محمود غزنوی نے سومنات پر سترہ حملے کئے۔ ہر باراونٹوں اور گھوڑوں پر سونا لاد کر لے گیا۔ کراچی پر اسلام آباد کی سترہ حکومتیں‘ سترہ یلغاریں کر چکی ہیں۔ ہر حکومت‘ ہر بار خالی ہاتھ ہی گئی۔ کراچی شہر ہی ایسا ہے۔ غریبوں کا پیٹ بھر دیتا ہے۔ حکومتوں کو خالی ہاتھ واپس روانہ کرتا ہے۔ موجودہ حکومت '' سابقائوں‘‘ سے اس لئے مختلف ہے کہ اس میں وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف دونوں ایک پیج پر ہیں۔ اندرون ملک عموماً ایک ساتھ ہی تقریبات میں پہنچتے ہیں۔ ایک ساتھ میٹنگوں میں بیٹھتے ہیں۔ ایک ساتھ کراچی جاتے ہیں۔ واپس بھی ایک ساتھ ہی آتے ہیں۔ کوئی ایک جھینگا یا مچھلی خریدنے کے لئے رک جائے‘ تو اور بات ہے۔ حالیہ دورہ کراچی میں بھی یہ دونوں ایک ہی پیج پر رہے۔ لیکن جب ٹیلی ویژن چینلز پر ٹکِر دیکھے‘ تو ذہن میں عجیب سے وسوسے پیدا ہونے لگے۔ کہیں انہوں نے پیج تو نہیں بدل لیا؟ ایک کی جگہ‘ دوسرے کے پیج پر تو نہیں آ گئے؟ ایک دوسرے کا پیج اٹھا کر‘ الگ الگ تو نہیںنکل گئے؟ کراچی میں سب کچھ ہو سکتا ہے۔ آپ ہی دیکھئے کہ کونسا ٹکر‘ کس کے نام سے آنا چاہیے تھا؟ ایک ٹکر آیا ''پولیس کو غیر سیاسی اور بااختیار بنانا ضروری ہے۔‘‘ میں نے سوچا کہ یہ وزیراعظم کا بیان ہو گا۔ اگلے ٹکر سے پتہ چلا کہ یہ بیان جنرل راحیل شریف کا ہے۔ ایک اور ٹکر آیا ''قومی ایکشن پلان‘ حکومت کا نہیں ریاست کا ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ حتمی فیصلہ ہے۔‘‘ سوچا یقینا یہ بیان چیف آف آرمی سٹاف کا ہو گا۔ جب نام آیا تو وزیراعظم نوازشریف کا تھا۔ذہن میں طرح طرح کے وسوسے پیدا ہونے لگے۔ یہ ہو کیا گیا ہے؟ کیا انہوں نے آپس میں اپنے کام بدل لئے ہیں؟ ایک نے دوسرے کے پیج پر بسیرا کر لیا ہے؟ دونوں نے یک جان و دو قالب کا تصور پیدا کرنے کے لئے ''تبادلہ خیال‘‘ تو نہیں کر لیا؟ یعنی دونوں نے اپنا اپنا خیال ایک دوسرے سے بدل لیا ہو؟ ع
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
جہاں تک مجھے یاد ہے‘ گزشتہ دورے میں تو یہی فیصلہ ہوا تھا کہ شہر کا امن تباہ کرنے والے دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ اس سلسلے میں اعلیٰ ترین ایجنسیوں کی ڈیوٹی لگائی گئی۔ انہوں نے دوسال پرانے کیس کا سراغ لگانے کے لئے اعترافی بیان دینے والے ایک ملزم کو تحویل میں لے کر‘ جو بیانات لئے‘ اس میں حیرت انگیز انکشافات سامنے آئے۔ سردی میں سارے ملک کے رونگٹے پہلے ہی سے کھڑے تھے۔ یہ انکشافات پڑھ کر مزید کھڑے ہو گئے۔ سچی بات ہے‘ حیرت بھی ہوئی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی‘ ایسے سفاک اور بے رحم لوگ پائے جاتے ہیں‘ کہ ڈیڑھ سو سے زیادہ عورتوں اور مردوں کو ایک ہی چھت کے نیچے بند کر کے‘ دروازوں کو تالے لگا دیئے گئے اور پھر چاردیواری کے اندر بھڑکتے ہوئے شعلوں نے‘ عمارت کو اجتماعی تندور میں بدل دیا۔ ایسا بھیانک واقعہ پہلے سننے میں نہیں آیا۔ آج کی دنیا میں داعش کو سب سے زیادہ بے رحم اور سفاک سمجھا جاتا ہے۔ مگر اس نے بھی اپنی درندگی کا مظاہرہ کرنے کی خاطر‘ صرف ایک شخص کو جنگلے میں بند کر کے‘ آگ میں جلایا اور ویڈیو بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر دی۔ کمزور دل کے لوگ صرف اسی کو دیکھ کر کلیجہ پکڑ رہے ہیں۔ان کے دلوں میں ایسی وحشیانہ حرکت کرنے والوں سے شدید نفرت پیدا ہو رہی ہے۔ داعش والوں کی باقی حرکتیں بھی اسی طرح کی ہیں کہ وہ بیرونی شہریوں کو دو دو چار چار کی تعداد میں پکڑ کر یا گولیوں سے بھون دیتے ہیں یا گردنیں کاٹ دیتے ہیں۔ تصویریں ان کے ملکوں کو بھیج دیتے ہیں اور معاوضے میں بھی کچھ طلب نہیں کرتے۔ ہمارے اسلامی دہشت گردوں کی طرح نہیں کہ لوگوں کو زندہ سلامت پکڑ کے‘ ان سے بھاری تاوان وصول کرتے ہوں۔ داعش والے ایسا نہیں کرتے۔ وہ اپنے یرغمالیوں کو مفت میں ہلاک کرتے ہیں اور کوئی احسان نہیں جتاتے۔ ہمارے طالبان توبعض اوقات تاوان کی رقم بھی وصول کر لیتے ہیں اور بعد میں یرغمالی کو بھی مار دیتے ہیں۔ گویا وہ ظلم اور قتل بھی مفت میں نہیں کرتے۔ معاوضہ‘ ہلاک شدگان کے اہل خاندان سے وصول کرتے ہیں۔بات کہاں سے کہاں نکل گئی؟ یہ تو ہونا ہی تھا۔ کراچی جائیں اور بات کہیں سے کہیں نہ نکلے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کراچی میں یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک یا دو دن ٹارگٹ کلنگ کے ناغے پڑ جائیں۔ لیکن بات کا ایک جگہ سے دوسری جگہ‘ جا پہنچنابند نہیں ہو سکتا۔ کراچی کا سارا کاروبار ہی‘ بات نکلنے پر چلتا ہے۔ باقی کوئی کاروبار اچھی طرح سے نہیں چل رہا۔ سب کے حالات خراب ہیں۔ ملیں بند ہیں۔ چھوٹے کارخانے بند ہیں۔ بازاروں میں مندا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ یہاں کا عام مشغلہ ہے۔ ایسے ماحول میں صرف ایک طرح کی پیداوار باقی رہ سکتی ہے اور وہ ہے باتوں کی پیداوار۔ باتیں ہی سنائی جاتی ہیں۔ باتیں ہی کھائی جاتی ہیں۔ باتیں ہی چبائی جاتی ہیں اور باتیں ہی پی جاتی ہیں۔ آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ ''فلاں شخص نے بڑی زہریلی باتیں کیں۔ لیکن میں پی گیا۔‘‘ سمجھدار لوگ ہیں۔ صرف زہریلی باتیں ہی پیتے ہیں‘ زہر نہیں پیتے۔ مگر کراچی میں سمجھداری بھی کسی کام نہیں آتی۔ زندہ رہنے کے لئے کراچی کا ہر شہری‘ اپنے طور پہ ہر طرح کی احتیاط کرتا ہے۔ تدبیر کرتا ہے۔ گلیوں میں بیریئر لگاتا ہے۔ گھر پہ گارڈ رکھتا ہے۔ یہ سب کچھ کر کے‘ موت بھی ڈھب کی نصیب نہیں ہوتی۔ موٹرسائیکلوں پر شوٹر آتے ہیں اور اچھے بھلے بندے کو گولیوں سے بھون کر ‘ سڑک پر پھینک جاتے ہیں۔ بدبخت یہ بھی نہیں سوچتے کہ کس کو‘ کہاں مارنا چاہیے؟ مارنا ہی ہے‘ تو کسی باغ باغیچے میں ہی پھینکو۔ سڑک پر پھینکنا ہے‘ تو بیوٹی پارلر کے سامنے ہی پھینک دو۔ کراچی والے بہت صاحب ذوق لوگ ہوا کرتے تھے۔ ٹھیک ہے‘ اب وہاں کے نوجوانوں نے قتل و غارت گری کا مشغلہ اختیار کر لیا ہے۔ لیکن بدذوق تو نہیں ہونا چاہیے۔ قتل کے لئے روانہ ہونے سے پہلے مشتاق احمد یوسفی کے دوچار صفحات ہی پڑھ لیا کریں۔ جون ایلیا کا کوئی شعر ہی یاد کر لیا کریں۔ اس سے فرق تو کچھ نہیں پڑے گا۔ لیکن خوش ذوقی ظاہر ہو جائے گی۔ منٹو نے ایک جگہ لکھا ہے کہ'' اس بات کا رنج نہیں کہ لوگ مجھے پتھر مارتے ہیں۔ رنج اس بات کا ہے کہ ڈھنگ سے نہیں مارتے۔ اوچھا وار کرتے ہیں۔‘‘ کراچی والے بھی ڈھنگ سے مارنا بھول گئے۔ وہ بھی اب اوچھے وار کرنے لگے ہیں۔ جو سلوک کراچی والے پیپلزپارٹی کے ساتھ کر رہے ہیں‘ اس میں خوش ذوقی کا شائبہ تک نہیں۔ اس سے زیادہ بدذوقی کیا ہو گی کہ 100برس کے‘ ایک بزرگ کو عزت اور آرام سے رکھنے کے بجائے‘ چیف منسٹر ہائوس میں بٹھا دیا۔ اوپر سے گورنر عشرت العباد لگا دیا۔ باس آصف زرداری کو بنا دیا۔ ظلم کی بھی حد ہوتی ہے۔
خیالات ہیں کہ ٹکتے ہی نہیں۔ کالم شروع کیا تھا ایک پیج سے۔ مگر اسی پیج پر نہیں ٹک رہا۔ جب بھی ٹکانے کی کوشش کرتا ہوں‘ پھسل کر کسی اور پیج پر چلا جاتا ہے۔ اب میں زور لگا کر اسے مطلوبہ پیج تک محدود کرتے ہوئے‘ یہ جاننے کی کوشش کروں گا کہ ایک پیج پر ہونے کامطلب کیا ہے؟ سیاست میں جب یہ اصطلاح استعمال کی جائے ‘ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دونوں ایک ہی مقصد‘ ہدف یا منزل پر متفق ہو چکے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم نے بارہا کہا ہے کہ وہ اور فوج ایک ہی پیج پر ہیں۔ گزشتہ روز وہ چیف آف آرمی سٹاف کے ساتھ کراچی گئے۔ ان دونوں کے بیانات نے مجھے چکرا کے رکھ دیا۔ ریاست میں دہشت گردی کے خاتمے کی بات‘ چیف آف آرمی سٹاف کے کرنے کی تھی۔ وہ وزیراعظم کے نام سے میڈیا پر آئی اور پولیس کو سیاست سے پاک کرنا‘ وزیراعظم کا کام تھا۔ یہ بات میڈیا میں جنرل راحیل شریف کے نام سے آئی۔ یہ ایک پیج پر ہونے کا اثر تو نہیں؟ حکمرانی کی دنیا بھی عجیب ہے۔ اس میں ایک پیج پر صرف ایک ہی رہ سکتا ہے۔ جمہوری نظام ہے‘ تو پیج وزیراعظم کا اور فوجی حکومت ہے‘ تو پیج چیف آف آرمی سٹاف کا۔ وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف‘ دونوں کا ایک پیج پر ہونا‘ اصولی لحاظ سے بھی درست نہیں۔ کہاں وزیراعظم؟ اور کہاں گریڈ بائیس تئیس کا ایک افسر؟ دونوں ایک پیج پر کیسے آ سکتے ہیں؟ حفظ مراتب بھی کوئی چیز ہے۔ وزیراعظم کو اگر ایک پیج پر آنا ہے‘ تو جمہوریت کے ساتھ آئیں۔ عوام کے ساتھ آئیں۔ مظلوموں کے ساتھ آئیں اور حکومتی نظم و نسق چلانے کی ذمہ داری پوری کریں۔ یہ ٹھیک ہے کہ وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف ‘ ایک پیج پر آ گئے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ڈیوٹیاں بھی ایک دوسرے کے ساتھ بدل لیں۔ ایسا ہوتا نہیں۔ ڈیوٹی کا کام ایک ہی کو سجتا ہے۔ایک کی بات دوسرا کرنے لگے‘ تو پھر کچھ کچھ ہونے لگتا ہے۔ کیا واقعی کچھ کچھ ہونے لگا ہے؟ یا مجھے مغالطہ لگ رہا ہے؟