"NNC" (space) message & send to 7575

الٹا سیدھا

دیکھتے ہیں خواجہ سعد رفیق نے کیا دھاندلیاں کیں؟آئیے! گنتے ہیں۔
این اے 125 میں بڑے پیمانے پر غفلت اور غلطیاں پائی گئیں۔یہ عملے کا قصور ہے یا امیدوار کا؟
متعدد پولنگ سٹیشنز کی کائونٹر فائلز اور ووٹرلسٹیں غائب ہیں-یہ بھی امیدوار کا قصور تھا؟
تین ووٹروں نے ڈبل ووٹ کاسٹ کئے-امیدوار نے ڈبل ووٹ کاسٹ کرنے والے تین سے زیادہ ووٹر کیوں نہ بھیجے؟
1352ووٹوں کی انگوٹھوں کے نشانات کے ذریعے تصدیق کرائی گئی۔ ان ووٹوں میں سے4 125کی تصدیق ہوئی۔کیا امیدوار عدم تصدیق والے زیادہ ووٹروں کا انتظام نہیں کر سکتا تھا؟
ووٹوں سے متعلق انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق نہ ہو سکی۔
پہلے بتایا گیا کہ 1352ووٹوں پر انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کرائی گئی۔ بعد میں لکھا گیا متعلقہ ووٹوں کے نشانات کی تصدیق نہ ہو سکی۔
14 کائونٹر فائلز پر انگوٹھوں کے نشانات جعلی نکلے۔زیادہ جعلی نشانات کا بندوبست کیوں نہ ہو سکا؟
پولنگ سٹیشن نمبر 195 کے پیپرز اور کائونٹرفائلز کا کوئی ریکارڈ نہیں ملا۔امیدوار کے خلاف ایف آئی آر کیوں نہ لکھوائی گئی؟
سعدرفیق اور عملے کے خلاف‘ سازش دھوکہ دہی کا ثبوت نہیں ملا۔
این اے 125 میں لگائے گئے الزامات‘ سعد رفیق کے خلاف ثابت نہیں ہوئے۔کیوں نہیں ہوئے؟ امیدوار سے جواب طلب کیا جائے۔
خواجہ سعد رفیق پر پٹیشن میں لگائے گئے الزامات ثابت نہ ہو سکے۔یہ ثابت کرنا امیدوار کا فرض تھا۔ اس نے غفلت کیوں کی؟
سعد رفیق اور میاں نصیر(صوبائی امیدوار) بددیانتی کے مرتکب نہیں پائے گئے۔کیوں نہیں پائے گئے؟
یہ تفصیلی فیصلے سے لئے گئے اقتباسات ہیں۔
مندرجہ بالا الزامات میں خواجہ سعد رفیق کا جرم کیا ہے؟ میں تلاش کر چکا۔ آپ تلاش کر لیجئے۔ شاید ان میں سے کسی الزام کی بنیاد پر سعد رفیق کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہو؟ جو غفلت ہے‘ وہ پولنگ کے عملے کی ہے۔ جو غلطی ہے‘ وہ الیکشن کمیشن کے سٹاف کی ہے۔ لیکن نااہل سعد رفیق کو قرار دیا گیااور حیرت کی بات یہ ہے کہ سعد رفیق خود ہی یہ الزامات پڑھ کر اپنی نااہلی کا فیصلہ تسلیم کرتے نظر آتے ہیں۔ گویا ریکارڈ میں جو غفلت اور غلطیاں پائی گئیں‘ اس کے ذمہ دار سعد رفیق ہیں۔ پولنگ سٹیشنز پر کائونٹر فائلز اور ووٹرلسٹیں‘ سعد رفیق نے غائب کیں۔ بھنگ پی لی ہو گی۔ ہوش و حواس میں تو کوئی امیدوار یہ حرکتیں نہیں کر سکتا۔ 1352ووٹوں پر انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کرائی گئی تو صرف 1254 کی تصدیق ہو سکی۔ اس جرم پر تو سعد رفیق کو نااہل قرار دے ہی دینا چاہیے تھا۔ ووٹوں سے متعلق 1254ووٹوں کی تصدیق ہوئی۔ یعنی 1352ووٹوں میں سے صرف 1254 ووٹوں کی تصدیق ہو سکی۔ سعد رفیق کی نااہلی کے لئے یہ غلطی بھی ناقابل معافی ہے۔ 14کائونٹرفائلز پر انگوٹھوں کے نشانات جعلی نکلے۔ پولنگ سٹیشن نمبر 195 کے بیلٹ پیپرز اور کائونٹر فائلز کا کوئی ریکارڈ نہیں ملا۔ ظاہر ہے ‘یہ ریکارڈ خودسعد رفیق نے چھپایا ہو گا۔ ورنہ ان کی نااہلی کا ثبوت کہاں سے لیا جاتا؟ اور اب دیکھئے سعد رفیق کا سب سے بڑا بلنڈر۔ امیدوار کے خلاف سازش اور دھوکہ دہی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ این اے 125میں ریٹرننگ آفیسر اور عملے پر اثرورسوخ کا ثبوت نہیں ملا۔ حلقہ 125 میں سعد رفیق کے خلاف الزامات ثابت نہیں ہوئے۔ مناسب ہوتا‘ سعد رفیق خود پر لگائے گئے الزامات کو ثابت ہی کر دیتے۔ یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ امیدوار کو نااہل قرار دینے کے لئے جو الزامات لگائے گئے‘ انہیں ثابت کرنے میں سعد رفیق نے کوتاہی کی؟ آخر میں دو الزامات توجہ طلب ہیں۔ سعد رفیق کا فرض تھا کہ وہ یہ الزامات درست ہونے کے حق میں ثبوت اور دلائل مہیا کرتے۔ یعنی پٹیشن میں لگائے گئے الزامات ثابت نہیں ہو سکے۔ اس پر سعدرفیق سزا کے مستحق ہیں۔ سعد رفیق اور میاں نصیر پر آخری الزام یہ ہے کہ وہ بددیانتی کے مرتکب نہیں پائے گئے۔ اس جرم میں تو ان کا نااہل قرارپانا بنتا ہے۔ میں نے یہ سارے الزامات اور عدم الزامات دنیا میڈیا چینل کی سرچ میں سے لئے ہیں‘ جو چینل پر ٹکرز کی صورت میں دکھائے گئے۔
میرا خیال ہے‘ ابھی تک مندرجہ بالا الزامات کی روشنی میں سعد رفیق کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری ہو چکا ہو گا۔ نہیں ہوا‘ تو خواجہ سعد رفیق کو خود وکیل کر کے‘ الیکشن کمیشن میں پیش ہونا چاہیے اور سوال کرنا چاہیے کہ ان کی نااہلی کا نوٹیفکیشن ابھی تک کیوں جاری نہیں ہوا؟ آخری بات یہ رہ جاتی ہے کہ یا تو تفصیلی فیصلے میں خواجہ سعد رفیق کو تمام الزامات سے بری الذمہ قرار دے کر‘ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ انہیں ''بے قصوری‘‘ کی سزا دی گئی ۔ کیا ن لیگ کے سارے امیدوار ہی اتنے نااہل ہیں یا خواجہ سعد رفیق کو یہ امتیاز حاصل ہے؟ کہیں خواجہ سعد رفیق موجودہ اسمبلی سے بیزار تو نہیں ہوگئے؟ ہو سکتا ہے‘ انہیں تحریک انصاف پر رشک آیا ہو؟ اس کے سارے اراکین ایوان سے باہر چلے گئے اور خواجہ صاحب ایوان کے اندر بیٹھے رہے۔ کہیں انہوں نے دوسرے خواجہ کی باتیں ‘تو دل کو نہیں لگا لیں؟ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے خواجہ آصف کے ان جملوں کا ہدف اپنے آپ کو سمجھ لیا ہو ؟
کوئی شرم ہوتی ہے۔ کوئی حیا ہوتی ہے۔
ایک ووٹ ہی تو عوام کی آواز ہوتی ہے۔
چوری ڈکیتی کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے۔
کوئی شرم ہوتی ہے۔ کوئی حیا ہوتی ہے۔
سعد رفیق نے اپنے مخالف امیدوار کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا کہ ''حامدخان وکیل ہیں۔ ان کو اس کا فائدہ حاصل ہے۔‘‘ ریٹرننگ افسروں نے تو خواجہ صاحب کو تمام الزامات سے بری الذمہ قرار دیا۔ کہیں وہ حامد خان کے دلائل سے تو متاثر نہیں ہو گئے؟ خواجہ صاحب نے نہ جانے کیوں ریٹرننگ افسروں پر الزام لگایا کہ یہ فیصلہ ان کے خلاف آیا ہے؟ ریٹرننگ افسروں نے تو انہیں ہر الزام سے بری کیا ہے۔ اس کے بعد بھی فیصلہ لکھنے والوں نے سعد رفیق کو سیٹ سے محروم کر دیا‘ تو قصور کس کا ہے؟ تفصیلی فیصلے میں سعدرفیق پر کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ فیصلے کے جو حصے میری نظر سے گزرے ہیں‘ ان کے مطابق تو سعد رفیق بریت کے مستحق ہیں۔ اگر فیصلہ لکھنے والوں نے سعد رفیق کو ہر الزام سے بری کر دیا‘ تواس میںریٹرننگ افسروں کا کیا قصور ہے؟ سعد رفیق نے سوال کیا ہے کہ'' اگر دھاندلی نہیں ہوئی‘ تو ڈیڑھ سوا لاکھ ووٹروں کو سزا کیوں دی گئی؟‘‘ مجھے تو اس کی ایک وجہ سمجھ آتی ہے کہ اگر امیدوار اور ووٹروں نے کوئی جرم ہی نہ کیا ہو‘ تو کیا انہیں سزا بھی نہ دی جائے؟ مجھے اس سارے معاملے میں کوئی گڑبڑ لگتی ہے۔ تفصیلی فیصلے میں سے جو وجوہ نکالی گئی ہیں ان سے سعد رفیق بے گناہ ثابت ہوتے ہیں۔وہ پھر بھی یہ مانتے چلے جا رہے ہیں کہ فیصلہ ان کے خلاف آیا۔ مسئلہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ اگر منتخب قرار دیئے جانے والے تمام امیدواروں نے کوئی غفلت یا غلطی نہیں کی‘ جیسا کہ تفصیلی فیصلے میں سعد رفیق کے بارے میں کہا گیا ہے‘ تو پھر انہیں بھی سعد رفیق کی طرح نااہل کیوں قرار نہیں دیا گیا؟ یہ تو سراسر امتیازی سلوک ہے کہ ایک امیدوار جس کی کوئی غفلت یا غلطی ثابت نہ ہوئی ہو‘ وہ تو نااہل ٹھہرا۔ انتخابی نتائج میں سب کچھ الٹا تو نہیں ہو گیا؟ فیصلے کے مطابق جس نے کوئی غلطی نہیں کی‘ وہ نااہل ہو گیا۔ اس کا مطلب ہے ‘ جو غفلت اور نااہلی کے الزامات سے محفوظ ہیں انہیں ایوان سے باہر جانا چاہیے۔ الیکشن کمیشن کہیں ایسا تو نہیں کر رہا ؟
شراب سیخ پہ ڈالی‘ کباب شیشے میں
یہ سب کچھ الٹ پلٹ کر کے‘ مجھے تو یوں لگ رہا ہے کہ میں خود بھی کالم نویسی کے اہل نہیں رہا۔یا سعد رفیق کے ساتھ کچھ غلط ہو گیا ہے یا میرے ساتھ ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں