"NNC" (space) message & send to 7575

مرغی خور شیر

بھارت والے‘ ہم پاکستانیوں سے دشمنی کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔ ہماری حکمران جماعت کا انتخابی نشان شیر ہے۔ انہوں نے شیر کی درگت بنانے کی خاطر یوپی ہی نہیں‘ کئی صوبوں میں انہیں مرغیاں کھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ وہ کام ہے‘ جو شیر نے صدیوں پہلے کیا ہو گا۔ آج بھی ہم کسی بھوکی بلی کو مرغی پر جھپٹتے دیکھ لیتے ہیں۔ کس قدر برا کام ہے؟ مرغی کا شکار کر کے‘ اس کے پروں کے اندر سے گوشت ڈھونڈ کے کھانا۔مگر وہ مجبور ہے‘ اس سے بڑے پرندے یا جاندار کا شکار کرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا۔ لیکن شیر اس زمانے کو بہت پیچھے چھوڑ آیا ہے‘ جب وہ بلی ہوا کرتا تھا۔ بھارت والوں نے صرف ہماری ضد میں اپنی کئی ریاستوں میں شیروں کو پھر سے بلی بننے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایسا کرنے کے لئے انہوں نے کروڑوں مسلمانوں کو دال بھات‘ زہرمار کرنے کی سزا دے دی ہے۔ اگرآپ بھارت جا کرزیرتبصرہ ریاستوں کے چڑیا گھروں میں دیکھیں‘ تو آپ کو جابجا عجیب مناظر دکھائی دیں گے۔ اچھے بھلے اصلی شیر مرغیوں کے پیچھے لپک رہے ہوتے ہیں۔ بلی کی طرح ان کے پروں کی چیرپھاڑ کر کے‘ اندر سے گوشت ڈھونڈتے ہیں۔ شیر کے جبڑے کے سائز کا اندازہ لگائیں اور مرغی کے گوشت کی مقدار دیکھیں‘ تو ہنسی آتی ہے کہ بھارتیوں نے شیر کے ساتھ مذاق کیاہے یا مرغی کے ساتھ؟ محب وطن پاکستانی اس بے رحمانہ مذاق پر بڑا دکھ محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں شیر کی حکومت ہے اور یہاں ان پر کھانے پینے کی کوئی پابندی نہیں۔ اول تو یہاں گھر گھر شیر ہے۔ چڑیا گھروں میں صرف وہی شیر رکھے جاتے ہیں‘ جن میں باغیانہ رجحانات پائے جاتے ہوں۔ مثلاً وہ سرکاری ملازم جو عوام کو اذیت پہنچانے‘ ان پر تشدد کرنے‘ انہیں پولیس مقابلے میں مار دینے یا حکمرانوں کے حکم پر‘ ان کی ناک رگڑوانے سے انکار کرتے ہیں‘ انہیں نوکریوں سے نکال کر پنجروں میں ڈال دیا جاتا ہے‘ لیکن یہ صرف سزایافتہ شیروں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
شاہی شیر ‘ من مانیاں کرتے ہیں‘ پاکستان کے شہری‘ بجلی کو ترستے ہیں‘ مگر شیر دن رات بے تحاشہ بجلی کھاتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہر مہینے پٹرول کی قلت پیدا کر کے‘ شیر خوب مزے سے بجلی کھا جاتے ہیں اور عوام بے بسی سے دیکھتے رہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ شیر صرف آٹا کھانے پر قناعت کر لیتا تھا‘ اب شیر آٹے کی طرف مڑ کے نہیں دیکھتا۔ گھی کھاتا ہے‘ انڈے کھاتا ہے‘ بکروں کا گوشت کھاتا ہے اور لہر میں ہو‘ تو بڑے بڑے منصوبے شروع کر کے‘ دولت کھاتا ہے‘ اس پر کرنسی کی کوئی پابندی نہیں۔ چاہے تو ڈالر کھاتا ہے‘ موڈ آئے‘ تو پونڈز چبانے شروع کر دیتا ہے‘ ریال تو بڑی رغبت سے کھاتا ہے‘ آج کل ہمارا شیر‘ ٹیڑھی آنکھوں سے بھارت کے روپے کی طرف بھی دیکھ رہا ہے اور اسے موقع مل گیا‘ تو وہ بھارتی روپیہ بھی کھاتا نظر آ جائے گا۔
دنیا میں شاید ہی کسی ملک کے شیروں نے ایسی ایسی غذائیں کھائی ہوں‘ جن سے پاکستانی شیر شوق فرماتے ہیں‘ مثلاً ہمارا شیر‘ جس رسیلے رتبے پر دل آئے‘ اسے آسانی سے کھا جاتا ہے۔ اگر اس پر پہلے سے کوئی بیٹھا ہو‘ تو شیرپہلے اس کو کھاتا ہے اور بعد میں رتبے کو۔ ہمارے ہاں نادرا کے ایک سربراہ طارق ملک پائے جاتے تھے‘ نیک اور دیانتدار باپ کے بیٹے تھے‘ اپنے آپ کو ریاست کا ملازم سمجھتے تھے۔ قائد اعظمؒ کے فرمودات انہوں نے گھر میں سن رکھے تھے‘ جن میں انہوں نے ریاست کے ملازمین کو سبق دیا تھا کہ آپ صرف ریاست کے ملازمین ہیں‘ کسی کا ناجائز حکم نہ مانیں‘ آپ کی شرائط ملازمت میں آئین اور قوانین کی پابندی کا ذکر ہے اور آپ آئین و قوانین کے سوا کسی بڑے سے بڑے عہدیدار کا حکم ماننے سے انکار کر دیں۔ جب طارق ملک کو شیر کی طرف سے غیرقانونی حکم پر عملدرآمد کے لئے کہا گیا‘ تو اس نے ادب سے جواب دیا کہ ''مجھے تو قائداعظمؒ نے ناجائز حکم ماننے سے انکار کی ہدایت کی ہے۔‘‘ اس پر شیرغضبناک ہو گیا اور اس نے پوچھا ''وہ کون ہے؟ ہم صرف قائد اعظم ثانی کو جانتے ہیں۔‘‘ طارق ملک نے قائداعظم اول کا حکم ماننے پر اصرار کیا‘ شیر نے اسے کھایا اور ڈکار لئے بغیر طارق ملک کی کرسی پر بیٹھ گیا۔ ہمارا شیر بڑے بڑے منصوبے شروع کرنے کا ازحد شوقین ہے۔ حزب اختلاف کے لیڈر ‘ شیر کے اس شوق کا ذکر کرتے ہیں‘ تو ان کے منہ سے مایوسی کی رال ٹپک رہی ہوتی ہے۔کچھ لیڈر تو ایسے ہیں‘ جنہوں نے شیر سے مقابلہ کرنے کا خیال چھوڑ کر اس کے دربار میں فرش پر بیٹھنے کی جگہ مانگتے ہوئے‘ کہا ہے کہ ہم صرف آپ کے چھوڑے ہوئے شکار پر گزر اوقات کر لیا کریں گے‘ نئے شکار کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھیں گے۔ سابق حزب اختلاف کے یہ رہنما‘ آج کل صرف شیر کے دسترخوان پر چھوڑے ہوئے ٹکڑوں اور ہڈیوں پر گزراوقات کرتے ہیں‘ مگر کمال ہے جی! کہ اس پر بھی خوش ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو خود کبھی شیر رہا ہو‘ اسے شیر اپنے دسترخوان پر چھوڑی ہوئی چیزیں کھانے کی اجازت دے دے‘ تو وہ اسی پر خوش ہو جاتا ہے۔ انسانی خوراک ان کو ذرا نہیں بھاتی‘ سچ یہ ہے کہ ہمارا شیر‘ حزب اختلاف کو بھی کھا جاتا ہے۔
شیر موٹرویز‘ جنگلا بسیں‘ ایئرپورٹس اور اسی طرح کے بڑے بڑے منصوبے شروع کر کے‘ ان کی گردنوں پر دانت گاڑتا اور خون پی لیتا ہے‘ باقی ماندہ منصوبہ قوم کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ ان دنوں شیر اپنی بھوکی نگاہیں ‘ پاکستان سٹیل ملز‘ پی آئی اے‘ اوجی ڈی سی ‘ ریلوے اور بے شمار دیگر نفع بخش اداروں پر گاڑے بیٹھا ہے‘ اس کی دونوں باچھوں سے رال بہہ رہی ہے‘ پنجوں کے ناخن کھڑے ہوئے ہیں۔ جیسے ہی طبیعت مچلی‘ شیر ایک ہی جست میں یہ سب چیزیںکھا جائے گا۔ پاکستان کا قومی خزانہ تو شیر کے دسترخوان کی سب سے خوش ذائقہ اور لذیذ ڈش ہے‘ جس دن شیر موڈ میں ہو‘ وہ
قومی خزانے سے دوچار سو بلین کا لقمہ لیتا ہے اور چبائے بغیر نگل لیتا ہے۔ جو کچھ میں نے بتایا ہے‘ یہ شیر کی ایسی خوراکیں ہیں‘ جنہیں پاکستانی عوام نے تسلیم کر رکھا ہے‘ ابھی تک شیر کی عادت تھی کہ وہ ہر الیکشن میں ووٹ اندھا دھند کھا لیا کرتا تھا‘ گزشتہ الیکشن میں شیر نے‘ حسب عادت ووٹ کھائے‘ تو ایک سرپھرا کھلاڑی شور مچانے لگا کہ ''شیر ووٹ کھا گیا۔ شیر ووٹ کھا گیا۔‘‘ وہ اب تک عوام اور عدالتوں سے فریادیں کر رہا ہے کہ شیر کو ووٹ کھانے سے روکو‘ لیکن جن لوگوں کو شیر نے اپنے کھائے ہوئے ووٹوں کی ہڈیاں اور چھچھڑے دے رکھے ہیں‘ وہ انہیں بھی چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اصولی طور پر سب مانتے ہیں کہ شیر سب کے حصے کے ووٹ کھا گیا‘ لیکن جب شیر کو آئندہ کے لئے ووٹ کھانے سے روکنے کے انتظامات کی بات ہوتی ہے‘ تو سب چپ سادھ کے بیٹھ جاتے ہیں۔ جس نے تھوڑے سے ووٹ بھی کھائے ہیں‘ شیر اسے کچھ نہ کچھ دے کر‘ چپ کرا دیتا ہے اور حق مانگنے والا کھلاڑی بے بس ہو کر رہ جاتا ہے۔ شیرکی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ صرف اپنی فیملی کے ساتھ شکار کھیلتا ہے۔ آپ جب بھی اسے دیکھیں گے‘ تو وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ شکار کھیلنا پسند کرتا ہے۔ کسی دوسرے کو اس کی اجازت نہیں دیتا؛ البتہ جو بچا ہوا شکار‘ شیر اور اس کی فیملی چھوڑ دیتے ہیں‘ اسے ادھر ادھر گھات لگا کر بیٹھے ہوئے بھیڑیئے‘ گیدڑ‘ لومڑ اور لگڑ بھگے کھانے کے لئے ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے پہنچ جاتے ہیں اور پھر طاقت آزمائی کر کے‘ جو جتنا کھا سکتا ہے‘ کھا لیتا ہے۔ خدا نے شیر کو صورت ایسی دے رکھی ہے کہ جب وہ اپنا منہ کھولتا ہے‘ تو دیکھنے والوں کو لگتا ہے کہ مسکرا رہا ہے‘ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ شیر کی ہر مسکراہٹ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی نئے شکار کو کھانے کی تیاری میں ہے۔ میں نے یہ تفصیل اس لئے بیان کی ہے کہ آپ کو اند ازہ ہو جائے‘ پاکستان میں شیر کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ اس کے کتنے وارے نیارے ہیں؟ اس پس منظر کو ذہن میں رکھیے اور بھارتیوں کی تنگ نظری پر نگاہ دوڑایئے کہ انہوں نے پاکستان میں شیر کی عزت و منزلت کو دیکھ کرانتقاماً اپنے ملک میں شیر کی کیا حالت بنا دی ہے؟ اس بیچارے کوگائے بھینس تو کیا‘ بکری کا گوشت بھی نہیں ملتا‘ وہ پنجرے میں رہتا ہے اور جب چڑیا گھر والے چاہتے ہیں‘ چند جیتی جاگتی مرغیاں اس کے جنگلے میں ڈال دیتے ہیں اور شیر بیچارا‘ مرغیوں کا شکار کھیل کر پیٹ بھرنے پر مجبور ہے اور پاکستان سے نفرت کرنے والے بھارتی شہری‘ اس کی حالت پر ترس کھانے کی بجائے صرف اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ پاکستانی اپنے ملک میں شیروں کی کتنی آئو بھگت کرتے ہیں؟ اور ہم نے اپنے ہاں شیروں کی کیا درگت بنا رکھی ہے؟ بھارت والوں نے تو پاکستان سے نفرت کی بناپر اپنے شیروں کا یہ حال کر رکھا ہے۔ ایک وقت آئے گا‘ جب ہم پاکستانی اپنے وطن سے محبت کے ثبوت میں‘ یہاں کے شیروں کا بھی وہی حال کر دیں گے جو بھارت والے کر رہے ہیں؛ البتہ ان کا اتنا خیال ضرور رکھیں گے کہ مرغیوں کی بجائے‘ انہیں بکرے اور گائے بھینس کا گوشت ڈال دیا کریں۔ اب تو یہ عالم ہے کہ ہمارے شیروں نے‘ ہم سے سبزیاں بھی چھیننا شروع کر دی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں