ان دنوں کالم نویسی‘ روایتی غزل بن کے رہ گئی ہے۔ اسی طرح پامال مضامین ۔ اسی طرح کی بندش الفاظ۔ اسی طرح کے استعارے۔ اسی طرح کی علامات۔ اسی طرح محبوب کی بیوفائی کے گلے۔ غرض کسی بھی اعتبار سے روایتی غزل اور آج کے کالم میں خاص فرق نہیں رہ گیا۔ غزل کا محبوب تو خوبصورت انسان ہوتا یا ہوتی ہے اور کالم کا محبوب ‘ پاکستان کے حکمران ہیں۔ جس طرح غزل کا پتھر دل محبوب اپنے عاشق پہ ستم ڈھاتا اور اسے بیوفائی کے چرکے لگاتا ہے‘ اسی طرح کالم نگاروں کا محبوب بے اعتنائی سے کام لیتا ہے۔ کوئی شکایت اس پر اثر نہیں کرتی۔ کسی التجا پر اس کا دل نہیں پسیجتا۔ غزل کے شاعر کا دشمن ‘رقیب ِروسیاہ ہوتا تھا اور کالم نویس کا دشمن‘ درباری مصاحبین ‘ ریاستی خزانے کو لوٹنے والے کرپٹ ارباب اقتدار ہوتے ہیں۔ غزل کا محبوب‘ رقیب روسیاہ کے خلاف عاشق کی کسی شکایت پر کان نہیں دھرتا۔ کالم نویس کا محبوب بھی‘ اس کی ساری آہ وبکا کو ایک کان سے سن کر ‘ دوسرے سے اڑا دیتا ہے یااس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک آنکھ سے پڑھ کر دوسری سے خارج کر دیتا ہے۔ جس طرح غزل کا محبوب ‘ رقیبان روسیاہ کے نرغے میں آیا رہتا ہے‘ اسی طرح کالم نویس کا محبوب بھی یعنی حکمران‘ خوشامدیوں ‘ کاسہ لیسوں اور سازشیوں میں گھرا رہتا ہے۔ غزل کا عاشق ‘ محبوب کو انداز بدل بدل کر‘ رقیبان رو سیاہ کے دام فریب سے نکلنے کے مشورے دیتا ہے۔ کالم نویس بھی انداز بدل بدل کے‘ حکمران کو کبھی ڈراکر‘ کبھی حق جتا کے اور کبھی محبت سے سمجھا کر‘ رقیبوں سے جان چھڑانے کے مشورے دیتا ہے۔ لیکن غزل کے محبوب کی طرح کالم نویس کا محبوب بھی‘ اسے خاطر میں نہیں لاتا۔
جس طرح غزل کے عاشق کو محبوب سے گلہ رہتا ہے کہ وہ جعلی عاشقوں کے دھوکے میں آ کر‘ اپنے حسن کے جلوے اور رعنائیاں ضائع کرتا ہے‘ اسی طرح کالم نویس کے محبوب کو بھی یہی گلہ رہتا ہے کہ وہ کالم نویسوں کے بھیس میں چھپے ‘ اپنے جعلی عاشقوں پر زیادہ دھیان دیتا ہے۔غزل کے عاشق کو گلہ تھا ؎
گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی
مگر اس طرح کی فرمائشیں جعلی عاشق کرتے ہیں اور جعلی کالم نویس بھی یہی کرتے ہیں۔ جعلی عاشقوں کا تو پتہ نہیں کہ انہیں کوئی نگاہ کرم نصیب ہوتی ہے یا نہیں؟ لیکن جعلی کالم نویسوں پر عنایات کی بارشیں ہوتی ہیں۔ غزل کی پذیرائی کے بھی دو ہی مقامات تھے۔ دربار اور کوچہ و بازار۔ کالم نویس کی پذیرائی کے مقامات بھی یہی ہیں۔دربار اور کوچہ و بازار۔دربار میں مصنوعی شاعری کی پذیرائی ہوتی ہے جس پر غالب نے طنز کیا تھا ؎
بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے؟
غالب نے مصنوعی شاعروں کی دربار میں ‘پذیرائی پر جل کر کہا تھاکہ ان کا رقیب مصنوعی اوربناوٹی شاعری کر کے محبوب یعنی بادشاہ کا دل لبھاتا اور انعام و اکرام پاتا ہے اور محفل عاشقاں میں بیٹھ کر اتراتا بھی ہے۔ یہی کچھ کالم نویسوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے کہ شاہ کے مصاحب‘ جب ان کے درمیان آتے ہیں ‘ تو اپنے ہنر اور فن میں‘ برتر لوگوں کے سامنے بیٹھ کر یوں اتراتے ہیں‘ جیسے اصل شاعر وہی ہوں اور جو خون جگر سے اپنے الفاظ میں رنگ بھرتے ہیں‘ وہ کوئی وقعت نہیں رکھتے۔غزل پر بھی معاشرے کے دورانحطاط میں شباب آیا تھا اور کالم نویسی پر بھی اس دورانحطاط میں شباب آیا ہوا ہے۔ ایک وقت تھا ‘ کالم نویسوں کے ٹارگٹ قارئین‘ اہل ذوق اور اہل نظر ہوا کرتے تھے۔ انہیں بادشاہ سے کوئی غرض نہیں ہوتی تھی۔ اکثر اوقات تو وہ اپنے کالموں میں بادشاہ کا تذکرہ تک نہیںکرتے تھے۔ اگر آپ چراغ حسن حسرت‘ مجید لاہوری اور ابن انشاء کے کالم نکال کر پڑھ لیں‘ تو ہر ایک کا اپنا ایک انداز تھا۔بادشاہ کی خوشامد سے انہیں کوئی غرض نہیں تھی۔ مجیدلاہوری کے کالموں میں عام شہری موضوعات کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ اس عام شہری کا نام رمضانی تھا اور وہ تمام مسائل اور موضوعات پر‘ رمضانی ہی کے نکتہ نظر سے دنیا کو دیکھتے تھے۔ چراغ حسن حسرت الفاظ کی دروبست اور حسِ ظرافت سے
کام لے کر‘ اپنا کالم سجاتے اور طنز کے تیر چلاتے تھے۔ ابن انشاء طبعی ظرافت اور گہری نظر سے‘ ایسے ایسے باریک نکتے‘ ہنستے ہنستے نکالا کرتے کہ قاری کو ہنسی کے بعد سوچنا بھی پڑتا تھا کہ انشاء جی نے کیا لکھ دیا ؟ انشاء جی کا اگر کوئی بادشاہ تھا تو وہ قدرت اللہ شہاب اور جمیل الدین عالی تھے۔ دونوں کا تعلق دربار سے تھا۔ مگر انشاء جی‘ درباریوں کے درباری نہیں تھے۔ انہیں دوستانہ انداز سے ‘طنزومزاح کا نشانہ بناتے اور اسی کی آڑ میں اپنے سماجی شعور کا اظہار بھی کر ڈالتے۔ کبھی وہ بچوں کے منہ سے و ہ باتیں کہلوا دیتے‘ جو بڑے بڑے عالم فاضل بھی نہ کہہ سکتے اور کبھی کبھی خود بچے بن کر اپنی دانش کے موتی بکھیرتے۔ یہ تینوں کالم نویس شاعر بھی تھے۔ سب کی شاعری کا اپنااپنا انداز تھا۔ مجیدلاہوری کو
آپ نئے دور کا نظیراکبرآبادی کہہ سکتے ہیں۔ نظیر نے درباری شاعری کی دنیا سے دور رہ کر‘ گلی کوچوں اور معاشرے کے نچلے طبقوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ جیسے کوچہ و بازار کے کالم نویس آج کے حکمرانوں کو مستقبل کے انجام سے ڈراتے رہتے ہیں۔ یہی کام کوچہ و بازار کا شاعر نظیراکبر آبادی کیا کرتا تھا۔ وہ اپنے دور کے شاہوں اور بادشاہوں سے کہتا ؎
جب چلتے چلتے رستے میں یہ گون تری رہ جاوے گی
اک بدھیا تیری مٹی پر پھر گھاس نہ چرنے آوے گی
یہ کھیپ جو تونے لادی ہے سب حصوں میں بٹ جاوے گی
دھی‘ پوت‘ جنوائی‘ بیٹا کیا‘ بنجارن پاس نہ آوے گی
سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
کچھ کام نہ آوے گا تیرے یہ لعل‘ زمرد‘ سیم و زر
جب پونجی باٹ میں بکھرے گی‘ ہر آن بنے گی جان اُوپر
نوبت نقارے‘ بان‘ نشان‘ دولت‘ حشمت‘ فوجیں‘ لشکر
کیا مسند‘ تکیہ‘ ملک‘ مکاں‘ کرسی‘ چوکی‘ تخت چھپر
سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
کیوں جی پر بوجھ اٹھاتا ہے‘ ان گونوں بھاری بھاری کے
جب موت کا ڈیرا آن پڑا پھر دُونے ہیں بیوپاری کے
کیا ساز‘ جڑائو‘ زر‘ زیور‘ کیا گوٹے دھان کناری کے
کیا گھوڑے زین سنہری کے‘ کیا ہاتھی لال عماری کے
سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
حکمران طبقوں کو انجام سے ڈرا کے جب نظیر کوچہ و بازار کے خاک بسر لوگوں کی دنیا میں آتا ہے تو کیا دیکھتا ہے؟اس نظم کے کچھ بند پیش کر رہا ہوں ؎
جب آدمی کے پیٹ میں آتی ہیں روٹیاں
پھولی نہیں بدن میں سماتی ہیں روٹیاں
آنکھیں پری رخوں سے لڑاتی ہیں روٹیاں
سینے اُپر بھی ہاتھ چلاتی ہیں روٹیاں
جتنے مزے ہیں سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں
روٹی سے جس کا ناک تلک پیٹ ہے بھرا
کرتا پھرے ہے کیا وہ اچھل کود جا بجا
دیوار پھاند کر کوئی‘ کوٹھا اچھل گیا
ٹھٹھا‘ ہنسی‘ شراب ‘ صنم‘ ساقی‘ اس سوا
سو سو طرح کی دھوم مچاتی ہیں روٹیاں
آوے توے تنور کا جس جا زباں پہ نام
یا چکی چولہے کے جہاں گلزار ہوں تمام
واں سر جھکا کے کیجئے ڈنڈوت اور سلام
اس واسطے کہ خاص یہ روٹی کے ہیں مقام
پہلے انہی مکانوں میں آتی ہیں روٹیاں
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہر و ماہ‘ حق نے بنائے ہیں کاہے کے
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں
جس طرح نظیر کے دور میںقصیدہ نویس‘ دربار کے شاعر تھے اور نظیر کوچہ و بازار کا۔ اسی طرح آج کالم نویسوں کی دنیا میں‘ بیشتر دربار کے کالم نویس ہیں اور چند کالم نویس کوچہ و بازار سے نسبت رکھتے ہیں۔ مگر یہ ہیں کتنے؟ نظیر تو صرف ایک تھا۔