وقت قریب آتا ہے‘ تو لوگ اسی طرح کی حرکتیں کرنے لگتے ہیں‘ جیسی کل جمعرات کو ہمارے حکمرانوں نے کیں۔یوں تو پورے پاکستان میں ہر طرح کے الیکشن‘ ہر بار دھاندلی کی نئی قسمیں اور نئے رنگ دکھاتے ہیں۔ سینٹ کے الیکشن بطور خاص جمہوریت کو-گھری ہوئی ہے طوائف تماشبینوں میں- بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ کے پی کے والے‘ اس کی چٹکیاں لے لے کے نیل ڈال دیتے ہیں۔ بلوچستان والے اس کے ٹوٹے کر کے گھروں میں لے جاتے ہیں۔ سندھ اور پنجاب والے‘ اس کی بے چارگی سے‘ بے رحمی کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ اب کے عمران خان نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ اپنے صوبے یعنی کے پی کے میں‘ جمہوریت کی چادر نہیں اترنے دیں گے‘ لیکن انہیں شکست دینے کے لئے روایتی سیاستدانوں نے‘ جمہوریت کی وہ درگت بنائی کہ رات کے 12بجے تک اسے ہوش نہ آنے دیا اور سچی بات ہے‘ جمہوریت کی آبرو بچاتے بچاتے‘ خان صاحب خود بھی اپنے کھنے سینکوابیٹھے۔ کوئی اپنی آبرو بچانا چاہتا ہو‘ تو اس کی حفاظت کرنے والے‘ لٹیروں کا مقابلہ کرتے ہیں‘ لیکن جو خود ہی‘ اپنی آبرو بیچنے پر لگے ہوں‘ وہاں تو ڈبل مصیبت پڑتی ہے۔ لوٹنے والے سے بھی لڑو اور جو لٹنے کو بے تاب ہو‘ اسے بھی روکو۔ میں تو یہی کہوں گا کہ خان صاحب کے اراکین اسمبلی نے‘ ہمت اور حوصلے کا ثبوت دیا‘ لیکن اس ہمت اور حوصلے کو بچانے‘ سنبھالنے بلکہ پیدا کرنے کے لئے جتنی مشقت پرویزخٹک‘ اور خان صاحب کو کرنا پڑی‘ اس کی کہانی دیواروں کے پیچھے ہے‘ جو ابھی تک منظرعام پر نہیں آئی۔ جن ممبروں کو پرویزخٹک اپنے پروں کے نیچے لے کر‘ رات گئے تک بیٹھے رہے‘ انہیں روکا کیسے گیا؟ایک ایک ممبر کی دس دس کہانیاں ہوں گی‘ لیکن جو کام کسی سے نہ ہوا‘ خان صاحب اور پرویزخٹک کر گزرے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کا ایک ووٹ بکنے نہیں دیا۔ ایک غریب آدمی نے اپنی مفلسی سے جان چھڑانے کا آسان طریقہ ڈھونڈلیا اور فارورڈ بلاک کا اعلان کر کے‘ ضمیر کا سودا چھابے میںرکھ کر بیٹھ گئے‘ لیکن تحریک انصاف کے کارکنوں نے ایسا میلہ لگایا کہ بے چارا فارورڈ بلاک‘ بیک ورڈ بلاک میں پناہ لینے پر مجبور ہو گیا۔ سچی بات ہے‘ مجھے اس کی غریبی پر ترس آ رہا ہے۔ پیسہ تو بے چارے کے پاس پہلے ہی نہیں تھا اور اب وہ کچھ لئے بغیر ہی عزت بھی گنوا بیٹھا۔ غصے میں ووٹ ہی ڈالنے نہیں گیا۔ چلا جاتا‘ تو پانچ سات کروڑ کما لیتا۔ عزت تو جا ہی چکی تھی۔ دولت توآ جاتی۔ یہ بہت غریب مار ہوئی۔
پاکستان کا کوئی بھی سیاستدان‘ ووٹ فروشی کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ سب کی لیڈری کا کاروبار اسی کام پر تو چلتا ہے۔ جس دن یہ کاروبار رک گیا‘ اس دن سب کی لیڈری ٹھس ہو جائے گی۔ ووٹ فروشی کو روکنے کے لئے کیا کیا جتن کئے جاتے ہیں‘ وہ ن لیگ کی قیادت سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ اس بار دونوں بھائیوں کو اچانک سعودی عرب کے دورے پر جانا پڑ گیا۔ جانے سے پہلے انہوں نے گوریلا طرز کا بندوبست کر دیا تھا۔ پینتالیس پینتالیس ووٹروں پر ایک وزیرکی ڈیوٹی لگائی کہ وہ ووٹ ڈالنے سے پہلے انہیں ہرگز ادھر ادھر نہیں ہونے دے گا۔ سینٹ کے کل 11 امیدوار تھے اور 11 ہی گروپ تھے۔ وزیرکی ڈیوٹی صرف یہ تھی کہ مرغوں کو ہر وقت گھیر کے رکھے۔ ان کے دانے دنکے کا بندوبست کرے۔انہیں ہر آزادی مہیا کرے۔ ادھر ادھر جانے بلکہ جھانکنے کا موقع بھی نہ دے۔ ہر گروپ کے اوپر خفیہ پولیس کے پہرے تھے تاکہ کوئی کھسکتا یا سرکتا ہوا باہر جاتا نظر آئے‘ تو مرغے کو فوراً گردن سے پکڑ کے‘ واپس وزیرکی تحویل میں دے دیا جائے۔خدا لگتی کہیے‘ اس سے بہتر انتظام ممکن ہے؟ جو شریف برادران نے کیا۔ لیکن داد دیجئے مرغوں کی کہ تمام پہرے‘ تمام نگرانیاں ‘ تمام ناکے توڑتے ہوئے کم از کم 30 کے قریب مرغے غائب ہو گئے‘ جو آج تک لاپتہ ہیں۔ نہ انہوں نے کہیں ووٹ ڈالے اور نہ کسی کو دکھائی دیئے اور نہ ابھی تک پکڑائی دیئے۔ حکومت پنجاب نے ان لاپتہ اراکین اسمبلی کو ڈھونڈنے کے لئے باقاعدہ ایک کمیٹی بنائی ہے‘ جسے صرف یہ پتہ کرنا ہے کہ غائب ہونے والے کون تھے؟
ایسی حالت میں کسی کا مذاق اڑانا اچھا نہیں ہوتا۔ وفاق اور پنجاب کی حکومتیں‘ مسلم لیگ(ن) کے پاس ہیں۔ ممبروں کو قابو میں رکھنے کے لئے حکومت سے موثر چیز اور کیا ہوتی ہے؟ جب دو حکومتیں رکھ کر بھی‘ اراکین اسمبلی دائیں بائیں دیکھنے لگیں‘ تو یہ ایسا وقت ہوتا ہے‘ جس سے بچنے کے لئے دعا ہی مانگی جاتی ہے۔ایک تو ن لیگ کا اندر سے یہ حال ہے۔ ستم بالائے ستم ‘ ندیم افضل چن نے بھی چھیڑخانیاں شروع کر دیں۔ پنجاب اسمبلی میں چن جی کے پاس مطلوبہ ووٹ نہیں تھے۔ اس کے باوجود موصوف نے سینٹ کے لئے کاغذات جمع کرا دیئے۔ مسلم لیگ (ن) کے 10 ووٹ تو انہیں ڈبے میں نقد مل گئے۔ 30ووٹ چن جی نے ادھر ادھر کرا دیئے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر وہ چاہتے تو 100ووٹ مزیدخرید سکتے تھے۔اتنے ووٹوں سے محروم ہونے کے بعد‘ ن لیگ پر کیا گزرتی؟ بے چاری بال کھول کے مال روڈ پر چکر لگاتی۔ مسلم لیگ‘ جسے دو روز پہلے تک اپنی طاقت پر بڑا غرور تھا‘ سینٹ کے الیکشن نے اس کی کمر دہری کر دی
ہے۔بلوچستان نے ن لیگ کے ساتھ وہ کیا ہے‘ جو بلوچستان کے صحرا‘ مسافر کے ساتھ کرتے ہیں۔ بے چاری نرم و نازک مسلم لیگ پر بلوچستان میں جو گزری ہے‘ وہ تو بھانت بھانت کی مسلم لیگوں میں سے کسی پر بھی نہیں گزری۔ حکمران مسلم لیگ کا ٹکٹ صاف صاف سینٹ کی سیٹ کے برابر تھا اور سینٹ کی سیٹ کے لئے‘ اس بار کا ریٹ کروڑوں میں کھلا۔ اگر ن لیگ ‘بلوچستان کا ٹکٹ مارکیٹ کر دیتی‘ تو دس پندرہ کروڑ آسانی سے مل سکتا تھا اور اس ٹکٹ کے ساتھ سینیٹر بننا مشکل نہیں تھا۔ لیکن مسلم لیگ پر کیسا وقت آ گیا؟ کہ اس نے اپنے ایک پرانے اور مخلص کارکن کو‘ اس کی قربانیوں کے صلے میں سینٹ کا ٹکٹ دے دیا۔ یعقوب ناصر صاحب ‘ اپنی پارٹی کاٹکٹ لے کر مست ہو گئے اور خریداروں نے ووٹ خرید کے سیٹ جیت لی۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ حکمران ‘ن لیگ کاٹکٹ رکھنے والا ہار جائے اور ایک آزاد امیدوار اسے شکست دے کر گھر بٹھا دے؟ اس سے بڑا ستم یہ ہوا کہ جان محمد جمالی صاحب نے مسلم لیگ (ن) سے کہا کہ میری فیملی کو ٹکٹ دے دیں۔ ن لیگ کسی فرد کو تو ٹکٹ دے سکتی ہے‘ فیملی ٹکٹ تو اس کے اپنے گھر میں ختم ہو جاتے ہیں اور کسی کو کہاں سے دیئے جائیں؟ جمالی صاحب نے بھی کمال کیا۔ انہوں نے اپنے ہی گھر میں ایک مسلم لیگ بنائی۔ اپنی بیٹی اور دیگر رشتے داروں کو ٹکٹ دیئے اور کامیاب کرا لیا۔ اس سے پہلے کہ ن لیگ انہیں پارٹی سے نکالے‘ جمالی صاحب نے خود ہی اپنی مسلم لیگ بنا کر اعلان کر دیا کہ اب وہ اس کی رکنیت سازی کریں گے۔ خیبرپختونخوا میں عمران خان اور سراج الحق کے سوا کوئی دکھائی ہی نہیں دیا۔ رشتے داری نے کچھ کر کے دکھا دیا ہے‘ تو اس کاہمیں پتہ نہیں۔ دوچار سیٹیں بھی آ جاتیں‘ تو پتہ چل جاتا اور سندھ میں تو ن لیگ بیچاری سسّی بن کے رہ گئی۔
تیرا لٹیا شہر بھنبھور نی سسئی بے خبرے
وہاں جتنی ن لیگ یا کسی بھی قسم کی کوئی دوسری لیگ تھی‘ اس کے ووٹ یا پیپلزپارٹی کو چلے گئے یا پیرصاحب پگاڑا لے گئے۔اس کے باوجود ن لیگ کے بلارے‘ عمران خان پر طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے سیاسی لیڈر ہیں‘ جنہوں نے خیبرپختونخوا میں اپنے کسی رکن اسمبلی کو ووٹ فروشی نہیں کرنے دی‘ حتیٰ کہ گلزار خان کا خاندان‘ جس نے ہر دور میں کے پی کے‘ کے ووٹ خرید کر‘ سینٹ میں سیٹ پائی‘ اس بار وہاں سے کوئی سیٹ نہیں خرید سکا۔ عمران خان نے وہ کام کر دکھایا‘ جو وزیراعظم سے نہ ہوا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ نہ کر سکے۔ کاروبار سیاست کے چیمپئن‘ آصف زرداری سے نہ ہو سکا۔ وہ عمران خان نے کر دکھایا۔ آئندہ کے لئے ووٹوں کا کوئی خریدار‘تحریک انصاف کی طرف تو نہیں دیکھے گا‘ باقی ہر پارٹی میں بکائو مال ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ تحریک انصاف کی دکان میں یہ سودا نہیں ملے گا۔ پاکستانیوں کو مدتوں کے بعد ایک ایسی پارٹی ملی ہے‘ جو ان کے ووٹ فروخت نہیں کرے گی۔ یہ ہے تبدیلی کی پہلی جھلک۔