"NNC" (space) message & send to 7575

دوسرا دھرنا

کوئی سر پھرا‘ سچ بھی لکھ دیتا ہے لیکن حکمران جماعتوں کا گٹھ جوڑ اتنا طاقتور ہے کہ میڈیا کا ایک بڑا حصہ‘ اسی کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ سینٹ کی وہ نشستیں‘جو ہر تین سال بعد خالی ہوتی ہیں‘ انہیں پر کرنے کے لئے چند روز پہلے انتخابات ہوئے۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں میڈیا پر خدشات ظاہر کئے گئے کہ اس بار بھی ووٹروں کی منڈیاں لگیں گی اورایک ووٹ کی قیمت پہلے کی طرح لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہو گی۔اس سلسلے میں متعدد تجاویز سامنے آئیں‘ جن میں تجویز کیا گیا تھا کہ کیا طریقہ استعمال کر کے ووٹ فروشی یعنی ضمیرفروشی کو روکا جا سکتا ہے؟ ان میں ایک تجویز خود وزیراعظم کی طرف سے پیش ہوئی‘ جسے عمران خان نے بلاتاخیر قبول کر لیا۔ اگر میاں صاحب کی تجویز پر عمل ہو جاتا‘ تو سینٹ کے الیکشن میں ووٹ فروشی کا بازار بند ہو سکتا تھا۔ مگر لگتا ہے کہ خود ن لیگ اپنے لیڈروں اور امیدواروں کے دبائو میں آ کر‘ اپنے فیصلے سے بھاگ گئی۔ صاف ظاہر تھا کہ ووٹوں کی منڈی کو بند ہونے سے روکا جائے اور بازار میں جو بھاری بھرکم سودے ہو رہے ہیں‘ ان پر عملدرآمد کی آزادی مہیا کی جائے۔ بے دھڑک ووٹ فروشی ہوئی۔ عمران خان کی پارٹی پر بھی نوٹوں سے بھرے ہوئے‘ صندوقوں کے ساتھ یلغاریں کی گئیں اور یہ افواہیں پھیلنے لگیں کہ تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی بھی‘ منڈی میں دستیاب ہیں۔ ان خبروں کو تقویت ملی‘ جب جاوید نسیم نامی ایک ایم پی اے نے‘ سینٹ کی سیٹ کے خریدار ایک امیدوار کے کاغذات نامزدگی پر تائید کنندہ کی حیثیت سے دستخط کر دیئے۔ عمران خان کو خبر ہوئی‘ تو وہ سارے کام چھوڑ کر پشاور میں آ بیٹھے اور اپنے اراکین اسمبلی کو‘ منڈی کا مال بننے سے روکنے کے لئے شہر میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ ان کے اسلام آباد والے دھرنے کی طرح یہ دھرنا بھی کامیاب رہا اور تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی جتنے بھی تھے‘ تعداد کے مطابق ‘ سینٹ کے لئے‘ پارٹی کے نامزد کردہ امیدوار کامیاب ہو گئے۔ بے ضمیری کے کھلے بازار میں‘ اپنی پارٹی کے ممبروں کو ‘ اصول پرستی پر آمادہ کر کے‘ عمران نے ایک معرکہ انجام دیا۔ جبکہ دوسری ہر پارٹی کے اراکین اسمبلی کی دھڑادھڑ خریدوفروخت ہوئی اور سب سے زیادہ ناقابل اعتبار و وٹر‘ ن لیگ کے نکلے۔
بلوچستان سے ن لیگ کے باقاعدہ ٹکٹ ہولڈر اور سینئر لیڈر‘ سرداریعقوب ناصر ‘ پارٹی کے ووٹ حاصل نہ کر سکے۔ یہ ووٹ ایک سرمایہ دار امیدوار کو چلے گئے اور اس نے سینٹ کی سیٹ لے کر آصف زرداری کی جھولی میں ڈال دی۔ بلوچستان میں ن لیگ کے کئی دوسرے لیڈر بھی‘ اپنے اپنے سودے کر کے بیٹھ گئے۔ کراچی میں بھی یہی کچھ ہوا۔ البتہ صوبہ سرحد میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو ووٹ خریدنا پڑے۔ کے پی کے اسمبلی میں‘ ن لیگ کے 5 رکن ہیں۔ صرف ان کے ووٹوں سے سینٹ کی سیٹ نہیں جیتی جا سکتی تھی۔ ن لیگ 2سیٹیں لے گئی۔ خیرہو!بلیک کے سرمائے کی۔ پنجاب‘ جہاں پر ن لیگ کی دوہری حکومت ہے۔ صوبائی بھی اور وفاقی بھی اور دونوں بھائیوں کا پارٹی پر موثر قبضہ ہے‘ اس کے باوجود پیپلزپارٹی کے ندیم افضل چن نے‘ 11 ووٹ تو باقاعدہ توڑ کے اپنے حق میں استعمال کر لئے اور 40اراکین کو ''خردبرد ‘‘ کر لیا۔ یعنی انہوں نے باقاعدہ ووٹ ڈالے اور وہ غائب ہو گئے۔ پارٹی کی لیڈرشپ‘ کمیٹی بنا کر ڈھونڈ رہی ہے کہ ہمارے ووٹ کہاں لاپتہ ہو گئے؟آصف زرداری پر کسی کو شک نہیں ہو سکتا۔ وہ جانے پہچانے بیوپاری ہیں اور ان کے خریدے ہوئے سودے‘ سب کے سامنے ہیں۔ سینٹ کے حالیہ انتخابات میں‘ کم و بیش ہر پارٹی نے ہاتھ رنگے۔ لیڈروں نے ٹکٹ کے پیسے لئے اور ووٹروں نے ووٹ کے۔ صرف تحریک انصاف اس گندے کھیل سے محفوظ رہی لیکن میڈیا کے تازہ تازہ کروڑ پتیوں نے‘ اپنا زور اس پر صرف کر دیا کہ تحریک انصاف کو بھی سیاست کے سارے گندوں میں شامل کر دیا جائے۔ چنانچہ یہ الزام مارکیٹ کیا گیا کہ ووٹ فروشی کے دھندے میں سبھی گندے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف بھی محفوظ بھی نہیں رہ سکی۔ الزام یہ لگایا گیا کہ عمران خان نے‘ ن لیگ سے سمجھوتہ کر کے‘ اپنے ووٹ اسے دلوا دیئے۔ جن سے سینٹ کی ایک سیٹ‘ ن لیگ کو مل گئی۔ 
اس الزام کو تکرار سے پڑھ کر حیرت ہوئی کہ ساری دنیا کو سیاست سمجھانے والے ٹی وی فنکاروں کی اپنی معلومات کتنی ناقص ہیں؟ سینٹ کا ووٹ عام اسمبلیوں کی طرح نہیں ہوتا۔ اس کے پوائنٹس ہوتے ہیں‘ جو بوقت ضرورت امیدواروں میں تقسیم کر دیئے جاتے ہیںاور اس تقسیم کا ایک فارمولا ہوتا ہے۔ اس کے تحت ووٹروں کی لسٹ میں پہلی ترجیح کے پوائنٹ اتنے ہوتے ہیں کہ وہ ایک پورے ووٹ کی طرح ‘ امیدوار کے حق میں چلے جاتے ہیں اور ووٹوں کی تعداد کے مطابق پہلی ترجیح والے تمام امیدوار ‘ پوائنٹ پورے ہونے پر کامیاب قرار دیئے جاتے ہیں۔ مختلف پارٹیاں‘ اپنے ووٹروں کو فہرست کے مطابق بتا دیتی ہیں کہ انہیں ترجیحات کس ترتیب سے دینا ہیں؟ کاسٹ ہونے والے ووٹوں کے نمبر‘ جب مطلوبہ تعداد میںپارٹی امیدواروں کی پوری فہرست میں تقسیم ہونے کے بعد‘ باقی بچ رہتے ہیں‘ ان ووٹوں کو کسی بھی دوسری پارٹی کے امیدواروں کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ یہی کچھ پرویزخٹک نے کیا۔ جب ان کا 
پورا پینل مطلوبہ نمبر لے کر کامیاب ہو گیا‘ تو باقی ماندہ نمبر ‘ ان کے ایک امیدوار کی کامیابی کے لئے پورے نہیں تھے۔ چنانچہ فالتو نمبروں کے لئے انہوں نے مسلم لیگ والوں سے کہہ دیا کہ وہ انہیں استعمال کر لیں۔ جہاں تک مجھے یاد ہے‘ ایسے نمبر اگر آپ خود کسی کو نہیں دیتے‘ تو پھر بھی انہیں استعمال کرنا پڑتا ہے اور الیکشن کا عملہ خود انہیں تقسیم کر دیتا ہے۔ یہ ہیں وہ خبریں‘ جن کو بنیاد بنا کر‘ تحریک انصاف کو بھی چوربازاری کرنے والوں میں ‘شامل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ لیکن میں نے عمران خان کے بارے میں ایک بار لکھا تھا کہ وہ ایئربیریئر کراس کر چکے ہیں ۔ اب غلیل یا چھرے والی بندوقوں سے انہیں نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا اور بڑے بڑے میزائل بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ کرپشن کی ماری ہوئی سیاسی پارٹیوں کے پاس میزائل کہاں؟ ان کے پاس غلیلیں اور چھرے والی بندوقیں ہی ہیں۔ ان کا وہ اندھا دھند استعمال کر رہے ہیں مگر عمران کا کچھ نہیں بگاڑ پا رہے۔ جتنی یہ نشانے بازیاں کرتے ہیں‘ اتنا ہی عمران کا گراف بڑھتا ہے۔ عمران بطور لیڈراس مقام پر پہنچ چکے ہیں‘ جہاں حریفوں کی الزام تراشیاں ‘ان پر اثرانداز نہیں ہو سکتیں۔ الزام لگانے والوں میں کوئی ایک بھی سچا اور کرپشن کے الزامات سے پاک ہو‘ تو ہو سکتا ہے اس کی بات کوئی اثر کر جائے۔ لیکن عمران کے حامیوں پرجو دیوانگی کی حد تک انہیںپسندکرتے ہیں‘ ایسے الزامات بھی اثرانداز نہیں ہوتے۔ ابھی تو عمران صرف شہروں تک گئے ہیں۔ میری اطلاعات کے مطابق دیہات میں ان کا زیادہ بے تابی سے انتظار کیا جارہا ہے۔ ایک بڑے سیاستدان‘ جو گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کی زد پر آ گئے تھے۔ سابق ریاست بہاولپور کے دیہی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ گزشتہ روزملاقات کے لئے تشریف لائے‘ تو باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ ہمارا پتہ تو عمران نے کاٹ دیا ہے۔ اب ہمارے کارکن اور ووٹرز‘ ہمارے بس سے باہر نکل گئے ہیں۔ جس دن عمران نے ہمارے علاقے کا چکر لگا لیا‘ سب کے ووٹوں پر جھاڑو پھر جائے گا۔ انتخابی مہم جب بھی شروع ہوئی‘ اس وقت کیچڑ اچھالنے والوں کی حالت دیدنی ہو گی اور وہ عمران کی مقبولیت کا طوفان دیکھ کر منہ چھپاتے پھریں گے۔ میں نے بھٹو صاحب اور پھر نوازشریف کی مقبولیت کے چرچے کئے تھے‘ جو سوفیصد درست نکلے۔ جب سے عمران خان کی مقبولیت کا اندازہ ہوا‘ میں اس کا اظہار کرتا آ رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والا دور عمران خان کا ہے۔ شکست سے خوفز دہ سیاستدان‘ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کی طرح خدانخواستہ انہیں راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئے‘ تو یہ پاکستانی عوام کی بدقسمتی ہو گی۔ ورنہ عمران تو آ چکا ہے۔ صرف رسمی کارروائیاں باقی ہیں۔ جیسے ہی پوری ہوئیں‘ عمران ذمہ داریاں سنبھال لیں گے اور وہ جو ان پر کیچڑ اچھالنے میں لگے ہیں‘ اس کے چھینٹوں سے بچنے کی کوشش میں‘ منہ چھپاتے نظر آئیں گے۔ دوسرا دھرنا آیا اور عمران چھایا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں