جو معاشرے کبوتروں اور عورتوں سے ڈرتے ہیں‘ وہ ایٹمی اسلحہ کا کیا کریں گے؟ گزشتہ دو تین روز سے نارووال کے ایک کبوتر نے بھارت کے سارے دفاعی نظام کو حیران اور پریشان کر رکھا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میںجب بھی صوبائی یا قومی اسمبلیوں کے انتخابات ہوتے ہیں‘ تو ہمارے صوبے خیبرپختونخوا میں ملائوں کو ڈر لگنے لگتا ہے۔ ان کے ذہن میں خواتین سے ڈرنے کی وجوہ کیا ہیں؟ میں اس پر جتنا بھی سوچتا ہوں‘ اتنا ہی الجھتا جاتا ہوں۔ مرد اور خواتین دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں۔ ان کی تخلیق ہی اس طرح کی گئی ہے کہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ خواتین کے بغیر مردوں کا وجود نہیں اور مردوں کے بغیر خواتین نامکمل ہیں۔ ہمارے ملا حضرات ‘ خواتین کو حقوق سے محروم کرنے کے لئے مذہب کا نام استعمال کرتے ہیں‘ مگر جب ان سے پوچھا جائے کہ وہ انہیں ووٹ کے حق سے کیوں محروم کرتے ہیں‘ تو ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ جتنے اعلیٰ تعلیم یافتہ علمائے کرام ہیں‘ وہ خواتین کے حق رائے دہی کو غیراسلامی نہیں سمجھتے۔ علم دین پر عبور رکھنے والی عالم و فاضل خواتین کی کمی نہیں۔ ان میں بہت سی ایسی ہیں‘ جو منتخب اداروں میں حق نمائندگی سے بھی مستفید ہو رہی ہیں۔ سمیحہ راحیل قاضی اس کی مثال ہیں۔ وہ متعدد بار منتخب اداروں کی رکن بنیں۔ جمہوری عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ علمی سرگرمیوں میں پیش پیش رہتی ہیں۔ جتنے کٹھ ملا‘ کے پی کے کے پسماندہ علاقوں میں خواتین کو جبراً حق رائے دہی سے محروم کرتے ہیں‘ ان کے پاس کوئی معقول دلیل موجود نہیں۔ صرف ان کی جہالت ‘ ان کی دلیل ہے۔ خواتین کی تعلیم کے خلاف بدترین مہم نام نہاد طالبان نے شروع کر رکھی ہے اور جہاں بھی ان کا دائو چلتا ہے‘ وہ گرلز سکولوںکو نہ صرف تباہ و برباد کرتے ہیں بلکہ جو طالبات علم حاصل کرنے پر مصر ہوں‘ انہیں گولیوں سے بھی اڑا دیتے ہیں۔
ملالہ یوسف زئی کا واقعہ دور حاضر میں اپنی نوعیت کا ایک انوکھا واقعہ ہے۔ اس معصوم بچی نے محض یہ گناہ کیا کہ لڑکیوں کے لئے تعلیم کی پابندی کے خلاف آواز اٹھائی۔ جب کٹھ ملائوں نے سوات پر قبضہ کر کے‘ نام نہام دین مسلط کیا اور خواتین کے حقوق سلب کرنے میں ظلم و بربریت کی آخری انتہا کو پہنچ گئے‘ تو معصوم ملالہ نے بی بی سی پر قلمی نام سے اس ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔ اس پروحشی درندوں نے سراغ لگانا شروع کیا کہ یہ کونسی بہادر لڑکی ہے‘ جو ان کے جاہلانہ عقائد کے خلاف مہم چلا رہی ہے؟ ان بزدلوں نے آخر کار اسے گولی کا نشانہ بنایا‘ لیکن پاکستان اور ساری دنیا میں اس کا ردعمل سامنے آیا‘ تو نام نہاد طالبان ابھی تک اپنے اس وحشیانہ فعل کا دفاع کرنے میں لگے ہیں۔ ہٹ دھرمی کی انتہا یہ ہے کہ ابھی تک وہ اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں۔ اس پر پاکستانی فوج نے جس جذبۂ اسلامی کے ساتھ ملالہ کو موت کے منہ سے نکالنے کے لئے جدوجہد کی‘ وہ پاکستانی معاشرے کا ایک روشن پہلو ہے۔ آج وہ معصوم بچی نوبل انعام یافتہ ہے اور دنیا بھر میں تعلیم نسواں کو فروغ دینے کے لئے دن رات مصروف ہے۔ کٹھ ملائوں نے تو اپنے کرتوتوں سے پاکستان کے چہرے پر کالک ملی‘ لیکن جواب میں معصوم ملالہ نے اپنے ملک اور قوم کا نام ساری دنیا میں روشن کیا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ وہ ہٹ دھرم کٹھ ملا آج بھی پاکستان میں خواتین کے حقوق کو سلب کرنے کے مشن پر لگے ہیں۔ آج بھی جہاں ان کا دائو چلتاہے‘ وہ مدرسوں کو تباہ کرتے ہیں۔ خواتین کو خوفزدہ کرتے ہیں اور جب بھی انتخابات ہوتے ہیں‘ وہ اپنے زیراثر علاقوں میں انہیں بزور قوت ووٹ کے حق سے محروم کر دیتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے مذہبی سیاست دان‘ حقوق نسواں کے حامی ہونے کے باوجود‘ کٹھ ملائوں کے دبائو میں آ کر‘ خواتین کو حق رائے دہی سے جبراً روکتے ہیں۔
آج خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات تھے۔ پہلے تو یوں ہوتا تھا کہ سارے امیدوار مل کر فیصلہ کر لیتے تھے کہ وہ اپنے اپنے حلقے کی خواتین کو ووٹ ڈالنے سے منع کریں گے۔ اس فیصلے پر عمل بھی ہوتا تھا۔ یہ آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی۔ کوئی بھی جمہوری یا آئینی حکومت‘ اس بنیادی حق کو جبراً چھیننے کے مجرمانہ فیصلے پر قانونی کارروائی کرتی۔ دہشت گردی کے خلاف آج جس جنگ کا ہمیں سامنا ہے‘ وہ کوئی فوج تن تنہا نہیں لڑ سکتی۔ جمہوریت سے فیض یاب ہونے والے ہمارے وہ نمائندے‘ جواقتدار کے مزے لوٹتے ہیں‘ انہوں نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج ایک مرتبہ پھر خیبرپختونخوا میں عورتوں کو حق رائے دہی سے جبراً محروم کیا گیا ہے۔ اس پر اراکین پارلیمنٹ خاموش کیوں ہیں؟ یہ انتخابات فوری طور پر ملتوی کر کے‘ دہشت گردی کے خلاف اصل جنگ کا محاذ کیوں نہیں کھولا جاتا؟ جب ملک کی آدھی آبادی حق رائے دہی سے محروم ہے‘ تو ہم کس منہ سے جمہوریت کا دعویٰ کرتے ہیں؟ ہم یہ تسلیم کیوں نہیں کر لیتے کہ پاکستان میں جمہوریت موجود نہیں۔ یہاں پر مردانہ آمریت کا نظام مسلط ہے اور جب تک خواتین کو آئین کے مطابق ان کے حقوق نہیں دے دیئے جاتے‘ ہم جمہوریت کے دعوے سے دستبردار رہیں گے اور جب تک اس آمریت کا خاتمہ نہیں کر دیا جاتا‘ دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔ اگر ہم خواتین کے جمہوری اور آئینی حق کے لئے دنیا سے مدد مانگیں گے‘ تو میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ نہ صرف انسانی حقوق کی تمام تنظیمیں ہمارا ساتھ دیں گی بلکہ تمام جمہوری حکومتیں بھی ہماری مدد کو آئیں گی اور مسلم ممالک کے عوام کی پوری طاقت بھی ہمارے ساتھ ہو گی۔ پاکستان میں جب تک مساوی انسانی حقوق بحال نہیں ہو جاتے‘ ہمیں جمہوریت کی دعویداری کا کوئی حق حاصل نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم دنیا کو دکھانے کے لئے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا جو دعویٰ کر رہے ہیں‘ وہ پوری سچائی نہیں۔ اس جنگ کا فیصلہ کن معرکہ وہ ہو گا‘ جب معاشرے میں کٹھ ملائوں کی بالادستی ختم کر دی جائے گی۔ تشدد کے تمام رجحانات اسی کٹھ ملائیت سے پیدا ہوتے ہیں ۔ دہشت گردی کا جواز یہی کٹھ ملائیت پیدا کرتی ہے۔ جہالت کے اس عذاب کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں دنیا بھر کے عالمان اسلام سے بھی مدد کی درخواست کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنی اپنی سطح پر اس جہاد میں ہماری مدد کریں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم عملی طور پر تو ایٹمی طاقت بن چکے ہیں‘ لیکن ایٹمی عہد میں داخل ہونے سے گریزاں ہیں۔ بھارت کا حال بھی ہم سے مختلف نہیں۔ ہم خواتین سے ڈرتے ہیں کہ وہ کہیں اپنے جمہوری حقوق حاصل کر کے‘ سماج میں اپنا کردار ادا کرنا شروع نہ کر دیں اور بھارتیوں کے اندر کا خوف ہم سے بھی زیادہ ہے۔ اس خوف کا اظہار بھارتی سماج میں بھی مختلف طریقوں سے ہوتا رہتا ہے۔ خصوصاً خواتین پر جو ظلم وہاں ڈھائے جاتے ہیں‘ وہ ہمارے کٹھ ملائوں کے مظالم سے بھی زیادہ ہیں۔ مگر کم اور زیادہ سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ظلم آخر ظلم ہے۔ وہ بھارتی پنچایتوں کے ذریعے ہوتا ہو یا کٹھ ملائوں کے احکامات کے مطابق۔ ظالم معاشرے بنیادی طور پر بزدل ہوتے ہیں اور بزدل سب سے پہلے کمزور کے حقوق سلب کرتا ہے۔ بے شک برصغیر کے تینوں ملکوں میں بظاہر جمہوریتیں قائم ہیں لیکن کسی ملک میں بھی آدھی آبادی کو آئین کے مطابق مساوی حقوق حاصل نہیں۔ پاکستان میں تو ہم نے خواتین کو نام نہاد آزادی دے کر یہ دعویٰ کر رکھا ہے کہ انہیں مردوں کے برابر انتخابات میں حصہ لینے کا حق ہے‘ لیکن عملاً ان کا یہ حق معاشرتی رسوم و رواج کے ذریعے سلب کر لیا گیا ہے۔ بھارت کی حالت بھی ہم سے مختلف نہیں۔ وہاں کی اسمبلیوں میں خواتین کے لئے 30 فیصد نشستیں مخصوص کرنے کی تجویز مسلسل التوا کا شکار ہو رہی ہے۔ کوئی اس کی مخالفت نہیں کرتا اور کوئی اس کے حق میں آواز بھی نہیں اٹھاتا۔مگر بھارتیوں کی تو بات ہی الگ ہے۔ ہم بے شک عورتوں سے ڈرتے ہیں‘ لیکن ہیں تو وہ انسان ہی‘ بھارتی حکومت تو گزشتہ کئی روز سے ایک کبوتر سے ڈری بیٹھی ہے۔ ساری حکومتی مشینری اس جستجو میں لگی ہے کہ پاکستان سے آنے والا یہ کبوتر کہیں ایٹمی کبوتر تو نہیں؟