کراچی والوں کی خیر ہو گئی۔ جس طرح دو ہتھ چھٹ پارٹیاں ایک ضمنی الیکشن میں خم ٹھونک کر ایک دوسرے کے سامنے آ گئی تھیں‘ اس کے نتیجے میں خداجانے پورے شہر پر کیا گزرتی؟ ایم کیو ایم کے ایک لیڈر نے تو کہہ دیا تھا کہ ''کراچی میں آگ لگ جائے گی۔‘‘ قصہ یوں ہے کہ سردار نبیل گبول کو ‘ایم کیو ایم کی طرف سے دی گئی قومی اسمبلی کی نشست ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ جب سے وہ اس نشست پر کامیاب ہوئے‘ ان کا ہاضمہ بھی خراب رہا۔ سردرد بھی بہت ہوا اور ہر وقت کا پچھتاوا بھی کہ ''کاش! میں یہ سیٹ نہ لیتا۔‘‘ ان کے چہرے پر ہر وقت ہوائیاں اڑتی رہتی تھیں۔ جب سے استعفیٰ دیا ہے‘ ان کے چہرے کی رونقیں لوٹ آئی ہیں۔ یہی وہ سیٹ ہے‘ جس پر اب پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے امیدوار آمنے سامنے ہیں۔ پہلی دعا تو یہ ہے کہ ان دونوں میں سے جو کامیاب ہو‘ سیٹ اسے ہضم ہو جائے! ایم کیو ایم کے امیدوار کے لئے تو یہ گھریلو مال ہے۔ لیکن اگر یہ سیٹ عمران اسماعیل کو مل گئی‘ تو ان پر اللہ ہی رحم کرے! ایم کیو ایم کی سیٹ ہضم کرنا آسان کام نہیں۔ ہر وقت پیٹ میں کائیں کائیں ہوگی۔ دونوں امیدواروں کی خوش قسمتی یہ ہے کہ انہوں نے ابھی انتخابی مہم کا ٹریلر ہی دیکھا تھا کہ ایم کیو ایم کے جہاندیدہ قائد الطاف بھائی آنے والے دنوں کے مناظر بھانپ گئے اور انہوں نے سندھ حکومت کی ڈیوٹی لگا دی کہ وہ دونوں پارٹیوں کے لیڈروں کو بلا کر ان کے درمیان کوڈ آف کنڈکٹ طے کرا دیں؛ تاکہ یہ دونوں‘ اسی کے اندر رہ کر انتخابی مہم چلائیں۔ کراچی کے شہریوں اور میڈیا نے‘ انتخابی مہم کا ٹریلر دیکھ کر ہی اپنے اپنے پروگرام بنا لئے تھے کہ وہ بے لگام انتخابی مہم کے دن کیسے اور کہاں گزاریں گے؟ جن کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں‘ ان پر تو لازم تھا کہ کراچی چھوڑ کر کسی بھی دوسرے شہر میں نکل جائیں‘ جہاں کے اخراجات وہ برداشت کر سکتے ہوں اور جنہیں اللہ نے اپنے فضل و کرم سے نواز رکھا ہے‘ وہ کہیں کا بھی رخ کر سکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے حامیوں کے لئے تو میدان کھلا ہے۔ آرام سے لندن جائیں اور انتخابی نتائج آنے کے بعد واپس آ جائیں۔ ساتھ ہی ریفریشمنٹ کورس بھی کرتے آئیں۔
باقی رہ گئے تحریک انصاف کے لوگ‘ تو عمران اسماعیل بھی ماشاء اللہ کھاتے پیتے گھرانے سے ہیں۔ سیاست کی کمائی انہیں ہضم نہیں ہو سکے گی۔ اسے ہضم کرنے والے معدے ہی الگ سے بنائے گئے ہیں۔ کرپشن دنیا بھر میں ہوتی ہے۔ لیکن آج کے زمانے میں کرپشن کا ایک نیک سا نام رکھا گیا ہے‘ جسے کہتے ہیں ''گڈمنی۔‘‘ اللہ کی شان ہے‘ جو دن رات محنت کر کے کماتے ہیں‘ ان کا پیسہ صرف ''منی‘‘ ہے یا ''ڈرٹی منی‘‘ اور جو اصل میں ''ڈرٹی منی‘‘ ہے‘ اسے ''گڈمنی‘‘ کہا جاتا ہے۔ عمران اسماعیل کافی رکھ رکھائو والے آدمی ہیں۔ لگتا تو یہی ہے کہ حلال کی کھاتے ہوں گے۔ خدانخواستہ‘ ایسا نہیں بھی ہے‘ تو ایسی جماعت میں جا پھنسے ہیں‘ جس کا ہیڈماسٹر بڑا سخت گیر ہے۔ اس کے تو ایک ایم پی اے نے ‘صرف ایک ناجائز امیدوار کے کاغذات نامزدگی پر دستخط کر دیئے تھے۔ خان صاحب نے اس کی درگت بنا ڈالی ۔ یہ میں نہیں جانتا کہ اس کی ممبری بچ گئی ہے یا نہیں؟ ویسے ایم کیو ایم کے چھوٹے چھوٹے لیڈروں کا طرززندگی دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ بیچارے ''گڈمنی‘‘ سے بری طرح محروم ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار‘ جو ایم کیو ایم کے نمایاں لیڈر ہیں‘ انہیں قریب آتے ہوئے دیکھ کر دل بیٹھنے لگتا ہے کہ قرضِ حسنہ مانگ بیٹھے‘ تو کیا کریں گے؟ قرض مانگیں نہ مانگیں لیکن ان کی عاجزانہ طبیعت سے اندازہ یہی ہوتا ہے۔
اب آتے ہیں انتخابی مہم کی طرف۔ خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ الطاف حسین نے فوری نوٹس لے کر‘ معاملہ بگڑنے سے بچا لیا۔ ورنہ ان دنوں ایم کیو ایم کے جونیئر قائدین‘ تازہ تازہ جھڑکیاں کھا کر بیٹھے ہیں کہ انہوں نے اپنے قائد محترم کے خلاف‘ معاندانہ مہم دیکھ کر مخالفین کے کُھنّے کیوں نہیں سینک دیئے؟ ساری جونیئر قیادت غضب ناک ہوئی بیٹھی تھی اور موقع کی تاک میں تھی کہ جیسے ہی چانس ملے ''بھائی‘‘ کے گلے شکوے دور کردیں۔ جونہی تحریک انصاف کا امیدوار ‘ ایم کیو ایم کے آنگن میں آیا‘ ہر ایک بڑھ چڑھ کر پرفارمنس دینے پر تل گیا۔ابھی تو علیک سلیک ہی ہوئی تھی کہ ''بھائی ‘‘نے فوراً نوٹس لے لیا اور بڑی شائستگی سے پیغام بھیجا کہ تحریک انصاف چاہے تو جناح گرائونڈ میں جلسہ کر لے۔ ''بھائی‘‘ نے گزارش کی کہ یادگار شہدا کا تقدس برقرار رکھا جائے اور تجویز دی کہ اگر پی ٹی آئی دوسرا گرائونڈ دیکھ لے‘ تو ہم جلسے کے انعقاد میں تعاون بھی کریں گے۔ ''بھائی‘‘ کی شکایت دور کرنے کے لئے‘ پرستاروں نے خدا جانے کیسے کیسے ارمان دلوں میں بسا رکھے تھے؟ لیکن دل کے ارماں آنسوئوں میں بہہ گئے۔ وہ دو چار اچھے رہے‘ جنہوں نے موقع ملتے ہی جھٹ سے فائدہ اٹھا لیا اور تحریک انصاف پرایسے ایسے ‘تبرے بھیجے کہ لاکھوں روپے کی فیس پر تبرے بھیجنے والے بھی ماند پڑ گئے۔ حیدر عباس رضوی کا پرچم سب سے بلند رہا۔ یوں محسوس ہوا کہ بھائی کی شکایت ان کے دل پر لگی ہے اور وہ بلاتاخیر بھائی کو خوش کرنے کے لئے بیتاب تھے۔ مجھے نہیں معلوم انہیں کیا اطلاع ملی؟ لیکن انہوں نے جس دردانگیز انداز میں مجلس پڑھی‘ اس سے تو لگ رہا تھا کہ ان کا یوم عاشور آج ہی ہے۔ فرما رہے تھے کہ ''ظالموں نے بھائی کی تصاویر کو بے شرمی سے ہاتھ لگائے۔ انہیں پھاڑا۔ ان کی شان میں غیرمہذب الفاظ استعمال کئے۔‘‘ ٹی وی پر دکھائی تو نہیں دیئے۔ لیکن میرا اندازہ ہے کہ ان کی آنکھوں میں آنسو ضرور امڈ آئے ہوں گے۔ڈاکٹر فاروق ستار ہروقت ہی دکھ کی کیفیت میں
رہتے ہیں۔ اک ذرا چھیڑیئے پھردیکھئے کیا ہوتا ہے؟ اس دن کسی ٹی وی اینکر نے انہیں زیادہ نہیں بولنے دیا۔ شاید وہ بھانپ گئے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کو چند لفظ مزید بولنے کا موقع دیا‘ تو یہ پھوٹ پھوٹ کے رونا شروع کر دیں گے۔ ''بھائی‘‘ کی شان میں گستاخی؟ ایک سچا پرستار کیسے برداشت کر سکتا ہے؟ منہ پھیر کے ہی برداشت کر سکتا ہے۔
کل منگل کی شب‘ تحریک انصاف والوں کو کیا ہو گیا تھا؟ وہ اپنے ہی ساتھ غنڈے لائے اور بقول ڈاکٹر عارف علوی‘ خود ہی بندے لائے اور خود ہی مار کھائی۔لیکن ایک بات تو ماننا پڑے گی کہ ایم کیو ایم کے لیڈروں نے رات کو ٹیلیویژن پر‘ جس طرح عزاداری میں کمال فن کا مظاہرہ کیا‘ وہ بھی قابل دید تھا۔ اہل تشیع صدیاں گزرنے کے بعد بھی ‘ایسے پرسوز انداز میں عزاداری کرنا نہیں سیکھ پائے‘ جتنی الطاف بھائی کے پرستاروں نے چند گھنٹوں کے المیے پر سیکھ لی۔ سب کا دکھ یہ تھا کہ عمران اسماعیل اور ان کے ساتھیوں نے جناح گرائونڈ میں آکر ‘ الطاف بھائی کی شان میں گستاخانہ الفاظ کیوں کہے؟ (کچھ لیڈروں نے تو ان گستاخانہ الفاظ کو گالیاں قرار دیا۔ لیکن میں بھائی کے بارے میں ایسا نامناسب لفظ استعمال نہیں کر سکتا۔)مجھے کچھ یوں لگا کہ ایم کیو ایم کے جیالوں کی چند ہی روز میں ماہیتِ قلب ہو گئی ہے۔ وہ جس طرح گرج برس کر مخالفین کے لتے لیتے ہیں‘ وہ تو ان کی شان ہے۔ کسی زمانے میں ن لیگ تختۂ مشق بنا کرتی تھی۔ مگر آج کل ان کا پسندیدہ شکار تحریک انصاف والے ہیں۔ و ہ تو بات کا آغاز ہی اس صدمے کے اظہار سے کرتے ہیں کہ عمران خان کے جلسے میں خواتین کیوں آ جاتی ہیں؟ اور جب سے خان صاحب کی دوسری شادی کی خبر آئی ہے‘ اس نے ایم کیو ایم کو ہی غمزدہ نہیں کیا‘ ن لیگ اور جماعت اسلامی والے بھی دل پر ہاتھ رکھ کے آہیں بھرتے پھر رہے ہیں۔ لیکن ایم کیو ایم والوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ پرانے واقعات کو‘ ذاکروں کی طرح دہراتے رہتے ہیں۔اگر عمران خان نے کرکٹ ختم کر کے کوئی افیئر نہیں چلایا‘ تو اس میں ان کا کیا قصور؟ کئی سالوں سے وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ افیئر چلا رہے ہیں۔ لیکن ایم کیو ایم کے لیڈر ہیں کہ قرون اولیٰ کے قصے کہانیاں نکال کر‘ عمران خان کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ الطاف بھائی کے مخالفین کو تاریخ اور علم و ادب سے کوئی شناسائی نہیں۔ ورنہ پرانے قصے کہانیوں پر تو الطاف بھائی کو بھی چھیڑا جا سکتا ہے۔واجدعلی شاہ کا نام کس پڑھے لکھے سیاسی کارکن نے نہیں سنا؟ میں ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ الطاف بھائی نے اہل کراچی کو سیاسی تصادموں سے بچا لیا۔ الیکشن کا کیا ہے؟ یہ کئی بار ایم کیو ایم نے جیتے اور ایک ہی انتخابی سال میں عمران خان نے بھی درجنوں جیتے۔ الیکشن میں جیتنا یا ہارنا‘ انوکھی بات نہیں۔ انوکھی بات ایک دوسرے کے مقابلے میں الیکشن لڑنا ہے۔ الطاف بھائی نے ضمنی انتخاب کے دنگل کو الیکشن میں بدل کر‘ اپنے اور عمران کے ساتھیوں پر مہربانی کی ہے۔حاصل واقعہ عارف علوی کے یہ الفاظ ہیں ''کمال ہے! آپ ہی بندے لائیں اور آپ ہی مار کھائیں؟‘‘