لائوڈ سپیکروں کے غیرذمہ دارانہ استعمال پر پابندی کی شکایت کرتے ہوئے‘ مولوی حضرات نے مطالبہ کیا ہے کہ درود وسلام کے لئے لائوڈ سپیکر کے استعمال کی اجازت دے دینا چاہیے۔ کہا تو یہی جاتا ہے۔ لیکن ایسے لائوڈ سپیکروں سے تنگ آئے ہوئے عوام سے بھی پوچھ لیا جائے کہ انہیں درود و سلام کے پردے میں کیسی کیسی صوتی اذیتیں دی جاتی ہیں؟ پہلے تو ان حضرات سے پوچھنا چاہیے کہ رات کے 2بجے سے فجر کی اذان تک‘ درود و سلام کس کو سنانے کے لئے پڑھا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے لوگ کہیں کہ یہ صرف نیک اور عظیم ہستیوں اور رسول اللہﷺ کے لئے ہوتا ہے۔ لوگوں سے پوچھنا چاہیے کہ ایسی صورت میں لائوڈ سپیکروں کی کیا ضرورت ہے؟ نبی پاکﷺ کو دل میں بھی یاد کر لیں تو انہیں خبر ہو جاتی ہے۔ اپنے کمرے کی جائے نماز پر بیٹھ کر درود و سلام کا ورد کریں‘ تو وہ بھی اس مقدس ہستی کو پہنچ جاتا ہے۔ پورے محلے کے بوڑھوں‘ بیماروں‘ طالب علموں اور صبح مزدوری پر جانے والوں کی نیند زبردستی اڑانے کی کیا ضرورت ہے؟ ویسے بھی اسلام دین فطرت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اذیت دے کر خوش نہیں ہوتا۔ہمارا دین رحمتوں اور شفقتوں کا دین ہے۔ دیوی دیوتائوں کو خوش کرنے کے لئے مختلف اذیتیں اٹھانے کا تصور ہندوئوں کے ہاں پایا جاتا ہے یا پھر پسماندہ افریقی معاشروں میں‘ جہاں ابھی علم کی روشنی کا گزر نہیں ہوا۔یہ مسئلہ سنی مسلمانوں کے اہم مذہبی مرکز کے سربراہ اور جامعہ الاظہر کے خطیب اعلیٰ شیخ احمد الطیب نے اپنے ایک حالیہ خطبے میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے قرآن اور پیغمبراسلامﷺ کی زندگی سے متعلق تاریخی ناسمجھی کی وجہ سے‘ اسلام کی عدم برداشت پر مبنی تشریح کو رد کیا۔ فرانسیسی خبررساں ایجنسی‘ اے ایف پی کے مطابق جامعہ الاظہر کے خطیب‘ سعودی عرب کے شہر مکہ میں ''اسلام اور دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے زیر عنوان ایک کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ شدت پسندی کی بنیادی وجوہ ‘قرآن و سنت کی غلط تشریحات ہیں۔انہوں نے مذہبی برداشت کے فروغ کے لئے اسلامی تعلیمات کی تشریح کے انداز میں اصلاحات کی اپیل کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم امہ کے لئے اتحاد بحال کرنے کا واحد راستہ سکولوں اور جامعات کے اندر ایسی تشریح کی حوصلہ شکنی کرنا ہے‘ جو دیگر مسلمانوں کو بے عقیدہ قرار دیتی ہے۔ شیخ احمد الطیب نے دولت اسلامیہ کی جانب سے اردن کے ایک پائلٹ کو زندہ جلانے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔اتوار کو شروع ہونے والی مکہ کانفرنس میں انہوں نے دولت اسلامیہ کا نام لیا اور ان دہشت گردوں کی مذمت کی‘ جنہوں نے ان کے بقول ظلم و بربریت کا راستہ اپنا لیا ہے۔ جامعہ الاظہر کے خطیب اعلیٰ نے اپنے خطاب میں خطے کے عدم استحکام کا ذمہ دار ایک سازش کو قرار دیا‘ جو بقول ان کے صہیونیت کا ساتھ دینے والا نیا عالمی نو آبادیاتی نظام ہے۔ سعودی عرب کے نئے فرمانروا‘ سلمان بن عبدالعزیز نے کہا کہ انتہاپسند مسلمان‘ نہ صرف مسلمانوں کے لئے خطرہ ہیں بلکہ دنیا بھر میں مذہب کا امیج تباہ کر رہے ہیں۔
اوسلو ناروے سے خبر آئی ہے کہ وہاں کے مسلمانوں نے یہودیوں سے اظہاریکجہتی کے لئے ایک مہم کا آغاز کیا ہے۔ ناروے میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمانوں نے‘ اوسلو میں یہودیوں کی مرکزی عبادت گاہ کے باہر امن کا دائرہ بنایا۔ یہ غیرمعمولی مظاہرہ‘ یورپ میں یہودیوں پر حالیہ حملوں کے واقعات کی مذمت میں کیا گیا۔ اوسلو کے یخ بستہ ماحول میں‘ یہودیوں کی سفید رنگ کی مرکزی عبادت گاہ کے باہر‘ ایسے مناظر پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے۔ عبادت گاہ کے گرد پہرہ دینے والے ایک ہزار سے زیادہ مسلمانوں کے اس مظاہرے کو پورے یورپ میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ متعدد غیرسرکاری تنظیموں اور افراد نے فیس بک کے ذریعے امن مظاہروں کی کال دی تھی۔ گزشتہ ہفتے ہمسایہ ملک ڈنمارک میں ایک فلسطینی مسلمان نے‘ یہودی عبادت گاہ کے باہر کھڑے محافظ کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ اس سے پہلے اس نے ڈنمار ک میں آزادی اظہار کے لئے منعقد ہونے والی تقریب پر‘ دھاوا بول کر ایک فلمساز کو بھی ہلاک کر دیا تھا۔ گزشتہ ماہ پیرس کے میگزین چارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملہ کر کے‘ 17فرانسیسی شہریوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ سارے حملہ آور مسلمان تھے۔ ان واقعات کے نتیجے میں پورے یورپ کے اندر مسلم یہودی کشیدگی پھیلنے لگی ہے۔ ناروے کے مسلمان نوجوانوں نے اتنی بڑی تعداد میں یہودیوں کے ساتھ اظہاریکجہتی کر کے‘ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کی اکثریت امن اور برداشت کی علمبردار ہے، جبکہ شدت پسندوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ ناروے کے چیف ربی مائیکل میلکوئر جذباتی ہو گئے۔ انہوں نے عبادت گاہ سے باہر کھلی فضا میں ہی عبادت کے گیت گائے اور یہودیوں اور مسلمانوں پر مشتمل سارے مجمعے نے مل کر یہودیوں کا یہ گیت پڑھا۔
شدت پسندی کے خلاف‘ مسلمانوں کے حقیقی جذبات کے مظاہرے‘ جن میں سے کچھ پاکستان میں ہوئے اور کچھ یورپ میں‘ ایک ہی پیغام دیتے ہیں کہ مذاہب کے درمیان تصادم پر کوئی مذہب اصرار نہیں کرتا۔ اس کے برعکس ہر مذہب نے انسانیت سے پیار اور نفرت اور غصے سے پرہیز کرنے کی ہدایت کی ہے۔اپنے اپنے خدا اور پیغمبروں پر ایمان رکھنے والوں کا بنیادی مذہب ایک ہی ہوتا ہے۔ کوئی سچا مذہب ‘ دوسرے انسانوں سے نفرت کی تعلیم نہیں دیتااور اسلام تو سارے مذاہب کے ساتھ اخوت اور محبت کا حکم دیتا ہے۔ کلام پاک کی ہدایات اور رسول اللہ ﷺ کی عملی زندگی میں ہمیں جا بجا ایک ہی سبق دیا گیا ہے کہ مظلوموں کی مدد کرو۔ مسکینوں کو سہارا دو۔ یتیموں کی دادرسی کرو۔ بیوائوں کو تحفظ دو۔ اس سلسلے میں مذہب کی کوئی تقسیم روا نہیں رکھی گئی۔ حضرت علیؓ کا یہ واقعہ تو تمام مسلمانوں کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ کفار کے ساتھ جنگ کے دوران‘ وہ ایک کافر کو زمین پر گرا کر اس کے اوپر بیٹھ گئے۔ تلوار سے اس پر وار کرنے ہی جا رہے تھے کہ اس نے حضرت علیؓ کے ساتھ ایک اشتعال انگیز حرکت کر دی۔ حضرت علیؓ نے اسی وقت اسے اپنے شکنجے سے نکال دیا اور کہا کہ جب تک تم نے مجھے اشتعال دلانے والی حرکت نہیں کی تھی‘ میں اپنے خدا کے حکم کی تعمیل کر رہا تھا، لیکن تمہاری نازیبا حرکت کے بعد جو غصہ آیا‘ وہ میرا ذاتی ہے اور مجھے اپنا ذاتی غصہ نکالنے کے لئے کسی انسان کو قتل کرنے کا حکم نہیں۔ ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد مصطفیﷺ‘ ان کے صحابہ کرامؓ کی حقیقی زندگی اور احادیث انسان پروری‘ انسان دوستی اور رحم دلی سے بھرے ہوئے ہیں۔ فرقہ واریت کا شر پھیلا کر‘ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قتل پر اکسانے والے نام نہاد علما‘ کسی بھی اعتبار سے حقیقی اسلام کے ترجمان نہیں کہلا سکتے۔جو شخص دین کے پردے میں مسلمان کو مسلمان کے قتل یا اسے اذیت دینے کا سبق پڑھاتا ہے‘ اس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ خصوصاً داعش کے لیڈروں اور دوسرے ملکوں میں ان کے حامیوں نے شقی القلبی‘ وحشت و بربریت اور درندگی کے جو مظاہرے شروع کر رکھے ہیں، ان کا تو اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ وہ مسلمان اور غیر مسلم کی تمیز کئے بغیر‘ قیدیوں کو بلاامتیاز طرح طرح کے مظالم ڈھا کر قتل کر رہے ہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ جو نوجوان داعش کے نام نہاد اسلامی نعروں سے متاثر ہو کر ان کے ساتھ مل کر جنگ لڑنے کے لئے آتے ہیں‘ ان کا گرم جوشی سے خیرمقدم کیا جاتا ہے، لیکن جب بعض نوجوان گھر سے دوری پر اداس ہو کر واپس جانے کی کوشش کرتے ہیں‘ تو انہیں بے رحمی کے ساتھ گولیوں سے اڑا دیا جاتا ہے۔ ایسی تعلیم کوئی مذہب تو کیا؟ شیطانی عقائد پر یقین رکھنے والے بھی نہیں دیتے ہوں گے۔ پاک فوج نے وطن عزیز کو دہشت گردی سے پوری طرح صاف کرنے کے لئے جس جہاد کی ابتدا کی ہے‘ اس میں ہمیں فوج اور اس کے احکامات اور ہدایات کی روشنی میں کام کرنے والے ہر شخص کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور جو شخص دیگر فرقوں یا کلمہ گو مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاتا ہے‘ اسے وہیں دبوچ کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سپرد کر دینا چاہیے۔ اس وقت دنیا بھر کے اسلام دشمن ایجنٹوں کے ہرکارے‘ پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض یقینا ایسے ہیں‘ جنہوں نے مولویوں کا روپ دھار رکھا ہے۔ عام شہریوں کو ہمہ وقت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور جہاں بھی کوئی مشکوک شخص نظر آئے‘ اسے فوری طور پر دور کھڑے ہو کر گھیر لینا چاہیے اور تربیت یافتہ افرادی قوت کو موقع دینا چاہیے کہ اگر وہ خودکش بمبار ہے‘ تو اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے ذریعے اسے غیرمسلح اور قابو کریں اور اس میں جہاں تک ممکن ہو‘ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گرد اپنے جسم پر بندھے ہوئے بم کا دھماکہ کر کے گھیرنے والوں کو ہی شہید نہ کر دے۔ پاکستان میں اس دوستی‘ بھائی چارے‘ فرقہ ورانہ اخوت اور وطن سے محبت کے ان جذبات کا احیاء کرنے کی ضروری ہے‘ جو آزادی حاصل کرنے کے وقت تھے۔ میں نے پاکستانی عوام کو تباہ حال مہاجرین کے کیمپوںمیں جا کر‘ ان کے ساتھ کھانے کھاتے اور اپنا گھریلو سامان تقسیم کرتے ہوئے دیکھا ہے اور ایسے ایسے غریب گھرانوں نے بے گھر ہو کر آنے والے مہمانوں کو پختہ اور شاندار خالی پڑے ہوئے متروکہ گھروں میں داخل ہونے کی ترغیب دی‘ جن کے اپنے گھر چھوٹے اور کچے تھے۔ یہ سب کچھ ہمارے ہی وطن میں ہوا تھا۔ کاش! محبتوں کے یہی چشمے دوبارہ پھوٹ پڑیں؟ آخر میں اقبالؒ کا ایک شعر ؎
یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے‘ جو روح کو تڑپا دے