پاکستان کی وزارت دفاع کے سربراہ نے ایک حیرت انگیز بیان جاری کر کے دنیا‘ خصوصاً جنوبی ایشیا میں سنسنی پھیلا دی ہے۔ انہوں نے فرمایا ''ملکی دفاع کے لئے ایٹمی ہتھیار چلا دیں گے۔‘‘ آج تک سات ملکوں نے ایٹمی ہتھیار بنائے ہیں اور صرف ایک نے دو ایٹم بم چلائے اور ان کی تباہی کی داستانیں دلوں کو لرزا دیتی ہیں۔ جب امریکہ نے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا یہ پاگل پن کیا‘ اس وقت طویل جنگ عظیم کے بعد‘ جاپان نیم جان ہو چکا تھا اور اس کی طرف سے ہتھیار پھینکنے کے اشارے آنے لگے تھے۔ امریکہ نے جنگ ختم ہونے کی یقینی صورتحال پیدا ہونے کے بعد یہ بم کیوں چلائے؟ اس پرابھی تک دنیا کے ماہرین غوروخوض کر رہے ہیں۔ اس کا واحد مقصد غالباً یہ تھا کہ بعدازجنگ دنیا میں اپنی فوجی برتری کا سکہ بٹھا دیا جائے ‘ ورنہ سپرپاور بننے کا خواب پورا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جرمنی‘ سویت یونین‘ فرانس اور برطانیہ بھی ایسے ہی بم تیار کرنے کے قریب آ چکے تھے اور اسے ڈر تھا کہ جرمنی یقینا بم تیار کرتے ہی ان سے یورپ کو تباہ کر دے گا‘ جس پر امریکہ کی عالمی طاقت کا انحصار تھا۔ جرمنی اور سوویت یونین کے سوا ایٹم بم تیار کرنے والے دیگر یورپی ملک اس کے اتحادی تھے۔ لیکن انہیں اعتماد میں لینے کے بعد اس نے جاپان کو نئے ہتھیار کا نشانہ بنا کر متعدد مسائل حل کر دیئے۔ امریکہ براہ راست جنگ میں شریک نہیں ہوا تھا لیکن اس کے سارے وسائل جنگ میں جھونک دیئے گئے‘ جن کی وجہ سے یورپ شکست کے قریب پہنچ کر محفوظ ہو گیا اور جاپان کا انجام دیکھ کر جرمنی اور اس کے اتحادی ملک اٹلی نے ہتھیار ڈال دیئے۔ جاپان تو پہلے ہی اس کے لئے تیار تھا اور عالمی جنگوں میں تاریخ کی پہلی عظیم تباہ کاری کا شکار ہونے بعد‘ اس کے پاس ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ نے جنگ ختم ہونے کے قریب‘ خطرناک ترین نیا جنگی ہتھیار‘ جو کسی دوسرے کے پاس نہیں تھا‘ کیوں استعمال کیا؟
اس کی متعدد وجوہ تھیں۔ امریکہ نے دنیا کو یہ اطلاع دے کر کہ وہ ایٹم بم تیار کر چکا ہے اور اس کی تباہ کاری کی مثال جاپان میں پیش کر کے ‘ اپنی نئی طاقت کا اعلان کر دیا ہے۔ تب اسے مکمل یقین تھا کہ دوسرے کسی ملک کے پاس کسی قسم کی جوابی کارروائی کی صلاحیت نہیں۔ جاپانی تو بیچارے تباہ و برباد ہوئے ہی تھے‘ باقی دنیا بھی اس تباہ کن ہتھیار کے استعمال سے خائف ہوئی۔ اس کے بعد بم بہت سی طاقتوں نے بنائے‘ لیکن استعمال کرنے کا حوصلہ کسی کو نہ ہوا۔ جنگ عظیم دوم ختم ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد سوویت یونین نے اپنے ایٹم بم بنا کر امریکی بلاک پر واضح کر دیا کہ اب دنیا میں دوسرا جاپان کوئی نہیں بنے گا۔ جیسے جیسے ان دونوں طاقتوں کے ایٹمی ذخیرے بڑھتے گئے‘ باہمی خوف میں اضافہ ہوتا گیا۔ جب دونوں نے ایک دوسرے کی ایٹمی صلاحیتوں کو جانچ کر یہ سمجھ لیا کہ اب جنگ کا مطلب دوطرفہ تباہی ہو گی‘ تو ایٹمی جنگ سے بچنے کے دوطرفہ معاہدے کئے گئے۔ ان معاہدوں کا عنوان دیتانت رکھا گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ کوئی ایٹمی ملک‘ کسی بھی حالت میں یکطرفہ طور پر ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں کرے گا۔ یہ ایک مجموعی خطرے سے بچائو کی ترکیب تھی۔ سارے ایٹمی ملک جانتے تھے کہ یہ خوفناک ہتھیار جہاں بھی استعمال ہوا‘ انسانیت کے خلاف ہو گا اور اتنی بڑی تباہی آئی‘ تونوع انسانی نصف صدی تک معمول کی زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہے گی۔ آدھے لوگوں کا تو وجود ہی پگھل جائے گااور جو بچ رہیں گے‘ وہ ناداروں کی زندگی گزاریں گے اور جہاں کسی دوردراز خطے میں جیسے آسٹریلیا‘ الاسکا‘ جنوبی افریقہ‘ اٹلانٹک جیسے علاقے ہیں‘ وہاں ممکن ہے ایٹمی اثرات نہ پہنچ سکیں اور پہنچ گئے تو مکمل تباہی نہ مچائی جا سکے۔ مگر اس دنیا کو ترقی کی سابقہ حالت میں دوبارہ آنے کے لئے کم از کم ایک صدی ضرور لگ جائے گی۔ یہی وہ حقیقت تھی جسے سمجھ کر‘ سوویت یونین اور امریکی بلاک نے دیتانت کے معاہدے کر کے‘ ایٹمی تباہ کاری سے بچنے کا بندوبست کیا۔ اس وقت دیتانت میں دنیا کے سارے ایٹمی ملک شامل ہو چکے تھے۔ دیتانت ہی کی وجہ سے ہم ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے تباہ کن مناظر دوبارہ دیکھنے سے محفوظ رہے۔
پاکستان اور بھارت دنیا کے دو ایسے ملک ہیں‘ جنہوں نے کسی عالمی معاہدے میں شرکت اور پابندی قبول کئے بغیرخفیہ طور سے ایک ہفتے کے اندر اندر ایٹمی تجربے کر ڈالے اور اتنی تیزی سے خطرناک ترین ایٹمی ہتھیار بنا کر ان کے بڑے بڑے ذخیرے تیار کر لئے کہ ان میں سے کسی بھی ملک کے حکمرانوں پر جب کبھی پاگل پن سوار ہوا‘ یہ آدھی دنیا کو تباہ کر جائیں گے۔
بظاہر تو اس خطرے کا اظہار نہیں کیا جاتا‘ لیکن دنیا کے تمام بڑے دارالحکومتوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر یہ کوئی پاگل پن کر بیٹھے‘ تو دنیا کا کیا بنے گا؟ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں ملکوں کے باہمی تنازعات پر ہر کوئی پریشان رہتا ہے۔ دنیا اپنے طور پر اس کوشش میں رہتی ہے کہ یہ اپنے تنازعات مذاکرات کے ذریعے ختم کر لیں‘ ورنہ دنیا ہر وقت خطرے میں رہے گی۔ ان دونوں ملکوں کی حکومتیں بھی اچھی طرح جانتی ہیں کہ اب ان میں سے کوئی بھی ایٹم بم استعمال کرنے کے قابل نہیں رہا۔ دونوں حیرت انگیز طور پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ سرحدی صورتحال یہ ہے کہ جس کسی نے بھی دوسرے پر ایٹم بم گرایا‘ اس کی اپنی آبادی بھی ایٹم بم کی تباہی کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکے گی۔ مگر دونوں ملکوں کی آبادیوں اور قیادتوں میں عجیب قسم کی نفسیاتی بیماریاں پائی جاتی ہیں۔ یہ کسی بھی لمحے جنگ کا فیصلہ کر کے‘ اپنی پوری طاقت اس میں جھونک سکتے ہیں۔ 1971ء کے سوا ان دونوں نے آپس میں جتنی بھی جنگیں کی ہیں‘ بے نتیجہ رہیں۔ لیکن یہ جنگوں میں کودنے سے باز نہیں آئے۔ صرف 1971ء کی جنگ میں بھارت فتح یاب رہا۔یہ اس دور کی بات ہے‘ جب دونوں کے پاس قابل استعمال حالت میں ایٹم بم موجود نہیں تھے۔ لیکن بھارت نے پاکستان کو مکمل شکست دیئے بغیر جنگ بند نہیں کی۔ عام طور پر روایتی جنگیں لڑنے والے ملک دوران جنگ ہی کسی مرحلے پر امن کا فیصلہ کر کے‘ مستقبل کی دوطرفہ تباہی سے بچائو کر لیتے ہیں۔ لیکن بھارت نے میدان جنگ میں فتح حاصل کئے بغیر جنگ نہیں روکی۔ جنگ تو بظاہر رک گئی۔ اگر آئندہ کبھی جنگ ہوئی‘ تو ان دونوں کی مکمل تباہی ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں کے باشعور افراد اور ادارے‘ عملی جنگ کا تصور نہیں کرتے۔ کوئی بھی ہوش مند آدمی کابینہ کے اجلاسوں میں ایٹم بم کے استعمال کی احمقانہ تجویز پیش نہیں کرتا۔ لیکن جب کوئی مجذوب سرکاری عہدیدار ایٹم بم کے استعمال کی دھمکی دیتا ہے‘ تو دنیا کے کان ایک دم کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آج کی دنیا میں یہی دو ایٹمی ملک ایسے ہیں‘ جن کے ذمہ دار عہدیدار ایٹمی ہتھیار چلانے کی دھمکی دینے کا حوصلہ یا دیوانگی رکھتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ ہر دھمکی کے ساتھ پانچ دوسرے ایٹمی ممالک میں تشویش پیدا ہوتی ہے اور وہ یقینی طور پر کسی ایسے انتظام پر سوچنے لگتے ہیں‘ جس کے تحت ان دونوں کا ایٹمی خبط ختم کیا جائے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں اجتماعی انسانی تباہی پر یقین رکھنے والے خبطی کس طرح ذمہ دار عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں؟ ان عقل سے فارغ لوگوں میں اتنی بھی سمجھ نہیں کہ جب وہ ایٹمی اسلحہ استعمال کرنے کی دھمکی دیتے ہیں‘ تو یہ درحقیقت پوری انسانیت کے لئے ہوتی ہے۔ کیاان کو اتنی بھی سمجھ نہیں ہوتی کہ جب وہ پوری انسانیت کو دھمکی دیتے ہیں‘ تو ہمارا ہاتھ سو ئچ پر جانے سے پہلے ہمارا الیکٹرانک سسٹم ہی منجمد کیا جا سکتا ہے۔ہمارے جنگجو بٹن دباتے رہ جائیں گے اور انہیں پتہ چلے گا کہ بم ناقابل استعمال ہو چکے ہیں۔ مگر اس حرکت کے بعد ہمیں جس انجام کا سامناکرنا پڑے گا‘ اس کے تصور سے ہی ڈر لگتا ہے۔