کل میں نے ڈسکہ میں پولیس گردی کے سوال پر اظہار خیال کیا تھا۔ اس بحث کا رخ وکلا کے خلاف بدلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ جب ایک ہشت رخی کشمکش یامقابلہ آرائی کی صورتحال ہو تو کسی ایک فریق کو ذمہ دار قرار دے کر ‘ دوسرے فریقوں کے منفی کردار پر زیادہ زو ر دینا مناسب نہیں ہوتا۔ پاکستان میں مجموعی لاقانونیت اب ایک دیرینہ چیز ہو چکی ہے۔ اگربرسرپیکار فریقین کے اعمال کا جائزہ لیا جائے‘ تو کوئی ایک فریق بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔ معاشرے کو اس ہمہ جہتی تصادم میں لانے والوں میں کم و بیش ہم سب کا کچھ نہ کچھ حصہ ہے‘ لیکن اس طرزعمل کے بانیوں میں وہی پولیس اور بیوروکریسی شامل ہے‘ جوجدوجہد آزادی سے لے کر آج تک معاشرے کے ہر شعبے میں تصادم اور محاذ آرائی کا مرض پھیلاتی آ رہی ہے۔ برصغیر کی سیاسی تحریکوں پر گاندھی جی کے طرزسیاست کے اثرات بہت گہرے تھے۔ قائداعظمؒ ایک بالادست سماجی طاقت یعنی ہندو سیاستدانوں سے مسلمانوں کو حقوق دلانے کا عزم لے کر سیاست میں آئے تھے‘ لیکن جس قائداعظمؒ نے مسلمانوں کی تحریکِ آزادی میں شدت پیدا کی‘ اُن کی تمام تر جدوجہد قانون پسندی اور معقولیت پر مبنی تھی۔ انہوںنے صرف ایک بار ہندومسلم تضاد کی شدت کو ظاہر کرتے ہوئے‘ ہٹ دھرمی پر تلی ہوئی ہندو اکثریت کو پاکستان سے انکار کے نتائج سے خوفزدہ کرنے کے لئے ہندو قیادت کو دو امکانی نتائج کی دھمکیاں دی تھیں۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ اگر مسلمانوں کو بطور قوم تسلیم کر کے‘ ان کے جمہوری حقوق دینے سے مسلسل انکار کیا جاتا رہا‘ تو پھر ایسی خونریزی ہو گی ‘جس کا متحدہ ہندوستان متحمل نہیں ہو سکے گا۔ جو دوسری بات عام بحث و مباحثے کی وجہ بنی‘ وہ قائدؒ کا یہ فرمان تھا کہ مسلمان بے شک اقلیت میں ہیں‘ لیکن انڈیا کی فوج کو دیکھا جائے‘ تو اس میں فوجی تربیت کی اعلیٰ مہارت اور بہادری میں وہ ہندو فوجیوں کا سخت مقابلہ کر سکتے ہیں۔ یہ بات ایم جے اکبر کی کتاب ''نہرو‘‘ میں لکھی گئی ہے۔ تقسیم کا مطالبہ تسلیم ہو جانے کے بعد‘ مذہبی بنیاد پر فوجیوں کی لڑائی کا یہی اندیشہ تھا‘ جسے دیکھتے ہوئے کانگرسی قیادت نے پُرامن انتقال اقتدار کا راستہ منتخب کیا۔ قیام پاکستان کے بعد‘ ہماری سیاسی قیادت نے ناکام جنگیں برصغیر کے عوام پر مسلط کیں۔ انہوں نے پاک فوج کو کمزور اخلاقی طاقت کی پوزیشن میں لا کر اُس کی اعلیٰ مہارت اور پیشہ ورانہ برتری کو‘ دفاعی پوزیشن میں ڈال دیا تھا۔ آج بھی دہشت گردی کا ناسور پاکستان میں پیدا کر کے‘ فوج کو خطرناک امتحان میں رکھا جا رہا ہے‘ اعلیٰ سے اعلیٰ فوجی سازوسامان اور پیشہ ورانہ مہارت کے باوجود ‘فوج کے لئے جو دشواریاں پیدا کی گئیں ‘انہیں دیکھ کر پاکستانیوں کو بہت تکلیف پہنچتی ہے۔
بھارتی سیاسی قیادت کی سمجھداری کی دوسری مثال یہ ہے کہ اس نے فوج کو مقبوضہ کشمیر کے علاوہ کہیں بھی براہ راست باغیوں اور دہشت گردوں کے سامنے کھڑا نہیں کیا۔ وہاں درجنوں ریاستوں میں مسلح گوریلا جنگیں لڑی جا رہی ہیں‘ لیکن زیادہ محاذوں پر پولیس سے کام لیا جا رہا ہے اور پولیس فورس کا یہ حصہ مسلمانوں سے تعلق رکھتا ہے۔ وہاں گوریلوں کے خلاف جنگ میں پولیس کی جو ہلاکتیں ہوتی ہیں‘ ان میں مسلمان سپاہیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ بھارت کی سیاسی حکمت عملی‘ ہماری سیاسی حکومتوں کے مقابلے میں کافی اچھی رہی ہے۔ بھارت کی سیاسی حکومتوں نے‘ مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضے اور مقامی مسلمانوں پر ظلم و جبر کی انتہا کرنے کے باوجود عوام کے اندر فوج کے ظالمانہ کردار کے خلاف شدید نفرت پیدا نہیں ہونے دی۔ تمام سیاسی جماعتوں کو یکطرفہ انتخابی ڈراموں میں حصہ لینے کی آزادی فراہم کی گئی۔ یہ اور بات ہے کہ یہ انتخابی ڈرامے دکھاوے کے لئے ہوتے تھے‘ لیکن بھارتی رائے عامہ کو یہ تاثر دے کر کہ کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم کے ذمہ دار حریت پسند مسلمان ہیں‘ انہیں بلا امتیاز کچلا گیا۔ اب ہم پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ قربانیوں ‘ بہادری اور جاں نثاری کے معاملے میں ‘ پاک فوج نے بھارتیوں سے زیادہ جنگی مہارت اور انسانی اقدار کا احترام کیا۔ اس کے باوجود ہمارے فوجیوں کو جہاں بھی اندرونی محاذ پر استعمال کیا گیا‘ وہ عموماً جمہوری آزادیوں کے طلبگاروں کے خلاف تھا۔سیاستدانوں کی نااہلی اور کرپشن نے پاکستان میں مظلوم عوام کو کچلنے میں ظالمانہ اقدامات کر کے‘ پاک فوج کو عوام کے دلوں میں گھر کرنے سے روکے رکھا۔ مشرقی پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ سندھ‘ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ‘پاک فوج کو جن مہمات میں دھکیلا گیا‘ ان میں سے بیشتر کا نشانہ اپنے ہی عوام رہے‘ جو درحقیقت شہری آزادیوں‘ انسانی حقوق اور روزگار کے تحفظ کے لئے لڑ رہے تھے اور ریاستی وسائل میں اپنا جائز حصہ مانگ رہے تھے۔ جب سندھ میں مہاجروں کو مقامی شہریوں پر برتری حاصل تھی اور سندھیوں نے اپنی ہی سرزمین پر جائز حقوق کا مطالبہ کیا‘ تو وہاں ایم کیو ایم کے نام سے ایک تنظیم کی باقاعدہ حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ سندھیوں کی اس تحریک کی حمایت سے گریز کرے‘ جو اپنے حصے کی ملازمتوں اور مراعات کے لئے مزاحمت کرتے تھے۔ بدقسمتی یہ تھی کہ پرانے سندھیوں کی قیادت‘ جاگیرداروں کے پاس تھی‘ اس لئے اپنے حقوق کی خاطر لڑتے ہوئے قربانیاں دینے والوں پر دہشت گردی کے ٹھپے لگا کر ‘ مقامی سندھیوں میں اتحاد پیدا ہونے سے روکا گیا۔ آج بھی یہی صورتحال ہے۔ جب بھی پسماندہ سندھی اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں‘ تو مہاجروں کو مجبوراً ایم کیو ایم کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ میں بڑے دکھ سے لکھ رہا ہوں کہ سندھ میں رہنے والے تمام لسانی اور طبقاتی گروہ ‘فوج کے خلاف ہیں۔ اس سے بڑی بدنصیبی کیا ہو گی کہ وطن میں امن و امان کی خاطر جانیں قربانیں کرنے والے فوجیوں کو مقامی سندھی آبادی ‘ ایم کیو ایم اور پختون‘ سب شک و شبہے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں امن اور آزادی کے خواہاں نوجوانوں کو‘ دہشت گردوں اور بھارتی ایجنٹوں نے اپنی ہی فوج کے خلاف میدان میں اتار رکھا ہے۔
ہماری سیاسی حکومتوںکی کرپشن اور غلط کاریوں کے نتیجے میں پاکستان کے انتہائی پُرامن عوام اور ریاستی اداروں کو باہمی عدم اعتمادی کی فضا میں دھکیل دیا گیا ہے۔ فوج کا ادارہ ‘ سول اداروں کے مقابلے میں زیادہ وطن پرست‘ فرض شناس اور ایثار پیشہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے عوام کو اپنے ہی خلاف لڑنے مرنے پر تلے ہوئے دیکھتے ہیں‘تو انہیں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ بیرونی دشمنوں کے علاوہ‘ انہیں اندرونی طور پر امن و امان بحال رکھنے کی خاطر قانون شکنوں اور مقامی باغیوں سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے‘ تو ان کے اندرونی دکھ کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ سیاست یہ ہوتی ہے کہ عوام کو ریاستی امور چلانے میں براہ راست شریک کر کے‘ حکومت اور فوج کے درمیان یگانگت اور برادرانہ رشتے مضبوط کیے جائیں۔ فوج‘ عوام کے تحفظ کے لئے ہر وقت مستعد رہے اور عوام آزمائش کے ہر موقع پر فوج کے ساتھ کھڑے ہوں‘ عوام اور فوج کا اصل رشتہ یہی ہوتا ہے‘ جسے کرپٹ اور نااہل سیاسی حکومتوں نے کبھی قربت میں نہیں بدلنے دیا۔ کتنا دردناک تھا وہ منظر؟ جب پاکستان کے دارالحکومت میں جمہوری آزادیوں کی خاطر‘ عوام قربانیاں دے رہے تھے۔ فوج حساس مقامات کا تحفظ کر رہی تھی اور پارلیمنٹ کے اندرلگی لپٹی رکھے بغیر عوامی نمائندوں نے کھل کر اپنی فوجی قیادت کو بالواسطہ نشانہ بنایا ہوا تھا۔اس وقت بھی دونوں بڑی سیاسی قوتیں ‘ فوج پر کھلا اعتماد کرنے سے گریزاں ہیں۔ ایک پارٹی آج بھی فوج کو بھٹو صاحب کی پھانسی کا ذمہ دار سمجھتی ہے۔ ایسا ہی الزام بے نظیربھٹو کی شہادت کے حوالے سے لگایا جاتا ہے اور دوسری بڑی پارٹی کو شک ہے کہ اس کی قیادت کو حکومت سے نکالنے اور جلاوطن کرنے کا جرم‘ سازشی جنرلوں کے ٹولے نے کیا۔ مزید بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے تعلقات چین کے سوا اپنے کسی بھی پڑوسی ملک سے اچھے نہیں۔ یہ سوچ کر دل گہرے دکھوں میں ڈوب جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد کتنے مسلمانوں کو ہم نے اپنے وطن اور افغانستان میں موت سے ہمکنار کیا؟ اور بھارتیوں نے اپنے ملک میں رہنے والے 20کروڑ مسلمانوں میں سے کتنے اہل اسلام کو اب تک شہید کیا؟ اگر بھارت میں ہندوئوں کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد ‘ ہمارے ہاتھوں مرنے والے مسلمانوں سے زیادہ ہے‘ تو پھر یقینا بھارت کے حکمران اسلام دشمن ہیں۔ سوچئے تو سہی!