کرکٹ بھی خوب کھیل ہے۔ اپنا جلوہ دکھانے پہ آئے تو ورلڈ کپ کی بہترین ٹیمیں ڈیڑھ سو کے قریب سکور کر کے‘ فیصلہ کن میچ کھیل جاتی ہیں۔ ورلڈ کپ کے لئے جاری ٹورنامنٹ میں چار سو سے اوپر کی اننگز بھی کھیلی گئی۔ کرکٹ کے کھیل کا مزہ ہی یہ ہے کہ اس کے بارے میں پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ پی سی بی کے چیف سلیکٹر‘ معین خان کو خدا نے عزت و آبرو کے ساتھ وطن واپس آنے کا موقع دیا‘ تو شاید اسی شام ایک ٹیلیویژن چینل پر براجمان دکھائی دیے۔ ان کے ساتھ جو ہو چکی تھی‘ اندازہ تھا کہ فی الحال وہ چند روز تک منظرعام پر نہیں آئیں گے‘ لیکن انسان کا اپنا اپنا اعتماد ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف ٹیلیویژن پر نمودار ہوئے بلکہ اہل وطن کو ڈانٹ پلائی کہ انہوں نے معین خان جیسے ہیرو کو جوا خانے میں جانے پر‘ صحیح عزت نہیں دی۔ ورنہ وہ حق دار تھے کہ ان کی پذیرائی ہیرو کی طرح کی جاتی۔ اس پر دوبارہ بات کریں گے۔ انہوں نے اگلے روز یعنی آج ہونے والے کھیل میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے کھلاڑیوں کے بارے کچھ پیش گوئیاں کیں اور سب سے اہم بات جو انہوں نے پاکستانی ٹیم کو سمجھائی‘ وہ یہ تھی کہ اس ٹورنامنٹ میں ون ڈے کرکٹ کا ایک نیا پیٹرن سامنے آیا ہے‘ ہمارے کھلاڑیوں کو چاہیے کہ اس پر غور کریں اور یہ دیکھیں کہ ون ڈے کرکٹ کا مزاج کتنا بدل گیا ہے؟ اب میچوں میں تین سو نہیں‘ چار سو سے اوپر رنز بنائے جا رہے ہیں۔ ہمیں اس پر بھی غور کرنا چاہیے۔ اس حیرت انگیز نکتے پر انہوں نے حکیمانہ انداز میں اس راز کا بھی انکشاف کیا کہ نئے انداز کی کرکٹ میں ابتدائی اوورز‘ احتیاط سے کھیلے جاتے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ ایک دو رنز کے ساتھ سکور بڑھتا رہے اور جہاں کوئی لوز بال آئے‘ اس پر چوکا‘ چھکا لگا دیا جائے۔ معین خان کے مطابق‘ نئی کرکٹ میں اصل کھیل‘ چالیسویں اوور کے بعد شروع ہوتا ہے۔ انہوں نے دعوتِ فکر دیتے ہوئے کہا کہ آپ اوسط نکال کر دیکھ لیں‘ جیتنے والی سب ٹیموں نے اصل سکور‘ آخری دس اوورز میں کیا اور ان میں رنز کا اوسط دس سے پندرہ رنز فی اوور رہا ہے جبکہ شروع میں تیز رفتاری سے کھیلنے والی ٹیمیں‘ وقت سے پہلے ہی وکٹیں گنوا بیٹھتی ہیں۔ یہ بات وہ 27 فروری کی شام کو کہہ رہے تھے۔
اگلے روز میچ شروع ہوا توآسٹریلیا نے اننگز کے32 اوورز میں 151 سکور کر کے پچ نیوزی لینڈکے لئے فارغ کر دی اور نیوزی لینڈ نے‘ اس سے بھی تیز رفتاری کے ساتھ صرف 23 اوورز میں برتری حاصل کر کے‘ آسٹریلیا کو شکست دے دی۔ اگر ہمارے مدبر دانشور اور ماہر چیف سلیکٹر کے فلسفے پر عمل کیا جاتا‘ تو عالمی کپ میں کھیلنے والی ٹاپ کی دونوں ٹیموں کو اس حکیمانہ نکتے کا ذرا اندازہ نہیں تھا کہ اصل کھیل تو 30 اوورز کے بعد شروع ہوتا ہے۔ میں اندازے کی مضحکہ خیزی پر انگلی نہیں اٹھا رہا۔ اس امر کی نشاندہی کر رہا ہوں کہ ہمارے سابق کپتان اور چیف سلیکٹر صاحب کے فلسفے کے مطابق‘ یہ دونوں ٹیمیں ہی اصول کے خلاف کھیل ختم کر کے فارغ ہو گئیں۔ اگر دونوں ٹیمیں آخری دس اوورز کے انتظار میں ٹک ٹک کرتی رہتیں تو بھاری تعداد میں بیٹھے ناظرین بھی اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے اور یہ ٹیمیں بھی اپنی کھیل کی مہارت کا مظاہرہ نہ کر سکتیں۔ جتنا زبردست کھیل ان دونوں ٹیموں نے دکھایا‘ میرے اندازے کے مطابق یہ اب تک ہونے والے میچوں میں سب سے زیادہ دلچسپ‘ تحیر خیز اور یادگار میچ تھا۔ ناظرین بہت عرصے تک اس میچ کو یاد رکھیں گے۔
کسی بھی فنی مہارت کی گائیڈ لائنز تیار کرتے وقت‘ سب سے پہلے اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کسی بھی معاملے میں کوئی چیز دوبارہ اسی طرح کا کردار ادا نہیں کرتی‘ جسے مثال بنا کر آپ گائیڈ لائنز تیار کر سکیں۔ کھیل انسان کھیلتے ہیں۔ ہر ٹیم میں گیارہ کھلاڑی ہوتے ہیں۔ دونوں ٹیموں کے بائیس کھلاڑی مل کر جس ڈرامے کو وجود میں لاتے ہیں‘ اس کے لئے نہ تو کوئی میدان دوبارہ اسی طرح کا تلاش کیا جا سکتا ہے‘ جس پر دیکھے گئے کھیل سے مثالیں دی گئی ہوں‘ نہ ہی بائیس انسانوں کے انفرادی عمل اور ردعمل کا نقشہ بنایا جا سکتا ہے۔ بے شمار دوسرے عوامل ہیں‘ جو ہر کھیل کو دوسرے سے منفرد کرتے ہیں۔ ان میں ماحول‘ موسم‘ آب و ہوا‘ اس شہر کا سماجی ماحول جس میں میچ کھیلا گیا‘ سب علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کا کوئی مفکر یا ماہر‘ کر کٹ کے بارے میں پیش گوئی نہیں کر سکا۔ اس کھیل کے بارے میں یہی شعر پڑھا جا سکتا ہے۔
کوئی لمحہ آتا نہیں لوٹ کر
کوئی چیز ہوتی نہیں ہُو بہُو
مجھے رات گئے کسینو میں کھانے کی خاطر جانے والے‘ اپنے سابق کپتان صاحب اور آج کل کے چیف سلیکٹر کے سماجی شعور اور مختلف ملکوں کے رسم و رواج‘ سے ان کی واقفیت کے بارے میں حیرت ہوئی۔ ان کی بیشتر ایکٹو لائف کرکٹ کے خرچ پر‘ دنیا کے ایسے تمام ملکوں کی سیر کرتے گزری ہے‘ جہاں جہاں کرکٹ کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ ان میں سے پاکستان کے سوا‘ شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو‘ جس میںکسینوز نہ ہوتے ہوں۔ ٹیموں کے ساتھ سفر کرنے والے تمام لڑکوں کا سارا وقت کھیل میں
نہیں گزرتا۔ انہیں سیر و تفریح کے لئے چھٹیاں بھی ملتی ہیں‘ جن کے دوران وہ تمام ایسے مشاغل سے لطف اندوز ہوتے ہیں‘ جن میں نوجوانوں کو دلچسپی ہو۔ کسینوز میں سب کچھ ہوتا ہے لیکن شاید ہی کوئی اتنا فضول خرچ ہو‘ جو کھانے کی غرض سے کسینو میں جائے۔ یہ تو وہ جگہ ہے جہاں تفریح کے بہترین لمحات اور جیب میں پڑے ہوئے سارے پیسے کو مستانہ وار صرف کیا جاتا ہے۔ ایسے کسینوز کہیں کہیں پائے جاتے ہوں گے‘ جہاں لوگ کھانے کے لئے جاتے ہوں۔ یہ عموماً نوجوانوں کی ملاقاتوں‘ جوئے میں قسمت آزمائی کرنے والوں‘ بادہ نوشوں اور دل بہلانے کے لئے تھوڑے سے خرچ پر‘ کھیلوں سے لطف اندوز ہونے والوں کے پسندیدہ مقامات ہوتے ہیں۔ ادھیڑ عمر کے مشرقی جوڑے تو شاذ و نادر ہی تفریحی لمحات کسینوز میں گزارنے جاتے ہوں گے۔ البتہ یورپ اور امریکہ کے بوڑھے جوڑے‘ مختلف میزوں پر ہونے والی قسمت آزمائی کے نظارے ضرور کرتے ہیں۔ معین خان صاحب کے بارے میں جو کچھ شائع ہوا‘ اس کے مطابق ان کی بیگم صاحبہ اوپر کے فلور پر تھیں اور وہ نچلے فلور پر۔ کیا ان دونوں میں بول چال بند تھی؟ یا ایک ساتھ کھانے کی میز پر بیٹھنے سے گریزاں تھے؟ ان کی یہ وضاحت کسی کی سمجھ میں نہیں آئی۔ کسینو میں جانے کی ایک اور وجہ یہ بتائی کہ بورڈ کے حکام نے لڑکوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنے کیلئے ان کی ڈیوٹی لگائی تھی۔ یہ بھی عجیب و غریب ڈیوٹی ہے۔ نوجوان لڑکوں کی غیر اخلاقی حرکات دیکھنے کے لئے کسینو میں جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس کے لئے بازار‘ تفریح گاہیں اور طرح کی ہوتی ہیں اور آج کل کے لڑکے‘ ہم جیسے بزرگوں کی پکڑ میں نہیں آ سکتے۔ یہ ضرور ہو سکتا ہے لڑکے چھپ کر نگرانی کرنے والے بزرگوں کو خود چھپ چھپ کر دیکھیں اور حسبِ ضرورت استعمال کرنے کے لئے تصویریں بھی اتار لیں۔ معین خان ‘ ان بزرگوں کی طرح ہوں گے‘ جو لڑکوںکے بہانے‘ اپنے مزے کرنے جاتے ہیں اور پکڑے جانے پر کہتے ہیں کہ میں تو نگرانی پر آیا تھا۔پی سی بی کے قواعد کے مطابق‘ چیف سلیکٹر کا کام‘ دورہ کرنے والی ٹیم کا انتخاب مکمل کرنے پر ختم ہو جاتا ہے۔ اسے دورے پر بھیجنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور بیگم کے ساتھ تو بالکل نہیں۔ اگر معین خان کے سفر سے لے کر میزبان ملکوں میں کی گئی سرگرمیوں کا پورا جائزہ لیا جائے تو ہر پہلو سے ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ موصوف سنیارٹی کے پردے میں‘ جونیئرز کے حقوق پر ڈاکے مارنے کے شوقین ہیں۔ بورڈ میں ان کی ذمہ داریوں کو دیکھیں تو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں‘ ان کی آوارہ خرامیوں کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ ان کے اس بے موقع‘ بے محل اور بے مصرف دورے پر‘ یہی کہا جا سکتا ہے۔
بڑے میاں دیوانے