"NNC" (space) message & send to 7575

عمران کے لئے نیا چانس

حکومتی پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے ملی بھگت کر کے‘ تحریک انصاف کے لیڈر اور ان کے ساتھیوں کی‘ جس طرح پارلیمنٹ میں بے عزتی کی‘ یہ درحقیقت اس بے عزتی کا جواب تھا‘ جو عمران خان دھرنوں کے دوران ‘اپنی تقریروں میں روزانہ کیا کرتے تھے۔ ان کی باتیں اتنی کھری اور سچی ہوتی تھیں کہ پاکستان کے گھر گھر میں انتہائی دلچسپی سے سنی جاتیں۔ حکومت اور اس کے حاشیہ برداروں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔ انہیں دل پہ جبر کر کے سب کچھ سنناپڑتا۔ کل انہوں نے دلوں کی ساری بھڑاس نکال لی۔ عمران خان کا مطالبہ کیا تھا؟ وہ چار حلقوں کے ریکارڈ کی چھان بین کے خواہش مند تھے۔ حکومت اس سے انکار کرتی رہی اور عمران خان اصرار پر اڑے رہے۔ آخر کار انہوں نے 2013ء کے انتخابات ہی کو دھاندلی زدہ قرار دے کر‘ ازسرنو عام انتخابات کا مطالبہ کر دیا۔ اسی بنیاد پر دھرنا دیا گیا۔ اسی بنیاد پر ہڑتالیں کرائی گئیں اور اسی بنیاد پر مظاہرے ہوئے۔ عام انتخابات میں عمران خان کو ان لوگوں نے بھی ووٹ ڈالے جو کبھی پولنگ سٹیشن پر نہیں گئے تھے۔ یہ غیرروایتی ووٹ تھے۔ غیرروایتی توقعات تھیں اور عمران نے غیرروایتی طرزسیاست ہی اختیار کیا تھا۔ عوام ان پر خوش تھے۔ تحریک انصاف کے جو بدنصیب اور لالچی لوگ‘ ایوانوں میں جانے کے خواہش مند تھے‘ انہیں چاہیے تھا کہ جن چند ساتھیوں نے پارٹی کے فیصلے کی خلاف ورزی کر کے‘ پارلیمنٹ میں جانا پسند کیا‘ وہ بھی ان کے ساتھ چلے جاتے۔ عمران خان کے ساتھ جو بھی دوچار لوگ رہ جاتے‘ وہی سرخرو ہوتے۔ الیکشن تو بہرحال آنا تھے۔ ان میں عمران خان کے لئے بھرپور کامیابی کے امکانات نمایاں تھے۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں آنا عمران خان کی غلطی تھی۔ اس پر ستم یہ کہ مذاکراتی ٹیم بھی‘ ایسے لوگوں کی بنائی‘ جو اسمبلیوں کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔ وہ پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کے دن ‘گن گن کے کاٹ رہے تھے۔ اسحق ڈار نے پہلی ہی میٹنگ میں ان کی آنکھیں پڑھ لی تھیں۔ ان کی بیتابی بھانپ لی تھی اور بڑی سمجھداری سے وہ مذاکرات کو طول دیتے دیتے‘ ایسے موڑ پر لے آئے‘ جہاں تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم دانہ چگنے کو تیار ہو گئی۔ اپنی تمام تر چالاکی کے باوجود حکومت کی مذاکراتی ٹیم اپنے ہی جال میں پھنس بھی گئی۔
حکمران پارٹی خوش تھی کہ اس نے جوڈیشل کمیشن بنا کر‘ اس کے دائرہ اختیار کے اندر کچھ نہیں چھوڑا۔ تحریک انصاف کے لئے پھر بھی اس میں فتح کا پہلو موجود تھا۔ حکومت دھاندلی کا الزام ماننے کو تیار ہی نہیں تھی۔ اس نے چار حلقوں میں بھی دوبارہ گنتی قبول نہیں کی۔ جوڈیشل کمیشن میں وہ سارے انتخابی عمل کی دوبارہ چھان بین پر تیار ہو گئی۔ اس کا آرڈیننس بھی جاری کر دیا۔ رپورٹ کا عرصہ بھی معین ہو گیا۔ تحریک انصاف کو کیا چاہیے تھا؟ یہ بات صرف سیاست کی پیچیدگیاں سمجھنے والے ہی جانتے تھے کہ حکومت نے چکر دے دیا ہے‘ مگر اس کے پاس کامیابی کے نعرے لگانے کے لئے کچھ نہیں تھا‘ جبکہ تحریک انصاف کہہ سکتی تھی کہ اس نے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ چار حلقوں کی بجائے پورا الیکشن کھول دیا گیا۔ ہمارا مطالبہ مان کر‘ دھاندلی کا الزام تسلیم کر لیا گیا۔ اس کے تمام اراکین جمع ہو کر فاتحانہ انداز کے ساتھ ایوان کے اندر داخل ہوتے اور جب سرکاری حاشیہ بردار ‘ ان کی آمد پر آوازے کس رہے تھے‘ تو کسی اچھے مقرر کو کھڑے ہو کر‘ انہیں شرم دلانے کی ضرورت تھی کہ ہم نے تو تمہیں دھاندلی کی چھان بین پر منوا لیا ہے۔ ہم تو کامیابی کے بعد اندر آئے ہیں۔ تم کس برتے پر آوازے کس رہے ہو؟ لیکن سچی بات ہے کہ دل میں چور ہو‘ توحوصلے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم نے‘ حقیقت میں معاہدہ اسی لئے کیا تھا کہ بعض ساتھی پارلیمنٹ میں اپنی واپسی کا راستہ کھول سکیں۔ حقیقت میں وہ سارے انتخابی ریکارڈ کی دوبارہ چھان بین کے خواہش مند ہی نہیں تھے اور نہ ہی انہیں اپنے آپ پر یقین تھا کہ دھاندلی ثابت ہو جائے گی۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حکومت اول تو دوبارہ گنتی ہی نہیں کرائے گی اور اگر کرائے گی‘ تو ریکارڈ میں خردبرد کے پورے انتظامات کرنے کے بعد۔ ''کیسے ہو؟ کیسے نہ ہو؟‘‘ کے جھگڑے میں باقی تین سال پورے ہو جاتے۔ ان کے سامنے عوامی مفاد نہیں تھا‘ ورنہ اسی معاہدے میں سب کچھ حکومت کے خلاف ہے۔ حکومت دھاندلی کی چھان بین پر آمادہ ہو کر‘ الزام کی حقیقت کو تسلیم کر چکی ہے۔ اس نے یقینا ٹال مٹول سے کام لینا تھا۔ تحریک کو اپنے مطالبے کے ساتھ جدوجہد جاری رکھنا تھی۔ یہ جدوجہد کبھی نرم پڑتی‘ کبھی تیز ہو جاتی‘ لیکن حکومت کا عرصہ اقتدار بڑی مشکل سے گزرتا اور جب نئے انتخابات ہوتے‘ تو تحریک بھرپور عوامی تائید و حمایت کے ساتھ میدان میں اترتی‘ مگر بقول حسن نثار‘عمران وہ بہادر ہے‘ جو ہارے ہوئے لشکر میں ہے۔
عمران خان چاہیں تو اب بھی‘ اپنے اسمبلیوں میں آنے کو بے تاب ساتھیوں کے باوجود‘ وقت کی لگامیں اپنے ہاتھ میں تھام کر ‘ عوام کی ترجمانی کر سکتے ہیں۔ ان کے حریف انتہائی کمزور اور پیروں سے محروم ہیں۔ ان کی کرپشن شک و شبہے سے بالاتر ہے۔ اسے مزید ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔ عوام ان سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس عوامی مسائل حل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ وہ اسی پارلیمنٹ میں نعرۂ حق بلند کر کے حکومت کو مسلسل پسپائی پر مجبور کر سکتے ہیں۔ جو نام نہاد اپوزیشن‘ حاشیہ برداری کر کے وقت گزار رہی ہے‘ اسے اپنی ساکھ اور سیاسی حیثیت بچانے کے لئے عمران کا ساتھ دینا پڑے گا۔ ان کے مذاکراتی ساتھی اپنی ''کارکردگی‘‘ کا صلہ وصول کریںگے۔انہیں ایسا کرنے دیا جائے۔ وہ اسمبلیوں میں اسی لئے آتے ہیں۔ موجودہ منتخب ساتھیوں میں جتنے بھی عمران کے ساتھ رہ جائیں‘ وہی بہت ہوں گے۔ ورنہ عمران اکیلے ہی کافی ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک ایک رکن بھی پوری اسمبلی کو آگے لگاتا رہا ہے۔ میاں افتخارالدین سے لے کر رائو خورشیدعلی خان جیسے مردانِ قلندر ‘ سارے وزیروں کا بولنا مشکل کر دیتے تھے۔ ان سے وزرائے اعظم بھی عاجز آ جاتے تھے۔ میاں افتخارالدین کی تقریریں تو آج بھی قابل مطالعہ ہیں۔ ساتھیوں کی گنتی اس وقت اہم ہوتی ہے‘ جب آپ کو پارلیمنٹ میں ووٹوں کی ضرورت ہو۔ اپوزیشن کرنے کے لئے ووٹوں کی ضرورت نہیں۔ ہمت‘ حوصلے ‘ کردار اور نیک نیتی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب چیزیں عمران کے پاس ہیں۔ حکمران پارٹی کے پاس ایک بھی اچھا مقرر نہیں۔ جو ہیں‘ زیادہ تر پیپلزپارٹی کے پاس ہیں۔ وہ عمران خان کی مخالفت کیوں کریں گے؟ وہ تو اپنی اپوزیشن کی حیثیت بچانے میں لگے رہتے ہیں۔ایم کیو ایم کے مقررین اچھے ہیں مگر ان کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔ وہ دو کلو الفاظ بولیں گے‘ تو ان میں تولہ بھر مفہوم نکلے گا۔دوسرے ان کا حلقہ انتخاب ڈیڑھ شہر تک محدود ہے۔ مولانا فضل الرحمن اچھے مقرر اور عمران کے کرارے مخالف ہیں‘ لیکن ان کی مخالفت کی وجوہ سب جانتے ہیں۔ اس لئے خان صاحب انہیں نظرانداز ہی کرتے رہیں۔اسمبلی میں حکومت کو بے نقاب اور اپنے خیالات عوام تک پہنچانے کا سلسلہ پارلیمنٹ میں رہ کر جاری رکھا جا سکتا ہے۔ رابطہ عوام کی مہم دھیمے انداز میں مسلسل جاری رکھیں۔ پورے پاکستان میں عوام سے براہ راست رابطے کریں اور ان دوروں کے دوران مخلص اور عوام دوست ساتھیوں کا انتخاب کرتے رہیں۔ مقبولیت کے جس درجے پر عمران خان آج ہیں‘ انہیں مشہور امیدواروں کی ضرورت ہی نہیں۔ گزشتہ انتخابات میں بھی عوام نے‘ ان کے ایسے امیدواروں کو ووٹ دے کر کامیاب کرایا ہے‘ جو سیاست میں بالکل نئے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ آئندہ انتخابات میں بھی عوام‘ ان کے نئے امیدواروں کو جوش و خروش سے ووٹ دیں گے۔ پرانے پاپی بڑی حدتک بے نقاب ہو چکے ہیں۔ کسی پارٹی کو اتنی مقبولیت حاصل نہیں کہ اس کے نام پر نئے امیدواروں کو ووٹ مل سکیں۔ تاریخ کے اپنے بھی قوانین ہوتے ہیں۔ خرابیاں جب حد سے گزر جائیں‘ تو ان کے پیچھے نئی نئی اچھائیوں کی کونپلیں نمودار ہونے لگتی ہیں۔ ہمارا معاشرہ اور سیاست بھی خرابیوں کی انتہائیں چھو رہے ہیں۔ تبدیلی کی کونپلیں نمودار ہونے کو بے چین ہیں۔ اس صورتحال کے مناظر ‘ہم پڑوسی ملک بھارت کے دارالحکومت دِلی میں دیکھ رہے ہیں۔ جہاں چند نئے لوگ آئے اور جھاڑو پھیر کے تمام پرانی پارٹیوں کو فارغ کر دیا۔ تبدیلی لانے والی ٹیم کو آج کل دوسرا مرحلہ درپیش ہے۔ یہ بھی تبدیلی کا لازمی حصہ ہوتا ہے اور ایک ٹیم کو بدلتے بدلتے کئی جھٹکے برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ کِجری وال کی ٹیم بھی آج کل یہی جھٹکے کھا رہی ہے۔ اس تجربے کو پیش نظر رکھ کے اگر عمران اپنی ٹیم بنائیں ‘ تو دوسرا مرحلہ آسانی سے گزارنے میں سہولت رہے گی۔ سیاست کے لئے عمران خان کی جوانی اب شروع ہوئی ہے۔ صرف دو سال پہلے 80سالہ انا ہزارے‘ بھارت جیسے وسیع و عریض ملک میں ایک بھرپور تحریک چلا چکے ہیں‘ جس کے سامنے حکومت کو جھکنا پڑا تھا۔ قائداعظمؒ نے خرابی صحت کے باوجود ضعیفی کی حالت میں طاقتور دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہوئے پاکستان حاصل کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہا ہوں؟ وجہ ظاہر ہے کہ مجھے دور دور تک ایسی قیادت ابھرتی نظر نہیں آ رہی جو عمران خان کی طرح خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں