پارلیمنٹ میں واپسی پر‘ جس طرح تحریک انصاف کے رہنما عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی پذیرائی ہوئی‘ اس سے پاکستان کی نام نہاد جمہوریت کی قلعی کھل گئی۔ عمران خان ایک فرد نہیں‘ وہ گزشتہ انتخابات اور دھرنوں کے دوران ثابت کر چکے ہیں کہ انہیں عوام کی کتنی بھرپور حمایت حاصل ہے؟ کل میں نے اناہزارے کا ذکر کیا تھا۔ اناہزارے بظاہر کچھ نہیں۔ نچلے متوسط طبقے کا ایک سادہ سا آدمی ہے۔ جب اس نے عوامی مطالبات کو لے کر ایک تحریک چلائی‘ تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوری حکومت اس کے سامنے جھک گئی اور اسے مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا ''آپ کے مطالبات پر بات کرتے ہیں۔‘‘ وزیراعظم پوری کابینہ کے ساتھ مذاکراتی میز پر بیٹھے اور ان کے بہت سے مطالبے تسلیم بھی کر لئے۔ یہ اناہزارے کی طاقت نہیں‘ عوام کی طاقت تھی اور کوئی بھی جمہوری حکومت ‘ عوام کی خواہشات و جذبات کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔ لیکن پاکستان میں بھرپور عوامی تائیدوحمایت رکھنے والے واحد لیڈر‘ عمران خان جب حکومت کے ساتھ جوڈیشل کمیشن پر سمجھوتہ ہونے کے بعد حکومتی نمائندے اسحق ڈار کی دعوت پر پارلیمنٹ میں آئے‘ تو ان کے ساتھ جو کچھ کیا گیا‘ اسے میں سیاسی اور مشرقی اخلاقیات کے حوالے سے نہیں دیکھوں گا‘ دعوت دینے والوں نے جو کچھ کیا‘ ان سے‘ اس کے سوا کوئی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔ میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ جو حکومت اپنے آپ کو جمہوری قرار دیتی ہے‘ اس کی نظر میں جمہور کی حیثیت اور وقعت کیا ہے؟ گزشتہ چند مہینوں سے ہم تاریخ کی بدلتی ہوئی کروٹ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
عوام اور حکمران طبقوں میں تقسیم‘ تضاد بلکہ تصادم کی جو صورتحال چند ہفتوں کے دوران سامنے آئی ہے‘ اس سے ظاہر ہو گیا کہ اب حکمران طبقوں اور عوام کے درمیان کسی مفاہمت کی گنجائش باقی نہیں رہ گئی۔ حکومت ‘ موجودہ مدت اقتدار کے دوران کچھ بولے اور ظاہر کئے بغیر عملی طور پر عوام کے ساتھ جو سلوک روا رکھ رہی ہے‘ اس میں وہ کافی دنوں سے وہی بات کہہ رہی ہے‘ جو اس نے پارلیمنٹ میں عمران خان کی توہین کے ذریعے عوام کو پہنچائی۔ خاموشی سے گھروں کو تاریک کر دینا۔ چولہے ٹھنڈے کر دینا۔ اندھوں پر لاٹھیاں برسانا۔ خواتین کو دھکے دینا۔ڈاکٹروں کی پٹائی کرنا۔ نرسوں کی تذلیل کرنا۔ اساتذہ کو ذلیل کرنا۔ کسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح کھینچ کر بسوں میں بٹھانا۔ پولیس والوں سے جرم کرا کے انہیں بے یارومددگار چھوڑ دینا۔ کتنی مثالیں پیش کروں؟ جن سے وہ حقارت سامنے آتی ہو‘ جس کے ساتھ حکمران‘ ہمارے عوام کو دیکھتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ یہ سب کچھ انجانے میں کر رہے ہوں۔ انہیں معلوم ہے جو کچھ وہ کر رہے ہیں اور اب عوام کو بھی معلوم ہے جو کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ حکمرانوں کو پتہ ہے کہ آنے والے دنوں میں انہیں کیسے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا؟ یہ طرح طرح کی نئی نئی فورسز کس لئے بن رہی ہیں؟ دہشت گردوں کے خلاف؟ بالکل نہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف فوج میدان میں اتاری جا چکی ہے اور انشا اللہ وہ ان سے نمٹ لے گی۔یہ جو پولیس کے اندر اینٹی ٹیررسٹ فورس‘ ریپڈ رسپانس فورس اور ایلیٹ فورس وغیرہ بنائی جا رہی ہیں بلکہ بنانا شروع کی جا چکی ہیں‘ انہیں اتنے اعلیٰ معیار کی تربیت اور جدید اسلحہ دیا جا رہا ہے یہ درحقیقت حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کی حفاظت پر مامور ہو گا اور جن سے بچنے کے لئے یہ سارے انتظامات ہو رہے ہیں‘ وہ اس ملک کے عوام ہیں‘ جن کی آنکھوں میں جھلکنے والا غم و غصہ‘ حکمرانوں کو صاف دکھائی دینے لگا ہے۔ عمران‘ عوام کے انہی جذبات اور کیفیات کی ترجمانی کرتے ہیں۔
حکمران طبقوں کو مزید خوفزدہ وہ جذبات کرتے ہیں‘ جو خود ان کے اپنے محافظین کے دل و دماغ میں پیدا ہونے لگے ہیں اور اب تو ان کا اظہار بھی ہونے لگا ہے۔ محمدعلی نیکوکارا اور ان جیسے دوسرے افسران کے خلاف ہونے والی کارروائیوں پر‘ پولیس جیسی ڈسپلنڈ فورس میں بھی نہ صرف بے چینی پیدا ہوئی بلکہ اعلیٰ افسران نے ڈسپلن کے اندر رہتے ہوئے‘ اپنے جذبات کا اظہار بھی کر دیا۔ اس کامطلب کیا ہے؟ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ مجھے ای میل‘ ٹیلیفون اور خطوط کے ذریعے اس لاوے کی آنچ آتی رہتی ہے ‘ جو عوام کے دل و دماغ میں پک رہا ہے۔مجھے فیض‘ ساحر‘ جالب ‘ سردار جعفری اور دیگر ترقی پسند شعرا کی نظمیں یاد آنے لگی ہیں‘ جو اپنے زمانے میں قبل ازوقت معلوم ہوتی تھیں‘ لیکن آج وہ بروقت ہو گئی ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیںکہ بابر اعوان اپنے پروگراموں میں باغیانہ اشعار پڑھ کر ناظرین کی داد سمیٹتے ہیں۔ لوگ اب وہ شاعری سننا چاہتے ہیں۔ اور پھر میری برادری‘ جو چند برس پہلے تک‘ ایسی چیزیں نظرانداز کر دیا کرتی تھی آج ان پر بھی توجہ دینے لگی ہے۔ کرپشن کے ایسے ایسے راز کھل رہے ہیں‘ جو کبھی فائلوں سے باہر نہیں آیا کرتے تھے۔ ایسے ایسے جذبات کا اظہار ہو رہا ہے‘ جنہیں قلم یا لب پر لانے کا رواج ہی نہیں تھا۔ تکلفات کے پردے اٹھ رہے ہیں۔ خوف کی دیواریں گر رہی ہیں۔ جب یہ سب کچھ ہونے لگے‘ تو سمجھ لیجئے کہ تاریخی معرکہ برپا ہونے والا ہے۔ اس کا ہراول دستہ‘ سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔ پاکستان کی روایتی جماعتوں میں کوئی یہ کردار ادا کرنے کی اہل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں ایک دوسرے کی مخالفت کرنے والی تمام روایتی سیاسی اور مذہبی جماعتیں ‘ باہمی اختلافات پس پشت ڈال کر‘ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال رہی ہیں۔ جب سردی میں شدت پیدا ہوتی ہے‘ تو خارپشت ایک دوسرے سے لپٹ کر بیٹھ جاتے ہیں تاکہ اپنے جسموں کی گرمی سے‘ سردی کا مقابلہ کریں۔ اس وقت ان کے جسم پر کھڑے ہوئے کانٹے بیٹھ جاتے ہیں۔ ہماری تمام سیاسی جماعتیں انہی خارپشتوں کی طرح ہیں‘ جن کے جسموں کے کانٹے سردی کے خوف سے بیٹھ گئے ہیں اور اب یہ ایک دوسرے کو گرمی پہنچا کر‘ اپنا بچائو کر رہے ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی میں مارشل لائوں کے سوا‘ ایسی پارلیمنٹ نہیں دیکھی ہو گی‘ جس میں سیاسی اختلافات کو یکسر بھلا دیا گیا ہو اور سب نے عوامی دبائو سے بچنے کے لئے ایک دوسرے کو تحفظ دیا ہو۔ کہاں عوام کے منتخب نمائندے؟ اور کہاں عوام سے اتنا خوف؟
جمہوریت عوامی غم و غصے کا نرمی‘ بات چیت اور مراعات کے ساتھ سامنا کرتے ہوئے ‘ اسے حد سے تجاوز کرنے کا موقع نہیں دیتی۔ عوام جس شدت کے ساتھ تبدیلی کے طلب گار ہوتے ہیں‘ جمہوریت تھوڑی تھوڑی تبدیلی لاتے ہوئے‘ غصے کو بے قابو ہونے سے روکتی رہتی ہے۔ وقت کبھی نہیں رکتا۔ تبدیلی کا عمل کبھی نہیں ٹھہرتا‘ وہ مسلسل آگے بڑھتا ہے۔ جمہوریت کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس عمل کو آگے بڑھنے سے روکتی نہیں‘ آہستہ آہستہ راستہ دیتی رہتی ہے۔ لیکن حکمران اڑیل‘ ضدی‘ ہٹ دھرم اور کوتاہ اندیش ہوں‘ تو وہ تبدیلی کو راستہ دینے سے انکار کر دیتے ہیں اور پھر پاتے نہیں جب راہ‘ تو چڑھ جاتے ہیں نالے۔ پاکستان کے وہ علاقے ‘جہاں ہردوچار سال کے بعد دریا بپھرتے ہیں‘ وہاں کے عوام کو پانی کے سامنے بند باندھنے کے تجربات ہیں۔ پانی تھوڑا رہے‘ تو بند کام آ جاتے ہیں‘ لیکن اگر رکتا ہوا پانی اوپر چڑھتا رہے‘ تو بند کو بہا کر لے جاتا ہے۔ جمہوریت چھوٹے چھوٹے بند بنا کر ‘ پانی کو راستہ دیتی رہتی ہے اور ہٹ دھرمی‘ پانی کا راستہ روک کر اسے چڑھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ پانی کو راستہ دینے والی واحد سماجی طاقت تحریک انصاف ہے۔ اس میں بھی تکبر کے مارے ہوئے حکمرانوں کے ساتھ پرانی قربتیں رکھنے والے عناصر گھسے ہوئے ہیں۔ کل میں نے انہی کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان سے درخواست کی تھی کہ وہ جلدازجلد ان سے دامن چھڑا لیں۔ عوام کا صبر جواب دے رہا ہے۔ عمران خان نے اگر ان سے رشتہ نبھانے کی کوشش کی‘ تو عوام ان سے بھی اپنا رشتہ توڑ لیں گے۔ بہتر ہے کہ ایسا وقت نہ آئے۔ جو معاشرے تیاری کے بغیر تبدیلی کے عمل کا شکار ہوتے ہیں‘ ان کا انجام مصر‘ لبیا‘ عراق‘ شام‘ تیونس اور الجزائر جیسا ہوتا ہے۔ ان کا یہ انجام کیوں ہوا؟ اس لئے کہ وہاں کوئی عمران خان جیسا لیڈر نہیں تھا‘ جو عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے تبدیلی کے عمل کو تباہی و بربادی کے بغیر آگے بڑھنے کا موقع دے۔ جب درمیان میں ایسے لوگ نہیں رہتے‘ تو پھر تبدیلی کے طوفان ہوتے ہیں اور وہ بستیاں ہوتی ہیں‘ جو طوفان کی لپیٹ میں آ کر نیست و نابود ہونے لگتی ہیں۔آپ کو شاید ایسا لگے کہ میں کچھ زیادہ ہی مبالغہ کر رہا ہوں اور مجھے یہ وہم ہے کہ میں نے یہ سطور ڈرتے ڈرتے لکھی ہیں۔ جس ملک کے حکمرانوں نے دنیا میں کہیں بھی اپنے لئے نرم گوشہ پیدا نہ کیاہو‘ ہر ایک کے ساتھ دغا بازی کی ہو‘ جھوٹ بولے ہوں‘ پڑوسیوں کو مسلسل تنگ کیا ہو‘ اپنے عوام کو زخم بھی لگائے اور ان پر مرہم بھی نہ رکھا ہو‘ وہاں جو کچھ ہونے والا ہے‘ وہ اس سے کہیں زیادہ ہے‘ جس کی طرف میں نے اشارے کئے ہیں۔