"NNC" (space) message & send to 7575

اور اب خشک سالی کا خطرہ

وزیرپانی و بجلی خواجہ آصف کا یہ بیان بجلی اور پٹرول کے ترسے ہوئے لوگوں پر‘ بجلی بن کر گرا کہ ''اگلے کچھ عرصے میں پاکستان میں پانی کی شدید قلت بھی پیدا ہونے والی ہے۔‘‘ جس طرح پٹرول اور بجلی کی قلت ‘ ہمارے ارباب اقتدار کی نااہلی اور بدانتظامی کی وجہ سے تھی‘ اسی طرح پانی کا قحط بھی حکومت کی نالائقی کے باعث ہی پیدا ہو گا۔ ہم نے گزشتہ چند برسوں کے دوران وافر مقدار میں آنے والے پانی کو جس بری طرح ضائع کیا اور سمندر میں پھینک کرویرانیوں کو دعوت دی‘یہ پاکستان ہی میں ممکن ہے۔ ہمارے اور غیرملکی ماہرین کو شروع سے علم تھا کہ پاکستان میں آگے چل کر پانی کی قلت پیدا ہونے والی ہے۔ زیادہ سے زیادہ تین چار سال میں ہمیں پانی کی کمی کا شدت سے احساس ہونا شروع ہو جائے گا۔ بھارت کو بھی ایسے ہی مسائل درپیش تھے لیکن اس نے فوراً ہی بند تعمیر کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا اور ہمیں بھی راوی‘ ستلج اور بیاس کے پانیوں کی کمی پوری کرنے کے لئے ڈیم بنانے کے لئے ورلڈ بنک سے معقول رقوم حاصل ہوئیں۔ اگر ہمارے ہاںمناسب منصوبہ بندی ہوتی‘ تو ہم ابھی تک خشک سالی کا مقابلہ کرنے کے لئے پانی کے ذخائر تعمیر کر چکے ہوتے اور دریائوں میں پانی کم ہونے کی صورت میںانہی ڈیمز سے پانی نکال کر‘ اپنی ضروریات پوری کرتے۔ لیکن ہم پانی کو ضائع کرتے کرتے‘ اسے فراہمی کے آخری درجے تک لے آئے ہیں۔ بھارت نے ہمارے ساتھ آزاد ہونے کے بعد اپنے ملک میں 4ہزار ڈیم تعمیر کر کے‘ صحرائوں کو آباد کر لیا ہے۔ راجستھان‘ جو ہمارے چولستان اور تھر کی طرح صحرا تھا‘ اسے نہروں کا پانی پہنچا کر سرسبزوشاداب کر لیا گیا۔ اسی طرح اس نے دوسرے سنگلاخ پہاڑی علاقوں اور ریت کے میدانوں میں پانی پہنچا کر‘ پیداوار حسب ضرورت بڑھا لی۔اس وقت بھی بھارت میں 150ڈیم زیرتعمیر ہیں۔ جن میں کئی مقبوضہ کشمیر کے اندر بنائے جا رہے ہیں۔ اگرہم بھارت کو دریائی پانی کی تقسیم کے لئے کئے گئے معاہدوں پر مجبور نہ کر سکے‘ تو ہم بہت برے حالات سے دوچار ہونے والے ہیں۔
نوازشریف کی حکومت پہلے ہی متعدد بحرانوں کا شکار ہے۔ 4مہینے تک جلسے جلوسوں اور دھرنوں کا تسلسل جاری رہا‘ جس کے نتیجے میں گورنمنٹ تقریباً مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔ بجلی کی کمی برسوں سے چلی آ رہی ہے۔ شریف برادران نے انتخابی مہم کے دوران مسلسل وعدے کئے کہ وہ برسراقتدار آنے کے بعد لوڈشیڈنگ ختم کر دیں گے اور شہبازشریف نے تو واضح طور سے اعلانات کئے ۔ پہلے انہوں نے کہا کہ 6ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کر دی جائے گی۔ پھر یہی عرصہ 2سال کر دیا اور آخر میں 3سال تک بڑھا کر رک گئے۔ دو وعدوں کا عرصہ تو تقریباً ختم ہو گیا اور 3سال ختم ہونے میں بھی سواسال باقی رہ گیا ہے۔ اس دوران وہ کونسا بند بنائیں گے اور کب بجلی پیدا کریں گے؟ وہ اپنے حالیہ دوراقتدار کے پونے دو برس پورے کر چکے ہیں۔ اس دوران انہوں نے متعدد منصوبوں کا اعلان کیا‘ مگر ان میں سے ایک بھی عملاً شروع ہی نہیں کیا جا سکا۔ ساہیوال میں کوئلے کے پلانٹ لگانے کے بڑے بڑے وعدے ہوئے۔ مگر آج یہ منصوبہ شروع ہوتا بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ گڈانی پر بڑے جشن منا کر 2پلانٹوں کا افتتاح کیا گیا۔ مگر بات وہیں کی وہیں ہے۔ منصوبہ ذرا بھی آگے نہ بڑھ سکا اور اب خبر آئی ہے کہ اسے بھی مشکل قرار دے کر بند کیا جا چکا ہے۔ نیلم جہلم پر بنتا ہوا بند‘قریب التکمیل تھا مگر موجودہ حکومت نے اس کی تعمیر میں تیزرفتاری لانے کی بجائے‘ مزید سست روی کی نذر کر دیا۔ سال رواں کے دوران اس ڈیم سے بجلی کی پیداوار شروع ہونا تھی۔ مگر کچھ پتہ نہیں کہ یہ منصوبہ کب مکمل ہو گا؟ اس منصوبے کے ساتھ ایک اور زیادتی یہ ہے کہ اس کی تعمیر کے لئے عوام سے مسلسل رقم جمع کی گئی۔ وہ کتنی ہے؟ اس کا کوئی حساب ابھی تک عوام کے سامنے پیش نہیں کیا گیا اور ہم نہیں جانتے کہ نیلم جہلم ڈیم کے لئے کل کتنی رقم جمع کی جا چکی ہے؟ کیونکہ یہ رقم کئی سالوں سے مسلسل بجلی کے بلوں میں وصول کی جا رہی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ڈیم کی تعمیر کے لئے جو رقم درکار تھی‘ وہ عوام پہلے ہی جمع کرا چکے ہیں۔ لیکن ابھی تک کسی کو اندازہ نہیں کہ کب یہ ڈیم ختم ہو گا اور کب اس کے نام پر لیا جانے والا سرچارج بند کیا جائے گا؟ ستم ظریفی دیکھئے کہ بجلی کی پیداوار ابھی شروع نہیں ہوئی اور پاکستان کے عوام ‘ اس کا تعمیراتی خرچ ابھی تک حکومت کو دے رہے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا ‘ رقم بٹورنے کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ ہمیں نیلم جہلم کی بجلی ملے گی بھی یا نوازحکومت کے 5سال پورے ہو جائیں گے اور ہمارے بلوں میںنیلم جہلم کا سرچارج شامل ہوتا رہے گا۔ ایک اور منصوبہ جس پر حکومت نے بہت ہی شور مچایا تھا۔ اس کے لئے تقریبات منعقد ہوئیں۔ اخباروں کے خصوصی ایڈیشن نکالے گئے۔ ٹی وی پر پراپیگنڈہ کیا گیا اور دعوے کئے گئے کہ اس پلانٹ سے 2 ماہ کے اندر بجلی مہیا ہونے لگے گی اور آج تقریباً ڈیڑھ سال ہو چکا ہے‘ کوئی نہیں جانتا کہ وہاں سے بجلی پیدا بھی ہو گی یا نہیں؟ اور کیا وہ پلانٹ قابل استعمال بھی رہ گیا ہے یا سکریپ میں بدل چکا ہے؟ اس حکومت کی اہلیت کا اندازہ تو اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کے نرخ حالیہ تاریخ کی کم ترین سطح پر آ چکے ہیں اور وزیراعظم فخر سے دعوے کرتے ہیں کہ میں نے تیل کی خریداری میں ہونے والی بچت‘ عوام کو منتقل کر دی ہے۔ مگر اسحق ڈار ہیں کہ کوئی بھی سہولت عوام کو پہنچانا گناہ سمجھتے ہیں۔ وزیراعظم نے تیل کے نرخوں میں 7روپے کمی کی‘ تو ڈار صاحب نے ساتھ ہی 10فیصد سیلز ٹیکس بڑھا دیا۔ گویا حکومت کے خزانے میں تو پیسہ کم جائے گا لیکن عوام کی جیبوں سے نکلتا رہے گا۔
دنیا بھر کا تجارتی اصول ہے کہ جب سرمائے کی کمی ہو جائے‘ تو کسی نہ کسی طریقے سے اس کمی کو دورکرتے ہوئے‘ کارکردگی اور پیداوار کو بہتر بنایا جاتا ہے۔ اس طرح انتہائی بری حالت میں آئے ہوئے کارخانے بھی چل جاتے ہیں۔ امریکہ کی فورڈ کمپنی کی تاریخ یہی ہے۔ کمپنی کے بانی نے کاروباری بحران سے مایوس ہو کر‘ سٹاف اور اخراجات میں کمی کرنا شروع کر دی۔ اسی دوران ان کے صاحبزادے فورڈ جونیئر کو فیکٹری کا چارج لینا پڑا۔ اس نے آتے ہی پرانا سٹاف بحال کر کے‘ تیزرفتاری سے پیداوار شروع کر دی اور بڑی اور مہنگی کاریں بنانے کے ساتھ ساتھ چھوٹی کاریں بھی بنانا شروع کر دیں۔ جن کے دھڑادھڑ آرڈر آنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے‘ فورڈکمپنی کا کاروبار چل پڑا۔ اس کے ساتھ ہی فورڈ کمپنی کے نئے ماڈل‘ عوام میں مقبول ہو گئے ‘ ان کاروں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہونے لگا اور کمپنی خسارے سے نکل کر منافعے میں آ گئی۔ ملکوں کے معاملات بھی اس سے مختلف نہیں ہوتے۔ پاکستان بھی بظاہر بحران میں گھرا نظر آ رہا ہے۔ محض اچھی انتظامی صلاحیتوں کے ذریعے اسے مشکلات سے نکالا جا سکتا ہے۔ عوام اپنی بساط سے بڑھ کرٹیکس دے رہے ہیں۔ اگر یہ سارا ٹیکس ملکی خزانے میں چلا جائے‘ تو حکومت کو پیسے کی کمی نہیں رہ جائے گی۔ وہ نہ صرف پٹرول کے لئے وافر اخراجات جمع کر ے گی‘ بلکہ بجلی کے لئے نئے منصوبوں کی تعمیر بھی ہو جائے گی۔ کالاباغ ڈیم اب ایک ہٹ دھرمی بن کر رہ گیا ہے۔ سندھ والے سمندر میںڈالنے کے لئے جتنا پانی مانگتے ہیں‘ انہیں دینے کے بعد بھی کالاباغ ڈیم میں پانی محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ صرف ایک ڈیم ہی کیا؟ درجنوں دوسرے ڈیم تیار کر کے‘ ہم ملک میں جگہ جگہ پانی کے ذخیرے بنا سکتے ہیں۔ جہاں سے بوقت ضرورت پانی آتا رہے گا۔ ہمارے پاس نہ تو پانی کی کمی ہے اور نہ ہی بارشوں کی۔ ہر دوسرے تیسرے سال ایک زبردست بارش آ جاتی ہے۔ جس سے ہم پانی کے ذخیرے بھر سکتے ہیں۔ دریائوں کی طغیانیاں‘ ہمارے لئے بے شمار نعمت ہیں۔ ہم ان سے اپنے گھر اور کھڑی فصلیں تباہ کر لیتے ہیں مگر ذخیرہ نہیں کرتے۔ ورنہ چولستان اور تھر میں پانی لے جا کر‘ ہم ان صحرائوں کو بھی سرسبز کر لیتے اور شاید ہمارے ان علاقوں میں موسم بھی بدل جاتا اور درختوں کی کثرت ‘ بارشوں کا ذریعہ بن جاتی۔ ہم پر پانی کی جو افتاد آنے والی ہے‘ یہ قدرت کی طرف سے نہیں‘ مین میڈ ہے۔ ہمارا کوئی بحران بھی قدرت نے مسلط نہیں کیا۔ یہ ہماری نااہلیوں کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کے پاس ضرورت کی بجلی پیدا کرنے کی تمام مشینری موجود ہے۔ آج پیداواری یونٹوں کو تیل مہیا ہونے لگے‘ تو بجلی کی پیداوار ہماری ضرورت کے مطابق ہو سکتی ہے۔ یہ صرف نااہلی کا نتیجہ ہے کہ تیل سستا ہو رہا ہے۔ لیکن نجی کمپنیوں کو حسب ضرورت تیل کی فراہمی نہ کر کے‘ ہم پر لوڈشیڈنگ مسلط رکھی گئی ہے۔ آگے چل کر بھی اس سے نجات کا کوئی راستہ نہیں۔ لوڈشیڈنگ اور پٹرول کی چوربازاری‘ اب ہمارامقدر بن چکی ہیں۔ ماہرین کی رائے ہے کہ اگر ہم نے پانی کے ذخیرے تعمیرکرنے کا سلسلہ بروقت شروع نہ کیا‘ تو پاکستان میں ایسا قحط پڑے گا کہ لوگ صومالیہ کو بھول جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں