پاکستان انوکھا ملک نہیں جہاں کرپشن اور کرپشن کرنے والے پائے جاتے ہیں۔ موازنہ کر کے دیکھا جائے‘ تو کرپشن میں ہم نمبر ایک ہی نکلیں گے اور کرپشن کرنے والے بھی ہمارے ہی ملک میں زیادہ ہیں۔ لیکن ہمارا اصل امتیاز یہ ہے کہ نہ تو ہمارے ہاں کوئی صف اول کا سیاستدان کرپشن میں پکڑا جاتا ہے اور نہ کوئی ضمیربیدار ہونے پر خودمستعفی ہوتا ہے۔ میرے سامنے ایک لمبی چوڑی فہرست پڑی ہے‘ جس میں کئی ملکوں کے وزرائے اعظم نے کرپشن کے الزام لگنے پر استعفے دیئے‘ کئی وزراء مستعفی ہوئے اور کئی وزیروں کو سزائیں ہوئیں۔امریکہ کے صدر نکسن کو تو مخالف پارٹی کی ایک میٹنگ کی خفیہ ریکارڈنگ کرنے پر‘ صدارت سے استعفیٰ دینا پڑ گیا تھا۔ بھارت میں کئی وفاقی وزیرابھی تک جیلوں میں پڑے ہیں۔ کل ہی خبر تھی کہ جنوبی کوریا کے وزیراعظم نے کرپشن کے الزامات پر استعفیٰ دے دیا ہے۔ ہمارے دوست ملک چین میں‘ متعدد اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کو کرپشن کے الزام میں سزائیں دی گئی ہیں۔ پاکستان واحد ملک ہے‘ جس میں کرپشن پر کوئی سابق حکمران نہیں پکڑا گیا۔ کیا ہمارے ہاں کرپشن بالکل نہیں ہوتی؟ ریکارڈ کی بنیاد پر دیکھا جائے‘ تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ پاکستان میں نہ تو کرپشن ہے اور نہ کوئی کرپشن کرنے والا۔ یہ انتہائی دیانتدار اور پاکباز لوگوں کا ملک ہے۔ جب میں دنیا کے دیگر سیاستدانوں سے موازنہ کر کے دیکھتا ہوں‘ تو مجھے اپنے چاروں طرف نیکی‘ پارسائی اور دیانتداری ہی نظر آتی ہے۔ فرشتوں کے پروں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ مسحورکن نغمے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ آبادی کے اعتبار سے پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ لیکن ہمارے ان سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی تعداد غالباً تیسرے یا چوتھے نمبر پر ہو گی‘ جن کا خفیہ سرمایہ دنیا میں چاروں طرف پھیلا ہے۔
مثلاً ہمارے ارباب اقتدار کا سرمایہ صرف چند جزیروں کے اندر نہیں‘ دنیا بھر میں پھیلا ہے۔ آپ کسی بھی ملک کانام ذہن میں لائیں۔ تھوڑی سی جستجو سے پتہ چل جائے گا کہ ہمارے ارباب اقتدار کا سرمایہ وہاں بھی جمع ہے۔ٹمبکٹو کا نام ہمارے ہاں ایک گمنام جزیرے کی حیثیت سے لیا جاتا ہے۔ مگر میرے ایک جاننے والے صاحب بتاتے ہیں کہ پاکستانیوں کا سرمایہ وہاں بھی پڑا ہے۔ وہ لندن میں رہتے اور ٹمبکٹو میں کاریں برآمد کرتے ہیں۔ اکثر انہیں وصولیوں کے لئے ٹمبکٹو جانا پڑتا ہے۔ وہاں ہمارے دولت مندوں کی اتنی شہرت ہے کہ راہ چلتے لوگ بھی بتا دیتے ہیں کہ ''پاکستانیوں کے پاس بہت پیسہ ہے۔‘‘
لندن میں انتہائی قیمتی جائیدادوں کے مالکان کا پتہ چلائیں‘ توبتایا جائے گا کہ اس کا مالک ہمارا کونسا سیاستدان ہے؟ یوں تو لندن میں دنیا بھر کے سرمایہ داروں نے جائیدادیں خرید رکھی ہیں۔ لیکن پرائم پراپرٹیز میں پاکستانیوں کے نام نمایاں ہیں۔ ان شاندار عمارتوں کے پاس سے گزرتے ہوئے‘ لوگ یہی کہتے پائے جاتے ہیںکہ ''پاکستانیوں کے پاس بہت پیسہ ہے۔‘‘ دبئی کے کسی شاپنگ مال میں چلے جائیں‘ وہاں آپ کو لاکھوں کروڑوں کی خریداریاں کرتے ہوئے جو لوگ نظر آئیں گے‘ وہ دبئی میں جانے پہچانے ہیں اور وہ سب جانتے ہیں کہ ''پاکستانیوں کے پاس بہت پیسہ ہے۔‘‘آپ ہانگ کانگ چلے جائیں‘ سپین چلے جائیں۔ تھائی لینڈ چلے جائیں۔ انڈونیشیا چلے جائیں۔ جاپان چلے جائیں۔ سائوتھ افریقہ چلے جائیں۔ ایک بات کا عام شہری کو بھی پتہ ہو گا کہ ''پاکستانیوں کے پاس بہت پیسہ ہے۔‘‘ ہمارا ملک‘ دنیا کا واحد ملک ہے‘ یہاں کوئی کسی بھی عہدے پر فائز ہو تو اس کی تحویل میں جو بھی اثاثے ہوتے ہیں‘ انہیں وہ باپ دادا کا مال سمجھ کر استعمال کرتا ہے۔ جس کے پاس پی آئی اے ہے‘ وہ اسے ذاتی ملکیت سمجھتا ہے۔ جو بنک میں بیٹھا ہے‘ وہ بنک کا مالک ہے۔ جس کے پاس انشورنس کمپنی ہے‘ وہ اس کی ملکیت ہے۔ غرض یہ کہ جس کے پاس جو محکمہ ہے‘ وہ اس کے ذاتی اثاثوں کا حصہ ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ واقعی تو ایسا نہیں ہے۔ لیکن جس کے پاس جہاں کا چارج ہوتا ہے‘ وہ اسے اپنی ملکیت تصور کرتا ہے۔
آپ کو یاد ہو گا‘ چند ہفتے پہلے ایا ن علی نامی ایک حسینہ کرنسی کی سمگلنگ میں پکڑی گئی تھی‘ جس کے قبضے سے پانچ لاکھ ڈالر برآمد ہوئے۔ جب شروع میں پولیس اسے عدالت لے جاتی تھی‘ تو اس کی کوشش ہوتی تھی کہ پورا منہ ڈھانپ کے رکھے۔ پولیس کی دھکم پیل میںاس کا چہرہ تھوڑا سا بے نقاب ہوتا ‘ تو وہ کوشش کر کے اسے ڈھانپا کرتی۔ یقینا اسے ڈر ہو گا کہ منی لانڈرنگ کے جرم میں گرفتار دیکھ کر لوگ اسے ناپسند کریں گے۔ جیل میں اس کی بہت پذیرائی ہوئی۔ ہر طرح کی نازبرداریاں کی گئیں اور کہا جاتا ہے کہ بڑے بڑے لوگوں کی سرپرستی اسے حاصل تھی اور یہ لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر جیل میں اس کی دیکھ بھال کے احکامات جاری کیا کرتے۔ چند روز میں ایان علی نے دیکھا کہ منی لانڈرنگ کے جرم پر‘ اسے کوئی ناپسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ رہا۔ اس کے برعکس لوگ اس کی عزت کر رہے ہیں۔ یہ شان و شوکت دیکھ کر اس کے حوصلے بڑھ گئے۔ بعد میں وہ خوبصورت لباس پہن کر دھڑلے سے‘ بے نقاب چلتی ہوئی عدالت میں آتی اور وہ ٹی وی کیمرے جن سے وہ منہ چھپانے کی کوشش کیا کرتی تھی‘ اب بے باکی سے ان کے سامنے آتی ہے۔ جیل کے اندر اور کچہری میں‘ اس کی اتنی عزت ہوئی کہ اب وہ طرح طرح کے خواب دیکھنے لگی ہے۔ اس نے بتایا کہ مجھے ممبئی سے فلموں میں کام کرنے کی پیشکشیں موصول ہوئی ہیں۔ پاکستانی فلموں میں کام کرنے کے لئے بھی کہا جا رہا ہے اور ماڈلنگ کی دعوتیں بھی مل رہی ہیں۔ جیل میں رہ کر اسے پتہ چلا کہ جس کرپشن پر وہ شرمندہ ہو رہی تھی اور منہ دکھانا معیوب سمجھتی تھی‘ اس کی وجہ سے اسے ہر کوئی عزت و احترام سے دیکھنے لگا ہے اور کیوں نہ ہو؟ ہمارے ملک میں کرپشن ایسا باوقار کام ہے‘ جو صرف بڑی بڑی اور نامور شخصیتوں کو ہی زیب دیتا ہے۔ ایان علی کو بڑے بڑے رشتے آنے لگے ہیں۔ میڈیا والے پہلے ڈرتے ڈرتے اپنے لیڈروں اور افسروں پر کرپشن کا الزام لگایا کرتے تھے اور سچی بات ہے ‘وہ لوگ برا بھی مناتے تھے۔ آہستہ آہستہ وزیروں حتیٰ کہ وزرائے اعظم کے نام بھی‘ کرپشن میں آنے لگے اور بعد میں یہ حال ہو گیا کہ جس وزیر پر کرپشن کے جتنے زیادہ الزام لگتے ‘ وہ اتنے ہی زیادہ سٹائلش پوز بنا کر کیمروں کے سامنے آنے لگا۔ کرپٹ لوگوں کی جتنی قدر و منزلت اور احترام پاکستان میں پایاجاتا ہے‘ دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ جو کرپشن نہیں کرتا‘ لوگ اسے خاطر میں نہیں لاتے۔ جائز آمدنی میں تو ایک کلرک کی زندگی بھی نہیں گزاری جا سکتی۔ اگر شان و شوکت سے رہنا ہے‘ تو اس کا واحد راستہ کرپشن ہے۔ کرپشن کلب میں شامل ہو جایئے اور اشرافیہ کا حصہ بن کر ٹھاٹ باٹھ کی زندگی گزاریئے۔ آپ کو وزیراعظم ہائوس سے بھی دعوت نامے آئیں گے۔ ایوان صدر میں بھی بلایا جائے گا۔ آپ کے اعزاز میں شاندار تقریبات بھی ہوں گی۔ حسین و جمیل خواتین‘ آپ کو اپنے گھروں پر دعوتیں دیں گی۔ تحائف میں قیمتی سے قیمتی کاریں ملیں گی۔ آپ کے بیٹے بیٹیوں کے لئے بڑے سے بڑے رشتے آئیں گے۔ جس وزیر یا افسر کی بیٹی یا بیٹے کو زیادہ کاریں تحفے میں ملیں گی‘ اس کی شان اور رتبے میں زیادہ اضافہ ہو گا۔ محکمہ صحت کے ایک سیکرٹری ہوا کرتے تھے۔ ان کی بیٹی کی شادی میں اتنی کاریں آئی تھیں کہ بہت دنوں تک‘ میڈیا میں اس کے چرچے ہوتے رہے۔ دنیا کے دوسرے ملکوں میں کرپشن کرنے والے منہ چھپاتے ہیں‘ شرمندہ ہوتے ہیں اور ڈرتے ہیں کہ انسداد دہشت گردی کے محکموں کی نظر میں نہ آ جائیں۔ پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ جو زیادہ کرپٹ ہے‘ اتنا ہی سینہ تان کے چلتا ہے۔ معاشرے میں اس کی عزت ہے۔ افسر اور وزیر اسے اپنے گھر بلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ مائیں اپنے بچوں کو دعائیں دیتی ہیں کہ خدا کرے! تم بڑے ہو کر کرپشن میں نام کمائو۔ افسر بنو۔
وزیربنو۔ وزیراعظم بنو۔ ایک زمانہ تھا کہ چین کی حکومتیں بلاسود قرضے دیا کرتی تھیں‘ لوگ انہیں استعمال نہیں کرتے تھے۔ مگر جب سے کرپشن میں ہماری شہرت ہوئی ہے‘ چین والے ہم پر اندھادھند ڈالر لٹا رہے ہیں۔ جتنی زیادہ کرپشن ہے‘ اتنے ہی زیادہ ڈالر آ رہے ہیں۔ خدا نے ہماری قسمت میں ہی ناجائز دولت لکھی ہے۔ جو لوگ کرپشن نہیں کر سکتے‘ وہ کرپشن کرنے والوں کو رشک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ غریبوں کو کرپشن کے مواقع نہیں ملتے تھے۔ اب بے تحاشا دولت پاکستان میںآنے لگی ہے۔ غریب سے غریب آدمی بھی کرپشن کے قابل ہو جائے گا۔ میڈیا کے جو لوگ پانی پی پی کر کرپشن والوں کو کوس رہے ہیں‘ ان میں سے جس کا بھی دائو لگا‘ وہ بڑھ چڑھ کے کرپشن کرتا پایا جائے گا۔ کرپشن کے صرف وہی خلاف ہے‘ جسے اس کا موقع نہیں ملتا۔ آیئے! مل جل کر دعا کریں کہ خدا ہم سب کو اپنی توفیق سے زیادہ کرپشن کرنے کے مواقع عطا فرمائے۔ رزق حلال سے تو پیٹ بھی پورا نہیں بھرتا۔ ہم نے اس کی بھی دعا کرنا چھوڑ دی ہے۔