پاکستان کی سب سے پرامن برادری‘ جس کے افراد پاکستان کے اعلیٰ ترین مہذب شہریوں میں شمار ہوتے ہیں اور ان کی برادری فلاحی کاموں میں خاموشی سے سرگرم رہتی ہے‘ ان کے جدامجد سر آغا خان اس مسلم لیگ کے بانی اور پہلے صدر تھے‘ جس نے قائد اعظم ؒ کی قیادت میں پاکستان حاصل کیا۔ اس برادری کی قربانیوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ کل اس برادری کے 60 کے قریب لوگ خاندانوں سمیت‘ ایک بس میں سوار ہو کے عبادت کے لئے جا رہے تھے۔ شہر کے ایک ایسے حصے میں جو ابھی پوری طرح آباد نہیں ہوا‘ وہاں 6دہشت گردوں نے بس کو گھیرا اور ہمارے یہ بہترین اور پرامن شہری گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ یہ قتل عام 5منٹ تک ہوتا رہا مگر کوئی انہیں بچانے والا نہیں تھا۔ بچانے والے کہاں سے آتے؟ گولیوں کا نشانہ بننے والے یہ مرد‘ عورتیں اور بچے اپنے تمام اہل وطن کی طرح ‘ دہشت گردوں‘ قاتلوں اور جلادوں کے رحم و کرم پر تھے۔ ایسا نہیں کہ ریاست کے پاس عوام کی حفاظت کے وسائل نہیں۔ ہمارے ملک کے جتنے وسائل ہیں‘ ان کی مطابقت سے شہریوں کے تحفظ پر ریاست جو کچھ خرچ کر سکتی ہے‘ وہ کیا جاتا ہے۔ لیکن اتنا زیادہ نہیں کہ وی آئی پیز کوسکیورٹی دینے کے بعد‘ عام شہریوں کے تحفظ کے لئے کچھ بچایا جا سکے۔ ریاست کے 90فیصد وسائل‘ وی آئی پیز کی سکیورٹی پر صرف ہو جاتے ہیں۔ ان وی آئی پیز میںصوبائی اور وفاقی دارالحکومتوں میں رہنے والوں کا خرچ ہی کمر توڑ ہے۔ وی آئی پیز کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ ہر ضلع میں پولیس اور بیوروکریسی موجود ہے۔ اس کے اعلیٰ افسران کے لئے بھی سکیورٹی کے انتظامات کئے جاتے ہیں۔ تحصیلوں کے افسران کی حفاظت پر بھی پولیس فورس کو ڈیوٹی دینا پڑتی ہے۔ اس کے بعد جتنی سکیورٹی بچ رہتی ہے‘ وہ عوام کی حفاظت کرتی ہے۔یہ حفاظت جتنی ہو سکتی ہے‘ وہ آپ کے سامنے ہے۔ عام لوگوں میں نہ کسی کی زندگی محفوظ ہے‘ نہ جمع پونجی‘ نہ عزت‘ نہ جائیداد۔ یہ چوروں‘ ڈاکوئوں اور قاتلوں کے ذوق انتخاب پر ہے کہ وہ کس کو لوٹنے کے لئے منتخب کرتے ہیں؟ کسے گولی مارنا پسند کرتے ہیں؟ کسے اغوا کر کے تاوان لیتے ہیں؟ دور کی بات نہیں‘ قریب ترین مثالیں یہ ہیں کہ ہمارے ایک وزیراعظم جب ''سابق‘‘ ہوئے‘ تو ان کا ایک صاحبزادہ دن دیہاڑے اغوا کر لیا گیا۔ 2سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا‘ ابھی تک تاوان پر مک مکا نہیں ہو رہا اور ریاست کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ اپنے ایک سابق وزیراعظم کے بیٹے کو اغوا کاروں سے آزاد کرا سکے۔ دوسری مثال پنجاب کے سابق گورنر‘ شہید سلمان تاثیر کے بیٹے کی ہے۔ وہ بھی قریباً اتنے ہی عرصے سے اغوا کاروں کی قید میں ہے۔ ریاست اسے بھی بچانے کے قابل نہیں۔
ان دو مثالوں سے ہی ان تمام وی آئی پیز کو جو اپنے ''آج‘‘ کے لئے بھاری بھرکم سکیورٹی کے اندر رہتے ہیں‘ سوچنا چاہیے کہ جس دن یہ اپنے عہدوں سے رخصت ہوں گے‘ تو ان کا کیا بنے گا؟ جس طرح آج وہ دوسرے ''سابق‘‘ وی آئی پیز کے اہل خاندان کو تحفظ نہیں دے پا رہے‘ آنے والے کل میں ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو سکتا ہے۔ ابھی تک بہت سے محکموں کے اعلیٰ افسروں کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سکیورٹی دستیاب رہتی ہے۔ مگر کب تک؟ ایک دن ریٹائرڈ افسروں کی تعداد اتنی ہو جائے گی کہ پھر ان کے لئے بھی سکیورٹی کا عملہ دستیاب نہیں ہو گا۔ انہیں بھی دیگر محکموں کے ریٹائرڈ افسروں کی طرح‘ عوام کے ساتھ سکیورٹی کے بغیر رہنا پڑے گا۔ ان کی جمع پونجی بھی چوروں اور ڈاکوئوں کے رحم و کرم پر ہو گی اور ان کے اہل خاندان بھی دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہوں گے۔ عوام کا درد اب صرف چند پیشوں کی ضرورت رہ گیا ہے۔ انسانی صفات کا حصہ نہیں۔ وہ زمانے لد گئے‘ جب کہا جاتا تھا ''درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔‘‘ اس کے متبادل کے طور پر اب یہ مصرعہ استعمال کیا جا سکتا ہے: ''حرص زر کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔‘‘ کبھی علمائے کرام بھی پہلی صفت‘ یعنی درددل والے ہوا کرتے تھے۔ اب تو ان میں بھی ان تھک تلاش کے بعد کوئی خدا کا بندہ دکھائی دے جائے تو دے جائے‘ ورنہ شہر کے شہر خالی پڑے ہیں۔ چندوں‘ کھالوں اور عطیات پر عیش و عشرت کرنے والوں کی کمی نہیں۔ لیکن ان کے وعظ سنیں‘ تو بظاہر وہ دردل والے دکھائی دیتے ہیں۔ درد دل کا دوسرا کاروباری طبقہ سیاستدان ہیں۔ وہ سادہ لوح اور بھولے بھالے عوام کو اپنی دردمندی بیچ کر ووٹ اور حمایت لیتے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے اتنا کچھ کما لیتے ہیں کہ انہیں اپنی جان کے ساتھ اپنی متاع کے تحفظ کی فکر بھی لاحق ہو جاتی ہے۔ جب تک دھندہ چلتا ہے‘ سکیورٹی دستیاب رہتی ہے۔ دھندہ یعنی عہدہ بڑا ہو تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سکیورٹی دستیاب رہتی ہے اور نوکری چھوٹی ہو‘ تو پھر ان کی حالت بھی عام شہریوں جیسی ہو جاتی ہے۔ جس کی حفاظت کا ذمہ ریاست کے پاس ہوتا ہے اور ریاست جو حفاظت کرتی ہے‘ اس کا تازہ مظاہرہ ہم نے کل کراچی کے ایک چوراہے پر دیکھا۔ ایسے ملکوںمیں جہاں حکمران طبقوں کے لئے ساری دولت اور جائیداد ہو‘ سرکاری وسائل ان کے رحم و کرم پر ہوں اور دنیا کی ہر چنی ہوئی نعمت ان کے دسترخوان پر ہو‘ ان کے تحفظ کے لئے ریاست اپنی بساط سے بڑھ کر انہیں سکیورٹی دیتی ہو‘ وہاں پر جب سکیورٹی انتہا کو پہنچ جائے تو ریاستی طاقت‘ تکلیف سے چیختے چلاتے عوام کی آوازیں بند کرنے پر استعمال ہونے لگتی ہے۔ اپنے عوام سے خوفزدہ حکمران طبقے ‘ غیروں کے محتاج ہو جاتے ہیں اور پھر ان کے ساتھ وہی ہوتا ہے‘ جو وہ خود اپنے عوام کے ساتھ کرتے ہیں۔ ایسے بے شمار بادشاہ‘ صدور اور وزرائے اعظم ‘ آج دوسرے ملکوں میں جلاوطنی کی زندگی گزارتے ہوئے ‘ پرانے دن یاد کر کے آہیں بھرتے نظر آ جاتے ہیں۔
ہمارے حکمران ان معاملات میں کافی دوراندیش ہیں۔ انہوں نے پہلے ہی سے اپنے دور اقتدار میں اندھادھند لوٹی ہوئی دولت سمیٹ کر بیرون ملک چھپا دی ہے۔ اگر تبدیلی آ گئی اور عوام نے حکمرانوں کو دبوچ لیا‘ تو اس کا حساب ہو جائے گا۔ لیکن اگر انہیں بھاگنے کے مواقع مل گئے‘ تو پھر یہ پرانے جلاوطنوں کی طرح خود بھی دوسرے ملکوں میں جا بسیں گے۔ وہاں چرائی ہوئی دولت کے ذریعے عیش و آرام کی زندگی ضرور حاصل کر لیں گے‘ لیکن جو ٹھاٹ باٹ انہیں یہاں میسر ہیں‘ وہ دولت سے نہیں خریدے جا سکتے۔ وہاں کوئی ان سے نہیں پوچھے گا کہ تمہارے پاس دولت کتنی ہے؟ وہاں صرف انہیں سیر یا خریداریاں کرتے دیکھ کر‘ لوگ انگلیاں اٹھا اٹھا کے اپنے بچوں کو دکھایا کریں گے کہ ''یہ فلاں ملک میں حکمران تھا۔ آج کل لوٹی ہوئی دولت پر عیش کر رہا ہے۔‘‘ ایسے لوگوں کو عوام دھکے دے کر نکالیں یا یہ خود جلاوطنی اختیار کر کے دوسرے ملکوں میں چلے جائیں‘ قسمت میں ذلت و بے عزتی ہی لکھی ہوتی ہے۔ ان کے سوا ‘ ان کا پورا میزبان ملک جانتا ہے کہ یہ اپنی اپنی قوم کو لوٹ کر آنے والے بھگوڑے ہیں۔
عوام کے ساتھ لوٹ مار کا رشتہ رکھنے والے حکمرانوں کے اندر‘ انسانیت کی حالت کتنی خراب ہو جاتی ہے؟ اس کا نظارہ آپ نے گزشتہ روز کر لیاہو گا۔ یہ سب کے سب جو حکومت کے اندر تھے اور جو باہر بیٹھے حکومت کے انتظار میں ہیں‘ سب اکٹھے ‘ ایک آل پارٹیز کانفرنس میں بیٹھے تھے۔ اسی صبح کراچی کا قتل عام ہوا تھا۔ ایم کیو ایم کے لیڈر نے ان سارے اقتدار کے اندر اور باہر بیٹھے ہوئے لیڈروں کو اطلاع دی کہ کراچی میں درجنوں بے گناہوں کا خون بہہ چکا ہے۔ مناسب ہو گا کہ ہم سب کراچی جا کر وہاں کے عوام کے غم میں شریک ہوں۔ وہیں پر ایک شاندار دعوت مرگ عوام کا اہتمام کر دیا گیا۔ کابینہ کے ایک وزیراحسن اقبال کو مائیک پر کھڑا کر کے‘ ایک خیال افروز داستان سنانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ وہ داستان گوئی کا فرض نبھاتے ہوئے بولتے گئے۔ قوم کا درد کھانے والے ضیافت اڑاتے رہے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھ دیکھ کر منہ پر ہاتھ پھیرتے رہے‘ جیسے کہہ رہے ہوں کہ ''چین کا سرمایہ آنے دو‘ پھر دیکھو ہم کیا کرتے ہیں؟‘‘