سابق صدر آصف زرداری‘ جنرل کیانی کے ساتھ خوش کیوں رہے؟ وہ ان سے اتنے خوش تھے کہ اپنی مرضی سے انہیں مزید تین سال کی توسیع دے دی اور جنرل راحیل شریف سے ناخوش کیوں ہیں کہ ایک ڈیڑھ سال میں ہی ان کی فو ج پر برس پڑے؟ واقفان حال اس فرق کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ جنرل کیانی کی شہرت ان کے دو بھائیوں کی نسبت سے ہے‘ جن کے بارے میں کچھ دنوں سے اخباری رپورٹوں میں تذکرے ہو رہے ہیں اور جنرل راحیل شریف کی فوج کے زیرعتاب آنے کا سبب وہ خبریں ہیں‘ جو پورے سندھ میں کوچہ بہ کوچہ کہانیوں کی طرح چل رہی ہیں۔ ایک دن تو یہ ہونا تھا۔ جنرل کیانی کے دور ملازمت میں وہ کیا سہولت تھی‘ جو سابق صدرمحترم کو حاصل تھی؟ اور وہ کونسی تکلیف ہے‘ جو جنرل راحیل شریف کے گزشتہ ایک سالہ دور میں ناقابل برداشت ہو گئی ہے؟ ان سوالوں کا جواب ‘ پاکستان کا عام آدمی بھی جانتا ہے۔ ظاہر ہے میڈیا تو بہت کچھ جانتا ہے۔ غالباً میڈیا کی ''بے خبری اور گلی گلی باخبری‘‘ کا یہ دور‘ جمہوری حکومت میں پہلی مرتبہ آیا ہے۔ فوجی حکمرانوں کے زمانے میں تو یہی کچھ ہوتا تھا۔ جو خبریں گلیوں میں ہوتی تھیں‘ وہ میڈیا میں نہیں آتی تھیں اور جو میڈیا میں آتی تھیں‘ وہ خبریں نہیں ہوتی تھیں۔ لیکن جمہوریت میں یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ گلی گلی کی خبر‘ میڈیا میں نہیں تھی اور میڈیا کی خبروں پر گلی والے کان نہیں دھرتے تھے۔ اس طرح کی صورتحال کا ایک ہی نتیجہ نکلا کرتا ہے۔ دھماکا۔ ایوب خان کے لئے دھماکا وہ تھا‘ جو گلیوں میں ہوا۔ یحییٰ خان کے لئے جو دھماکا ہوا‘ اس میں ملک ہی دو ٹکڑے ہو گیا۔ ضیاالحق کا دھماکا آسمانوں میں ہوا اور پرویزمشرف کا دھماکا اتنا دھیما تھا کہ مشرف صاحب ابھی تک اس کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔ اور ان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ دھماکا نہ تو ہو رہا ہے‘ نہ تھم رہا ہے۔لیکن زرداری صاحب نے جو دھماکا کیا ‘ وہ اپنی طرز کا پہلا ہے۔ اسے ہلکی آنچ کا دھماکاکہتے ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد‘ جناب آصف زرداری نے نہایت سمجھداری سے دو عظیم شہادتوں سے طاقت پکڑنے والی جماعت کا کنٹرول سہج سے سنبھال لیا۔ بے نظیر شہید کے فرزند بلاول کا استعمال کرتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ پارٹی کی چیئرپرسن کے جانشین‘ ان کے فرزند ہوں گے۔ چونکہ وہ ابھی نو عمر ہیں‘ اس لئے قائم مقام چیئرمین کے فرائض جناب آصف زرداری ادا کریں گے۔ انہوں نے اپنے آپ کو اس حد تک پارٹی سے بے نیاز رکھا کہ انتخابات میں حصہ تک نہ لیا۔ البتہ تمام کلیدی جگہوں پر اپنے مہرے‘ انہوں نے ماہر شاطر کی طرح لگائے۔ بی بی کی شہادت کا اثر اتنا گہرا تھا کہ غیرسیاسی قائم مقام چیئرمین صاحب کے امیدوار اکثریت تو حاصل نہ کر سکے‘ لیکن حکومت سازی کی پوزیشن میں آ گئے۔ زرداری صاحب چاہتے تو وزیراعظم بن سکتے تھے‘ لیکن انہیں معلوم تھا کہ وزیراعظم ‘ عدالتوں کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ کرسی ضیا کی مجلس شوریٰ کے سابق رکن ‘یوسف رضا گیلانی کے سپرد کر دی اور خود بڑی معصومیت سے صدرمملکت کا بے ضرر سا عہدہ لے کر بیٹھ گئے۔ بھید اس وقت کھلا‘ جب جناب صدر کے خلاف پرانے مقدمے کھلنے لگے اور ان کے وکلا ہر بار آئین کی مدد سے جناب صدر کو قانون سے بالاتر ثابت کرتے رہے۔ پورے پانچ سال کا عرصہ جناب زرداری نے کرسی صدارت پر گزار دیا۔ ابھی یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویزاشرف کی کہانیاں منظرعام پر آنے کی منتظر ہیں کہ نئی حکومت نے ۔ع
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا؟
کے ساتھ کمال ہنرمندی سے کھلواڑ کیا۔ بدنامی تو بہت ہوئی مگر نام نہ ہوا۔ کیا مجال ہے ان دونوں کے کسی بھی سکینڈل میں ‘میڈیا میں براہ راست ان کے نام آئے ہوں؟ اگر نئی حکومت ایک دو سال حدود میں رہ کر کام کرتی‘ تو شاید ان دونوں کی کرپشن کی کہانیوں کے چرچے ہو جاتے اور یہ اتنے زبردست ہوتے کہ نئی کرپشن پر لوگوں کی توجہ ہی نہ جاتی‘ لیکن 13 سال کی بھوک پیاس نے اتنا بے تاب کر رکھا تھا کہ جہاں جس کا ہاتھ پڑا‘اس نے صبر نہیں کیا۔ ایسے ایسے ہاتھ مارے گئے کہ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویزاشرف کے کارنامے چھوٹے نظر آنے لگے۔ نئی تقسیم اختیارات میں پورا پاکستان ن لیگ کو ملا اور سندھ زرداری صاحب کی پیپلزپارٹی کو۔ یوں لگتا ہے کہ پھر مقابلہ شروع ہو گیا۔ سندھ کی حکومت ‘ پاکستان کی حکومت کے ساتھ مقابلے کے میدان میں اتر آئی۔ پورے ملک کی حکومت بہرحال بہت بڑی ہوتی ہے اور سندھ کی حکومت حقیقت میں صرف کراچی کے وسائل پر قناعت کرنے تک محدود ہے‘ لیکن اس کے باوجود ''مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خو ب کیا‘‘۔ صرف کراچی میں اتنے بڑے بڑے ہاتھ مارے گئے‘ جنہیں دیکھ کر بڑے بڑوں کے چھکے چھوٹ گئے۔ یوں تو دنیا بھر کی ناجائز دولت کا بڑا حصہ دبئی میں آ کے''گہری نیند‘‘ سو جاتا ہے‘ لیکن گزشتہ دو سال کے عرصے میں دبئی میں ساری بڑی خریداریاں کراچی کی دولت نے کیں۔ اس کے چرچے اتنے زیادہ ہوئے کہ اسلام آباد میں مارے گئے بڑے بڑے ہاتھ بھی کسی کی نظروں میں نہیں آئے۔ حد یہ ہے کہ قطر سے گیس خریدنے کی اربوں روپے کی ڈیل کی گئی۔ اس کے بارے میں ابھی تک کوئی حساب نہیں لگا سکا کہ کھانے والوں نے کتنا کھایا؟ اس کا معاہدہ کب ہوا؟ کوئی نہیں جانتا۔ خریدار پاکستان تھا‘ لیکن معاہدہ کس نے کس کے ساتھ کیا؟ یہ بھی کوئی نہیں جانتا۔ معاہدے کے تحت گیس کس طرح پاکستان پہنچنا تھی؟ یہ بھی کسی کو معلوم نہیں۔ گیس کے ریٹ کیا ہیں؟ یہ بھی کسی کو معلوم نہیں۔ گیس کس راستے سے آئی؟ یہ بھی اب تک کسی کو معلوم نہیں ہو سکا‘ لیکن وہ پاکستان پہنچ گئی۔ اس کے درآمدی کاغذات کہاں بنے؟ اور کس نے وصول کئے؟ یہ بھی کوئی نہیں جانتا۔ سنا ہے کہ اب وہ فروخت کے لئے دستیاب ہو گئی ہے۔ مگر ہوئی کیسے؟ یہ بھی کسی کے علم میں نہیں اور اس کی خریداری کا معاہدہ 12 سال کے لئے ہے۔ گویا اس میں اصلی اور فرضی نرخوں کے درمیان کا فرق کھربوں ڈالر کا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ کراچی سے بیرون ملک منتقل ہونے والی دولت اور قطر کی گیس کا سودا یوں ہے جیسے گیدڑ کی سو سال کی خوراک اور شیر کا ایک دن کا کھاجا۔ جناب آصف زرداری نے بالکل درست کہا کہ ''ان کے توتے ٹائیں ٹائیں کرتے ہیں۔‘‘ اگلی بات وہ کہہ نہیں پائے کہ شیر جو ڈکار لئے بغیر ہضم کر کے بیٹھ گیا ہے‘ اس پر توتا تو کیا؟ چڑیا تک نہیں بولی۔ یہاں تک تو بہت تھا۔ لیکن ستم یہ ہوا کہ شیر کے کھانے پر کسی کی نظر نہیں گئی اور گیدڑ کے کھانے پر توتے ٹائیں ٹائیں کر رہے ہیں۔ سابق صدر زرداری کا غصہ اپنی جگہ بجا ہے‘ لیکن غصے میں انہوں نے شیر کو دعوت مبارزت دے دی اور دھمکی کیا دی؟ کہ وہ ''اینٹ سے اینٹ‘‘ بجا دیں گے۔ کام بہت آسان ہے۔ ایک اینٹ اٹھائیں اور دوسری سے ٹکرا کر اپنا دعویٰ درست ثابت کر دیں کہ میں نے اینٹ سے اینٹ بجا دی‘ لیکن جن کو مخاطب کیا گیا غالباً وہ اس کا مطلب کچھ اور سمجھیں گے۔ ہو سکتا ہے‘ کراچی کا آپریشن محض دکھاوا ہو‘ اصل نشانہ بعد میں لگایا جائے۔ زرداری صاحب ‘فاٹا سے کراچی تک تو کیا کچھ بند کریں گے؟ فی الحال تو کراچی کا پانی بند کرنے پر ہی گزارا کر رہے ہیں۔ ابھی پہلی اینٹ سے دوسری اینٹ ہی بجائی گئی ہے۔ ان کی پارٹی کے دو سابق وزرائے اعظم‘ اڑ کر منڈیر پہ جا بیٹھے ہیں۔ جس پارٹی کے بل بوتے پر زرداری صاحب نے اتنا بڑا چیلنج دیا ہے‘ وہ تو میاں منظوروٹو کے نازک کاندھوں پر بسیرا کئے بیٹھی ہے۔ جس فوج کو انہوں نے تین سال کا وقفہ دیا ہے‘ اس کے بارے میں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ فوج ایک ادارہ ہے۔ تین سال کے لئے چیف آف آرمی سٹاف بنے یا چھ سال کے لئے‘ فوج کی طاقت برقرار رہتی ہے۔ البتہ زرداری صاحب کے بارے میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ تین گھنٹے ہیں؟ تین دن ہیں یا تین ماہ؟ دھیمی آنچ کا دھماکا وہی کر سکتا ہے‘ جو ایک مستقل ادارے کا حصہ ہو۔ یہاں تو ابھی پہلی اینٹ سے اینٹ بجی ہے اور دو سابق وزرائے اعظم پھر سے اڑ گئے ہیں۔