"NNC" (space) message & send to 7575

کسی اور کو سمجھائیں تو سمجھا نہ سکیں

بھارتی اور پاکستانی عوام کی محبت آج بھی ایک ہے۔کرکٹ۔ دنیا میں کسی بھی ایونٹ‘ کھیل‘ کانفرنس‘حتیٰ کہ کسی بھی نوعیت کے اجتماع میں انہیں یکجا کر دیں‘ تو بے جا ہوتے دیر نہیں لگاتے۔کرکٹ واحد کھیل ہے‘ جسے ابھی تک یہ صبر اور حوصلے سے دیکھ لیتے ہیں اور اچھا شارٹ ‘ اچھی گیند اور اچھی فیلڈنگ پر دونوں جی بھر کے داد دیتے ہیں۔ان کی دوسری محبت مشاعرہ ہے۔ بے شک ایک دوسرے کے خلاف غم و غصے سے بھرے بیٹھے ہوں‘ اچھا شعر آیا تو دونوں پھڑکے۔ ان دنوں پاکستان میں زمبابوے اورپاکستان کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان مقابلے ہو رہے ہیں۔ نارمل حالات میں زمبابوے کی ٹیم پاکستان میں آئے یا پاکستان کی ٹیم زمبابوے جائے‘ نہ وہاں کسی کو میچ کی پروا ہوتی ہے اور نہ یہاں۔ لیکن اس مرتبہ زمبابوے کی ٹیم سارے پاکستانیوں کے لئے یوں آئی‘ جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ‘ جب پاکستان میں معمول کے مطابق مقابلے ہوتے تھے‘ تب بھی بھارت کے سوا ‘کسی دوسرے ملک کی ٹیم آنے پر اتنے جوش و خروش کے مظاہرے نہیں ہوتے تھے‘ لیکن اس مرتبہ تو زمبابوے کی ٹیم آنے پر ایک جشن کی کیفیت تھی۔ حکومت سے لے کر عوام تک ‘ہر مردوزن نے دیدہ و دل فرش راہ کئے۔ زمبابوے کی ٹیم کا ایسے پُرجوش انداز میں استقبال کیا گیا کہ اس ٹیم کے کھلاڑی سینئر ہونے کے بعد اپنے بچوں کو بتایا کریں گے کہ جتنی محبت اور گرم جوشی انہوں نے اپنے لئے پاکستانی عوام کے اندر دیکھی ہے‘ ایسا نہ اس سے پہلے کبھی ہوا اور نہ آئندہ کبھی ہو گا۔یہ بات وہ کبھی نہیں بتائیں گے کہ عزت ان کی نہیں ہو 
رہی تھی‘ بھارتیوں کو چڑایا جا رہا تھا۔ برصغیر کا ہندو‘ مسلمان سے ضد لگا بیٹھے تووہ نہاری کھا جاتا ہے‘ جو گائے کے گوشت سے بنتی ہے۔ مسلمان کو بتا اور دکھا کر کوے کا گوشت کھلا دیا جائے‘ تو ہندو کو دکھانے 
کے لئے یوں کھائے گا‘ جیسے بہت مزے لے رہا ہو۔ حالانکہ اس سے زیادہ کراہت کی چیز کوئی نہیں ہوتی۔ خنزیرکا نام میں نے اس لئے نہیں لکھا کہ ہندو کے لئے یہ دونوں گوشت ہی یکساں اور قابل نفرت ہیں‘ کوے کا بھی اور خنزیر کا بھی۔ میرا نہیں خیال کہ دنیا میں کسی بھی مذہب کے لوگ ایک دوسرے سے اتنی نفرت کرتے ہوں‘جتنی ہندو دوسری ذات والوں اور مسلمان دوسرے فرقوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے کا خون بھی بڑے خضوع و خشوع کے ساتھ بہاتے اور خوش ہوتے ہیں۔ دونوں مذاہب کے مورخ‘ بھائی چارہ پیدا کرنے لئے باہمی اخوت و محبت کی ان گنت کہانیاں لکھتے اور سناتے ہیں‘ لیکن ملا اور پنڈت کسی کی نہیں چلنے دیتے۔ ان دونوں کے کاروبار میںجب بھی مندا پڑتا ہے‘ یہ نفرت کا بازار گرم کر کے قتل و خون شروع کرا دیتے ہیں۔ میں آج تک اندازہ نہیں کر پایا کہ فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمان اپنے ہم مذہبوں کو زیادہ مارتے ہیں یا ہندو؟ تاریخ میں سب جھوٹ پڑھایا جاتا ہے۔ جب مسلمانوں پر فرقہ وارانہ وحشت سوارہوئی‘ توانہوں نے ایک دوسرے پر ظلم ڈھانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی اور جب ہندوئوں پر جنون طاری ہوا‘ تو انہوں نے بھی نچلی ذات کے ہندوئوں پر ظلم ڈھانے سے گریز نہیں کیا‘ لیکن ایک دوسرے کی ضد میں یہ ہر کام کر گزرتے ہیں۔ 
کرکٹ کے پاکستانی اور بھارتی شائقین‘ دونوں ملکوںکے درمیان میچوں کا اہتمام کرنے کے لئے بہت کوششیں کرتے ہیں اور جب حکومتی ہٹ دھرمیاں راستہ نہیں چھوڑتیں تو پھر تجویز آتی ہے کہ چلوکسی تیسرے ملک میں کھیل لیتے ہیں۔ کھیلنا آپس میں ہی ہوتا ہے۔ مگر ایک دوسرے کے ملکوں میں جا کر نہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ عوام آپس کے میچ دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ عوام اس کے بے حد شیدائی ہیں۔ ان دنوں تجویز زیرغور ہے کہ امارات کے ملکوں میں آپس کے میچ کرائے جائیں۔ ان دونوں کے میچوںمیں جتنے تماشائی دبئی اور شارجہ میں جمع ہوتے ہیں‘اتنے امارات کی تمام ریاستوں میں نہیں رہتے۔ وہاں جا کر میچ دیکھنے والے بھی پاکستانی اور بھارتی ہوتے ہیں۔ کئی کئی ہفتے پہلے نشستیں بک کرا لی جاتی ہیں اور دیار غیر میں جا کر ‘ کرکٹ سے مشترکہ محبت کا ایسا ثبوت پیش کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والے سوچتے ہوں گے ‘یہ کیسے لوگ ہیں؟ جو اپنے ملکوں میں رہ کر لڑتے ہیں اور ہمارے ملکوں میں آ کر کھلاڑیوں کو بلاامتیاز داد دیتے ہیں۔ خود کھلاڑی بھی ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اترتے ہیں‘ تو ایک دوسرے کی طرف خونخوار نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کو غصہ دلاتے ہیںاور جب کرکٹ کے کھلاڑی کے حوالے سے‘ برے الفاظ میں بات کی جائے تو اس کا آسان مطلب گالی ہوتا ہے‘لیکن یہی جب شام کو واپس اپنے ہوٹلوں میں جاتے ہیں تو باہمی محبت اور بے تکلفی کے مظاہرے بھی قابل دید ہوتے ہیں۔ گواسکر نے میاں داد اور ایک بھارتی بالر کے مقابلے کی کہانی سنائی کہ بولر جب بھی میاں داد کو گیند دیتا‘ وہ اسے وہیں دبا کر دوچار قدم آگے بڑھتا اور اس سے پوچھتا''تیرا روم نمبر کیا ہے؟‘‘ آٹھ دس مرتبہ جب میاں داد نے یہی پوچھا تو بولر نے کہا ''تم میرا روم نمبر کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا ''میں ادھر چھکا لگا کر تیری کھڑکی توڑے گا۔‘‘ 
میں نے پاکستان آئے ہوئے بھارتیوں سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ بے تکلفانہ گپ شپ کی ہے اور ایک دوسرے سے رخصت ہوتے ہوئے آبدیدہ بھی ہوئے ہیں اور جب کبھی میں بھارت گیا‘ تووہاں بھی یہی کچھ ہوا۔ صرف ایک تجربہ ہمیشہ ناگوار گزرا۔جب بھی کوئی برہمن میزبان کھانے کی دعوت دیتا‘ تو ہمیشہ ریسٹورنٹ میں بلاتا۔ کافی تجربے کے بعد سمجھ آئی کہ برہمن‘ مسلمان کو اپنے گھر میں کھانے پر نہیں بلاتے۔ ایک ہندو صنعتکار بھارت کے تمام بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کا دوست تھا۔ وہ کبھی کبھی ڈنر پر پنڈت نہرو اور کانگریس کے دوسرے لیڈروں کے ساتھ قائد اعظم کوبھی بلا لیتا ۔ ایک بار قائد اعظمؒ سے ان کے کسی ساتھی نے پوچھا کہ وہ آپ کو کھانا کیسے کھلا دیتے ہیں؟ قائد اعظمؒ کا جواب تھا‘ مجھے معلوم ہے کہ وہ میرے لئے ہر بار نئے برتن منگواتے ہیں اور میرے جانے کے بعد توڑ کر پھینک دیتے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کرکٹ پر اچھے بھلے کالم لکھتے لکھتے آج مجھے کیا ہو گیا؟ درحقیقت میں برصغیر کے پونے دو ارب عوام کی بدنصیبی پر شدید غمزدہ ہوں۔ بیرونی حملہ آوروں کے آنے سے پہلے ساری دنیا ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہتی تھی۔ بیرونی حکمرانوں کی لوٹ مارکے نتیجے میں ہم بری طرح تباہ و برباد ہوئے۔ آج ہم تو نہیں‘ بھارت دوبارہ سونے کی چڑیا بنتاجا رہا ہے‘ لیکن ہماری باہمی عداوت پہلے سے زیادہ بڑھتی جا رہی ہے۔ آج ''ڈیلی میل‘‘اور ''انڈی پینڈنٹ‘‘میں ایک دن ایک ہی خبر شائع ہوئی‘ جس میں داعش کے ایک لیڈر کی بات دہرائی گئی ہے کہ ''ہمارے پاس دولت کی کمی نہیں۔ ہم پاکستان کے کرپٹ آفیسرز کے ذریعے ایٹمی ہتھیار خرید لیں گے۔‘‘ بھارت کی دو ہندو تنظیمیں جو مسلمانوں سے شدید نفرت کرتی ہیں‘ ان کے بارے میں بھی یہ بات سامنے آتی رہتی ہے کہ وہ اسرائیل سے ایٹمی ہتھیار لینے کے چکر میں ہیں۔ ایک افواہ تو یہ بھی ہے کہ جب موجودہ وزیراعظم نریندر مودی اقتدار میں نہیں آئے تھے‘ تو انہوں نے بھی کوشش کی تھی کہ اسرائیل سے ایٹمی ہتھیار نجی طور پر حاصل کر لئے جائیں۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کی فرقہ وارانہ نفرتوں میں زیادہ فرق نہیں۔ ان کی محبتیں بھی ایک ہی جیسی ہیں۔ یہ صدیوں سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں اور برصغیر پر جگہ جگہ انوکھی محبتوں کی نشانیاں بھی موجود ہیں۔ اجمیرشریف جائیں‘ تو وہاں پتہ چلتا ہے کہ ہندوئوں‘ سکھوں ‘ مسلمانوں اور عیسائیوں کی مشترکہ محبت کا مرکز یہیں ہے اور ہمارے ہاں بھی سیہون شریف میں شہبازقلندر کے مزار پر بھارت سے ہزاروں کی تعداد میں غیرمسلم عرس میں شریک ہونے آتے ہیں۔ ایک ہی دل میں اتنی محبتیں اور اتنی نفرتیں ساتھ ساتھ کیسے رہ سکتی ہیں؟ مجھے اس کی کبھی سمجھ نہیں آئی۔ اس تضاد کو سمجھنے کے لئے فیض جیسے عظیم شاعر کا ذہن ہی کام دے سکتا ہے۔ ان کی نظم ''رقیب‘‘ کا ایک بند پیش کر کے رخصت چاہوں گا:
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان‘ غم الفت کے
اتنے احسان کہ گنوائوں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے‘ کیا پایا ہے؟
جز ترے اور کو سمجھائوں تو سمجھا نہ سکوں
کرکٹ کے رشتہ الفت کا ایک اور انوکھا مظاہرہ زمبابوے کی ٹیم کا بھرپور استقبال تھا۔ اس ٹیم کے لئے جس گرم جوشی کا اظہار ان دنوں ہو رہا ہے‘ وہ بھارتیوں کی ضد میں ہے۔ ہم اسی طرح کے ہیں۔ کسی اور کوسمجھائیں تو سمجھا نہ سکیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں