کل جس طرح مسیحی برادری نے‘ پاکستان کے بیشتر شہروں میں پُرجوش اور پُرغضب احتجاجی مظاہرے کئے‘ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ محض یوحنا آباد کے سانحے پر ردعمل نہیں تھا‘ بلکہ اس لاوے کے پھوٹنے کا بہانہ تھا‘ جو برسوں سے دبے ہوئے دکھوں‘ محرومیوں اور اذیتوں کے نتیجے میں دل و دماغ کے اندر جمع ہوتا آرہا تھا۔ مجھے شام کو تجزیہ کرنے والے مدبروں کے تبصرے سن کر‘ تعجب ہو رہا تھا‘ جو یوحنا آباد کے واقعات کو دشمن کی سازش قرار دے رہے تھے اور یہ دور کی کوڑی لا رہے تھے کہ یہ سب کچھ پاکستانی قوم کو تقسیم کرنے کے لئے کیا گیا ہے اور ان مظاہرین کی مذمت کر رہے تھے‘ جنہوں نے دو اجنبیوں کو بے رحمی سے ہلاک کر کے‘ لاشوں کی بے حرمتی کی اور آگ لگا کر انہیں جلا دیا۔ بے شک یہ ایک غیرانسانی فعل تھا۔ وحشت اور درندگی کا مظاہرہ تھا اور کسی بھی حوالے سے اس کا کوئی جواز نہیں تھا‘ لیکن مجھے تبصرے کرنے والوں سے‘ صرف یہ شکایت تھی کہ جب پشاور کے چرچ میں بم دھماکے کر کے‘ عبادت کرتے ہوئے عیسائیوں کے پرخچے اڑائے گئے‘ تو اس وقت‘ ان مبصرین نے طالبان کی کتنی مذمت کی؟ جب گوجرہ میں عیسائیوں کے گھر جلائے گئے‘ اس وقت مدبرین نے ظلم کرنے والوںکی مذمت میں کیا تبصرے کئے؟بادامی باغ لاہور میں‘ جب ان عیسائیوں کے شکستہ گھروں کو جلایا گیا‘ تو کتنے مبصروں نے یہ ظالمانہ فعل کرنے والوں کی مذمت کی؟ اور کوٹ رادھا کشن میں‘ جس نوجوان مسیحی جوڑے کو ‘ جس میں بیوی حاملہ تھی‘ مار مار کے ادھ موا کیا اور اینٹوں کے جلتے ہوئے بھٹے میں پھینک دیا‘ بربریت کے اس مظاہرے پر کتنے مبصرین نے اسی طرح مذمتی تبصرے کئے‘ جیسے یوحنا آباد میں بے گناہ نوجوانوں کے‘ بے رحمانہ قتل پر کیے گئے؟ ظلم کی مقدار نہیں دیکھی جاتی‘ مذمت کی جاتی ہے اور ظلم جو بھی کرے‘ جہاں بھی کرے‘ ایک جیسی مذمت کا حق دار ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ ظالم اکثریت‘ جب اقلیت پر ظلم کرے ‘ تو اسے سرسری زبان میں برا بھلا کہہ کے بات ختم کر دی جائے اور وہی ظلم اقلیت کی طرف سے ہو‘ تو ایک اتفاقیہ سانحے کے پیچھے‘ بڑی بڑی سازشوں کی جڑیں ڈھونڈی جائیں اور کہا جائے کہ یہ داخلی دشمنوں کی سازش ہے۔ یہ قوم میں پھوٹ ڈالنے والوں کی سازش ہے۔ یہ ہمارے بیرونی دشمنوں کی سازش ہے۔ یہ پاکستان دشمنوں کی سازش ہے۔ خدا لگتی کہیے‘ جب پشاور کے چرچ میں بم دھماکے کر کے‘ درجنوں عیسائیوں کو مارا گیا‘ جب گوجرہ اور لاہور میں ان کی آبادیاں جلائی گئیں اور جب ایک نوجوان جوڑے کو بھٹے میں پھینک کر بھون دیا گیا‘ اس وقت ان مبصروں نے ان واقعات کے پیچھے کوئی سازش کیوں نہ تلاش
کی؟ اور یہ کیسی سازش تھی جو اچانک بم دھماکہ کرنے والوں اور بموں کا نشانہ بننے والوں نے مل کے کر دی؟ کیا بم دھماکہ کرنے والوں اور بموں کا نشانہ بننے والوں کے درمیان کوئی گٹھ جوڑ تھا؟ اور اگر نہیں تھا اور نشانہ بننے والوں کا ردعمل فوری تھا‘ توسازش کب اور کہاں کر لی گئی؟
سب ایک جیسے نہیں تھے۔ بعض تجزیہ کاروں نے‘ اپنے اپنے انداز میں اس پس منظر کا جائزہ لینے کی کوشش بھی کی‘ جس میں بم دھماکوں کے بعد غیرمعمولی اشتعال دیکھنے میں آیا اور اظہار جذبات کے لئے جنونی کیفیت طاری ہو گئی۔ فوری اور اچانک پیدا ہونے والا اشتعال‘ اتنا شدید نہیں ہوتا۔ یہ اشتعال فوری نہیں‘ برسوں کے تپتے ہوئے دکھوں‘ مایوسیوں‘ محرومیوں‘ صدموں‘ اذیتوں اور توہین و تذلیل سے بنتے اور پکتے ہوئے لاوے کا ابال تھا‘ جس کے لئے چرچوں پر ہونے والے بم دھماکے بہانہ بن گئے۔ توقع اور روایت کے عین مطابق‘ حکومت کا ردعمل اسی طرح کتابی تھا‘ جیسے انگریز بنا کر چھوڑ گئے تھے۔ اسی طرح کی منافقانہ تسلیاں۔ اسی طرح مصنوعی ہمدردیوں کا اظہار۔ اسی طرح ہلاک ہونے والے‘ ہر فرد کی قیمت اور اسی طرح مجرموں کو سزائیں دینے کے وعدے۔ پاکستان کے ہزاروں شہری‘ بم دھماکوں میں شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں سے کتنے شہیدوں کی جان لینے والوں کو پکڑا گیا ہے؟ اور عیسائیوں کے مجرموں کو تو پکڑنے کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ اتنا کچھ ہی کر سکتے تھے‘ جتنا کل وہ کر گزرے۔ ان کے لئے اتنی ہی فورس کافی تھی‘ جتنی آج لاہور میں استعمال ہوئی اور مرنے والوں کے سوگ میں شرکت کرنے والوں کو روک کر صرف ایک محلے کے لوگوں سے کہا گیا کہ اپنے مردوں کی آخری رسومات ادا کر لو۔ میں اپنے عیسائی ہم وطنوں سے یہی کہہ سکتا ہوں کہ تمہاری تکلیف ہم سے الگ نہیں۔ مسلمان غریبوں کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوتا ہے‘ جو تمہارے ساتھ ہو رہا ہے۔ حکمران جب کسی کو ظلم کا نشانہ بناتے ہیں‘ تو یہ نہیں دیکھتے کہ زخم کھانے والا کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے؟ اس کا صرف غریب ہونا شرط ہے۔ مظفر گڑھ کی جو لڑکی زبردستی بے آبروئی پر‘ انصاف مانگنے تھانے پہنچی‘ پولیس نے اس کی کوئی دادرسی نہیں کی۔ اس کے برعکس تھانے دار نے اسے دھکے دیئے۔ جب اس نے احتجاج کیا‘ تو اس کی پٹائی بھی کر دی۔ آخرکار اس نے تنگ آ کر‘ اپنے آپ پر
تیل چھڑکا اور آگ لگا لی۔ وہ جل کے مر گئی۔ مگر مجرم آج بھی آزاد پھر رہے ہیں۔ وہ لڑکی کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ آپ اسے عیسائی سمجھ لیں۔ آپ اسے مسلمان سمجھ لیں۔ آپ اسے ہندو سمجھ لیں۔ لیکن اصل میں‘ وہ صرف ایک برادری سے تعلق رکھتی تھی اور وہ ہے غریبوں کی برادری۔ لٹیروں اور ظالموں کی حکومتیں‘ انسانوں کی تذلیل اور ان پر ظلم کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھتیں کہ نشانے بننے والوں کا مذہب کیا ہے؟ وہ صرف اتنا دیکھتے ہیں کہ یہ بے سہارا کتنا ہے؟ کمزور کتنا ہے؟ یہ حکومت کے لئے خطرہ تو نہیں پیدا کر سکتا؟ یہ حکمرانوں کو نقصان تو نہیں پہنچا سکتا؟ان سارے سوالوں کا جواب‘ حکمرانوں کے پاس موجود ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ظلم کے لئے انتہائی محفوظ اور خالی ازخطر نشانہ‘ غریب طبقے ہیں۔ ان پر جتنا چاہو ظلم ڈھا لو‘ یہ صرف روتے دھوتے‘ نعرے لگاتے اور سینہ پیٹتے رہ جائیں گے اور زیادہ تکلیف پہنچی‘ تو سڑکوں پر پتھر چلا کر ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ ان کے ردعمل کے دوران‘ دوچار مر گئے‘ تواس جرم کی پاداش میں پچاس ساٹھ غریبوں کوپکڑ کے‘ برسوں جیل میں مشقت کرنے کے لئے بند کر دیا جائے گا۔ غریب کے ساتھ مقامی بادشاہ بھی یہی کرتے تھے۔ ان میں بہت سے بیرونی ملکوں سے آئے تھے۔ بیرونی ملکوں سے آنے والے آخری حکمران‘ انگریز تھے۔ انہوں نے مقامی حکمرانوں کے طبقات پیدا کر کے‘ انہیں اس قابل کر دیا کہ طبقاتی ظلم کی جو مشینری‘ بیرونی حکمرانوں نے صدیوں میں تیار کی ہے‘ مقامی جانشین اسے کامیابی سے استعمال کریں اور جانشین‘ ان کی امیدوں سے زیادہ کامیاب ثابت ہو رہے ہیں۔ انگریز صرف ہندوئوں اور مسلمانوں کو‘ ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے تھے‘ لیکن جانشینوں نے تومسلح سکیورٹی فورسز کے علاوہ جاگیردار‘ دہشت گرد‘ مافیاز‘ ٹارگٹ کلرز‘ ڈاکو‘ لٹیرے‘ اغوا برائے تاون والے‘ نہ جانے کتنے کارندے کھڑے کر دیئے ہیں؟ جو ظلم کے نظام کو مظلوموں کے جوابی وار سے بچانے کے لئے‘ ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں۔ برطانوی سیاست کا تجربہ رکھنے والا ایک لیڈر‘ چوہدری محمد سرور جو پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہوتا رہا‘ اسے ہمارے حکمرانوں نے پنجاب کی گورنری دے کر یہاں بلا لیا۔ دونوں اپنے اپنے دائو پر تھے۔ چوہدری سرور بھی اور حکمران بھی۔ حکمران ‘ یورپی منڈی میں تجارتی مراعات حاصل کرنے کے لئے‘ برسوں سے ہاتھ
پائوں مار رہے تھے مگر ان کی سنی نہیں جا رہی تھی۔ چوہدری سرور کو گورنر اس لئے بنایا گیا کہ وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے‘ یورپی منڈی میں مراعات دلوا دیں۔ چوہدری صاحب نے یورپی یونین سے یہ رعایت لے کر دے دی۔ یہاں ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ یورپی پارلیمنٹ کے اراکین نے شرط لگائی کہ ''ہم آپ کے ملک کے حق میں ووٹ اس شرط پر دیں گے کہ آپ ملالہ کوبرسلز میں بلوا کر ہم سے ملوائیں۔‘‘ اگر میں یہ کہوں تو شاید غلط نہ ہو کہ چوہدری سرور اور ملالہ‘ دونوں کی ذاتی کوشش سے پاکستان کو یہ رعایت مل گئی۔ ملالہ تو ماشاء اللہ عالمی سطح کی شخصیت بن چکی ہے‘ جبکہ چوہدری صاحب وطن واپس آ کر ‘ مظلوم عوام کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ گورنری کا فائدہ اٹھا کر‘ میں کمزوروں کی مدد کروں گا۔ وہ کمزوروں کی مدد تو کیا کرتے؟ اپنے ایک عزیز کی زمین‘ جو ایک قبضہ گروپ کی تحویل میں تھی‘ کوشش کے باوجود اسے واپس نہ دلا سکے۔ انہوں نے طاقتوروں کے ستائے ہوئے‘ جس کمزور کی مدد کرنا چاہی‘ اس میں ناکام رہے۔ تنگ آ کر وہ تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور اب لمبی جدوجہد کے راستے پر گامزن ہیں۔ کاش! سارے غریبوں اور محروموں کو سمجھ آ جائے کہ وہ ایک دوسرے کو نہیں مارتے۔ مسلمان‘ عیسائی کو نہیں مارتا۔ سنی‘ شیعہ کو نہیں مارتا۔ شیعہ‘ سنی کو نہیں مارتا۔ بریلوی ‘ دیوبندی کو نہیں مارتا۔ دیوبندی‘ بریلوی نہیں مارتا۔ پنجابی‘ بلوچ کو نہیں مارتا۔ بلوچ‘ پنجابی کو نہیں مارتا۔ مہاجر‘ سندھی کو نہیں مارتا۔ سندھی‘ مہاجر کو نہیں مارتا‘ ان سب کو مارنے والا ایک ہے اور وہ ہے ہمارا حکمران طبقہ۔ جب تک ہم ایک دوسرے کو مار کر خوش ہوتے رہیں گے کہ اپنے مخالف کو مار دیا۔ اس وقت تک حکمرانوں کے وارے نیارے رہیں گے۔ وہ دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹتے رہیں گے اور ہم ایک دوسرے کو مار کے سمجھتے رہیں گے کہ اپنا مقصد پورا کر لیا۔ یہ کھیل اس وقت تک چلے گا‘ جب تک جرم ضعیفی کے مارے ہوئے‘ اکٹھے ہو کر اپنا بچائو کرنے کے لئے تیار نہیںہو جاتے۔ ایک بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ حکمران تو اپنی برتری اور غلبہ قائم رکھنے کے لئے‘ اندھادھند خون بہاتے ہیں‘ لیکن جس دن غریبوں نے ایکا کر لیا‘ انہیں کسی کا خون بہانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ان کا اتحاد دیکھ کر ہی‘ سب لٹیرے دمیں ہلاتے ہوئے بھاگ جائیں گے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا‘ یہی ہوتا رہے گا۔یہ لوٹتے اور مارتے رہیں گے اور جہاں مرنے والوں کو پتہ چل گیا کہ مارنے والا کون ہے؟ تو وہ لاشوں کی قیمت ادا کر کے ورثا کو چپ کراتے رہیں گے۔ جب تک ہمارا شعور بیدار نہیں ہوتا‘ آیئے! ایک دوسرے سے لڑتے رہیں اور حکمران مزے کرتے رہیں۔