چالاک اور ذہین ہونے میں بڑا فرق ہے۔چالاکی سے آدمی کیریئر بنانے والا رشتہ لے سکتا ہے۔ اس رشتے کے بل بوتے پر دولت کمانے کی منزل حاصل کر سکتا ہے۔ طاقت اور اقتدار کے مزے لوٹ سکتا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی پارٹی کی قیادت سنبھال سکتا ہے۔ یہ سارے کام چالاکی سے ہو سکتے ہیں۔ لیکن جہاں سیاسی امتحان آ جائے‘ وہاں پھر وہی ہوتا ہے‘ جو ان دنوں جناب آصف زرداری کے ساتھ ہو رہا ہے۔ وہ جوش و خروش میں ایک ایسی تقریر کر گئے‘ جس کا ان کی اپنی اور پارٹی کی صورتحال سے کوئی تعلق نہیں۔ تقریر کرتے وقت انہیں یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ سابق فوجیوں پر تنقید کر رہے ہیں یا موجودہ فوجی قیادت کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں\\ ان کے الفاظ اور جملوں کا جو مفہوم عوام نے سمجھا ‘ فوج نے بھی یقینا وہی سمجھا ہو گا۔ ان کے حواریوں کو سمجھ نہیں آئی۔ اب وہ بیانات جاری کر رہے ہیں کہ جناب زرداری کا یہ مطلب نہیں تھا ۔ مثلاً بیشتر حواریوں کے دلائل یہ ہیں کہ زرداری صاحب نے تو سابق جرنیلوں کا ذکر کیا تھا۔ پہلے یہ الفاظ پڑھ لیں ''ہمیں تنگ مت کرو‘ ورنہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔‘‘ کون سا سابق جرنیل زرداری صاحب کو تنگ کر رہا ہے؟ اوراگر وہ موجودہ جنرلوں کو کہہ رہے تھے ‘ تو وہ انہیں تنگ کیسے کر رہے ہیں؟ اس وقت تو بیچارے خود تنگ ہو رہے ہیں۔ مزید وضاحت کے لئے سابق صدر نے فرمایا ''میں نے فہرست بنائی‘ تو کئی جرنیلوں کے نام آئیں گے۔‘‘ سابق جنرلوں کی فہرستیں تو پہلے سے بنی بنائی ہیں، زرداری صاحب کو نئی فہرستیں بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ ان دو جملوں کی روشنی میں زرداری صاحب کے فلسفیانہ خیالات کے شارحین یہ کیسے ثابت کریں گے کہ اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی ، جو مستقبل کے بارے میں دی جا رہی ہے‘ اس کا سابق جنرلوں سے کیا تعلق؟ یہاں دو باتیں قابل غور ہیں۔ اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی کا تعلق تنگ کرنے سے ہے۔ شارحین اگر یہ بتا دیں تو مہربانی ہو گی کہ سابق جرنیلوں میں سے زرداری صاحب کو کون تنگ کر رہا ہے؟ ان کے پاس ہے کیا جس کی وہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے؟ ان کے پاس یا تو حکومت کے دیئے ہوئے مکان ہیںیا بعض خوش قسمتوں نے اپنے گھر بنا لئے اور بعض ابھی تک کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں۔ ان میں سے کس کے گھر کی اینٹ سے اینٹ بجائیں گے؟ اگر سابق جرنیلوں کی اینٹ سے اینٹ بجانا ہوتی تو وہ ان انقلابی دنوں میں بجاتے‘ جب بی بی کی شہادت پر پورا ملک غیظ و غضب میں آیا ہوا تھا۔ اس وقت وہ جس کی چاہتے اینٹ سے اینٹ بجا دیتے، مگر تب انہیں پارٹی قیادت سنبھالنے کی پڑی ہوئی تھی اور کمال یہ ہے کہ انہیں غصہ بھی اس وقت آیا‘ جب بی بی کی شہادت کو پانچ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو غصہ وقت گزرنے کے بعد آئے‘ اسے اپنے آپ پر اتارنا چاہیے۔ ہو سکے‘ تو زرداری صاحب کے شارحین لگے ہاتھوں یہ وضاحت بھی کر دیں کہ یہ تقریر کر کے انہوں نے حاضر سروس جنرلوں پر غصہ اتارا ہے؟ سابق جنرلوں پر اتارا ہے؟ یا اپنے آپ پر اتارا ہے؟
اس کا بھی سراغ لگانا چاہیے کہ زرداری صاحب کو تنگ کون کر رہا ہے؟ انہیں سابق صدر کا پروٹوکول حاصل ہے۔ ہر وہ رعایت جو سابق سربراہ مملکت کو ملتی ہے‘ انہیں حاصل ہے۔ صوبہ سندھ کے وہ بلاشرکت غیرے حکمران ہیں۔ کوئی ان کے سامنے پر نہیں مار سکتا۔ ویسے بھی انہوں نے وزیراعلیٰ اس طرح کا تلاش کیا ہے‘ جس کے پر ہی نہیں۔ گورنر کے پر تھے، وہ انہوں نے اپنی تحویل میں لے کر کتر دیئے ہیں۔ یہ دونوں چاہیں بھی تو پر نہیں پھٹک سکتے۔ موجودہ جنرل‘ ان کے ساتھ بیٹھ کر میٹنگیں کرتے ہیں۔ لوٹ مار کرنے کے جرم میں جن لوگوں کی فہرستیں بنائی گئی ہیں‘ ان میں زرداری صاحب کا نام ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ وہ تو خود ان میٹنگوں میں بیٹھے ہوتے ہیں‘ جہاں فیصلے کئے جاتے ہیں۔ تو پھر انہیں تنگ کون کر رہا ہے؟ ان کی تقریر کے شارحین کہتے ہیں کہ زرداری صاحب نے سابق جرنیلوں کو دھمکی دی ہے، مگر اس کی وضاحت کوئی نہیں کر رہا کہ وہ سابق جرنیلوں کو دھمکی کیا دیں گے؟ اور کیوں دیں گے؟ جب بی بی شہید برسراقتدار تھیں‘ تب وہ کسی سرکاری منصب پر فائز نہیں تھے اور شوہری‘ سرکاری منصب نہیں ہوتا۔ کابینہ کے وزیر یا پارٹی کے عہدیدار ضرور زرداری صاحب کے احکامات مانتے تھے، لیکن جنرل اپنے ادارے کے ملازم ہوتے ہیں۔ وہ کسی وزیرکے احکامات کے پابند نہیں ہوتے۔ نہ کوئی وزیران کا ماتحت ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ الزام جو بعد ازغور و فکر عائد کیا گیا ہے‘ کسی بھی اعتبار سے سابق جنرلوں پر عائد نہیں کیا جا سکتا۔ سابق جنرلوں نے نہ تو انہیں اس وقت تنگ کیا ہو گا‘ جب وہ شوہری کے منصب پر فائز تھے، نہ دوران وزارت اور نہ بعد میں جب وہ صدر بنے۔ انہوں نے جنرل پرویزمشرف کو گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا۔ اگر انہوں نے تنگ کیا ہوتا‘ تواس اعزاز کے ساتھ رخصت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ میں نے بار بار تقریر کا مطالعہ کیا لیکن کسی بھی طرف سے یہ مفہوم نہیں نکلا کہ انہوں نے سابق جرنیلوں کی ڈانٹ ڈپٹ کی ہے۔ مثلاً انہوں نے فرمایا ''آپ کو تین سال رہنا ہے اور چلے جانا ہے۔ پھر ہم نے ہی رہنا ہے۔ آپ کے پالے ہوئے پٹھو توتے طرح طرح کی ٹیں ٹیں کرتے ہیں۔ کالعدم تنظیمیں کسی اور کے اشارے پر آتی ہیں اور انہیں بلایا بھی جاتا ہے۔‘‘ ان تمام جملوں میں صیغہ حاضر استعمال کیا گیا ہے۔ کہیں ماضی کا تذکرہ نہیں۔ یہ جو توتے ٹیں ٹیں کر رہے ہیں‘ ان کے لئے کر رہے تھے نہیں‘ کر رہے ہیں کہا گیا ہے۔ آپ کو تین سال رہنا ہے اور چلے جانا ہے۔ وہ کون سا جنرل ہے، جسے ''تین سال رہنا ہے اور چلے جانا ہے۔‘‘ یہ جنرل مشرف نہیں ہو سکتے۔ اسلم بیگ نہیں ہو سکتے۔ اسد درانی نہیں ہو سکتے۔ ضیاالحق نہیں ہو سکتے۔ غرض جتنے جنرلوں سے زرداری صاحب کو تکلیف پہنچی ہو گی‘ ان میں سے کسی کو بھی تین سال نہیں رہنا۔ تین سال کس کو رہنا ہے؟ ازراہ کرم تقریر کے شارحین ‘ اس کا نام بتا دیں تاکہ خلق خدا کا بھلا ہو۔زرداری صاحب کے بہت سے بدخواہ کچھ اور ہی قصے بیان کر رہے ہیں۔ مثلاً ایک لانچ کے قصے ہیں، جس میں نوٹوں کی بوریاں لاد کے سمندر سے دبئی بھیجا جا رہا تھا اور اس کہانی میں رنگ بھرنے کے لئے یہ بھی شامل کیا گیا کہ یہ نوٹ جو بوریوں میں بھر کے لے جائے جا رہے تھے‘ ناجائز کمائی کے تھے، جس کا ناجائز کمائی دبئی منتقل کرنے والوں کے سرغنہ کو علم ہو گیا‘ تو اس نے اپنے ایک ایجنٹ کی بھی خفیہ طور پر دو بوریاں بھر کے لانچ میں رکھوا دیں اور ساتھ اسے بھی بٹھا دیا۔ اس نے عین مناسب جگہ پہنچ کر اطلاع کر دی کہ لانچ مطلوبہ مقام پر آ گئی ہے۔ چند لمحوں کے اندر اس لانچ کو گھیرے میں لے لیا گیا۔ بندے قابو کر کے واپس پہنچا دیئے گئے ‘ جو ابھی تک نجی قید خانے میں بند ہیں اور بوریاں بصدشکریہ دبئی میں وصول کر لی گئیں۔ جناب زرداری کے مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ پچھلے چند ماہ کے اندر دبئی میں پاکستانیوں نے 40ارب ڈالر کی جائیدادیں خریدی ہیں۔ ہو سکتا ہے رقم مجھے یاد نہ رہی ہو، لیکن عدد چالیس ہی کا تھا۔ سنا ہے کہ جب سے سابق صدر نے دھمکی آمیز تقریر کی ہے‘ وہ خود یہ بتانے کو تیار نہیں کہ انہوں نے کس کو دھمکایا ہے۔ نہ وہ کوئی وضاحت کرنے کو تیار ہیں، وضاحتیں صرف ان کے حواری کر رہے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ
وضاحتیں کرنے والے صرف وہ حواری ہیں‘ جن پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔ جیسے فرحت اللہ بابر‘ قمرزمان کائرہ‘ چوہدری منظور۔ ڈالروں کی بوریاں بھرنے والوں میں کوئی ایک بھی ''پاک دامن‘‘ شارحین میں شامل نہیں۔ سب سے دلچسپ پوزیشن وزیراعظم نوازشریف کی ہے۔ زرداری صاحب نے انہیں افطار ڈنر پر مدعو کیا تھا تاکہ دھمکی براہ راست بھی متعلقہ افراد کو پہنچا دیں، یا پھر وضاحت کر دیں کہ ان کا نشانہ ''وہ‘‘ نہیں تھے۔ میں نے دونوں ممکنہ باتیں خود ہی لکھ دی ہیں تاکہ حواریوں کو تردید کی ضرورت نہ پڑے۔ دوسری طرف وزیراعظم نے بھی دور کی سوچی کہ اگر انہیںمعذرت پہنچانے کے لئے کہا جائے‘ تو وہ اس کی ذمہ داری کیوں لیں؟ اور اگر دھمکی دہرانے کی فرمائش کریں‘ تو انہیں برا پیغام دینے کی کیا ضرورت ہے؟