یوں تو الطاف حسین میں بے شمار خوبیاں ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ پاکستان کے واحد لیڈر ہیں‘ جنہوں نے سب سے زیادہ متنازع تقاریر کیں اور بیانات جاری کئے۔ لگتا یہ ہے کہ وہ جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتے‘ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ جان بوجھ کے ایسا کرتے ہوں۔ ایک تقریر اگر غیرمتنازع ہو‘ تو ایک ہی بار نشر یا طبع ہو کرلوگوں کو بھول جاتی ہے۔ اگر وہ متنازع ہو تو اس کا ذکر ہفتوں چلتا ہے۔ الطاف بھائی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ہیں۔ انہوں نے یقینا پبلسٹی کے جدید طور طریقوں سے آگاہی حاصل کر رکھی ہو گی اور وہ انہی پر عمل کرتے ہوئے‘ جب چاہیں ایک تقریر کر کے ہفتوں میڈیا پر چھائے رہتے ہیں۔ پاکستانی لیڈروں کو ابھی تک اس تکنیک کا پتہ نہیں۔ الطاف بھائی اس سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایک بات ایسی کہہ دیتے ہیں‘ جس پر چاروں طرف سے ان کے مخالفین اسی راستے پر چل نکلتے ہیں‘ جس پر الطاف بھائی انہیں لگانا چاہتے ہیں۔ بظاہر یہ لوگ الطاف بھائی کے مخالفین ہیں‘ لیکن جس ذوق و شوق اور انہماک سے وہ الطاف بھائی کی تشہیر میں کردار ادا کرتے ہیں‘ اس پر الطاف بھائی کو داد دیئے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ الطاف بھائی کے تازہ بیانات ہی دیکھ لیجئے۔ انہوں نے ''را‘‘ اور بھارت کے بارے میں ایک ایسی تقریر کر دی کہ ملک کا کوئی قابل ذکر لیڈر ایسا نہیں‘ جو اس تقریر کو نظرانداز کر سکا ہو۔ ہر کسی کو مجبور ہونا پڑا کہ وہ اس تقریر کے حوالے سے بیان جاری کرے اور اس کے ذریعے الطاف بھائی کے خیالات عوام تک پہنچیں اور الطاف بھائی کے بارے میں گفت و شنید ہو۔ کوئی الطاف بھائی کے حق میں بولے یا مخالفت میں‘ تذکرہ الطاف بھائی کا رہتا ہے۔ مجھے کوئی ایسا لیڈر یاد نہیں آ رہا‘ جو جب چاہے میڈیا پر چھا جائے اور جتنے دن تک چاہے چھایا رہے۔
سارے ٹاک شوز میں الطاف بھائی ‘الطاف بھائی کے تذکرے ہوتے ہیں۔ شو انہی کے نام سے شروع ہوتے ہیں اور انہی کے نام پر ختم۔ عام طور پہ سیاستدانوں کے بیانات پر‘ وزیراعظم کے درجے کے افراد ‘ردعمل نہیں دیتے‘ لیکن الطاف بھائی کو داد دینا پڑتی ہے کہ وہ جب چاہتے ہیں‘ اپنے خیالات پر وزیراعظم کو بیان دینے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اس فن کی تازہ مثال وہ مصالحے دار بیان ہے‘ جس کی مرچیں اعلیٰ درجے تک محسوس کی گئیں۔ اگر آپ نے الطاف بھائی کے بیان کی تیزمرچ کے اثرات دیکھنا ہوں‘ تو عابد شیر علی کی پریس کانفرنس پڑھ لیجئے۔ افسوس کہ عابدشیر علی کا یہ بیان اخبارات نے تفصیل سے شائع نہیں کیا۔ بڑی زیادتی کی بات ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ عابدشیر علی کی پریس کانفرنس نیٹ پر دیکھ کر الطاف بھائی بہت لطف اندوز ہوئے ہوں گے۔ بلکہ ہو سکتا ہے‘ انہوں نے لندن میں پوری مجلس لگا کر یہ پریس کانفرنس اجتماعی طور پر دیکھی یا سنی ہو ۔ ایک ایک جملے پر حاضرین نے الطاف بھائی کو داد دیتے ہوئے کہا ہو گا کہ'' واہ! الطاف بھائی واہ! عابد شیرعلی اسی طرح بولے ‘ جیسے آپ نے کہا‘‘ اور الطاف بھائی نے شان بے نیازی سے ہنس کر جواب دیا ہو گا کہ ''میں نے اتنا مصالحہ نہیں ڈالا تھا‘ جتنا وزیرموصوف کو لگ گیا۔‘‘الطاف بھائی کا پسندیدہ ہدف جماعت اسلامی ہے۔ وہ اس پر خصوصی کرم فرماتے ہیں۔ ایک نشانہ تو وہ کھلا لگاتے ہیں۔ جس کا ہدف متعین نہیں ہوتا۔ جدھر چاہے لگ جائے۔ ''را‘‘ اور بھارت والا نشانہ ایسا ہی تھا۔ ایک ہی نشانے میں پورا پاکستان پھڑک گیا۔ کوئی یہاں گرا‘ کوئی وہاں گرا۔ شاید ہی کوئی بدذوق ایسا ہو‘ جو اس نشانے کی زد پر نہیں آیا۔ ہر کوئی اپنا نمبر لکھوانے کو بے تاب ہے۔ ہر کسی کو یہ فکر ہے کہ میں الطاف بھائی کے خلاف اپنا بیان ریکارڈ پر لانے سے رہ نہ جائوں۔ آپ جانتے ہیں ‘ پاکستان کا سب سے بڑا رائج الوقت سکہ حب الوطنی ہے۔
جذبہ حب الوطنی انتہائی مقدس چیز ہے۔ یہ انسان کے وجود کے اندر ہوتا ہے۔ اس کا اظہار قلب و روح کی تسکین کے لئے کیا جاتا ہے۔ کسی کی خوشنودی مطلوب نہیں ہوتی۔ جیسے ماں سے محبت کسی کو دکھانے کے لئے نہیں ہوتی‘ اسی طرح وطن کی محبت بھی دکھاوے کی چیز نہیں۔ یہ ایسا سودا نہیں‘ جس کے دام وصول کئے جائیں۔ اس کی قیمت کیا ہے؟ کسی سپاہی سے پوچھئے۔ اس کی ماں سے پوچھئے۔ اس کے والد سے پوچھئے۔ اس کے بہن بھائیوں سے پوچھئے۔ اس کے بچوں سے پوچھئے۔ پھر آپ کی سمجھ میں آئے گا کہ حب الوطنی کا مطلب کیا ہے؟ حب الوطنی روزگار نہیں‘ جاںنثاری ہے۔ قربانی ہے۔
پاکستان میں جس بے رحمی اور بے دریغی سے حب الوطنی کا کاروبار ہوتا ہے اور ہوتا رہا ہے‘ اس کی مثال دنیا کے دوسرے کسی ملک میں نہیں دیکھی جا سکتی۔ پاکستان واحد ملک ہے‘ جس میں حب الوطنی کے سوداگر یہ نعرہ لگا کر حکومتوں سے معاوضے اور صلے وصول کرتے ہیں۔ کئی جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے حب الوطنی کا ٹھیکہ لے رکھا ہے اور وہ مخالفین کو یہ کہہ کر اپنے ریٹ بڑھاتے ہیں کہ وہ محب وطن نہیں۔ مشرقی پاکستان میں جو ظالمانہ اور سفاکانہ کھیل ہوا‘ وہ سارے کا سارا حب الوطنی کا بازار تھا‘ جس میں اصل محب وطن اپنے جذبے کی قربان گاہ پر چڑھ گئے اور حب الوطنی کا کاروبار کرنے والے‘ حکمران طاقتوں سے فائدے اٹھاتے رہے۔ نتیجے میں وطن عزیز کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ حب الوطنی کا حقیقی جذبہ رکھنے والوں نے خون بہا دیا اور جو نیا ملک معرض وجود میں آیا‘ اس میں حب الوطنی کی مارکیٹ نہیں تھی۔صرف فرزندان زمین کا وہ جذبہ تھا‘ جسے نہ کوئی بیچتا ہے اور نہ خریدتا ہے۔
بدنصیبی سے ہم مشرقی پاکستان دے آئے اور حب الوطنی بچا لائے۔ بنگلہ دیش میں اب کسی کو حب الوطنی کا امتحان نہیں دینا پڑتا۔ باقی ماندہ پاکستان میں حب الوطنی ایک مرتبہ پھر سرکاری ملکیت میں چلی گئی۔ اس پر سندھیوں کا کوئی حق نہیں۔ مہاجروں کا کوئی حق نہیں۔ پختونوں کا کوئی حق نہیں۔ بلوچوں کا کوئی حق نہیں۔ حق ہے تو ہم پنجاب والوں کا ہے۔ ہمارے سوا باقی سب کو حب الوطنی کا امتحان دینا پڑتا ہے۔ ہم چاہیں‘ تو انہیں پاس کر دیں۔ چاہیں تو فیل کر دیں۔ باقی سب کسی نہ کسی طریقے سے حب الوطنی کا امتحان پاس کر لیتے ہیں۔ کبھی نقل کر کے۔ کبھی پرچہ چرا کے۔ کبھی پرچہ خرید کے۔ صرف ہم پنجابیوں کو اس کی ضرورت نہیں۔ حب الوطنی کی اجارہ داری ہمارے پاس ہے۔ باقی سب ‘ وہی کچھ کر کے پاس ہو جاتے ہیں۔ لیکن کچھ سرپھروں کی حب الوطنی ہم سے مختلف ہے۔ سرپھرے بلوچ اپنی سرزمین کو ماں کہہ کر اس سے محبت کرتے ہیں اور جیسے سارے بیٹوں کی محبت ایک ماں کے دامن میں جا کے یکجا ہو جاتی ہے‘ ہم پنجاب والے نہیں مانتے۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک ماں کے چار یا پانچ بیٹے ہوں‘ تو ماں ایک رہتی ہے۔
بات کہاں سے چلی تھی اور کہاں آ گئی؟ ماںکی شفقت سے محروم بچے‘ اپنا اپنا حق مانگنے کے لئے جداجدا طریقے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سب سے سرکش الطاف حسین ہے اور سچی بات ہے وہ خود بھی فیصلہ نہیں کر پایا کہ خاندان کے اندر گھل مل کر رہنے کا طریقہ کیا ہے؟ وہ بات بات پر روٹھتا ہے‘ اینٹھتا ہے۔ اپنی بات دوسروں کو سمجھائے بغیر‘ منوانے کی کوشش کرتا ہے۔ رائج الوقت طور طریقوں کو مانتا بھی نہیں۔ اپنی بات سمجھانا اسے آتا نہیں اور اس کی بات سمجھناہمیں نہیں آتی۔ گھر کا یہ ضدی اور ہٹ دھرم بچہ نہ آرام سے بیٹھتا ہے‘ نہ کسی کو بیٹھنے دیتا ہے۔ اس کی بے باکیاں دیکھ کر‘ حب الوطنی کا دھندہ کرنے والے‘ اپنا کاروبار چمکاتے رہتے ہیں۔ نہ وہ الطاف حسین کی زبان سمجھتے ہیں۔ نہ الطاف حسین کو ان کی سمجھ آتی ہے۔ سمجھنے سمجھانے کا یہ کھیل 35سال سے جاری ہے۔ پتہ نہیں کب تک جاری رہے گا؟ رہ گئی حب الوطنی‘ تو خدا کرے یہ عوام اور مسلح افواج سے باہر نکل کر‘ سیاستدانوں تک بھی پہنچ جائے۔