یکم اپریل کو جھوٹ اور گپ بازی کی آزادی ہوتی ہے۔ان لوگوں کی چھوڑئیے‘ جو سال کے365دن ‘جھوٹ اور گپ بازی میں مصروف رہتے ہیں اور جو سادہ لوح افراد سال میں ایک دن‘ تھوڑی سی گپ شپ اور جھوٹ سے دل بہلاتے ہیں‘وہاں مشرقی تمدن اور تہذیب کے ساتھ ساتھ‘ اعتقادات کا سوال بھی کھڑا ہو جاتا ہے اور نصیحتیں کی جانے لگتی ہیں کہ یکم اپریل تو انگریزوں کی رسم ہے‘ اس کا ہماری تہذیب سے کوئی تعلق نہیں۔یہ ہمارے اعتقادات کے خلاف ہے ۔ ہماری تہذیب سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ایسے لوگوں سے پوچھنا چاہئے کہ آپ جو سال کے364دن‘ جھوٹ اور گپ بازی میں گزارتے ہیں‘ وہ کون سی تہذیب یا روایت کے مطابق جائز ہے؟آپ کسی بھی بازار میں جا کر‘ ایک چیز کے ریٹ پوچھنا شروع کر دیں۔صرف دس دکانوں پر جائیں تو اس کے دس مختلف ریٹ بتائے جائیں گے۔ اس سے بڑا اپریل فول کیا ہو سکتا ہے؟اگرآپ کسی بھی مغربی کمپنی کی مصنوعات خریدنے نکلیں تو پورا بازار تو کیا‘ پورے شہر میں یکساں ریٹ ملیں گے۔ مقامی کمپنیوں کی ڈرنک ایبل پانی کی بوتلیں خریدیں تو ہر کمپنی کے ریٹ مختلف ہوں گے لیکن بڑی مغربی کمپنی کا پانی خریدیں تو آپ کو پورے ملک میں ایک ریٹ ملے گا۔اپریل فول‘ سال میں صرف ایک دن‘ نوجوان لڑکے لڑکیاں مناتے ہیں ؟یا پورا سال جھوٹ بولنے والے کاروباری؟سب سے زیادہ اپریل فول منانے کا کام‘ ہمارے حکمران اور سیاست دان کرتے ہیں۔جب کوئی وزیر ‘دو چار مہینے میں آپ کے مسائل حل کرنے کا وعدہ کرتا ہے‘ وہ آپ کو یکم اپریل کے بغیر ہی اپریل فول بنا رہا ہوتا ہے۔تیل اور ڈیزل کی فروخت کا کام حکومت کے پاس ہے۔ وہ ہر مہینے کی یکم تاریخ کو اپریل فول کے طور پر مناتی ہے۔ دنیا بھر میں تیل کے نرخ کم ہو رہے ہوتے ہیں اور حکومت بڑھا رہی ہوتی ہے اور جب نرخ بڑھتے ہیں ‘ تو پھر وہ بڑھتے ہی رہتے ہیں۔
جب انتخابی مہم آتی ہے تو تمام سیاسی پارٹیاں اور تمام امیدوار‘ عوام کو اپریل فول بنانا شروع کرتے ہیں اور ایک سے ایک بڑھ کے جھوٹ‘ گھڑ کے آپ سے داد طلب کرتے ہیں۔ جو پارٹی سب سے زیادہ اپریل فول بناتی ہے‘ سب سے زیادہ ووٹ بھی اسی کو ملتے ہیں۔ اس اعتبار سے ہمارے عوام ‘ اپریل فول یا گپ شپ کے سب سے بڑے قدر دان ہیں۔گزشتہ انتخابات میں یوں تو متعدد پارٹیوں نے حصہ لیا لیکن جھوٹ کے میدان میں (ن) لیگ سب کو مات دے گئی۔اس نے بار بار ایک ہی وعدہ کیا کہ ہم لوڈشیڈنگ ختم کر دیں گے۔وہ کہتے ہیں نا‘ دروغ گو را حافظہ نہ باشد۔ (ن) لیگ کے لیڈروں نے بھی‘ ہر جلسے میں ایک ہی جھوٹ مختلف طریقوں سے بولا۔ایک جلسے میں کہا کہ ہم چھ مہینے میں لوڈشیڈنگ ختم کر دیں گے۔دوسرے میں یہی مدت دو سال ہو گئی اور کسی اور شہر میں جا کے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا عرصہ تین سال ہو گیا۔مختلف مدتوں کا ایک ہی وعدہ‘بیک وقت ٹی وی پر دکھایا اور سنایا جاتا تھا۔ سارے ملک کے لوگ اسے ایک ہی وقت میں دیکھتے تھے اور اعتبار کرتے تھے۔اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ ہماری سیاسی اور سرکاری زندگی میں اپریل فول مقبول ترین مشغلہ ہے۔ ان شعبوں میں جتنی سنجیدگی سے اپریل فول منایا جاتا ہے‘انگریز اس طرح نہیں مناتے۔ انہوں نے جھوٹ بولنے کے لئے‘ سال میں صرف ایک دن مخصوص کر رکھا ہے۔ اس دن جی بھر کے جھوٹ بولتے ہیں۔ باقی سارا سال جھوٹ سے پرہیز کرتے ہیں۔ ہم سارا سال جھوٹ بولتے ہیں لیکن جب یکم اپریل کو جھوٹ بولا جاتا ہے تو اس پر بڑی سنجیدگی سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ تو انگریزوں کی روایت ہے یعنی سارا سال جھوٹ بولنا درست ہے لیکن جھوٹ کے لئے ایک دن مخصوص کر دینا‘غیر وں کی روایت ہے۔ہماری زندگی سے سچ کویوں ٹھوکریں مار کے نکال دیا گیا ہے کہ اسے بولنے والے کو‘ تھوڑے ہی دنوں میں معاشرے سے باہر کر دیا جاتا ہے مثلاً جب کوئی گوالا آپ کو یہ بتا دے کہ اس نے دودھ میں جوہڑ کا پانی ڈالا ہے‘ تو اس کا کیا حال ہو گا؟ چند ہی روز میں اس سے دودھ لینا بند کر دیا جائے گا۔جوتے فروخت کرنے والا‘اگر آپ کو یہ بتا دے کہ اس کے تلے کے اندر‘ چمڑے کے بجائے گتہ لگا ہے تو چار دنوں میں وہ بے کار بیٹھا‘ مکھیاں اڑاتا نظر آئے گا۔یہ انکشافات آپ اکثر پڑھتے ہوں گے کہ ہوٹلوں اور شادی گھروں میں‘ آپ کو دوسروں کا چھوڑا ہوا کھانا پیش کیا جاتا ہے یعنی ایک شادی کے دوران مہمان ‘پلیٹوں میں جو چھوڑ کر جاتے ہیں‘بعد میں وہی کھانا جمع کر کے اگلی شادی میں پیش کر دیا جاتا ہے۔اگر ہوٹلوں اور شادی گھروں کے مالکان سچ بتانا شروع کر دیں تو ان کا کاروبار ٹھپ۔
اپریل فول کی گپ گھڑنے کے لئے‘ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ملاوٹ اور کاروباری فریب کاری کے لئے‘بے حسی اور سنگدلی کی۔ اس کی تازہ مثال گائے بھینس کا گوشت کھانے والوں کو گدھے کا گوشت کھلانا ہے۔آج کل اکثر اخباروں میں یہ خبریں پڑھنے میں آتی ہیں کہ فلاں شہر میں قصائی گدھے کا گوشت فرو خت کرتا ہوا پکڑا گیا۔ یکم اپریل کو تو صرف دوسروں کو بے وقوف بنا کر ہنسی سے کام چلا لیا جاتا ہے لیکن گدھے کا گوشت کھلانے والے تو گدھے کو گدھا بناتے ہیں۔ جو شخص گدھے کا گوشت گائے ‘ بھینس کا گوشت سمجھ کر خریدتا ہے ‘ وہ گدھا نہیں تو کیا ہے؟ اور جس کو گدھے کا گوشت کھا کر بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کھا رہا ہے‘ اسے میں کیا کہوں؟ گدھے کا بھی باپ! اور یہ جو ہم ہر انتخابات کے موقعے پر ووٹ ڈالنے جاتے ہیں‘ کیا یہ حقیقت نہیں کہ زیادہ ووٹ گدھوں کو ملتے ہیں؟ وہی زیادہ تعداد میں کامیاب ہوتے ہیں۔ وہی حکومت بناتے ہیںاور پھر جتنا عرصہ حکومت کرتے ہیں‘ ہمیں گدھا بناتے ہیں۔خدا لگتی کہئے‘ کیا ہم انتخابات کے دوران‘ ووٹ دیتے وقت پوری طرح تسلی نہیں کرتے کہ جس امیدوار کو
ووٹ دیں‘ وہ ہمیں انسان سمجھ کر مسائل حل کرے گا؟ لیکن جیسے ہی مختلف پارٹیوں کے لوگ کامیاب ہو کر‘ ایک پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں تو پھر اپنے اقتدار کا پورا عرصہ‘ ہمیں اپریل فول بناتے ہیں۔زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ایک احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔عوام نے پر جوش انداز میں زور دار مظاہرے شروع کر دئیے۔ پارلیمنٹ میں جو لوگ حزب اقتداراور حزب اختلاف میں تقسیم ہو کر بیٹھے تھے‘ دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے اپنے سارے لیبل اتارے۔عوام کے لئے یہ شناخت کرنا مشکل ہو گیا کہ کون حزب اقتدار کی طرف سے بول رہا ہے اور کون حزب اختلاف کی طرف سے۔ سب ایک ہی بات کہہ رہے تھے کہ ہم پارلیمنٹ پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ یعنی حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی تقسیم صرف ڈھکوسلہ تھا۔ اصل میں سارے ایک تھے۔ایک دوسرے کے خلاف تقریریں کر کے‘عوام کو جھانسہ دے رہے تھے۔ جیسے ہی وقت آیا‘ ملاوٹ کرنے والے دودھ والوں یا گدھے کا گوشت بیچنے والے قصائیوں کی طرح یکجا ہو گئے اور عوام کے لئے کوئی چوائس ہی نہ چھوڑی۔ سب نے مل کر‘ ہمیں اپریل فول بنایا۔ان دنوں‘ ہر دن ہمارے لئے اپریل فول تھا اور جھوٹا موٹا اپریل فول بھی نہیں ‘قومی اپریل فول۔آج یکم اپریل ہے اورہمیں فول بنانے کے لئے‘ حکومت نے اتنا بڑا ہاتھ مارا ہے کہ دنیا میں شاید ہی کسی دوسرے ملک کی حکومت نے عوام کو اس طرح بے وقوف بنایا ہو‘ جیسے ہم آج بنیں گے۔ہمیں قطر کی نچلے درجے کی وہ گیس دینے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا‘ جو معیار کے اعتبار سے انتہائی پست ہوتی ہے لیکن اسے ہم نے دنیا کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ریٹ دے کر خریدا ہے۔ مجھے اس کی زیادہ تفصیل معلوم نہیں مگر سننے میں آیا ہے کہ باقی ملک جو گیس خریدتے ہیں‘ اسے وہیں پر ریفائن کر اکے خریدا جاتا ہے جبکہ ہم وہ گیس‘ جوں کی توں خام حالت میں خریدیں گے اور یہاں اسے ریفائن کرنے کا خرچ اٹھائیں گے۔ اس کا جو بھی پیمانہ ہو‘ اس کے اعتبار سے کہا تو یہ جا رہا ہے کہ ہم آٹھ ڈالر فی یونٹ خرید رہے ہیں لیکن جب پراسیس کی جائے گی تو اس کی قیمت بارہ‘تیرہ ڈالر فی یونٹ ہو جائے گی۔کیا یہ قومی اپریل فول نہیں؟دنیا میں کوئلے کے چند بڑے ذخیروں میں سے ایک بڑا ذخیرہ ہمارے ملک میں بھی پایا جاتا ہے۔ ہم اس سے بجلی بنانا شروع کر دیں تو کئی صدیوں کے لئے‘ خودکفیل ہو سکتے ہیں۔یہ ٹیکنالوجی ہمارے پاس موجود ہے کہ زمین کے اندر دبے ہوئے کوئلے کو زمین کے نیچے ہی‘ کیمیاوی ٹریٹ منٹ دے کر گیس میں بدل سکتے ہیں یعنی کوئلہ جلنے سے جو زہریلی آلودگی پھیلتی ہے‘ ہم اس سے محفوظ رہیں گے۔اس عمل کے ذریعے زمین سے کوئلہ نہیں بلکہ گیس نکالی جائے گی۔ اس سے ڈیزل بھی بنایا جا سکتا ہے اور بجلی بھی مگر ہماری حکومتیں ‘اس پر سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں۔یہ اپریل فول نہیں تو کیا ہے؟جب کوئی نوجوانوں کو یہ نصیحت کرتا ہے کہ اپریل فول‘ انگریزوں کی رسم ہے‘ ہمیں ان کی نقل نہیں کرنا چاہئے۔جواب میں اعتراض کرنے والوں سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ آپ تو سال کے364دن اپریل فول مناتے ہیں‘ ہمارا ایک اپریل فول بھی آپ کو برا لگتا ہے۔