامی کشمیری لیڈر‘ ان نام نہاد انتخابات میں ضرور حصہ لیتے تھے‘ لیکن کشمیریوں کے نمائندہ لیڈر‘ انتخابات کا بائیکاٹ کیا کرتے رہے۔ لیکن اس بار قوم پرستوںنے بھی بائیکاٹ کی پالیسی ترک کر کے‘ باقاعدہ اس منصوبے کے تحت انتخابات میں حصہ لیا کہ وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے‘ بی جے پی کے انتخابی ہتھیار کو ناکام بنائیں گے۔ بی جے پی نے پورے مقبوضہ کشمیر میں روایتی مسلم حلقوں سمیت‘ ہر جگہ اپنے امیدوار کھڑے کئے۔ دلی کی یونین حکومت کے اعلیٰ افسران اور وزرا نے مقبوضہ کشمیر میں کھل کے جوڑ توڑ میں حصہ لیا‘ لیکن عام کشمیریوں کا جذبہ مزاحمت اتنا مضبوط تھا کہ دہلی کے ایجنٹوں کا کوئی حربہ کامیاب نہ ہو سکا۔ مسلمان ووٹروں نے ماضی کی روایات کے برعکس‘ بڑھ چڑھ کے انتخابی عمل میں حصہ لیا اور وادیٔ کشمیر حتیٰ کہ لداخ میں بی جے پی کا ایک امیدوار بھی کامیابی حاصل نہ کر سکا‘ حالانکہ لوک سبھا کے گزشتہ انتخابات میں ‘وہاں سے بی جے پی کامیاب ہوئی تھی۔ اس بار بی جے پی وہاں سے بھی کوئی سیٹ حاصل نہ کر سکی۔
وادیٔ کشمیر میں‘ جہاں سے بی جے پی چند سیٹوں پر یقینی کامیابی کے لئے پرامید تھی‘ وہاں اس کی کوئی امیدپوری نہ ہو سکی اور تمام نشستیں دوسری پارٹیوں نے حاصل کیں۔ بی جے پی کو صرف جموں میں‘ ہندوئوں کے ووٹ حاصل ہوئے اور وہ 25نشستوں پر کامیاب ہو سکی۔ جبکہ مفتی سعید کی پی ڈی پی 28نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو گئی۔ وہ اس پوزیشن میں تھی کہ کانگریس اور آزاد امیدواروں کی حمایت سے مضبوط حکومت بنا لے‘ مگر گورنرچونکہ یونین گورنمنٹ کا نمائندہ ہوتا ہے اور وہاں مودی کی اپنی حکومت ہے۔ مفتی سعید نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حکومت بنانے کی دعوت دی جائے‘ تو وہ اکثریت ثابت کر سکتے ہیں۔ اس مقصد سے گورنر کو کہا بھی گیا کہ وہ پی ڈی پی کو حکومت سازی کی دعوت دیں‘ لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور حسب روایت کشمیریوں کے ساتھ دھاندلی کرتے ہوئے‘ وہاں گورنرراج نافذ کر دیا گیا۔ بی جے پی ان سارے حربوں کے باوجود ‘ابھی تک اپنے حامیوں کی اکثریت نہیں بنا سکی۔ مقبوضہ کشمیر پر گورنرراج مسلط کرکے‘ کشمیری عوام کی اکثریت کو سزا دی جا رہی ہے کہ انہوں نے بی جے پی کو انتخابات میں کامیابی کاخواب پورا کرنے کا موقع نہیں دیا اور نہ ہی کسی منتخب نمائندے نے‘ اپنے ووٹروں کو دھوکا دے کر بی جے پی کا ساتھ دیا‘ لیکن بی جے پی کی انتہاپسند قیادت حسب توقع ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے ‘ریاستی نظم و نسق گورنر کے سپرد رکھنے پر بضد ہے۔ اس طرح یونین گورنمنٹ‘ اس کے اداروں اور بی جے پی کے وزیروں کی طاقت ‘استعمال کر کے یا تو منتخب ممبروں کو لالچ اور دبائو کے ذریعے ساتھ ملانے کی کوشش کرے گی یا اس جھوٹے عذر کی بنیاد پر اسمبلی توڑ دے گی کہ حالیہ منتخب ایوان میں کوئی بھی جماعت اکثریت ثابت کر کے‘ حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔یا تو مسلط کردہ گورنرراج کے دوران نئے انتخابات کرا کے‘ ریاستی مشینری کی طاقت کے بل بوتے پر بی جے پی کو زبردستی اکثریت دلائی جائے گی یا گورنرراج ہی کومستقل کرتے ہوئے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں آئینی ترمیم کے ذریعے دفعہ370 کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ سراسر بھارتی آئین اور یو این کے ساتھ کئے ہوئے‘ بھارتی حکومتوں کے وعدوں کی خلاف ورزی ہو گی۔ اس وقت ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ بھارتی حکومت عالمی ادارے میں‘ دی ہوئی گارنٹی کہ کشمیری عوام کو ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے گا‘ اپنے وعدوں سے منحرف ہو جائے گی۔ یہی وہ خدشہ ہے‘ جس کی بنیاد پر پاکستان نئے حقائق اور حالات کی روشنی میں‘ یو این کی طرف اس شکایت کے ساتھ رجوع کرے کہ بھارتی حکومت‘ اقوام متحدہ کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں سے منحرف ہو کر‘ کشمیریوں کے استصواب رائے کے حق کو سلب کر رہی ہے۔ لہٰذا اسے فوری طور پر کشمیری عوام کی خواہشات کے برعکس‘ ان کے آئینی حقوق سلب کر کے‘ عوام کی مرضی و منشا کے خلاف بھارتی ریاست میں شامل کرنے سے روکا جائے۔
بھارت جن دوطرفہ معاہدوں کی بنیاد پر مقبوضہ کشمیر میں بیٹھا ہے‘ وہ سلامتی کونسل کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔ہم نے بے شک سارے باہمی تنازعات مذاکرات سے حل کرنے کے معاہدے کر رکھے ہیں لیکن ہم نے یہ گارنٹی نہیں دی کہ کشمیر کے معاملے میں اقوام متحدہ کو دونوں ملکوں نے جو ضمانتیں مہیا کر رکھی ہیں‘ وہ ختم ہو گئیں۔ اگر بھارت باہمی مذاکرات میں تنازعہ کشمیر کا کوئی ایسا حل مسلط کرنا چاہتا ہے‘ جویو این میں کئے گئے وعدوں سے
انحراف پر مبنی ہو‘ تو ہم یو این میں یہ شکایت لے کر جانے کا حق رکھتے ہیں کہ بھارت سلامتی کونسل کی تسلیم شدہ قراردادوں کی خلاف ورزی کر کے‘ سلامتی کونسل میں دی گئی ضمانتوں سے منحرف ہو رہا ہے۔ لہٰذا اس مسئلے کو دوبارہ زیرغور لا کر‘ اسے مجبور کیا جائے کہ مذاکرات‘ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی حدود میں رہ کر کئے جائیں۔ یہ ایسا موقف ہو گا‘ جس پر کوئی بھی طاقت ‘ پاکستان کی مخالفت نہیں کر سکے گی۔ سلامتی کونسل کی تمام ویٹوپاورز‘ کشمیرپر پاس ہونے والی تمام قراردادوں کے حق میں ووٹ دے چکی ہیں۔ کسی ایک بھی ویٹو پاور نے‘ ان قراردادوں کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔ اس لئے ہم عالمی رائے عامہ کے سامنے یہ موقف پیش کر سکتے ہیں کہ کسی بھی ویٹوپاور کو اپنی ہی پاس کردہ قرارداد پر عملدرآمد روکنے کا حق نہیں ہے۔ ہم کوئی نیا مطالبہ لے کر نہیں جائیں گے۔ ہم صرف یہ کہیں گے کہ ہمیں ‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پاس کی گئی قراردادوں کے دائرہ میں رہتے ہوئے‘ تنازعہ حل کرنے کا پابند کیا جائے اور بھارت ‘مقبوضہ کشمیر میںیکطرفہ طور سے سٹیٹس کو ختم نہ کرے۔ اصولی طور پر امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس اور روس کو اخلاقی طور پر ہمارے مطالبے کی حمایت کرنا چاہیے۔ کیونکہ جن قراردادوں کے تحت ہم دوطرفہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں‘ یہ سارے ان کے حق میں ووٹ دے چکے ہیں۔ہم کوئی نئی چیز نہیں مانگ رہے۔ کوئی نیا مطالبہ لے کر یو این میں نہیں جا رہے۔ یو این سے کسی نئے اقدام کی اپیل بھی نہیں کر رہے۔ ہم صرف سلامتی کونسل کے فیصلوں کے تحت باہمی تنازعات حل کرنے کے لئے سلامتی کونسل کو اپنے اختیارات استعمال کرنے کی درخواست کریں گے۔ یہ مطالبہ کرنے میں امید ہے چین کے علاوہ امریکہ‘ برطانیہ اور فرانس بھی ہماری مدد کریں گے۔ اگر وہ نہیں کریں گے‘ تو ہم عالمی عدالت میں جا کر درخواست کر سکتے ہیں کہ اقوام متحدہ کو ہدایت کی جائے کہ وہ اپنے ہی فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے‘ اراکین سے پابندی کرائے اورریاست جموں و کشمیر میں ہر جگہ سٹیٹس کو برقرار رکھا جائے۔ تاوقتیکہ دونوں فریق باہمی مذاکرات میں یہ تنازعہ حل نہیں کر لیتے۔ بھارت‘ جو اس وقت سلامتی کونسل کا رکن بننے کے لئے بے چین ہے‘ اسی ادارے میں بیٹھ کر فیصلے کرنے یا ویٹو پاور استعمال کرنے کا حق مانگنے کے قابل نہیں رہ جائے گا۔ عالمی قوانین کے ماہرین‘ ہمیں مزید ایسے کئی عذر بتا سکتے ہیں‘ جن کے تحت یہ معاملہ دوبارہ اقوام متحدہ میں اٹھایا جا سکے۔ اگر ہم کوشش کریں گے تو جو صورتحال ہمارے دوبارہ اقوام متحدہ میں فریاد لے کر جانے سے پیدا ہو گی‘ ہو سکتا ہے اس کے اندر سے کوئی نیا راستہ پیدا ہو جائے۔میں جانتا ہوں کہ عالمی برادری پر دبائو ڈالنے کے لئے ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں‘ لیکن ہم اپنی درخواست کو سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں شامل کرنے کا مطالبہ تو کر سکتے ہیں۔ اس مقصد سے ہم اپنے لائق اور برگزیدہ قانون دانوں کو ساری ویٹوپاورز کے دارالحکومتوں میں بھیج سکتے ہیں کہ بھارت کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزیوں سے روکا جائے۔ کوشش کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔ ہماری موجودہ پوزیشن تو اس درخواست کے بعد بھی برقرار رہے گی۔ کوشش کرنے میں کیا ہرج ہے؟