یوں تو دہشت گردی کا ہر واقعہ اذیت ناک سانحہ ہوتا ہے۔ لیکن جو کچھ آج صبح کراچی میں ہوا‘ یہ تو سانحوں کا سانحہ تھا۔ سب سے پہلے تو یہی بات ناقابل فہم ہے کہ بس میں بیٹھے ہوئے بے گناہ لوگوں کو جن میں بچے‘ بوڑھے‘ عورتیں سب شامل تھے‘ بلاامتیاز نشانے باندھ کر ہلاک کیا گیا۔ جس طرح یہ سانحہ رونما ہوا‘ وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ تین موٹرسائیکلوں پر سوار چھ دہشت گردوں نے بس کو روک کریہ اندوہناک واردات کی۔ یہ لوگ تین موٹرسائیکلوں پر بیٹھے تھے اور ان کے پاس بھاری اسلحہ تھا‘ جسے چھپایا نہیں جا سکتا ۔ وہ یہ اسلحہ لہراتے ہوئے کھلی سڑکوں پر آئے۔ انہیں راستے میں سکیورٹی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص نے نہ دیکھا اور نہ روکنے کی کوشش کی۔ یہی نہیں‘ راہ گیروں میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ گردوپیش سے بے نیاز رہ کر چلنے والے بھی‘ متجسس لوگ بھی‘ مہم جو بھی‘ کسی نے ان کا نوٹس نہیں لیا۔ایکشن نہ سہی‘ شور تو مچایا جا سکتا تھا۔ یہ شور بھی دہشت گردوں کو بدحواس کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ وہ اسی وقت تک اپنے مجرمانہ کام کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ جیسے ہی انہیں محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا ہے‘ ایک انجانا ڈر انہیں بدحواس کر دیتا ہے اور وہ اپنے مشن کی طرف متوجہ نہیں رہتے۔ کسی نے شور مچا کر زندہ ہونے کا ثبوت نہیں دیا۔ یوں لگ رہا تھا کہ چلتی پھرتی لاشوں کا شہر ہے۔ یوں بھی کراچی میںروزروز کے وحشیانہ جرائم نے عوام کو بے حس کر دیا ہے۔ بے حس ہی نہیں‘ بے حوصلہ بھی۔ بھتہ خوروں کا وہ نشانہ ہیں۔ یہ ایک ایسا جرم ہے‘ جو پہلے سے بتا کر کیا جاتا ہے۔ لیکن قانون نافذ کرنے والی فورس کا کوئی فرد بھتہ خوروں کا ہدف بننے والے کی مدد نہیں کرتا۔ جس کسی نے حوصلہ کر کے پولیس کو اطلاع دی‘ بھتہ خوروں نے اسے گولی کا نشانہ بنا ڈالا۔ اب حالت یہ ہے کہ بھتے کا مطالبہ ہوتا ہے اورجس سے یہ طلب کیا جاتا ہے یا تو وہ خاموشی سے بھتہ ادا کر دیتا ہے‘ ورنہ جان بچا کر کاروبار چھوڑ کے روپوش ہو جاتا ہے۔ بے بسی کی انتہا دیکھئے کہ بھرے شہر میں بھتہ خوروں کا نشانہ بننے والا کوئی شخص تحفظ نہیں مانگ سکتا۔ یا اسے اپنی پونجی کا ایک حصہ لٹا کر آہستہ آہستہ تہی دست ہونا پڑتا ہے یا فرار ہونا پڑتا ہے اور اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مدد مانگ بیٹھے‘ تو گولی کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ ایسے حالات میں شہریوں میں اعتماد کہاں سے آئے گا؟
کراچی میں روزانہ مختلف لوگ‘ مختلف وجوہ اور کبھی وجہ کے بغیر بھی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ عام حالات میں ان کے قاتل پکڑے نہیں جاتے۔ پولیس اسے روزمرہ کا معمول سمجھ کے بے نیازی اختیار کرلیتی ہے۔ عوام نے اسے جبر سمجھ کے قبول کر لیا ہے۔ عملی طور پر کراچی میں کسی کی حکومت نہیں۔ بڑے شہروں میں منظم جرائم معمول کی بات ہے۔ لیکن یہ بھی سب نے دیکھا کہ جو شہر بری طرح سے جرائم کی لپیٹ میں آئے ہوئے تھے‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان پر قابو پایا اورجرائم کی شرح دیکھتے ہی دیکھتے نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ بھارت کا شہر ممبئی اس کی تازہ مثال ہے۔ چند برس پہلے تک وہاں غنڈوں کا راج تھا۔ زیادہ دنوں کی بات نہیں‘ جب کسی فلمساز کی فلم کامیاب ہوتی‘ تو اسے کسی مافیا گروپ کا پیغام آتا کہ تمہاری فلم کامیاب ہو گئی ہے‘ ہمیں اتنی رقم پہنچا دو اور بیشتر حالات میں لوگ ڈر کے‘ خاموشی سے رقم ادا کر دیتے اور اگر کسی نے ہمت کر کے پولیس کو اطلاع دی‘ تو اسے یا تو اغوا کر لیا گیا یا گولی مار دی گئی۔ آہستہ آہستہ پولیس نے منصوبہ بندی کے تحت شہری مافیائوں کے گرد گھیرا ڈالا اور ان کے لئے غنڈہ گردی ناممکن کر دی۔ اب وہاں منظم غنڈہ گردی کا نام و نشان تک نہیں رہ گیا۔ اکادکا بدمعاشیاں ہوتی ہیں اور یہ ہر جگہ کا معمول ہے۔
امریکی سفارتخانے ویزہ دینے سے پہلے انتباہ کیا کرتے تھے کہ امریکہ ایک ہائی کرائم کنٹری ہے۔ خصوصاً نیویارک میں جیب اور زندگی دونوں محفوظ نہیں رہتے۔ آپ کے لئے مناسب ہو گا کہ نیویارک شہر میں سیر کو نکلیں‘ تو اپنی جیب میں پندرہ بیس ڈالر رکھ لیں۔ تاکہ راہزن مل جائے‘ تو آپ اسے کچھ نہ کچھ دے سکیں۔ خالی جیب ہونے کی صورت میں راہزن آپ کو گولی بھی مار سکتا ہے۔ یہ تھے نیویارک کے حالات۔ آج وہاں 50فیصد سے زیادہ جرائم پر قابو پایا جا چکا ہے۔ لیکن وہاں شہری آزادیاں ہونے کی وجہ سے ہر شخص کی نگرانی نہیں کی جا سکتی۔ صرف ایسے لوگوں کی نگرانی ہوتی ہے‘ جن پر دہشت گردی کا شبہ ہو۔ ٹوکیو کی کہانی سب سے دلچسپ ہے۔ وہاں کی پولیس نے مافیائوں سے کھلی ڈیل کر رکھی ہے۔ انہیں غیررسمی اجازت ہے کہ وہ اپنے جوئے خانے چلائیں۔ جیت ہار کی رقم کا لین دین کریں۔ غنڈہ گردی کرنے والوں کے ساتھ جو سلوک چاہیں کریں‘ لیکن رضامندی سے لین دین کرنے والوں کو تنگ نہ کیا جائے‘ ورنہ پولیس‘ غنڈوں کو نشان عبرت بنا دیتی ہے۔سب سے دلچسپ علاج جرمنی نے کیا۔
جرمنی کی پولیس نے ماہرین کے مطالعے اور مشاہدے کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ زیادہ تر جرائم شراب اور جوئے کے اڈوں سے جنم لیتے ہیں۔ اگر اس کاروبار سے نجی ہاتھ نکال دیئے جائیں‘ توجرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ وہاں کی حکومت نے جوئے اور ناجائز فروشی کے لئے ایک علیحدہ وزارت قائم کر دی۔ تمام جوئے خانے‘ نائٹ کلبز‘ براتھل ہائوسز اور شراب فروشی کے سارے مراکز‘ اسی وزارت کے ماتحت چلتے ہیں۔ وہاں نہ منافع کسی کی جیب میں جاتا ہے اور نہ کوئی اجارہ داری قائم کر کے‘ غنڈہ گردی کرتا ہے۔سارا کام قوانین کی حدود میں رہ کر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے‘ ایسے کاروبار میں نفع تو بہت ہوتا ہے۔ یہ ساری کمائی حکومت فلاحی کاموں پر خرچ کر دیتی ہے۔ یہ قصہ فرینکفرٹ میں طویل مدت سے رہنے والے ایک دوست نے بتایا تھا۔ لیکن ہمارے ہاں کا رونا دھونا ہی اور ہے۔ یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دلچسپی قانون پر عملدرآمد کرانے میں نہیں ہوتی‘ ان کی نظر جرائم سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ہوتی ہے۔ بھتہ خوری ہو یا جوا خانہ‘ اجرتی قتل ہو یا ناجائز فروشی‘ ناجائز اسلحہ کا کاروبار ہو یا اغوا برائے تاوان؛ حتیٰ کہ کارچوروں اور جیب کتروں سے بھی حصہ وصول کیا جاتا ہے۔ایسی صورتحال میں جرائم کا خاتمہ کون کرے؟اور کیوں کرے؟ کراچی کے بارے میں تو یہاں تک سنا ہے کہ ایسی وزارتیں لینے کے لئے زبردست سودے بازیاں ہوتی ہیں‘ جن سے بھاری آمدنی ہو سکتی ہو۔ وزیروں نے اجرتی قاتل رکھے ہوتے ہیں‘ سیاسی پارٹیوں کے مسلح ونگز ہوتے ہیں‘ جن سے جرائم کرائے جاتے ہیں۔ ایسے شہر کے رہنے والے امن اور سلامتی ڈھونڈنے کہاں جائیں؟ کس کے پاس جائیں؟ اب تو وہاں قربانی کرنا بھی خطرے کا باعث ہے۔ اگر تو آپ قربانی کی کھال کسی طاقتور گروپ کو دے رہے ہیں‘ تو آپ کے بکرے اور آپ کی اپنی کھال‘ دونوں محفوظ رہتے ہیں۔ ورنہ اگر کسی بیوہ ‘ یتیم یا اپاہج کو کھال دے دی‘ تو پھر آپ کی خیر نہیں۔ طاقتور گروپ نہ صرف آپ سے اگلوا لے گا کہ آپ نے کھال کس کو دی ہے؟ اورکھال لینے والے کو ڈھونڈ کراس کی چھترول کرے گا اور کھال بھی چھین لے گا۔ آپ کی بے عزتی علیحدہ کی جائے گی۔ اگر بدقسمتی سے آپ نے مکان بنانے کے لئے پلاٹ خرید لیا‘ تو آپ سے پہلے کوئی دوسرا وہاں بنیادیں رکھ دے گا اور آپ کو اپنا پلاٹ دوبارہ خریدنا پڑے گا۔ کراچی میں اصل مجرموںکو پکڑنا اب ناممکنات میں سے ہے۔ پکڑے کون؟ ہر کوئی تو حصے دار ہے؟ کاروبار صرف وہی چلتا ہے‘ جس میں سے بیوروکریٹس سے لے کر غنڈوں اور بھتہ خوروں تک ہر کسی کو اس کا حصہ ملتا ہو۔ جو شخص ایمانداری سے کاروبار کر کے‘ رزق حلال کمانے کا خواہش مند ہے‘ اسے کراچی میں اپنا کاروبار چھوڑنا پڑے گا۔ بہت سے لوگ ایسا ہی کر رہے ہیں۔ جو خاموشی سے اپنا کاروبار اور جائداد بیچ کر نکلنا چاہتا ہے‘ اس کا تو بچ بچا ہو جاتا ہے اور جس کے بارے میں پتہ چل جائے کہ وہ جائداد یا کاروبار بیچنے کا خواہش مند ہے‘ تو سمجھ لیجئے کہ اس کے پاس خریدار کونسا آئے گا؟ یہ سارا گورکھ دھندہ جاننے کے بعد کیا آپ کو امید ہے کہ کراچی میں جاں بحق ہونے والے بس کے بے گناہ مسافروں کے قاتل کبھی پکڑے جائیں گے؟ مجھے تو اس کی امید نہیں۔ بے وسیلہ اور بے سہارا لوگوں کو گرفتار کر کے‘ ان پر قتل ڈال دیئے جائیں تو اور بات ہے۔ لیکن اگر قاتل کسی دہشت گرد گروہ کے کارندے ہیں‘ تو اپنے اپنے مقتولوں کا خون معاف کر کے صبروشکر سے کام لیں۔