حکومت کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف جتنی تیاریاں اور ایکشن پلان بنائے جا رہے ہیں‘ ان کے تحت کب کوئی ایکشن ہوتا ہے؟ اس کا تو ابھی تک پتہ نہیں لیکن دہشت گرد مسلسل ایکشن میں ہیں۔ کوئی مہینہ‘ کوئی عشرہ‘ کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا ‘جب دہشت گرد اپنی موجودگی کا احساس نہ دلاتے ہوں۔کل ہی چیف آف آرمی سٹاف ‘ جنرل راحیل شریف نے کراچی میں پولیس کو غیر سیاسی بنانے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا تھا کہ جرائم سے غیر سیاسی انداز میں نمٹنا ہو گا۔ جو تشخیص ایک فوجی لیڈر نے قلیل عرصے میں کر لی ‘ ہمارے سیاسی حکمرانوں کو‘ اس کا آج تک پتہ نہیں چلا۔اس کی وجوہ ہیں۔2001ء سے لے کر اب تک جتنی حکومتیں آئیں‘ ان میں سے کسی نے سنجیدگی سے دہشت گردی ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے برعکس مختلف حکومتوں نے‘ مختلف طریقوں سے دہشت گردوں کو اپنی ''نیک نیتی‘‘ کا یقین دلائے رکھا۔گویا ایک طرح سے‘ غیر تحریری معاہدہ ہوتا رہا‘ جس کا مفہوم یہ رہتا کہ '' تم ہمیں کچھ نہ کہو‘ ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے‘‘۔ کسی نہ کسی انداز میں یہی ترکیب استعمال ہوتی رہی اور سانحہ پشاورکے بعد‘ فوج جس طرح عزم صمیم کے ساتھ ‘ دہشت گردوں کے خلاف میدان میں اتری‘ یوں لگتا ہے کہ اسے دیکھ کر‘ دہشت گردوں سے زیادہ حکومت کو فکر پڑ گئی ہے۔ورنہ امن و امان کی بحالی کے لئے‘ حکومت کو نئی تیاریوں کی ضرورت ہی کیا تھی؟ یہ تو اس کی مستقل ڈیوٹی ہے۔ کسی نئی تیاری کی ضرور ت تھی‘ نہ کوئی نیا ادارہ بنانا تھا۔ حکومت کا کام ہے کہ امن و امان برقرار رکھے اور جرائم پیشہ عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائے۔سانحہ پشاور نے‘ اس ضرورت کا شدت سے احساس دلایا کہ اب حکومت کے پاس‘ اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف فوری اور فیصلہ کن کارروائی شروع کر دے۔پشاور میں فیصلہ ہو جانے کے بعد‘ اگلے ہی دن سے ایکشن شروع ہو جانا چاہئے تھا۔ وہ کیوں نہیں ہوا؟
اور یہ کیوں ہو رہا ہے؟ کہ آج دو مہینوں کے بعد بھی‘ میٹنگیں ہی میٹنگیں ہو رہی ہیں۔ میدان میں کوئی نہیں اترا۔میدان میں صرف دہشت گرد دکھائی دیتے ہیں۔کل ہی مجھے بتایا گیا کہ مولانا طارق جمیل کی تقریروں اور لیکچروں کی‘ نہ آڈیو مارکیٹ میں دستیاب ہے اور نہ ویڈیو۔ بتانے والے صاحب نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے لاہور میں کوئی مارکیٹ نہیں چھوڑی‘ جہاں مولانا کے خطاب اور وعظ تلاش نہیں کئے۔وجہ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ حکومت نے مختلف علما کرام اور مولویوں کی غیر ذمہ دارانہ‘ اشتعال انگیز‘ فرقہ وارانہ اور نفرت پھیلانے والی تقریروں پر پابندی لگا دی ہے۔ اس حکم پر اتنی سختی سے عمل درآمد ہو گیا کہ بری تقریروں کے ساتھ‘ اچھی تقریریں بھی مارکیٹ سے غائب ہو گئیں۔ ثابت کیا ہوا؟ اگر حکومت اور پولیس چاہیں تو اپنے احکامات پر ‘چند روز کے اندر عمل کرا سکتی ہیں۔دہشت گردی کا جرم تو نا قابل معافی ہے۔ اس کو ختم کرنے کے لئے‘ ارادے کی پختگی کیوں نظر نہیں آرہی؟پہلی وجہ تو مجھے یہ نظر آتی ہے کہ دہشت گردوں کا نشانہ ‘ یا تو عام شہری بن رہے ہیں یا فوجی۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ حکمرانی کے کھیل میں مصروف‘ کوئی بھی سیاست دان‘ دہشت گردوں کا نشانہ نہیں بنا؟پھر انہیں کیا پڑی کہ وہ دہشت گردوں کے ساتھ دشمنی پالتے پھریں؟ یوں لگتا ہے کہ دونوں کے درمیان‘ لکھے پڑھے اور کہے سنے بغیر ہی کوئی معاہدہ موجود ہے کہ'' تم ہمیں کچھ نہ کہو‘ ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے‘‘۔ عوام کی نمائندہ اور منتخب حکومت ‘ اپنے عوام کو اس بے رحمی سے‘ دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھ کر‘ خاموشی کیسے رہ سکتی ہے؟ اصل بات یہی ہے کہ ''جس تن لاگے سو تن جانے‘‘۔ دہشت گردوں نے عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ ان کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں۔پورے ملک میں کوئی جگہ ایسی نہیں‘ جہاں عوام خود کو دہشت گردوں سے محفوظ سمجھتے ہوں۔صرف فوج ہے‘ جو دہشت گردوں سے مقابلہ کر رہی ہے اوراپنا خون بھی بہا رہی ہے۔ حکمران‘ کوئی تیسرا فریق لگتے ہیں۔ جس روز دہشت گردوں نے شکار پور میںعبادت گزاروں کا قتل عام کیا‘ وہ پورے ملک میں ماتم کا دن تھا لیکن حکمران کراچی میں بیٹھے‘ اچھے اور برے کھانے پر اظہار خیال کر رہے تھے۔یہ تبصرے پڑھ کر‘ عوام کے دلوں پر کیا گزری ہو گی؟ خصوصاً شکار پور کے شہریوں پر ؟ اور ان شہیدوں کے اہل خاندان پر ؟ جنہوں نے اس دن‘ اپنے شہیدوں کی میتیں بھی نہیں دفنائی تھیں۔ بات یہ نہیں کہ پولیس‘غیر سیاسی ہو جائے۔ سوال یہ ہے کہ پولیس کو سیاست میں دھکیلتا کون ہے؟ پولیس کو سیاست کا شوق نہیں ہوتا۔ جہاں نوکری اور پوسٹیں لینے کے لئے‘ اہلیت کی بجائے سفارش سے کام چلتا ہو‘ وہاں پولیس والے غیر سیاسی کیسے ہو سکتے ہیں؟ جس دن سیاست دانوں نے پولیس کو یہ حکم دے دیا کہ وہ مزید دہشت گردی نہیں دیکھنا چاہتے۔ اگلے ایک ہفتے کے اندر اندر‘ دہشت گرد اس طرح غائب ہو جائیں گے‘ جیسے مولانا طارق جمیل کے وعظ اور تقریریں۔
شکار پور کے سانحے کوزیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ پشاور میں ایک اور سانحہ ہو گیا۔ وہاں بھی عبادت گزاروں کو بموں کا نشانہ بنا کر‘ مسجد کا صحن لاشوں‘ انسانی جسم کے اعضا اور خون سے لت پت کر دیا گیا۔ابھی وہاں کا خون صاف نہیں ہوا تھا کہ لاہور میں ایک اور خود کش حملہ ہو گیا۔جب شہروں میں‘ خصوصاً حساس مقامات پر‘ پولیس کو یہ حکم ہو کہ دہشت گردی برداشت نہیں کی جائے گی تو یہ کیسے ہو گیا؟ کہ لاہور کے حساس ترین علاقے میں ایک دہشت گرد‘ بقول پولیس‘ سات آٹھ کلو بارود اپنے جسم پر باندھ کر ‘ شہر کی سب سے بڑی پولیس لائن تک کیسے پہنچ گیا؟ قلعہ گجر سنگھ کی پولیس لائن جس جگہ پر واقع ہے‘ وہ انتہائی اہم اور حساس عمارتوں کے درمیان ہے۔ اس کے بالکل ساتھ ریڈیو پاکستان ہے۔ ریڈیو پاکستان کی عمارت سے متصل‘ پاکستان ٹیلی وژن ہے۔ریڈیو پاکستان والی سڑک کو عبور کریں تو آگے پریس کلب ہے۔ پریس کلب کے سامنے ہی امریکی قونصلیٹ ہے اور وہی سڑک آگے چل کر گورنر ہائوس میں داخل ہو جاتی ہے۔گورنر ہائوس سے ذرا آگے ‘مال روڈ پر نیوی کا مرکز ہے‘ جہاں ایک بار دہشت گردی ہو چکی ہے۔ تھوڑی دور آگے جا کر آئی بی کا ریجنل دفتر ہے۔ میں نے چند حساس مقامات گنوائے ہیں‘ جن کے درمیان دہشت گرد نے‘ پولیس لائن کے گیٹ کے قریب آکر دھماکہ کیا۔میرا سوال یہ ہے کہ میں نے جتنے حساس مقامات آپ کو گنوائے ہیں‘ دہشت گرد‘ ان میں سے کسی نہ کسی کے سامنے سے یقیناً گزرا ہو گا۔ ایسا کوئی راستہ پولیس لائنز کی طرف جاتا ہی نہیں‘ جس پر کوئی اہم یا حساس عمارت موجود نہ ہو۔سانحہ پشاور کے بعد ‘ سکیورٹی فورسز کو جس طرح ہائی الرٹ کیا گیا ہے ‘ اس کے ہوتے ہوئے‘ بارود سے لدا ہوا ایک دہشت گرد‘ مذکورہ مقامات کے سامنے یا قریب سے دندناتے ہوئے کیسے نکل گیا؟ کیا اسی کو ہی ہائی الرٹ کہتے ہیں؟
پولیس سے زیادہ‘ امن و امان کی فکر عوام کو ہوتی ہے۔اگر عوام اور حکومت ایک ہو جائیں تو پورا شہر ہی پہرے دار بن جاتا ہے۔ میری عمر کے لاہوری شہری‘ اس تجربے میں سے گزر چکے ہیں ۔ 1965ء میں جب جنگ شروع ہوئی تو ریڈیو پر ‘ دشمن کے جاسوسوں کی موجودگی کی اطلاع دی گئی۔ سارا لاہور‘ جاسوسوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا اور جتنے بھی اجنبی شہر میں موجود تھے‘ سب کو پکڑ کے پولیس کے حوالے کر دیا۔ان میں واقعی چند جاسوس بھی تھے‘ جو پکڑے گئے۔1970ء میں پیپلز پارٹی کی نئی نئی حکومت بنی اور اس نے پنجاب میں عوامی حقوق پر زور دینا شروع دیا تو پولیس نے ہڑتال کر دی۔ اس وقت کے گورنر‘ مصطفی کھر نے عوام سے مدد مانگ لی۔ کیا آپ یقین کریں گے؟ کہ جتنے دن پولیس کی ہڑتال رہی‘ لاہور میں چوری کی ایک چھوٹی سی واردات بھی نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ جیب کتروں نے بھی‘ اپنا کام چھوڑ دیا۔ اس آخری مثال سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت جب عوام کے مفادات کے لئے کام کرے ‘تو وہ کس طرح اس کی مدد کرتے ہیں؟ لیکن موجودہ حکومت اور عوام کے درمیان کون سی خیر سگالی پائی جاتی ہے؟ جس کی بنیاد پر عوام‘ حکومت کے دست و بازو بن کر میدان عمل میں نکلیں۔سانحہ پشاور کے زیراثر‘ عوام کے اندر بیداری اور غم و غصے کی جو لہر پیدا ہوئی تھی‘ حکومت نے دو مہینے خالی باتوں میں گزار کے‘ اس کا زور توڑ دیا ہے۔ عوام کے دلوں میں جو ولولہ اور جوش پیدا ہوا تھا‘ اس میں کمی آگئی ہے۔ لاہور کا آج کا واقعہ‘ اس کا کھلا ثبوت ہے۔ کیا جنرل راحیل شریف کو اندازہ ہے ؟کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ بلدیہ ٹائون کراچی کے سانحے پر دوسال کے بعد‘ جو تفتیشی رپورٹ عدالت میں آئی‘ اسے بھی ازسر نو تیار کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔کون کون سی مثال پیش کروں؟ عوام‘ دہشت گردوں کے خاتمے کی امیدیں ختم کر چکے ہیں ۔ انہوں نے اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔حکومت کے سارے محکمے‘ عوام کا خون نچوڑنے میں مصروف ہیں اور دہشت گرد ‘ خون بہانے میں۔عوام ‘کس سے منصفی چاہیں؟