''بول‘‘ میڈیا گروپ والے ایک اصولی غلطی کر گئے۔ اخبار اور ٹی وی چینل وہ پاکستان سے شروع کرنے والے تھے اور نام رکھ دیا ''بول‘‘۔ میرا خیال ہے یہ نام وہ پہلے کہیں سے خرید بیٹھے تھے۔ ورنہ جتنے سینئر اور تجربہ کار صحافی ان کے پاس آگئے ہیں‘میڈیا گروپ کا نام ان سے پوچھنے کے بعد رکھا جاتا‘ تو اتنے طویل تجربوں کے بعد‘ ان میں کون مائی کا لال ہو گا‘ جس نے پاکستانی میڈیا میں کام کر کے‘ بولنے کی غلطی کی ہو؟نجم سیٹھی میڈیا میں چھاتہ بردار کی طرح اترے تھے اور روایات سے اسی طرح ناواقف تھے‘ جیسے بھارتی فلم ''پی کے‘‘ کا ہیرو کسی سیارے سے زمین پر اترا اور اسے زمینی طور طریقوں کا علم نہیں تھا۔ وہ نئی نئی حرکتیں کرتا اور پھنس جاتا۔ نجم سیٹھی نے بھی باہر کی دنیا سے پاکستانی میڈیا میں چھلانگ لگائی۔ وزیراعظم جناب نوازشریف تھے اور وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف۔ ادھر ان کی آواز نکلی۔ ادھر پولیس رات کو گھر پہنچ گئی۔ گہری نیند سوئے ہوئے نجم سیٹھی کو اٹھا کر ساتھ لیا۔ بیگم جگنو صاحبہ نے مزاحمت کی۔ جب پولیس نے دھمکی دی کہ جناب کو ہماری میزبانی سے بچنا ہے‘ توخاموشی سے گھر میں سوئیں۔ نجم سیٹھی نے بھی یہی بہتر سمجھا کہ وہ پولیس کی میزبانی سے خود ہی فیضیاب ہوں گے اور اتنا فیضیاب ہوئے کہ وزیراعظم کے قریبی مشیروں کی صف میں انتہائی نزدیکی کرسی حاصل کی اور پھر انہوں نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ترقی کرتے کرتے پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ بنے۔ کرکٹ کنٹرول بورڈ کے سربراہ بنے اور اب آئی سی سی کے چیئرمین بننے اور نہ بننے کے درمیان معلق ہیں۔ جب انہیں امیدواری ''لاحق‘‘ ہوئی‘ تو بھارت سے تعلق رکھنے والے چیئرمین وہاں براجمان تھے اور ان کی ریٹائرمنٹ کا اعلان ہو چکا تھا۔ جیسے ہی نجم سیٹھی کا نام آیا‘ انہوں نے اسی کرسی پر ٹانگیں پسار لیں اور کرسی چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ ظاہر ہے نجم سیٹھی‘ پاکستانی وزیراعظم سے موجودہ قربت کی بنیاد پر بجاطور سے امید رکھتے ہوں گے کہ نوازشریف بھارتی وزیراعظم مودی کو جھنجھوڑ کر نجم سیٹھی کا تعارف کرائیں گے اور انہوں نے سارا سچ بول دیا تو مودی نہ صرف اپنے کئے پر پچھتائیں گے بلکہ سری نواسن کو کانگریس کی طرح کرسی سے اٹھا کے‘ نجم سیٹھی کوبٹھا دیں گے۔ سننے میں آیا ہے کہ بول گروپ نے نجم سیٹھی کو بھی لانے کا
سوچا تھا‘ لیکن وہیں کسی مشیر نے بتایا کہ آپ کے گروپ کا نام ''بول‘‘ کیا کم ہے کہ آپ نجم سیٹھی کو بھی لانا چاہتے ہیں؟نجم سیٹھی نے ایک بار بول کر نگران وزارت اعلیٰ بھگتی اور عمر بھر کے لئے 35پنکچروں کا ٹھپہ لگوا بیٹھے۔ وہ کوشش کرتے رہے کہ جوڈیشل کمیشن میں پیش ہو کر 35پنکچروں سے جان چھڑائیں‘ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ سارے افسر اور اہلکار کمیشن میں پیش ہو گئے لیکن سیٹھی صاحب کو نہیں بلایا گیا۔ نوازشریف نے اپنے ملک میں انہیں کرکٹ کا بڑے سے بڑا عہدہ دے کر دیکھ لیا‘ مگر سیٹھی صاحب نے جب انٹرنیشنل کرکٹ کونسل پر قبضے کا ارادہ ظاہر کیا‘ تو سری نواسن نے ٹانگ اڑا دی۔ بھارتی بڑے بے فیض لوگ ہیں۔ کوئی کتنی بھی خدمت گزاری کر لے‘ احسان کا جواب صرف ویزے کے ساتھ دیتے ہیں۔ بھارت کی طرف سے سیٹھی صاحب کو ویزہ پہلی فرمائش پر مل جاتا ہے۔ کرسی مانگیں تو نہیں ملتی۔
''بول‘‘ گروپ سے ایک غلطی اور ہو گئی۔ انہوں نے اپنے اخبار کے لئے خاور نعیم ہاشمی کو بلا لیا۔ پاکستانی میڈیا سرکار‘ خاور نعیم ہاشمی کو کیسے بھول سکتی ہے؟ یہ وہ صحافی ہیں‘ جنہوں نے جنرل ضیاالحق کے زمانے میں بولنے کے جرم میں کوڑے کھائے۔ ظاہر ہے کہ موجودہ حکومت ‘ پریس کی بہت عزت کرتی ہے۔ وہ کسی صحافی کو بار بار کوڑے کھلانے کے حق میں نہیں۔ جب ''بول‘‘ کی نشرواشاعت کے امکانات واضح ہو گئے‘ تو حکومت نے کہا ''چپ‘‘۔ مجھے کوئی اندازہ نہیں کہ شعیب شیخ کو یہ چپ کب تک لگی رہے گی؟ لیکن حکومت جتنے تائو میں ہے‘ وہ وزیرداخلہ چوہدری نثار کے فرمودات کو پڑھ کے معلوم ہو جاتا ہے۔ انہیں فیض کی نظم ''بول‘‘ یقینا پسند نہیں ہو گی۔ ویسے بھی پاکستان کا کون سا وزیرداخلہ ہے‘ جسے خود بولنے اور بولنے کی ترغیب دینے والے صحافی اور شاعر پسند ہوں گے؟ ہمارے تو ہر وزیرداخلہ کا بنیادی فرض یہ ہوتا ہے کہ جو بولے‘ اسے ایک چپت لگا کے ڈانٹا جائے کہ ''چپ‘‘۔چوہدری نثار ویسے اس طرح کے آدمی تھے نہیں۔ وہ ہمیشہ سے آزادیٔ صحافت کے حامی رہے ہیں اور ان کے دوستوں میں زیادہ بولنے والے صحافیوں کی اکثریت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جب سے وزیر داخلہ بنے ہیں‘ اسی وقت سے صحافیوں نے بھی چپ ساتھ لی ہے۔ چوہدری صاحب کی وزارتی ذمہ داریوں میں میڈیا کو چپ کرانا شامل ہے‘ لیکن ان کے صحافی دوستوں نے رضاکارانہ چپ سادھ لی ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ چوہدری نثار ڈیوٹی کی پابندی کرتے ہوئے دوستوں کو چپ کرائیں‘ وہ خود ہی چپ ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ انہیں ''بول‘‘ والوں نے چپ کرایا۔جیسے ہی وہ ''بول‘‘ کے ادارے میں شامل ہوئے‘ انہیں چپ لگ گئی۔ سب انتظار میں بیٹھے رہے کہ جو کام ہم نے عمر بھر کیا ''بول‘‘ میں جا کر ہم چپ بیٹھے ہیں اور نہ معلوم کب تک بیٹھے رہیں گے؟
موجودہ دور میں ٹیلیویژن نے بولنے والوں کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ پہلے تو لکھنے اور بولنے والے ایک ہی ہوتے تھے‘ جیسے مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا ظفر علی خاں اور شورش کاشمیری‘ لکھتے بھی تھے اور بولتے بھی خوب تھے۔ اب جو لکھتے ہیں‘ وہ بولتے نہیں۔ جو بولتے ہیں‘ وہ لکھتے نہیں۔ ویسے بہت اچھا ہوا کہ آج کے بولنے والے‘ لکھنے کے فن کو خاطر میں نہیں لاتے۔ بول کر کام چلا لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پرانے زمانے میں بول بچن کے دھنی کہا جاتا تھا‘ لیکن فلمی صنعت میں یہی خوبیاں رکھنے والوں کے بھاگ جاگ جاتے ہیں۔ بول بچن کرنے والا اربوں روپے کماتا ہے اور صرف بول پر گزارہ کرنے والا باقی سب کچھ بن جاتا ہے‘ لیکن بچن نہیں بنتا‘ حتیٰ کہ امیتابھ کا بیٹا بھی بچن ہے‘ مگر صرف بچن ہی ہے‘ امیتابھ نہیں۔ بول کا لفظ ایک محاورے میں بھی کثرت سے استعمال ہوتا ہے جس میں قطع تعلق کرنے والے کہتے ہیں کہ ہم نے بول چال بند کر دی ہے۔ الفاظ تو دونوں دلچسپ ہیں‘ لیکن ان میں فرق بہت زیادہ ہے۔ مثلاً بولنا تو اچھی بات ہے‘ لیکن یہ ''چالنا‘‘ کیا ہوتا ہے؟ ویسے بول چال کی اصطلاح بھی خوب ہے کہ اصل میں صرف قطع تعلق کرنے والے ایک دوسرے سے بولنا بند کرتے ہیں۔ بول کے ساتھ چال خواہ مخواہ جوڑ دی جاتی ہے۔ اگر بول کے ساتھ چال کا لفظ زبردستی کہیں باندھا جائے‘ تو دور کی کوڑی لا کر چلتی کے لفظ کو گھیرا ڈال کے بولنے کے ساتھ نتھی کیا جا سکتا ہے۔ جیسے فلاں کی زبان بہت چلتی ہے۔ مگر ان دونوں الفاظ کا رشتہ اس سے آگے کچھ نہیں۔
''بول‘‘ پر میڈیا سرکار نے جب سے حملہ کیا ہے‘ اس کی ہر بولتی چیز بند ہو گئی ہے‘ مثلاً تمام دفاتر میں جتنے کمپیوٹر تھے ‘ ان سب کے سرورز پر چپ کی مہر لگ گئی ہے۔ کسی بھی کمپنی کے ایک سرور کے ساتھ سینکڑوں کمپیوٹرز کو جوڑ دیا جاتا ہے۔ ہر کمپیوٹر وہیں سے غذا لے کر فرفر بولتا ہے اور جیسے ہی سرور صاحب کو بند کر دیا جائے‘ کمپیوٹروں کی زبان بندی ہو جاتی ہے۔ یہی کام ''بول‘‘ کے مالک و مدیر ‘شعیب شیخ صاحب نے کر دیا ہے۔ یعنی جیسے ہی ایف آئی اے نے کارروائی شروع کی‘ انہوں نے سرور کو ‘ سرور بھٹی بنا کر ریکارڈ روم میں سجا لیا۔ جہاں مولا جٹ کا نام آئے گا‘ وہیں سرور بھٹی کا نام آئے گا۔ باقی زندگی میں اگر انہوں نے کوئی مولاجٹ بنا دی‘ تو ساری عمر وہ اس کے نام پر گزار دیں گے‘ ورنہ مولاجٹ کی دھاک ز یادہ عرصے تک دھاک دار نہیں رہ سکے گی۔بات سرور کی آ رہی تھی۔ حکومتی یلغار کے بعد خطرہ یہی ہے کہ اب ''بول‘‘ کو چپ لگ جائے گی۔اگر جرات اظہار کا مظاہرہ کرتے ہوئے ''بول‘‘ کو شروع کر لیا جاتا‘ تو ہو سکتا ہے زبردستی کی جو چپ ''بول‘‘ کو لگائی جارہی ہے‘ اس پر کچھ آزاد خیال لوگ شعیب شیخ کے حق میں بھی بول سکتے تھے۔ مگر اب وہ کیوں بولیں؟جب سرور ہی بند کر دیا گیا ہے‘ تو تحقیقات کرنے والی سرکاری ٹیموں کو سارے کمپیوٹروں سے صرف ایک ہی جواب ملے گا
او ڈھولنا! جا میں تیرے نال نئیں بولنا
سرکاری ماہرین کو کمپیوٹروں سے کچھ نہیں ملے گااور سرور دبئی میں تھا۔ پیسہ اس کے پاس بہت ہے۔ نائٹ کلبوں میں عیش و عشرت کرے گا۔ سرکاری ٹیموں نے جتنے کمپیوٹر اٹھائے ہیں‘ وہ تو بول کر نہیں دیں گے۔ سب سے اچھے کامران خان رہے۔ انہوں نے میڈیا سرکار کے تیور دیکھتے ہی کہہ دیااوڈھولنا!جا میں نئیں بولنا۔کامران خان چپ تو ''بول‘‘ چپ۔