ہماری یہ حکومت بڑے مزے کی ہے۔ دنیا بھر کی سیاسی جماعتوں سے ووٹروں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ انہوں نے انتخابی مہم میں جھوٹے وعدے کر کے‘ ان کے ووٹ بٹورے اور وقت آیا تو فراموش کر دیا۔ لیکن اپنی نوعیت کی یہ پہلی حکومت ہے‘ جو ووٹ لینے اور حکومت بنانے کے بعد بھی باز نہیں آئی۔ ان دنوں جبکہ عوام سیلاب کے پانیوں میں پھنس کے ڈوب رہے ہیں اور جان بچانے کے لئے اِدھر اُدھر دھکے کھا رہے ہیں‘ اس حکومت کے نمائندے بڑی ڈھٹائی سے دعوے کر رہے ہیں کہ عوام فکر نہ کریں‘ ہم نے سارے انتظام کر لئے ہیں۔ تکلیف کی بات یہ ہے کہ جب سرکاری افسر یہ دعوے کر رہے ہوتے ہیں‘ عین اسی وقت ٹی وی پر دوسری طرف پانی میں ڈوبتے ہوئے انسان اور مویشی دیکھے جا سکتے ہیں۔ پانی کے وسیع تر منظر میں دیکھنے والوں کو جو کالے کالے دھبے دکھائی دیتے ہیں‘ درحقیقت وہ آدھی ڈوبی ہوئی بھینسیں ہوتی ہیں‘ جو بے بسی کے ساتھ پانی میں بہہ رہی ہوتی ہیں ۔ یہ ایک ہی جھوٹ نہیں‘ حکومت مسلسل جھوٹ پر جھوٹ بولتی ہے۔ ن لیگ نے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کر کے لوگوں کے ووٹ بٹورے۔ مگر اب لوڈشیڈنگ بھی ماضی کی نسبت زیادہ ہو رہی ہے اور دعوے بھی انتخابات کے زمانے سے زیادہ مبالغہ آمیز کئے جا رہے ہیں۔ لوگوں کے گھروں میں بلب تک نہیں جلتے اور وزرا دعوے کر تے ہیں کہ لوڈشیڈنگ برائے نام رہ گئی ہے۔ عید پر تو ڈھٹائی کی حد ہو گئی۔ بڑے بڑے دعوے کئے گئے کہ عید کی چھٹیوں میں لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی مگر انہی چھٹیوں کے دوران معمول کی لوڈشیڈنگ سے زیادہ وقت بجلی غائب رہی۔
کراچی والوں نے تو اور بھی کمال کر دیا۔ وہاں پانی کی سپلائی کا اچھا بھلا انتظام تھا۔ حکومت نے اس سپلائی کو معطل کر کے نجی افراد کو ٹھیکے دے دیئے۔ انہوں نے ٹرکوں میں سپلائی دے کر دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹا اور ان کروڑوں روپوں پر سیاسی حکمرانوں اور ان کے ایجنٹوں نے دن دہاڑے ہاتھ صاف کیا۔لطف یہ ہے کہ ایک طرف لوگ پانی کو ترس رہے تھے‘ احتجاج ہو رہا تھا اور منتخب حکومتی نمائندے میڈیا کو ساتھ لے کر دعوے کر رہے تھے کہ پانی کی سپلائی تو جاری ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے ایک نئی پریکٹس شروع ہو گئی ہے کہ حکومت پٹرول کی فراہمی جاری رکھنے کا پرزور دعویٰ کرتی ہے اور پھر اچانک مارکیٹ میں پٹرول نایاب ہو جاتا ہے اور مخصوص پٹرول پمپوں پر مہنگے داموں دستیاب ہونے لگتا ہے۔ گزشتہ قلت کے دوران حکومت کی طرف سے بڑے بڑے دعوے کئے گئے کہ بہت جلد سپلائی بحال کر دی جائے گی اور آئندہ ایسی قلت نہیں ہو گی۔ میں اس وقت کے انتظار میں ہوں‘ جب ایک بار پھر پٹرول کی قلت پیدا کی جائے گی اور عوام کی جیبوں سے ان کی کمائی نکال کر ‘ کرپشن کے خزانے میں منتقل کر دی جائے گی۔ اسی قسم کے حالات گیس کی لوڈشیڈنگ میں پیدا کئے جاتے ہیں۔ کبھی کسی شعبے کی فراہمی بند کر کے‘ دوسرے میں قلت پیدا کی جاتی ہے اور کبھی اس طرف کی فراہمی روک کر ‘ پہلے شعبے میں قلت پیدا کر دی جاتی ہے۔ بظاہر یہ کھیل معمولی سا لگتا ہے‘ لیکن پاکستان کی منڈی دیکھ کر اندازہ لگایا جائے تو ہر قلت میں کروڑوں بلکہ اربوں روپے عوام کی جیبوں سے نکال لئے جاتے ہیں۔یہ کام لوڈشیڈنگ میں ہی نہیں ‘گیس اور بجلی کے بلوں میں بھی عوام کی جیب کاٹنے کی ترکیبیں استعمال کی جاتی ہیں اور یہ صاف صاف ڈاکہ زنی ہے۔ ہر دوسرے تیسرے مہینے بلوں کے ساتھ کوئی نہ کوئی اضافی رقم لگا کر صارفین سے وصول کی جاتی ہے۔ اس کا بجلی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کبھی کوئی بہانہ بنا لیا جاتا ہے کبھی کوئی دلیل دے دی جاتی ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ عوام کوجو بجلی فراہم نہیں کی گئی‘ اس کی قیمت بھی وصول کر لی جائے اور بعض اوقات تو اتنی دیدہ دلیری سے کام لیا جاتا ہے کہ ماضی کے تین یا چار مہینوں میں بلوں کی وصولی میں جو خسارہ ہوا‘ اسے پورا کرنے کے لئے صارفین کے اصل بلوں سے زیادہ رقم بٹور کے اربوں روپے لوٹ لئے جاتے ہیں۔ میرے گھر کا گیس کا بل عام طور سے‘ بیس پچیس اور تیس ہزار تک ماہانہ ہوتا ہے۔ دو تین ماہ پہلے اچانک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ کا بل آ گیا۔ میں نے محکمے سے رابطہ قائم کیا۔ انہوں نے میرے ایک بیٹے کو دو تین مرتبہ دفتر کے چکر لگوائے اور پھر اللہ جانے کیا بھوت پھیریاں دیں کہ وہ اچھا خاصا پڑھا لکھا نوجوان بھی چکر کھا گیا اور گھر آ کر ہاتھ جوڑ دیئے کہ پاپامیری تو سمجھ میں آتا نہیں کہ انہوں نے اس بل کے پیسوں میں کس کس مد کے تحت اضافہ کیا ہے؟ لیکن ان کا اصرار یہی ہے کہ ہمارا بل درست ہے اور آپ کو یہی رقم دینا پڑے گی۔ ناچار سر پکڑ کے بیٹھ گئے۔ کیونکہ موجودہ حکومت نے بلوں کی وصولیوں میں کرپشن کی رقوم شامل کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا ہے‘ اس کی بھول بھلیوں سے کوئی صارف نکل ہی نہیںسکتا۔ محکمے کے اہلکاروں کے پاس ایسے ایسے دلائل ہوتے ہیں جو عابد شیر علی اور خواجہ آصف کے پاس بھی نہیں ہوتے ہوں گے۔ پورے کرہ ارض پر شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو‘ جہاں حکومت خود عوام کو لوٹنے کی ترکیبیں سوچتی رہتی ہے اور ان پر باقاعدگی سے عمل کر کے وصولیاں کی جاتی ہیں۔ پنجاب میں تو ہمارا رونا یہی ہے کہ محکمے‘ بلوں کے اندر جگا ٹیکس لگا کر زیادہ رقمیں وصول کرتے ہیں۔ کراچی میں تو یہ تکلف بھی نہیں کیا جاتا۔ سیاسی حکمران اور اعلیٰ افسروں کا ایک مافیا ہے‘ جس نے اپنے کارندے رکھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگوں کو دھمکیاں دے کر بھتے کی وصولی کرتے ہیں اور اپنے آقائوں کو ان کی ''امانت‘‘ پہنچا کر کمیشن وصول کر لیتے ہیں۔ اس میں سادہ سا انتظام یہ ہوتا ہے کہ افسر اور حکمران بھتہ وصول کرنے والوں کو تحفظ دیتے ہیں اور مارکیٹ سے بھتہ بٹورنے والے اپنا کمیشن لے کر کاروبار چلاتے ہیں۔ کراچی میں کچھ عرصہ پہلے ایک خبر چلی تھی کہ نوٹوں سے بھری ہوئی ایک لانچ‘ دبئی جاتے ہوئے راستے میں ڈوب گئی۔ ہو سکتا ہے آپ بھی میری طرح یہ پڑھ کر حیران ہوں کہ اس لانچ میں20 ارب روپے سے زیادہ کی رقم تھی اور جو اس رقم کے مالک تھے‘ ان کے ماتھے پر شکن تک نہیں آئی۔ یہ پاکستانی قوم ہی کی دولت ہے‘ جسے یوں بے دردی سے لوٹا اور ضائع کیا جا رہا ہے۔ کچھ مشکوک لوگوں کو جب ایجنسیوں نے پکڑا تو ان کے دیئے ہوئے بیانات کی خبریں شائع ہوئیں کہ وہ کرپشن سے وصول کردہ رقوم اپنے سرپرستوں کو دیا کرتے تھے۔ انہوں نے ان رہائش گاہوں کے نام بھی بتائے‘ جہاں حاضری دے کروہ رقوم پہنچایا کرتے تھے۔ سرکاری اور سیاسی حکمرانوں کے لئے پہلے ایسا کرنا آسان نہیں تھا۔ ہر کوئی دوسرے سے چھپا کر لوٹ مار کیا کرتا۔ نئے دور کا تحفہ یہ ہے کہ بقول جہانگیرترین ‘ سب نے مک مکا کر رکھا ہے۔ جس کے پاس جتنے اختیارات اور جو شعبہ ہے‘ وہ اس میں کرپشن سے من چاہی دولت جمع کر کے‘ جیسے چاہے اسے خرچ کرتا ہے۔ ٹی وی اینکرز ایسی لوٹ مار کی کہانیاں سناتے سناتے تھک نہیں گئے تو اکتا ضرور چکے ہوں گے‘ جن میں اربوں روپے کی ہیرا پھیری کی گئی ہے اور اس کا کہیں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ ان کی بیان کردہ تفصیلات میڈیا پرباقاعدہ نشر ہوتی ہیں لیکن ابھی تک میرے علم میں نہیں کہ کرپشن کی ان کہانیوں میں سے کسی پر ازخود نوٹس لیا گیا ہو۔پاکستان میں ''اقتدارکمپنی‘‘ کا یا تو زور بہت زیادہ ہے یا کرپشن کا نوٹس لینے والوں نے کانوں میں روئی ٹھونس کر عینکیں اتار ی ہوئی ہیں۔پاکستانیوں کی کرپشن سے کمائی ہوئی دولت ‘براستہ دبئی دنیا بھر کے ان ملکوں میں منتقل ہو رہی ہے‘ جہاں کالے دھن کا حساب کتاب نہیں رکھا جاتا۔ ہمارے بزرگ ‘پاکستان کو مملکت خداداد پاکستان قرار دیا کرتے تھے۔ برسوں تک اس کی سمجھ نہیں آئی ۔ اب آئی ہے تو پتہ چلا کہ پولیس والوں نے مک مکا کی جو ٹریڈنگ شروع کی تھی‘ اس پر سیاسی اور غیرسیاسی حکمرانوں نے ہاتھ مار لیا ہے۔ اب پولیس والوں کو اس شعبے سے دیس نکالا دیا جانے لگا ہے۔ حال میں کراچی کے ایک اعلیٰ ترین پولیس افسر کو‘ جب اس کے بڑے عہدے سے ہٹا کر گھر بٹھادیا گیا‘ تو اس کا دردمندانہ بیان چھپا تھا کہ وہ دوران ملازمت اپنا کام ایمانداری سے انجام دیتا تھا۔ اس کی پاداش میں اسے منصب سے ہٹا کر اچانک گھر بٹھا دیا گیا۔ یہ صرف پولیس میں ہی نہیں‘ پوری بیوروکریسی میںہوتا ہے۔
مجھے تو اس نئے ''منتخب مافیا‘‘ سے آزادی حاصل کرنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ عمران خان کے دھرنے کے دور میں جب حکمران ٹولے کو عوام سے خطرہ دکھائی دیا تو انہوں نے آئین اور پارلیمنٹ کا استعمال کرتے ہوئے وہ ترکیب استعمال کی‘ جو دنیا میں کسی بھی جمہوری حکومت کو نہیں سوجھی ہو گی۔ بظاہرحزب اقتدار اور حزب اختلاف ایک دوسرے کی غلطیاں درست کرنے کے لئے ہوتی ہیں۔ مگر پاکستان میں سب کچھ الٹا ہو گیا۔ جو حزب اختلاف تھی وہ سینہ تان کر احتجاج کرنے والے عوام کے سامنے کھڑی ہو گئی اور فوج کو ڈنکے کی چوٹ پر للکارا کہ اگر اس نے آئین اور جمہوریت کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھا تو پوری پارلیمنٹ متحد ہو کراس کا دماغ درست کر دے گی۔ اگر سچ ڈھونڈا جائے تو یوں لگتا ہے کہ جاوید ہاشمی کا ہتھیار بھی اسی مک مکا کے نتیجے میں استعمال کیا گیا اور اب تو کچھ ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ ایک پارٹنر فوج کو براہ راست دھمکیاں دے کر اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کرتا ہے۔ دوسرا پارٹنر اسے انتہائی حفاظت سے بیرون ملک منتقل کر دیتا ہے اور سارے کاریگر مناسب وقت کے انتظار میں ہیں کہ کب انتخابات کا سیزن آئے اور وہ نئے انتظامات کے ساتھ لوٹ مار کے دور کا آغاز کریں اور وقت آنے پر صحافیوں اور اینکرز کو وہ سبق سکھائیں‘ جو اندراگاندھی نے ایمرجنسی میںسکھانے کی کوشش کی تھی اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ جو اندراگاندھی سے نہیں ہو سکا‘ ہمارے مہربان کر دکھائیں گے۔