سرکاری میڈیا میں منیجرز بھی قابل دید تحفے ہیں۔ ایسی ایسی دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ انسان کو سمجھ نہیں آتی‘ ان پر ہنسے یا روئے؟مثلاً اس سے بڑا عجوبہ کیا ہو گا کہ حکومت نے چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ مسلسل مسترد کیا اور یہ بات ماننے سے انکاری رہی کہ الیکشن میں کسی بھی طرح کی دھاندلی ہوئی ہے۔ دوبارہ گنتی کا مطالبہ منوانے کے لئے‘ عمران خان نے دھرنے دیئے‘ جلوس نکالے‘ مظاہرے کئے اور جب اس مطالبے کے حق میں رائے عامہ منظم ہو گئی‘ تو حکومت کو دوبارہ تحریک شروع ہونے کے ڈر سے مطالبات تسلیم کرنا پڑ گئے اور اس نے مان لیا کہ وہ تمام انتخابی نتائج کی چھان بین کے لئے جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کو تیار ہے۔ اسحق ڈار کی طرف سے مذاکرات کی دعوت آئی۔ حکومتی اور حزب اختلاف کی دونوں ٹیموں نے طویل مذاکرات کئے۔ حکومتی ارکان نے ایک ایک لفظ پر بحث کی۔ انہیں ڈر تھا کہ کہیں مسودے میں‘ اس بات کا اشارہ نہ آ جائے کہ دھاندلی کی تحقیقات ہو گی۔ بہت غور و فکر کے بعد منظم دھاندلی کی اصطلاح کی شکل میں حفاظتی دیوار کھڑی کی گئی اور حکومت نے اپنے آپ کو شاباش دی کہ ہم نے مربوط دھاندلی کی شرط لگا کر قصہ ہی پاک کر دیا ہے۔ نہ مربوط دھاندلی ثابت ہو سکے گی اور نہ حکومت خطرے میں آئے گی۔ جب معاہدے پر دستخط ہوئے‘ تو حکومت نے خوشی سے بغلیں بجائیں۔ میڈیا منیجرز نے فوراً ہاہاکار مچا دی کہ عمران کے دھرنے ناکام ہو گئے۔ انہیں اپنے مطالبے سے دستبردار ہونا پڑا اور ادنیٰ درجے کے طنزومزاح کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ مزہ اس وقت آیا‘ جب اسحق ڈار کی دعوت قبول کرتے ہوئے‘ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی پارلیمنٹ میں پہنچے‘ حزب اقتدار کے حامیوں نے بچوں کی طرح اچھل اچھل کر مخالفانہ نعرے لگائے اور خواجہ آصف نے یوں سمجھ لیا‘ جیسے اپوزیشن ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بعد ایوان کے اندر داخل ہوئی ہے اور طعنے دینے والی لڑاکی عورت کی طرح گالیاں دے کر اپنا اور اپنی پارٹی کا کلیجہ ٹھنڈا کرنے لگے۔ کمال کی بات ہے کہ ان کا کلیجہ بھی ٹھنڈا ہو گیا:
کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آ جاتے ہیں
دو تین روز بعد حقیقت ‘سرکاری میڈیا ٹیم پر طنزیہ قہقہے لگاتے ہوئے ڈی چوک میں سینہ تان کر کھڑی ہو گئی۔کھسیانے پن میں پہلے ایک درخواست گزاری کہ تحریک انصاف کے اراکین تو ممبر ہی نہیں رہ گئے۔ وجہ یہ بیان کی کہ انہوں نے استعفے دیئے ہیں اور استعفیٰ دینے کے بعد کوئی رکن ایوان کا ممبر نہیں رہتا۔ انہیں یہ پتہ نہیں کہ استعفیٰ دینے والے ہر رکن سے سپیکر کو ذاتی اطمینان کرنا پڑتا ہے کہ اس نے استعفیٰ کسی دبائو کے بغیر‘ اپنی مرضی سے دیا۔ سپیکر کو یہ تسلی کرنے کا موقع نہ ملا۔ تحریک انصاف کی رکنیت محفوظ رہی اور وہ ایوان میں آئے‘ توان پر طرح طرح کی فقرہ بازی کی گئی۔ اب انہیں ایک صدمہ اس وقت پہنچے گا‘ جب عدالت‘ تحریک انصاف کے ممبروں کی رکنیت ختم نہیں کرے گی۔ جس دن عدالتی فیصلہ آئے گا‘ اس دن تحریک انصاف والوں کو اپنے آپ پر قابو رکھنا چاہیے۔ اس ہزیمت پر سرکاری ممبروں پر فقرے بازی سے گریز کیا جائے۔ ''شرم کرو! شرم کرو!‘‘ کہنے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ وہ حکومت میں ہیں۔
دولطیفے بہت ہی زبردست ہیں۔ ایک حکومت کا یہ دعویٰ کہ دہشت گردوں کو ہم نے بھگایا ہے اور دوسرا یہ کہ ہم نے کراچی کو امن دیا۔ یہ دعوے ‘ اس فلمی کردار کی طرح ہیں‘ جس کا نام ''پھنے خاں ‘‘ تھا۔ ''پھنے خاں‘‘ خود کچھ نہیںکرتا تھا۔ جہاں کوئی طاقتور آدمی‘ کسی بدمعاش کی درگت بناتا‘ وہیں وہ بازو پھیلا کر کھڑا ہوتا اور آنے جانے والوں کو بتاتا کہ ''یاراں دا ای کم اے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ حکومت ‘ دہشت گردوں سے مذاکرات کے لئے ان کی نازبرداریاں کر رہی تھی۔ کل جماعتی کانفرنسیں بلائی جا رہی تھیں کہ فوج نے اچانک دہشت گردوں پر حملہ کر کے‘ ان کے خلاف کارروائی شروع کر دی۔ سینکڑوں افسروں اور جوانوں نے شہادتیں پیش کیں اور دہشت گردوں کے مراکز ختم کر دیئے۔ حکومتی میڈیا بڑھکیں لگا رہا ہے ''یاراں دا ای کم اے۔‘‘
کراچی کے حلقہ 246 میں کوئی بھتہ خوری نہیں تھی۔ وہاں کوئی دہشت گرد نہیں تھا اور نہ ہی کوئی ٹارگٹ کلر۔ ایک پرامن آبادی تھی‘ جس میں ایم کیو ایم کو غلبہ حاصل تھا۔ نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کی وجہ سے ایم کیو ایم دفاعی پوزیشن میں آئی‘ توتصادم سے گریز کرنے لگی۔ یہ تھے وہ حالات‘ جن میں انتخابی سرگرمیاں ابھی تک پرامن ہیں۔ لیکن حکومت نے پورے کراچی میں امن کی بڑھک لگاتے ہوئے دعویٰ کر دیا کہ عمران خان کو کھلی انتخابی سرگرمیوں کے لئے پرامن حالات فراہم کرنا ''یاراں دا ای کم اے۔‘‘ جن بے بنیاد باتوں پر سرکاری میڈیا ٹیم بڑے بڑے دعوے کرتی اور پھبتیاں کہتی نہال ہوئی جا رہی ہے‘ وہ سب کی سب ایسی ہیں‘ جن پر میڈیا ٹیم کو خود شرمانا چاہیے۔
یہ ٹیم ابھی تک اس زعم میں ہے کہ عدالت منظم دھاندلی ثابت ہی نہیں کر سکے گی‘ اس لئے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ حکومت کے خلاف ووٹ آف نو کانفیڈینس یا عدالتی فیصلہ نہ آئے‘ تو اس کا جانا ممکن نہیں ہوتا۔ وہ بھی اپنی جگہ
درست ہیں۔ پہلوانوں کے فیصلے ایک کے چت ہونے پر ہی ہوتے ہیں‘ لیکن منتخب حکومتوں کے فیصلے رائے عامہ کرتی ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ حکومت کو چت کرے۔ جب رائے عامہ حکومت کے خلاف ہو جائے‘ تو پھر اس کے لئے حکومت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ عوام اگر ایک مرتبہ مسترد کر دیں‘ تو پھر حکومت جتنا عرصہ بھی رہے گی‘ لنگڑی بطخ کی طرح ہی رہے گی۔ جوڈیشل کمیشن نے 2013ء کے انتخابات کے کیس کی سماعت کے لئے عدالت کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ کوئی بھی شہری‘ عدالت میں جا کر ساری کارروائی سن سکتا ہے۔ عوامی دلچسپی کے مقدمات اگر کھلی عدالتوں میں ہو رہے ہوں‘ تودو جگہ سماعت ہوتی ہے۔ دو عدالتیں ہوتی ہیں۔ایک قانون کی عدالت اور ایک عوام کی عدالت۔ جج اپنے فیصلے قانون کے مطابق دیتے ہیں اور عوام کے فیصلے ان کی خواہشات و جذبات کے تحت ہوا کرتے ہیں۔ حکومتی میڈیا ٹیم‘ اس پر خوش ہے کہ فیصلہ قانون کے مطابق ہو گا اور صاحب فہم لوگ اس پر خوش ہیں کہ انتخابی نتائج ننگے ہوں گے۔ جب ایک سے زیادہ پارٹیاں ‘ عدالت کے سامنے آ کر دھاندلی کے ثبوت پیش کریں گی‘ تو کم از کم 30دن‘ روز چہروں کے نقاب اتریں گے۔ سب کچھ میڈیا پر آئے گا۔ اس کے بعد یہ عدالت کی مرضی ہے کہ وہ کیا نتائج حاصل کر کے‘ کیا فیصلہ سنائے؟ عوام اپنا فیصلہ روز کریں گے۔ میرا اندازہ ہے کہ 10ویں دن‘ وہ اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ دھاندلی نے واقعی تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ یہی تاثر اداروں میں جائے گا۔ منتخب حکومت کی طاقت یہ ہوتی ہے کہ عوام اس کے ساتھ ہوں۔ جب بھرم کھل جائے کہ عوام حکومت کے ساتھ نہیں ہیں‘ ان کے ساتھ فریب کر کے‘ حمایت کا ڈھونگ رچایا گیا تو پھر حکومت کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہتا۔عدالت ٹرمز آف ریفرنس کی پابندی کی بنا پر علیحدہ علیحدہ اراکین کی دھاندلی کو شاید منظم نہ کہہ سکے۔ حالانکہ جو چیز بادی النظر میں منظم نظر آئے‘ اسے یہی سمجھنا چاہیے۔ مگر عوام کو قانونی پابندیوں کی مجبوری نہیں ہوتی۔ جب انہوں نے جان لیا کہ وسیع پیمانے پر آدھی سے زیادہ نشستوں پر دھاندلی ہو گئی ہے‘ تو وہ اسے دھاندلی ہی کہیں گے اور رہی سہی کسر تحریک انصاف نکال دے گی‘ جب وہ عدالتوں میں پیش کئے گئے ثبوت جمع کر کے بار بار عوام کے سامنے لائے گی اور مسلسل مطالبہ کرے گی کہ ملک میں شفاف انتخابات کرا کے‘ عوام کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنی پسندیدہ حکومت قائم کر سکیں۔ مجھے اس کی امید بالکل نہیں کہ عدالتی فیصلہ حکومت کے خلاف آنے پر بھی وہ استعفیٰ دے گی۔ ایسا نہیں ہو گا۔ استعفے کے لئے بہرحال عوام کو سڑکوں پر آنا پڑے گا۔
نوٹ:-کل کے کالم میں علامہ اقبالؒ کے ایک مصرعے ''گراں خواب چینی سنبھلنے لگے‘‘ میں ٹائپنگ کی غلطی سے ''گراں بار‘‘ لکھا گیا۔ اس نادانستہ غلطی پر ‘ قارئین سے عفوخواہ ہوں۔