شام کے 5 بج چکے ہیں۔ ابھی تک چند سو ووٹوں کی گنتی پوری نہیں ہوئی۔ سینٹ کو چننے والے کل ووٹ ہی سینکڑوں میں ہیں۔نتائج مجھے معلوم نہیں۔ ایک بات واضح ہو گئی کہ ہر گزرتے برس کے ساتھ‘ سینٹ کے الیکشن ‘ کرپشن کی نئی کہانیاں لے کر آتے ہیں اور تلخ یادیں چھوڑتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ فاٹا میں انتخابی طریقہ کار پر اعتراضات ہو رہے تھے‘ جو ہر سال کی طرح اس بار بھی ہوئے۔ جھگڑے پڑاکرتے تھے۔ اس بار بھی پڑے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس مرتبہ فریادی‘ سپریم کورٹ جا پہنچے۔ ابھی تک یہی اطلاع ہے کہ الیکشن کمیشن نے‘ عدالتی فیصلے کے انتظار میں فاٹا کے الیکشن ملتوی کر دیئے ہیں۔ وفاقی آئین کے مطابق سینٹ ‘ صوبائی نمائندوں کا ادارہ ہوتا ہے۔ جسے‘ پارلیمنٹ کا حصہ ہونے کی وجہ سے‘ یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ قانون سازی‘ بجٹ‘ حتیٰ کہ آئینی ترامیم میں پارلیمنٹ کے ایک حصے کے طور پر‘اپنے فرائض ادا کرے اور یہ دیکھے کہ کسی صوبے کے ساتھ ناانصافی تو نہیں ہو رہی؟ اس کے مفادات کو نظرانداز تو نہیں کر دیا گیا؟ ایک صوبے کے حقوق پر‘ دوسرا صوبہ ہاتھ تو نہیں مار گیا؟ یہ ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے سینٹ کے پاس باضابطہ اختیار موجود ہے کہ وہ ایسے ہر قانون کو پاس کرنے سے انکار کر دے اور جب تک سینٹ کی رضامندی نہیں ملتی‘ کوئی بھی قانون حتیٰ کہ بجٹ تک پاس نہیں کیا جا سکتا۔ اگر سینٹ کے فرائض کی بنیاد پر‘ اس کے اراکین کی مطلوبہ استعداد کو دیکھا جائے‘ تو اصولی طور پر ان کی قابلیت‘ علم اور تجربہ‘ قومی اسمبلی کے اراکین سے بھی زیادہ ہونا چاہیے تاکہ وہ ان کے تیار کردہ آئینی اور قانونی مسودوں پر نظرثانی کر کے‘ ان کوتاہیوں کی نشاندہی کر سکیں‘ جو قومی اسمبلی کی نگاہوں سے اوجھل رہ گئیں یا وہ‘ وفاق اور صوبوں میں تقسیم اختیارات کے پیچیدہ معاملات پر توجہ دینے میںناکام رہے۔ یوں دیکھا جائے‘ تودو باتیں لازمی ہو جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ ہر صوبے کا نمائندہ علم‘ تجربے اورذہنی استعداد میںباقی منتخب اداروں کی نسبت برتری رکھتا ہو اور دوسرے اس کی تمام دلچسپیاں اور مفادات اس صوبے سے وابستہ ہوں‘ جس کی نمائندگی کے لئے‘ اس نے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔
پاکستانی سینٹ کو ایک ہی نظر میں دیکھ کر پتہ چل جاتا ہے کہ وہ سب کچھ ہو سکتا ہے‘ سینٹ ہرگز نہیں ہے۔ اس ادارے کا ممبر بنانے کے لئے‘ تمام جماعتیں اور رائے دہندگان کوئی مخصوص معیار سامنے نہیں رکھتے۔ اصولی طور پر سینٹ کے امیدوار‘ خواہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں‘ جب نامزد ہو کر امیدوار کی حیثیت میں‘ ووٹروں کے سامنے پیش ہوں‘ تو تمام منتخب اداروں کے اراکین کو آزادی حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے صوبے کی نمائندگی کے لئے امیدوار کا انتخاب کرتے وقت‘ پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر ووٹ دے سکیں۔ ان کے پیش نظر صرف ایک معیار ہو کہ امیدوار ذہانت‘ دیانت اور علم کے معیار میںاپنے صوبے کی برگزیدہ ہستی ہو۔ اس کی غیرجانبداری شک و شبہے سے بالاتر ہو اور وہ پارٹی بازی سے آزاد ہو کر‘ اپنے صوبے کے عوام کے مسائل اور مفادات پر گہری نظر رکھتا ہو اور ان کا حل پیش کر نے کے اہل ہو۔ پاکستان کے حالات میںمیرے سامنے سینٹ کی رکنیت کے لئے‘ مثالی شخصیت ایس ایم ظفر‘ وسیم سجاد‘ عابد حسن منٹو‘ ڈاکٹر امجد ثاقب اور اسی معیار کی دوسری لائق و فائق شخصیات ہو سکتی ہیں۔ انہی کو سامنے رکھتے ہوئے‘ دوسرے صوبوں کی نمائندگی کرنے والی شخصیات کا انتخاب ہو سکتا ہے۔ سینٹ سے دو طرح کی کارکردگی کی توقع رکھنا چاہیے۔ ایک تو یہ ادارہ تجربے‘ حکمت‘ علم اور دانائی کا مرکز ہو اور دوسرے وہ اپنے صوبے کی ضروریات و مفادات کو بہتر سمجھتے ہوئے‘ وفاق کے دوسرے حصوں کے جائز مطالبات کا بھی غیرجانبدارانہ ادراک رکھتا ہو۔ سچی بات ہے کہ ہم نے اس ادارے کو جسے حکمت‘ دانائی‘ علم اور تجربے کا مرکز ہونا چاہیے‘ سیاسی جماعتوں کے فالتو ٹوٹے‘ ردی مال اور لیڈروں کے درباریوں کو جمع کرنے کی جگہ بنا رکھا ہے۔ بے توقیری کی حد یہ ہے کہ سینٹ کے بنیادی کردار کو بھی سامنے نہیں رکھا جاتا۔ جسے اپنے صوبے میں جگہ نہیں ملتی‘ اسے دوسرے صوبے سے منتخب کرا دیا جاتا ہے۔ صرف سیاسی جماعتوں کے ملبے کوسنبھالنا مطلوب ہوتا ہے۔ سینٹ سے اس کااصل کام لینا مقصود نہیںہوتا۔ ایسے حالات میں جو کچھ سینٹ کے انتخابات کے دوران ہونا چاہیے‘ وہی کچھ پاکستان میں ہوتا ہے اور ہم اس صورتحال پر ماتم کرنے کے بجائے‘ اس کے مزے لیتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ ایک اعلیٰ ترین ادارے کا ہم کیا حال کر رہے ہیں؟ ویسے تو پاکستان میں جو تمام اداروں کا حال ہو رہا ہے‘ وہی سینٹ کا بھی ہے۔ ایک بات یاد رکھنا چاہیے کہ دوسرے ادارے ملک و قوم کی تقدیر بنانے یا بگاڑنے کا اتنا اختیار نہیں رکھتے‘ جتنا کہ پارلیمنٹ کا ہوتا ہے۔ باقی سارے معاملات میں غلطی کی گنجائش رہتی ہے لیکن قانون ساز اداروں میں اس کی گنجائش نہیں ہوتی۔
سینٹ کے آج کے الیکشن‘ میری زندگی کے تو بہرحال آخری الیکشن ہیں لیکن مجھے ڈر ہے کہ پاکستانی جمہوریت نے ہچکیاں لیتے ہوئے‘ جو چوتھی یا پانچویں زندگی پائی ہے‘ اس کے بھی آخری لمحات آنے والے ہیں۔عوام اور معاشرے کے تمام ادارے‘ جمہوریت کے نام پر ہونے والی کرپشن‘
بدعنوانیوں اور لوٹ مار کو برداشت کرنے کی جو طاقت رکھتے تھے‘ وہ اب جواب دینے والی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ معاشرے کے دوسرے شعبوں کی طرح‘ عدلیہ نے پہلی مرتبہ جمہوری طرزحکومت پر کھل کر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ لہجہ اختیار کیا ہے‘ جو عدلیہ میں اس سے پہلے نظر نہیں آیا تھا۔ ہمارے ناخوشگوار ماضی میں عدلیہ کا کردار بھی ہمیشہ مثالی نہیں رہا۔ زیادہ تر وقت اس نے حکمرانوں کے مفادات کا تحفظ کرنے میں گزارا ہے اور جہاں کہیں عدلیہ نے حکومت وقت کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیا‘ اس کی وجہ بعض جج حضرات کی انفرادی ناراضی تھی۔ جیسے جسٹس سجادعلی شاہ یا حال میں ریٹائر ہونے والے جسٹس افتخار محمد چوہدری۔ ان دونوں حضرات نے عدلیہ کی طاقت کو ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ موجودہ عدلیہ میں جج حضرات کی انفرادی‘ پسند ناپسند کا اظہار نہیں ہوتا۔ حکومت کی غلط کاریوں پر عدلیہ میں جو تبصرے ہوتے ہیں‘ ان میں صرف عدل کی آواز سنائی دیتی ہے۔ عدلیہ نے پہلی مرتبہ بطور ادارہ اپنے آئینی فرائض پر اس طرح توجہ دی ہے‘ جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ ہمیںایسے معزز جج صاحبان کے اسمائے گرامی یاد ہیں جنہوں نے جنرلوں کے سامنے سر جھکانے کے بجائے‘ اپنا منصب جلیلہ چھوڑنے کو ترجیح دی۔ کم و بیش ہر مارشل لا کے دور میں‘ فوجی حکمرانوں کی ماتحت عدلیہ کا حصہ بننے سے کئی جج صاحبان نے انکار کیا۔ لیکن موجودہ عدلیہ بالکل ایک نیا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس میں مہم جوئی کا شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ عدلیہ‘ بطور ادارہ‘ جمہوری نظام کو آئینی حدود میں رکھنے کے لئے ہدایات جاری کرتی رہتی ہے اور اندازہ ہو رہا ہے کہ اس کے فیصلے بھی آئین کی بالادستی منوانے کی خاطر ہوں گے۔ ان میں جج صاحبان کی ذاتی خواہشات کا دخل نہیں ہو گا۔ یہ صورتحال انتہائی امیدافزا ہے کیونکہ جب ادارے اصلاح احوال کی طرف متوجہ ہو جائیں‘ توپھر تبدیلی کے تقاضے پرامن طریقوں سے پورے ہو جاتے ہیں۔ عوامی تحریکوں اور بغاوتوں کی ضرورت نہیں پڑتی اور نہ ہی فوجی بغاوتوں کی گنجائش رہتی ہے۔ عدلیہ متحرک اور موثر ہو جائے‘ توپارلیمنٹ کو گمراہیوں سے ہٹا کر راہ راست پر لانے کی طاقت رکھتی ہے۔ میں اس کو خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ فوج بھی آئینی طرزحکومت کو برقرار رکھتے ہوئے‘ اپنی ذمہ داریاںادا کر رہی ہے۔ جب ادارے‘ اداروں کی مدد کرنے لگیں‘ تو تبدیلیوں کے تقاضے مہذب اور پرامن انداز میں پورے ہونے لگتے ہیں۔ میں بہت سی بغاوتیں دیکھ چکا ہوں۔ ان کے انجام بھی دیکھ چکا ہوں‘ اسی لئے مجھے کسی نئی بغاوت سے ڈر لگتا ہے۔ خصوصاً آج کے حالات میں جبکہ معاشرے کا تانابانا پہلے ہی ادھڑ چکا ہے۔ موجودہ بحران سے نکلنے کا محفوظ ترین راستہ یہی ہے کہ آئینی ادارے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے‘ ملک و قوم کو بحران سے نکالنے میں اپنا اپنا کردار اداکریں۔ سلسلہ شروع تو ہو چکا ہے۔ خدا کرے یونہی آگے بڑھتا رہے۔ ورنہ دھماکے تو برسوں سے جاری ہیں۔ اب زیادہ ہوتے جائیں گے۔