"NNC" (space) message & send to 7575

سیاہ کارنامے

پاک چین اقتصادی راہداری کے عظیم منصوبے کو جس میں ‘خوش نصیبی سے پاکستان کو بھی شامل کر لیا گیا ہے‘ خود اہل پاکستان اسے متنازعہ بنا کر‘ ردی کی ٹوکری میں پھینک دینے پر تلے ہیں۔ قدرت ہمیں کوئی بھی موقع دے‘ ہم اسے ضائع کرنے پر انتھک محنت کرتے ہیں۔ ہمارا ریکارڈ دیکھا جائے‘ تو اعتماد سے کہا جا سکتا ہے کہ خوش نصیبی کے مواقع ضائع کرنے پر‘ ہم نے جتنی محنت کی‘ اتنی محنت‘ مواقع سے فائدہ اٹھانے پر نہیں کی۔ مثلاً قیام پاکستان ہی کے وقت ہمیں قدرت نے دو سنہرے مواقع عطا فرمائے تھے۔ ایک ریاست جموں و کشمیر اور دوسرا مشرقی پاکستان۔ ریاست جموں و کشمیر پر ہم ‘ تقسیم کے تسلیم شدہ فارمولے کے تحت اپنا حق لینے کی کوشش کرتے‘ تو ساری دنیا ہمارے ساتھ ہوتی اور یہ معاملہ ‘ ہم خود سلامتی کونسل میں لے جاتے‘ تو بھارت کو سلامتی کونسل کا فیصلہ تسلیم کرنا پڑتا‘ جو بلاشبہ ہمارے حق میں ہوتا۔ لیکن ہم نے قبائلیوں کو کشمیر میں داخل کر کے‘ بھارت کو فوجیں اتارنے کا عذر فراہم کر دیا۔ وہ خود بہانوں کی تلاش میں تھا کہ ہم نے رضاکارانہ طور پر فراہم کر دیا اور جو تماشہ ہوا ‘ہم اسے آج تک بھگت رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم سلامتی کونسل میں جاتے‘ حملہ آور خود شکایت کنندہ بن کر سلامتی کونسل میں چلا گیا۔ وقت ظاہر ہے‘ ہمیشہ طاقتور فریق کے ساتھ ہوتا ہے۔ دنیا میں کسی بڑی طاقت کو بھارت سے بگاڑ پیدا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ کیس کی بنیاد ہم نے خودفراہم کر دی۔ باقی سب کچھ بھارت نے کر ڈالا۔ اب دور دور تک یہ امید نظر نہیں آتی کہ تقسیم کے فارمولے کے مطابق‘ ریاست جموں و کشمیر ہمارے پاس آ جائے گی۔
دوسرا جو موقع ہم نے گنوایا وہ مشرقی پاکستان تھا۔ سیدھی سی بات تھی کہ پاکستان ہم نے جمہوری اصولوں کے تحت حاصل کیا۔ مشرقی پاکستانیوں کی خوش نصیبی اور ہماری بدنصیبی کہ ہم یہ بھول گئے کہ قوموں کی زندگی میں ‘طاقت ہی فیصلہ کن عنصر نہیں ہوتا۔ قیام پاکستان کے وقت فوج اور ریاستی مشینری کا بڑا حصہ ہمیں مل گیا تھا۔ وجہ صاف ظاہر تھی کہ فوج میں تو مشرقی پاکستانی برائے نام تھے۔ بیوروکریسی میں البتہ وہ تھوڑے بہت ضرور پائے جاتے تھے اور جو پاکستان کے حصے میں آئے‘ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ اگر ہم تقسیم ہند کے اصول پر چلتے‘ تو اکثریت کی بنیاد پر حکومت مشرقی پاکستانیوں کی بننا تھی۔ آبادی میں ان کا تناسب 52 فیصد اور ہمارا 48 فیصد تھا۔ مگر کشمیر میں مسلح قبائلیوں کو داخل کرنے کی طرح ہم نے دوسرا بلنڈر کر دیا اور کرتے ہی چلے گئے۔ ہم نے ہر حیلے بہانے سے مشرقی پاکستانیوں کو حق حکمرانی دینے سے انکار کر دیا۔ ضروری نہیں تھا کہ جمہوریت کے تحت بنگالی ہی پاکستان پر راج کرتے۔ آزادی کے بعد ملک کے دونوںحصوں میں مسلم لیگ اکثریت میںتھی۔ اگر ایمانداری سے منصفانہ انتخابات کرا دیئے جاتے‘ تو لازماً مرکز میں مسلم لیگ کو اکثریت حاصل ہوتی اور یہی صورت حال سارے صوبوں کی تھی۔ مسلم لیگی حکومت اگر اس وقت کے جذبے اور اتفاق رائے کے ساتھ ‘بھارت کی طرح آئین پاس کرا کے نافذ کر دیتی‘ تو آئندہ کی ہر تبدیلی‘ آئینی بنیادوں پر ہونا تھی اور ملک کو مسلسل مضبوط اور متحد ہوتے جانا تھا۔ ہم نے بڑے صوبے کو چھوٹا بنا کر رکھنے کے لئے وحشیانہ طریقے سے ‘ اس پر زبردستی کنٹرول مضبوط کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ بنگالیوں نے اپنا اکثریتی حق لینے کے لئے ‘جو بھی جدوجہد کی‘ اسے فوجی طاقت سے کچل دیا گیا۔ حتیٰ کہ انہوں نے بے پناہ قربانیاں دینے کے بعد‘ ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر اپنا جمہوری حق استعمال کر کے‘ بنیادی جمہوری اصولوں کے تحت قومی اسمبلی قائم کی‘ ہم نے اس میں انہیں حکومت بنانے کا حق دینے سے انکار کر کے‘ فوج کشی کر دی۔ ظاہر ہے‘ ہم سے بڑی بھارتی فوج پکے ہوئے پھل کو جھولی میں گرتے ہوئے دیکھ کر حرکت میں آئی۔ پاکستان غیرمتناسب جنگ میں کامیاب نہ ہو سکا۔ آج مشرقی پاکستان بھی ہم سے جدا ہے۔ موجودہ دور میں طاقت کے جو نئے پیمانے اور نئی صورتیں تشکیل پا رہی ہیں‘ ان میں سابقہ مشرقی پاکستان ہمارے لئے‘ دوہری طاقت کا حصہ بنتا۔ مشرقی پاکستان‘ خلیج بنگال کے اس کنارے پر واقع ہے‘ جہاں سے آبنائے ملاکا نزدیک تر ہے۔ بھارت اس سے پیچھے رہ جاتا ہے۔ خلیج بنگال کے دونوں ناکوں پر سری لنکا اور بنگلہ دیش ہیں۔ ان کے درمیان میں بھارتی ساحل آتا ہے۔ اگر مشرقی پاکستان ہمارے ساتھ ہوتا‘ تو اپنی آج کی ایٹمی طاقت کی مطابقت سے ‘ آبنائے ملاکا کے دعویداروں میں ہم بھی شامل ہوتے، جس کے بے پناہ سٹریٹجک فوائد اٹھائے جا سکتے تھے۔ ہمارے اس دور کے جاہل حکمرانوں نے ‘ مشرقی پاکستان کو بوجھ سمجھتے ہوئے ‘ بھارت کی جھولی میں ڈال دیا۔
تیسرا سنہرا موقع کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا تھا۔ بدبخت ضیاالحق کے دور میں‘ اس کے پسندیدہ گورنر صوبہ سرحد نے ‘ ایک قوم پرست جماعت کو آلہ کار بنا کر‘ کالا باغ ڈیم کے خلاف گمراہ کن الزامات لگاتے ہوئے‘ اس کی تعمیر کے خلاف جذباتی فضا پیدا کر دی۔ اس کے بعد سندھ اور بلوچستان کو ساتھ ملا لیا اور مخالفانہ دلائل کے انبار لگتے گئے۔ حقائق اور دلائل سننے سے انکار کر دیا گیا اور اب کالا باغ ڈیم کا نام آتے ہی‘ سندھ اور خیبر پختونخوا میں تباہی و بربادی کے نعرے بلند ہونے لگتے ہیں۔ ساتھ ہی بلوچستان کی آواز بھی مل جاتی ہے اور ہمارے حکمران‘ جن کی ساکھ مٹی میں مل چکی ہے‘ اس قابل ہی نہیں کہ کسی بھی مشتعل گروہ کے جذبات کو ٹھنڈا کر کے‘ اپنی بات منوا سکیں۔ بلکہ نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ حکمران جس بات کو درست کہتے ہیں‘عوام اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ عملی طور پر مستقبل قریب میں‘ ہم کالا باغ ڈیم بنانے کے بھی قابل نہیں رہ گئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ صوبہ کے پی کے اور سندھ کے نقصانات پنجاب سے زیادہ ہوں گے۔ بے شک بڑا صوبہ ہونے کی وجہ سے پنجاب کا نقصان ‘ اپنے سائز کی مناسبت سے زیادہ ہو گا۔ مگر جیسے انہوں نے یہ تصور پھیلا رکھا ہے کہ یہ ڈیم‘ اصل میں پنجاب کے فائدہ کے لئے بنانے کا منصوبہ ہے اور ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے‘ پہلے دو بڑے جغرافیائی نقصانات کے بعد‘ ہم تیسرا نقصان
پیداواری شعبے میں اٹھائے بیٹھے ہیں ۔ اب ہم پانی کی قلت کا بھی شکار رہیں گے اور خوراک کی پیداوار میں بھی کمی بیشی ہوتی رہے گی اور آخری اور سب سے بڑا نقصان افغانستان میں مداخلت کا ہے۔ یہ پہلے تینوں نقصانات سے بڑا ہے کہ افغانستان میں مداخلت کر کے‘ ہم نے دہشت گردی کا زہر پورے وطن عزیز کی رگوں میں پھیلا دیا ہے۔ یہ زہر آسانی سے ختم ہونے والا نہیں اور ہمارے ایڈیٹر انچیف میاں عامر محمود نے اپنے گزشتہ کالم میں‘ جن امکانات کی طرف توجہ دلائی ہے‘ انہیں پڑھ کر تو یقین نہیں آتا کہ دہشت گردی کے عفریت کو‘ کتنی دور تک پھیلانے کے منصوبے ہیں؟ موجودہ حکومت جو پچھلی صدی کے فرسودہ جنگی حربے استعمال کر کے‘ جدید ترین طرزجنگ کی مہارت رکھنے والے دہشت گردوں کو شکست دینے کے دعوے کر رہی ہے‘ یہ اس کے بس کی بات نظر نہیں آتی۔ ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے۔ ایک‘ دو‘ تین‘ پتہ نہیں کتنے پلان بنائے جا رہے ہیں؟ اور ہر پلان کا نفاذ ہوتے ہی دہشت گردی کی وارداتوں میں ‘جارحیت اور اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ سال کا اختتام پشاور کے وحشیانہ قتل عام پر ہوا۔ رواں سال ابھی آدھا بھی نہیں گزرا کہ کراچی میں اس سال کا سب سے بڑا المناک سانحہ رونما ہو چکا ہے اور ہمارے ایک ‘دو‘ تین‘ نمبر کے پلان بروئے عمل ہیں۔ سندھ میں خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں۔ پیپلزپارٹی‘ رینجرز‘ پاک فوج‘ پولیس اور تسلیم کیا جائے تو ایم کیو ایم‘سارے ہی مل کر اپنی طرف سے دہشت گردوںکے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔ لیکن جلادوں نے عبادت کے لئے جانے والے عورتوں‘ بچوں اور خاندان کے مردوں کو اس طرح گولیوں سے بھون کر پھینک دیا ‘ جیسے وہ فالج زدہ انسانوں کا مجمع ہو ۔ مجھے آج تک یقین نہیں آ رہا کہ 50 سے زیادہ انسانوں کو صرف چار افراد نے سینت سینت کر گولیوں کا نشانہ بنایا ‘ جیسے انہیں مسمرائز کر دیا گیا ہو۔ حیرت ہوتی ہے کہ صرف چار آدمی 50 سے زیادہ مردوزن کو ‘ ایک ایک کر کے گولی مار رہے تھے اور ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس نے جھپٹ کر ایک دو کو دبوچ لیا ہو۔ زیادہ سے زیادہ انہیں گولی لگ سکتی تھی‘ جو کہ انہیں ویسے بھی لگی۔ اگر کوئی ایک بھی یہ جرات رندانہ کر لیتا تو دوچار افراد مزید جاں بحق ہو جاتے مگر باقی کی سلامتی یقینی تھی۔ کسی نے ایسا نہیں کیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اس کیفیت کو کیا نام دوں؟ کم از کم اسے حکومت پر اعتماد کا فقدان ضرور کہا جا سکتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ سانحے کے دو دن بعد تک‘ پولیس کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ اسے تفتیش کہاں سے شروع کرنا ہے؟ جتنے لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے‘ وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حقیقی ملزم ابھی تک ہاتھ نہیں آئے۔ جتنے زیادہ لوگ پکڑے جائیں گے‘ اتنی ہی پولیس کی بھاگ دوڑ بے معنی ہو گی۔ تحقیق اور تفتیش کے بعد جب ہاتھ ڈالا جاتا ہے‘ تواس میں پانچ دس فیصد کی غلطی ہوتی ہے۔ جہاں چھ آدمیوں کو پکڑنے کے لئے 200 سے زائد کو گرفتار کیا جا چکا ہو‘ وہاں یہ اندازہ کرنے میں کوئی تامل نہیں کرنا چاہیے کہ ایک بھی اصلی ملزم ہاتھ نہیں آیا۔ اسے ٹامک ٹوئیاں مارنا کہتے ہیں۔ مہم جوئیوں کے جتنے واقعات میں نے گنوائے ہیں‘ دعا ہے کہ موجودہ مہم جوئی کا انجام بھی وہی نہ ہو۔ ایک اذیت ناک لطیفہ یاد دلانے کی کالم میں جگہ نہیں رہ گئی۔ اس پر علیحدہ ایک کالم لکھوں گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں