"NNC" (space) message & send to 7575

جماعت اسلامی وغیرہ

آج مختلف موضوعات پر بات کرتے ہیں۔ ان دنوں کراچی میں قومی اسمبلی کا حلقہ 246 خبروں پر چھایا ہوا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مقابلہ کونسی دو جماعتوں کے درمیان ہے؟ لیکن ایک بینک کے اشتہار کی طرح‘ جس میں دو بالغ ایک دوسرے سے تکرار کرتے ہیں کہ یہ بینک میرا ہے‘ تو دور سے ایک بچے کی آواز آتی ہے ''میرا بھی تو ہے۔‘‘ اسی طرح جب حلقہ 246 کے بارے میں ہر طرف دو امیدواروں کے چرچے ہوئے‘ توایک تیسری آوازآئی ''میں بھی تو مقابلے میں ہوں۔‘‘ یہ آواز جماعت اسلامی کی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستانی سیاست کا ایک عجوبہ ہے۔ یہ ہر الیکشن سے پہلے ضد کر کے‘ ہاتھیوں کی دوڑ میں شریک ہوتی ہے اور عموماً خرگوش کی طرح کسی ہاتھی کے ساتھ''اتحاد‘‘ بنا کر اس پر سوار ہو جاتی ہے اور جب ہاتھی کے بوجھ سے پل ہلتا ہے‘ تو شور مچا دیتی ہے '' آہا جی! آہا جی! ہم دونوں کے زور سے پل ہل رہا ہے۔‘‘ اکثر لوگ اسے مذاق سمجھتے ہیں۔ لیکن جماعت یہ دعویٰ بڑی سنجیدگی سے کرتی ہے۔ جو بڑی جماعت ایک بار اس سے اتحاد بنا بیٹھی ''اوہنے فیر وین ای پائے نیں‘‘۔ ایک بار میاں نوازشریف اسے اتحادی بنا بیٹھے تھے۔اپنے سائز سے زیادہ ٹکٹ لے کر‘ مسلم لیگی ووٹوں سے چند نشستیں لے آئی اور اس کے بعد جب تک نوازشریف وزیراعلیٰ رہے‘ ان کا زیادہ وقت جماعت اسلامی کا کام کرنے پر گزرا اورجو تھوڑا سا وقت بچ رہتا‘ اس میں صوبائی حکومت کے امور چلاتے۔ مشرف کے دور میں جماعت اسلامی نے مذہبی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنا کر الیکشن میں حصہ لیا تو اس کے بعد پائوں پسار کر بیٹھ گئی کہ زیادہ وزارتوں پر اس کا حق ہے۔ جس بڑی پارٹی نے بھی جماعت سے اتحاد کیا‘ سینہ کوبی کرتی ہی نظر آئی۔ یہی وجہ ہے کہ نوازشریف ہر کام کر لیں گے مگر جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی اتحاد کبھی نہیں کریں گے۔
اس پارٹی کی خوش فہمیوں کی قابل ذکر مثال 1970ء کے انتخابات میں سامنے آئی۔ یحییٰ خان کی سرپرستی میں جماعت کو زبردست میڈیا کوریج ملی۔ اس وقت میڈیا کا مطلب پرنٹ میڈیا اور پی ٹی وی ہوتا تھا۔ دونوں طرف مارشل لا کی سرپرستی کی وجہ سے‘ جماعت پوری طرح چھا گئی اور دعوے کرنے لگی کہ اسے ملک کے دونوں حصوں میں اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ دعوے کی حد تک تو کوئی مضائقہ نہیں تھا‘ لیکن جماعت اپنے ہی دعووں پر یقین کر کے‘ ساری پارٹیوں کو حقیر سمجھتے ہوئے کہنے لگی کہ مشرقی پاکستان میں اس کا مقابلہ عوامی لیگ سے ہے اور مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی سے۔ مشرقی پاکستان میں اس کے بعض حامی ترس کھا کے‘ عوامی لیگ کو دوچار نشستیں زیادہ دے دیتے‘ مگر کچھ حامی ایسے بھی تھے‘ جو دوستانہ انداز میں قدرے احتیاط سے کام لیتے ہوئے کہتے کہ ''ہمارے ساتھی کا اندازہ تھوڑا سا غلط ہے۔ ہو سکتا ہے عوامی لیگ چند نشستیں زیادہ لے جائے لیکن اس کا امکان نہیں۔ جماعت کی مقبولیت بلندیوں پر ہے۔ اکثریت وہی حاصل کرے گی۔‘‘ غالباً عوامی لیگ کو 38 اور 40 کے درمیان نشستیں دی جاتی تھیں اور پیپلزپارٹی پر نظرکرم کرتے ہوئے‘ اسے 18 اور 20 کے درمیان نشستیں دے دی جاتیں۔ جب انتخابات ہوئے‘ توکسی کو پتہ بھی نہ چلاکہ جماعت اسلامی کہاں گئی؟ حالیہ مثال پہلی مثالوں سے بھی زبردست ہے‘ جب پاکستانی فوج کے مقابلے میں دہشت گردوں کی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے‘ اس وقت کے امیر سید منور حسن نے یہ کہہ کر پاکستانی قوم کو حیران کر دیا کہ'' دہشت گرد حکیم اللہ محسود شہید ہے اور پاکستانی فوجیوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘‘جماعت ‘ مسلمانوں کو غرق حیرت کرنے کی محیرالعقول صلاحیت رکھتی ہے۔ کراچی کے حلقہ 246 کے حوالے سے بھی‘ جماعت نے ایک عاجزانہ سی بات کر کے‘ ان لوگوں کو پنجوں پر کھڑا کر دیا۔ کراچی کے حلقہ 246 کے بارے میں تجویز آئی کہ جماعت اسلامی ‘ پی ٹی آئی سے سمجھوتہ کر کے‘ اس کے امیدوار کی حمایت کردے۔ جماعت نے اس پر انتہائی شریفانہ انداز میں جواب دیا: ''ہمیں سمجھوتے پر کوئی اعتراض نہیں۔ پی ٹی آئی کے امیدوار کو ہمارے مقابلے میں دستبردار ہو جانا چاہیے۔‘‘ اس کے بعد پھر وہی دعوے کہ ''ہمارا مقابلہ عوامی لیگ سے ہے، پیپلزپارٹی سے ہے۔‘‘ یہاں چونکہ صرف ایک سیٹ کا سوال تھا اس پر جماعت لحاظ کرگئی۔ ورنہ اگر وہ یہ کہتی کہ عمران خان‘ ہمارے ووٹ لے کر جیتنا چاہتا ہے‘ تو کوئی اسے کیا کہہ سکتا تھا؟ جماعت کے لوگ بہت شریف‘ نیک دل اور باکردار ہوتے ہیں۔ ان ساری خوبیوں کی وجہ سے سادہ لوح بھی ہوتے ہیں۔ وہ تجزیے‘ موازنے اور حقائق کو سمجھنے پر یقین نہیں رکھتے۔ ذہن میں جو تصور بٹھا لیتے ہیں‘ اسی کو حقیقت مان کر انتخابی میدان میں کود جاتے ہیں اور انتخابی نتائج آنے پر‘ اس کے امیدواروں کے کشتوں کے پشتے لگے ہوتے ہیں۔ یہ اپنے حق میں دلائل بھی مافوق الفطرت دیتے ہیں۔ ابھی 246 میں‘ اپنے امیدوار کے بارے میں فرمایا کہ ''ہم نے ہمیشہ ایم کیو ایم کا مقابلہ کیا ہے۔ ہم ہمیشہ ہارے ہیں، اس لیے ہمارا حق فائق ہے۔ اس بار بھی ایم کیو ایم کا مقابلہ ہم ہی کریں گے۔ پی ٹی آئی راستے سے ہٹ جائے اور اس دوطرفہ مقابلے کا مشاہدہ کرے۔‘‘دوطرفہ مقابلہ کیسا ہوتا تھا؟ ڈیڑھ لاکھ کے مقابلے میں 10ہزار ووٹ۔
کے بارے میں رائے دی کہ وہ ابھی ناپختہ ہیں۔ ان کے ذہن اور سوچ میں ابھی پختگی کی ضرورت ہے، اس لیے جب انہیں سمجھ آگئی‘ تو سیاست میں اتارے جائیں گے۔جب بے نظیربھٹو کو سیاست میں آنا پڑا‘ تو ان کی عمر 20 سال سے بھی کم تھی‘ مگر اپنے عظیم والد کی قید کے دوران‘ انہوں نے جس ذہانت‘ محنت اور حکمت عملی کے ساتھ جد وجہد کی‘ وہ آج بھی قومی تاریخ کا حصہ ہے۔ بھٹو صاحب 27 سال کی عمر میں پاکستان کی نمائندگی کرنے یو این میں گئے تھے۔ اس عالمی ادارے میں ان کی کارکردگی کی تعریف کی گئی تھی اور اس زمانے کے صدر سکندر مرزا نے اسی وقت انہیں اعلیٰ منصب کے لیے چن لیا تھا اور انہی کی سفارش پر بھٹو صاحب وفاقی کابینہ کے رکن بنے تھے اور چند مہینوں میں ان کی شاندار کارکردگی کے تذکرے عام تھے۔ ایسے نانا کا نواسہ اور ایسی ماں کا بیٹا‘ 26 سال کی عمرمیں ناپختہ کیسے ہو گیا؟ باپ کی تربیت کا اثر تو نہیں؟ پارٹی کارکنوں کو چاہیے کہ وہ اپنے لیڈرکی خبر لیں کہ وہ کیسے حالات میں ہے؟ کیا وہ آزاد بھی ہے؟ یا اس پر پابندیاں لگی ہوئی ہیں؟ سندھ میں جب کوئی باپ‘ بیٹے کی اصلاح کرنا چاہتا ہے تو وہاں کے روایتی طور طریقے قابل رشک نہیں۔ ناپختہ بچوں کو قید تنہائی میں رکھ کر بھی سدھارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مارپیٹ کر بھی سمجھایا جاتا ہے اور بعض حالات میں روٹی بھی ایک وقت کی کر دی جاتی ہے۔ کارکنوں کو معلوم کرنا چاہیے کہ بلاول کے اندر پختگی لانے کے لیے سندھی
وڈیروں والے طور طریقے تو استعمال نہیں کیے جا رہے؟ دوسری بات یہ کہ جس عظیم والد کے زیرسایہ پروان چڑھ کر ان کا ذہن‘ 26 سال کی عمر میں پختہ نہیں ہو سکا‘ وہ اب کیسے ہو سکتا ہے؟ لندن میں ایک سے ایک اچھا دماغی ڈاکٹر موجود ہے۔ مناسب ہو گا کہ والد صاحب کے ساتھ ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی جائیں اور پوچھا جائے کہ بلاول کے بارے میں والدگرامی کی یہ تشخیص سائنسی ہے یا سیاسی؟ پچھلے دنوں خبریں آئی تھیں کہ بلاول نے کچھ پالیسی معاملات میں والد سے اختلاف کیا۔ کہیں بلاول کو اس گستاخی کی سزا تو نہیں دی جا رہی؟ جو بلاول کراچی میں لاکھوں انسانوں کے جلسے میں خطاب کر کے سرخرو ہوتا ہے اور اکثر لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں، وہ یکایک ناپختہ کیسے ہو گیا؟
تیسرا موضوع عجائبات عالم میں ایک نئے عجوبے کے اضافے کی خبر ہے۔ چین‘ مائونٹ ایورسٹ کے نیچے سے 540کلومیٹر لمبی سرنگ کھود کر ایک سڑک بنا رہا ہے۔ اقبال کے ایک مصرعے پر گرہ لگا کر یہ شعر پیش کر رہا ہوں:
گرانبار چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے پتھر پگھلنے لگے
دیکھنا یہ ہے کہ فرزندان اسلام‘ یہ خبر پڑھنے کے بعد سیکڑوں سال پہلے مسلمانوں کا کونسا کارنامہ دریافت کر کے ثابت کریں گے کہ یہ کام تو انہوںنے سیکڑوں سال پہلے کر لیا تھا، یہ سڑک بھی پہاڑ کے نیچے بنائی گئی تھی، لیکن اب وہاں سمندر ہے۔ بہرحال چینی کافر ہیں۔ ان کا ماضی ہماری طرح عظیم الشان نہیں۔ لیکن اس قوم نے صرف 30سال کے قلیل عرصے میں ترقی کا سفر شروع کر کے جو مقام حاصل کیا ہے‘ وہ اقوام عالم کے لیے قابل رشک ہے۔ چین کے ایک مواصلاتی منصوبے‘ میری ٹائم سلک روڈ کی تفصیل تو میں بیان کر چکا ہوں۔ یہ سڑک ایشیا اور افریقہ کو بحری اور سمندری راستے کے ذریعے ملائے گی۔ مائونٹ ایورسٹ کے نیچے سے سڑک بنانے کی خبر آج آئی ہے‘ جو تبت سے شروع ہو کر نیپال تک جائے گی۔ یہ خبر پڑھ کے بھارتیوں کے پسینے چھوٹ گئے ہیں کہ جناتی طاقت رکھنے والے اس ملک کو اوپر سے تو ہمالیہ نے روک رکھا تھا۔ وہ ہمالیہ کے نیچے سے نکل کر بھارت کی سرحدوں پر آنے والا ہے اور اس کام میں زیادہ تاخیر بھی نہیں۔ پروگرام کے مطابق 2020ء میں سرنگ مکمل ہو جائے گی۔ تیرا کیا بنے گا کالیا؟ ابھی تک اروناچل پردیش کے بلند و بالا پہاڑوں کی برفانی سرحد پر‘ چینیوں سے مقابلہ کرنے کے طریقے سمجھ میں نہیں آ رہے۔ اب چینی پہاڑوں کے نیچے سے بھی نکل رہے ہیں۔ ہے رام! ہمارے وزیراعلیٰ شہبازشریف نے اسی زیرِکوہ سڑک کی طرف دیکھ کر تو سڑکوں کی تعمیر کا منصوبہ نہیں بنایا؟ پاکستان میں ہموار زمین پر سڑک بنانا‘ اس سے زیادہ دشوار ہے‘ جتنا مائونٹ ایورسٹ کے نیچے سے بنانا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں