ایک انٹرویو کے اقتباسات پیش خدمت ہیں۔''میں نے اپنی چیئرمین شپ کے دور میں پاک بھارت سیریز کے لئے بہت کوشش کی تھی اور حکومتی سطح پر اقدامات بھی کئے تھے۔‘‘ سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ جناب نجم سیٹھی نے ایک انٹرویو میں فرمایا۔ انہوں نے سیریز کا کریڈٹ لیتے ہوئے کہا ''میں نے اس کے لئے بہت کوشش کی۔ میں پہلے سے کہہ رہا ہوں کہ پاک بھارت سیریز ضرور ہو گی۔اب بھارت بھی اس کے لئے تیار ہے۔ ‘‘ انہوں نے کہا ''سیریز کے مخالفین بھی موجود ہیں؛ تاہم مودی نے فیصلہ کر لیا‘ تو بھارتی کرکٹ بورڈ بھی پاکستان کے ساتھ سیریز کو نہیں روک سکتا۔‘‘ ان کے مطابق غیرملکی ٹیمیں پاکستان آنا شروع ہو جائیں گی‘ جس سے پاکستانی کرکٹ بہتری کے سفر پر گامزن ہو جائے گی۔ یاد رہے کہ چند روز قبل چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ شہریار محمد خان نے کولکتہ میں بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ کے سربراہ جگ موہن ڈالمیا سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں مجوزہ پاک بھارت سیریز کے موضوع پر بھارتی کرکٹ بورڈ کے سربراہ جگ موہن ڈالمیا سے بات چیت کی۔ڈالمیا نے روایتی انداز میں دوطرفہ تعلقات کی بحالی کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ سیریز کا انعقاد بھارتی حکومت کی اجازت سے مشروط ہے۔ ان ملاقاتوں کے فوراً بعد ہی بھارت کے وزیرخزانہ ارون جیٹلی جو کہ کھیلوں کے امور کی بھی نگرانی کر رہے ہیں اور شہریار خان کے دیرینہ دوست ہیں‘ نے بھی پاکستان اور بھارت کے مابین کرکٹ کا کھیل پھر سے شروع کرنے کے حق میں رائے دی۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ شہر یار محمدخان کا تعلق بھوپال کے نواب خاندان سے ہے۔ یہ خاندان پاکستان کے قبائلی علاقے تیراہ کے اورکزئی قبیلے سے ہے۔ شہریارخان بھوپال کے قصرسلطانی میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ خود بھی شہزادی تھیں۔ شہریارمحمد خان‘ نواب منصور علی خان پٹودی کے فرسٹ کزن ہیں‘ جو متحدہ بھارت کی قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان اور صف اول کے بیٹسمین تھے۔ وہ بھارتی فلم انڈسٹری کے نامور ہیروسیف علی خان کے والد تھے اور ان کی بیگم شرمیلا ٹیگور کا تعلق بنگال کے ایک معروف خاندان سے تھا۔رابندرناتھ ٹیگور بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ شہریارمحمد خان خود بھی کرکٹ کھیلتے تھے اور بھارت کی کرکٹ اسٹیبلشمنٹ میں ان کو انتہائی احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں انہوں نے ڈپلومیٹک کیریئر اختیار کیا اور 1990ء میں وزارت امور خارجہ کے سیکرٹری بن گئے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی طرف سے بھی انتہائی اہم عالمی امور میں خدمات انجام دیں۔ مجھے یہ تفصیل اس طرح بیان کرنا پڑی کہ جب کچھ لوگ اپنی اتفاقیہ پوزیشن سے فائدہ اٹھا کر بڑ ہانکنے لگتے ہیں‘ تو کئی بار ایسی بھی چلا دیتے ہیں‘ جو ان کی حیثیت اور سماجی رتبے سے کہیں اوپر ہو۔ پاکستان کی طرح بھارت کا حکمران طبقہ بھی اپنا مخصو ص حلقہ اثر رکھتا ہے۔ نوابان بھوپال‘ بھارت کے حکمران طبقوں میں بلند مقام رکھتے تھے اور آج بھی اس خاندان کو وہی عزت و وقار حاصل ہے۔ شہریارمحمد خان جب بھارت جاتے ہیں‘ تو اعلیٰ سفارتی حلقوں ‘ سیاسی شخصیتوں اور کرکٹ کی انتظامیہ میں انہیں احترام سے دیکھا جاتا ہے۔ بھارتی کرکٹ بورڈ کے سربراہ جگ موہن ڈالمیاخود بھی کرکٹ کے کھلاڑی تھے۔ جب وہ اس کھیل میں داخل ہوئے‘ تو بھارتی کرکٹ میں نواب پٹودی کا ڈنکا بج رہا تھا۔ وہ بطور وکٹ کیپر کھیلا کرتے اور ایک بار انہوں نے ڈبل سنچری بھی بنائی تھی۔ بھارت کے چند سرکردہ صنعت کار گروپس میں ان کا خاندان بھی شامل ہے۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی‘ صنعت کار گروپ کی حمایت سے موجودہ عہدے تک پہنچے ہیں۔ ڈالمیا کے ان سے تعلقات کا اندازہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ یہ جاننے کے لئے زیادہ مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کہ مودی کابینہ کے رکن ارون جیٹلی اور ڈالمیا ‘شہریار خان کے دوست ہیں اور وزیراعظم مودی‘ ڈالمیا خاندان کے قریب ہیں۔اب یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کے اس دور میں جبکہ مذاکرات کا سلسلہ بھی ٹوٹ چکا ہے‘ ڈالمیا اور جیٹلی کی طرف سے پاک بھارت کرکٹ کا دوبارہ انعقاد اور وزیراعظم مودی کی اس تجویز کے حق میں بھرپور تقریر کا پس منظر کیا تھا۔ اتنا بڑا فیصلہ کرانے کی حیثیت تو بھارت میں بھی دو تین صحافی ہی رکھتے ہوں گے‘ کہاں پاکستان کے ایک ناکام انگریزی ہفت روزے اور ناکام روزنامے کے سابق ایڈیٹر اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایک رکن؟ جن کی زیادہ سے زیادہ حیثیت یہ ہے کہ انہیں بھارتی سفارتخانوں سے ویزہ مل جاتا ہے۔ اتنی سی بات پر بھی اگر کوئی یہ سوچے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے معاملے میں‘ بھارتی حکومت کے اعلیٰ سطحی فیصلوں پر اثرانداز ہو سکتا ہے‘ تو اس پر پاکستانی اداکار علائوالدین مرحوم کا ایک کردار یاد آ جاتا ہے‘ جو انہوں نے فلم ''پھنّے خاں‘‘ میں ادا کیا تھا۔ شہر کا کوئی بھی بڑا بدمعاش ‘ کوئی معرکہ سر کرتا‘ تو پھنے خاں اپنے دوستوں کی منڈلی میں بیٹھ کر بڑ ہانکتا کہ ''یاراں دا ای کم اے۔‘‘ یہ درست ہے کہ اپنی بیگم کی نسبت سے وہ پاکستان کے ایک بڑے صنعتکار حکمران خاندان سے تعلق رکھتے ہیں‘ لیکن بھارت کے صنعتکار گروپوں کے مقابلے میں واجدعلی شاہ گروپ بالکل ایسے ہی ہے‘ جیسے اسحق ڈار کے سامنے نرالا سویٹ والے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ اعلیٰ ترین سطح پر کیا گیا اور اس فیصلے پر وہی اثرانداز ہو سکتا ہے‘ جس کی بھارت کے حکمران طبقے میں پہنچ ہو۔ یہ درست ہے کہ ریاستی تعلقات میں بنیادی کردار فیصلوں کی نوعیت ادا کرتی ہے‘ لیکن یہ بھی درست ہے کہ جب فیصلے بڑے ہوں‘ تو انہیں کرنے کے لئے طاقت کے اصل مرکز کے اختیارات بروئے عمل آتے ہیں۔ ہمیں اس فیصلے کو بھارت کی پاکستان کے بارے میں بنیادی پالیسی کے حصے کے طور پر دیکھنا چاہیے اور اس فیصلے کے مضمرات کو بھی سیاسی پس منظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ اتنا ہلکا معاملہ نہیں کہ ایک ناکام صحافی اور صوبے کا ایک عبوری وزیراعلیٰ‘ بھارتی حکومت کے فیصلوں پراثرانداز ہو سکے۔ شہریار خان‘ پاکستان کے کسی حکمران خاندان سے ہوتے‘ توبھارت میں اعلیٰ سطح تک ان کی رسائی ہونامشکل تھا۔ بھارت میں اب چند ہی خاندان ایسے رہ گئے ہیں‘ جن سے تعلق رکھنے والے افراد ہجرت کر کے پاکستان آ گئے تھے۔ وہ رشتے بھی ماضی کا حصہ بن گئے۔ اب گنتی کے افراد ایسے رہ گئے ہیں‘ جن کی جڑیں بھارت کی اشرافیہ میں باقی ہیں۔ ایک غفارخان کا خاندان ہے۔ ایک دارالعلوم دیوبند کے حوالے سے مولانا مفتی محمود کے صاحبزادگان ہیں۔ ان کے علاوہ چند ایک مزید افراد ہوں گے‘ ورنہ اس سطح کا رشتہ اب بھارت کے ساتھ باقی نہیں رہ گیا۔ اب پاک بھارت تعلقات میں روزمرہ کے امور‘ سفارتکاروں کی سطح تک رہیں گے یا پھر وزیراعظم اور وفاقی وزراء تک۔ وہ دن زیادہ دور نہیں‘ جب بھارتی سفارتخانے سے ویزہ لینے کو بھارتی حکومت میں اثرورسوخ قرار دیا جائے گا۔
بے شک زمبابوے کی ٹیم کی آمد کو پاکستان کی رسماً انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی ضرور کہا جائے گا‘ لیکن یہ واپسی ایسے ہی ہے‘ جیسے دونوں ملکوں کی طرف سے انڈر 19کی ٹیمیں کھیلتی رہتی ہیں۔ یہ دہشت گردوں کی مہربانیاں ہیں کہ ہمیں زمبابوے کی ٹیم بلانے کے لئے بھی 6کروڑ اپنی جیب سے ایڈوانس دینا پڑے‘ جسے پورا کرنے کے لئے پولیس تھانوں اور انتظامیہ کے مجسٹریٹوں کو محنت کرنا پڑے گی‘ کیونکہ کرکٹ کے شائقین نہ تو زمبابوے کے ''سٹارز‘‘ کا کھیل دیکھنے جائیں گے اور نہ پاکستان کے ''ہیروز‘‘ کو دیکھنے۔ اب یہ دونوں ٹیمیں ایک جیسی ہوچکی ہیں۔ ہو سکتا ہے زمبابوے قدرے بہتر ثابت ہو۔ ہماری ٹیم کی جو درگت بنگلہ دیش نے بنائی ہے اگر ایسا ہی حال زمبابوے نے بھی کیا‘ تو پھر کالجوں میں چھٹیاں کر کے ہی قذافی سٹیڈیم بھرنا پڑے گا۔ زمبابوے کے ساتھ کرکٹ میچ دیکھ کر اسے انٹرنیشنل کہنا اسی طرح ہو گا‘ جیسے لوگ جلال آباد سے واپس آ کر کہتے ہیں کہ بیرونی دورے سے واپس آیا ہوں۔