"NNC" (space) message & send to 7575

کاش! جمہوریت پیرا شوٹ سے اتر سکتی

صدیوں کے سیاسی ارتقاء کے بعد مختلف قوموں نے اپنی اپنی رفتار ترقی کے مطابق طرزحکمرانی میںاصلاح کرتے ہوئے ایک معتدل معاشرہ تشکیل دیا‘ جس نے حصول اقتدار کے مہذب اور پرامن طریقے دریافت کرنے میں کامیابی حاصل کی۔قائد اعظمؒ کی قیادت میں پاکستان نے اپنے جس سیاسی نظام کی بنیاد رکھی اگر ہم اس پر کاربند رہتے‘ تو آج اپنے گردونواح کے ممالک سے بہتر نہیں‘ تو کم از کم ان کے مساوی سیاسی روایات قائم کر چکے ہوتے۔ بھارت کسی اعتبار سے تہذیبی اور معاشرتی ارتقا میں ہم سے آگے نہیں تھا۔ہم ایک جیسے حالات‘ سماجی نظام اور تاریخی عمل سے گزرے ہیں۔دونوں ملکوں نے ایک ساتھ معاشرے کی تعمیر اور ارتقا کی راہیں تلاش کیں اور سچ پوچھئے توایک اچھے معاشرے کی تشکیل میں ہم ایک دوسرے سے مختلف نہیں رہے۔ سماجی ریت روایت کے مطابق جتنے تعصبات وہاں موجود تھے‘ انہی سے ملتے جلتے تعصبات ہمیں بھی ورثے میں ملے تھے۔ مختلف ناموں اور عنوانات کے تحت ہم نے ایک جیسے حالات اور سماجی خرابیوں کے ساتھ آزادی کا سفر شروع کیا‘ مگر آج ہمارے اور ان کے درمیان لمبے فاصلے پیدا ہو چکے ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہاںکی معاشرت اور معیشت میں زیادہ بہتر تبدیلیاں آ گئی ہیں‘ روایات کے جن بندھنوں میں ہم جکڑے ہوئے تھے‘ کم و بیش وہ بھی انہی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ انہوں نے انتخابی عمل کو مسلسل پریکٹس کے ساتھ قدرے بہتر بنا دیا ہے‘ جبکہ ہمارے ہاں ابھی تک جمہوریت کی بنیاد یعنی انتخابی نظام میں خاطرخواہ تبدیلیاں نہیں لائی جا سکیں۔ وہ ایک معاملے میں یقینا ہم سے مختلف تھے کہ تاریخی پس منظر کی وجہ سے ان میں تجارت پیشہ افراد اور گروہوں کا اثرورسوخ زیادہ تھا‘ جبکہ ہمارا معاشرہ قبائلی رسوم و رواج کے بندھنوں میں جکڑا ہوا تھا۔
جہاں تک سماجی خرابیوں کا تعلق ہے‘ ان کے سماج میں تجارتی اور کاروباری طبقے کو غلبہ حاصل تھا‘ جبکہ جن خطوں میں پاکستان قائم ہوا‘ ان میں موجودہ پاکستان کے عوام علمی اور کاروباری شعبوں میں خاص حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس کے برعکس ہماری اشرافیہ ‘ کاروباری لوگوں کو خود سے کم تر سمجھتی تھی۔ عام آدمی میںبے شک کسان یا مزدور بھی ہوتا ''پیشہ آباسپاہ گری‘‘ پر فخر کرتا۔ اس پر ظلم یہ ہوا کہ دونوں ملکوں میں تبادلہ آبادی کا تباہ کن عمل وسیع پیمانے پر ہوا اور اس میں اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں میں کاروباری مہارت رکھنے والوں کی جو تھوڑی بہت تعداد موجود بھی تھی‘ اسے نقل مکانی کرنا پڑی‘ جبکہ ہندوستان سے نقل مکانی کر کے پاکستان آنے والوں کی بھاری اکثریت نوکری پیشہ اور جاگیردارانہ طرززندگی کی عادی تھی۔ پاکستان میں یہ ریسرچ بہت کم کی گئی کہ تبادلہ آبادی کے اس بھیانک عمل میں کس کے ساتھ کیا آیا؟ یہاں سے جو تجارتی اور کاروباری طبقہ بھارت گیا‘ وہ تعلیم‘ کاروبار اور قانون پسندی میںبہتر شعور اور عملی تجربات رکھتا تھا اور اسی پس منظر کو دیکھتے ہوئے بھارتی حکمرانوں نے شرنارتھیوں کی آبادکاری کے لئے حقیقت پسندانہ پالیسی اختیار کی۔ وہاں مسلمانوں کے چھوڑے ہوئے اثاثے ‘ پاکستان میں چھوڑے ہوئے غیرمسلموں کے اثاثوں سے بہت کم تھے۔ موجودہ پاکستان میں کوئی قابل ذکر صنعت موجود نہیں تھی اور جتنے کارخانے موجود بھی تھے‘ ان کی بنیاد پر صنعتی ارتقا کا آغاز کرنا ممکن نہیں تھا اور جو کارخانے وہ یہاں چھوڑ کر گئے‘ وہ یا آٹے کی ملیں تھیں یا ٹیکسٹائل کے چند کارخانے یا بڑے بڑے تجارتی مراکز ‘ جو صنعتی ترقی کے عمل میں کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں تھے۔ اس کے برعکس پنڈت نہرو کی قیادت میں بھارتی حکومت نے متروکہ املاک کا استعمال ‘لوٹ کے مال کی طرح نہیں کیا۔ وہاں جس نے جو کچھ بھی مانگا‘ اسے اسی طرز کی حیثیت دی گئی‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر کسی نے اپنی اہلیت اور تجربے کے مطابق متروکہ املاک کا کنٹرول حاصل کیا اور یہ سوچ کر محنت کی کہ اسے ایک دن ان اثاثوں کی قیمت ادا کرنا ہو گی۔ سب سے پہلے تو متروکہ جائیدادوں کے حصول میں انہی لوگوں نے دلچسپی لی‘ جن کو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد تھا اور جو دستیاب متروکہ املاک حاصل کر کے قرضہ اتارنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے‘ انہوں نے جائیدادوں کو لوٹ کا مال سمجھ کر استعمال نہیں کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی معاشرہ مفت خوری اور لوٹ مار کے کلچر سے محفوظ رہا۔ یہ ایک بہت بڑا فرق تھا۔
پاکستان میں ایک نوزائیدہ مملکت کی معاشی اور سماجی بنیاد ہی لوٹ مار کے تصور پر رکھی گئی۔ جس کسی نے کلیم داخل کرایا‘ اپنے اپنے اثرورسوخ کے مطابق جائیدادیں حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ ہماری بدنصیبیوں میں سب سے تباہ کن وہ کمی ہمارے حصے میں آئی‘ جو مسلمان قوم کو ورثے میں ملی تھی۔تعلیم کے بارے میں ہمارا رویہ تھا کہ بچے کو پڑھانے کی ضرورت کیا ہے؟ اسے کونسی نوکری کرنا ہے؟ اسی طرح دکانداری یا کاروبار کو بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ جو تھوڑے بہت سرکاری ملازمین ہمارے حصے میں آئے‘ ان میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ مقامی اور مہاجر‘ دونوں میں بڑے عہدیداروں کی تعداد برائے نام تھی۔ اگر کوئی باہمت محقق یہ تحقیق کرے کہ پاکستان کے پاس سیکرٹری یا اس سے دوتین درجے نیچے کام کرنے والے بیوروکریٹس کی تعداد کتنی تھی؟ تو اس کی تفصیل دیکھ کر ہی اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستان کی بیوروکریسی میں کلیدی اسامیوں پر کام کرنے کا تجربہ رکھنے والی افرادی قوت کتنی تھی؟ ایڈمنسٹریشن چلانے کا تجربہ اپنے آپ نہیں آ جاتا۔ اس کے لئے محکمانہ تربیت اور پھر نچلی سطح سے کام کرتے ہوئے‘ درجہ بدرجہ ترقی پانے والوں کی بڑی تعداد موجود ہونا چاہیے۔ اگر کسی خدا کے بندے نے کسی بھی مرحلے پریہ سوچ لیا ہوتا تو صرف چار پانچ سال کے عرصے میں اعلیٰ معیار کی بیوروکریسی تیار کی جا سکتی تھی‘ لیکن متروکہ اثاثوں کی لوٹ مارنے معاشرے میں عجیب طرح کی کھلبلی پیدا کر دی۔ آزادی سے پہلے کے کلرک‘ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے گئے۔ معیاری کاروباری تجربہ رکھنے والے نہ ہونے کے برابر تھے۔ میں لاہور کی مثال دے سکتا ہوں ‘ جہاں انارکلی یا مال روڈ کی دکانیں ناتجربہ کار لوگوں کو الاٹ کی گئیں۔ بعض دکانیں اور مکانات اپنے اپنے پسندیدہ لوگوں کو الاٹ کئے گئے۔ اس دور کے دلچسپ لطیفے کچھ لوگوں کو ابھی تک یاد ہوں گے۔ مثلاً اگر کسی بڑے خاندان میں تھوڑا بہت پڑھا لکھا شخص موجود تھا‘ تواس نے بڑی جائیداد کا کلیم داخل کر کے‘ ماڈل ٹائون کی کوٹھی الاٹ کرائی اور کئی ہفتوں تک اہل خانہ میں سے کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ چھت کا پنکھا چل رہا ہے‘ تو بند کیسے کیا جائے؟ اور بند پڑا ہے ‘ تو چلایا کیسے جائے؟ یہ من گھڑت کہانیاں نہیں‘ حقیقت پر مبنی واقعات ہیں۔ جس مسلمان کو کھوکھا چلانے کا تجربہ تھا‘ وہ انارکلی کی دکان لے کر بیٹھ گیا اور اس کی دوسری نسل معززکاروباری طبقے میں شامل ہو گئی۔ میں نے چند مثالیں دے کر یہ حقیقت واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے معرض وجود میں کیسے آئے؟ حکومتی انتظامیہ جونیئر اور ناتجربہ کار لوگوں کی قیادت میں منظم ہوئی۔ کاروبار اورمعیشت پر ایسے لوگوں کا قبضہ ہو گیا‘ جنہیں اعلیٰ سول سروس اکیڈمی میں ابتدائی تربیت بھی نصیب نہیں ہوئی تھی اور سیاست میں ایسے لوگوں کا غلبہ ہوا‘ جن کے کل سیاسی اثاثے میونسپل کمیٹیوں کی رکنیت تھی اور یہ رکنیت بھی انہیں تعلیم اور اہلیت کی بنا پر نہیں‘ افسر شاہی کی نظرکرم سے ملا کرتی اور الیکشن کے بجائے‘ نامزدگیاں ہوتی تھیں۔ جس انتخابی نظام میں اعلیٰ سطح کے عہدوں پر مامور ہونے والے‘ بیوروکریسی کی نگاہ کرم سے پوزیشن حاصل کرتے تھے‘ وہ کیسا سیاسی نظام تشکیل دیتے؟ ہمارے موجودہ حکومتی‘ سیاسی اور صنعتی و تجارتی نظام کو چلانے والے اسی پس منظر سے آئے ہیں‘ جو میں نے جزوی طور پر بیان کیا۔ ایک جمے جمائے معاشرے اور اکھاڑ پچھاڑ کے نتیجے میں وجود پذیر ہونے والے معاشرے میں کیا فرق ہوتا ہے؟ اس کا اندازہ پاکستان اور بھارت کے معاشروں سے کیا جا سکتا ہے۔ بھارت نے بھی آزادی کے بعد کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دیا۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں کے قدیم معاشرے نے بتدریج تبدیلی کے ذریعے فطری انداز میں ترقی کی‘ جبکہ ہمارے ملک میں نئے معاشرے کی بنیاد ان لوگوں نے رکھی‘ جو یا تو جاگیردار تھے‘ یا قبائلی سردار۔ چند ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ افسروں کو چھوڑ کر‘ نچلے درجے کی نوکرشاہی کا کبھی تجزیہ کر کے دیکھئے‘ آسانی سے اندازہ ہو جائے گا کہ تاریخی تسلسل میں پروان چڑھے ہوئے حکمران طبقوں اور حادثاتی عمل کے نتیجے میں حکمرانی کا مال غنیمت اچانک ہتھیانے والوں میں کیا فرق ہوتا ہے۔اس کی سب سے بڑی مثال خیبرپختونخوا کے حالیہ انتخابات ہیں۔ وہاں کا جماجمایا قبائلی معاشرہ تتربتر ہو گیا اور حادثاتی طور پر وجود میں آنے والے حکمران طبقے کیسے گل کھلاتے ہیں؟سچ پوچھئے‘ تو پاکستان کا ہر علاقہ اپنے اپنے حالات کے مطابق کیسا جمہوری نظام قائم کرے گا؟ اگر اسے نظام کہا جا سکے تو۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں