سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اپنے منصب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ جس طرح صورتحال سے ذاتی فوائد اٹھائے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ موصوف پاکستان سٹیل ملز کی ڈیل ختم کر کے‘ ملک و قوم کو بھاری نقصان بھی پہنچا گئے اور اپنی نوکری بھی بچا لی۔ پرویز مشرف کو گلہ تھا کہ انہوں نے سٹیل ملز کی ڈیل کر کے‘ قومی خزانے کو نہ صرف مسلسل نقصان سے بچا لیا بلکہ بدلے میں معاوضے کی صورت بھاری رقم بھی بچا لی۔ اس وقت سیاسی جماعتوں اور فوجی آمر کے مابین کشمکش چل رہی تھی۔ جسٹس افتخار نے‘ عوامی جذبات کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ اپنی برطرفی کے حکم کو قومی مفادات کی جنگ کی صورت میں بدل دیا۔ وہ شخص جس نے نامعلوم وجوہ کی بنا پر ایک ایسا فیصلہ دے دیا تھا‘ جو حکومت کے نزدیک ملک کے لئے نقصان دہ تھا۔ چیف جسٹس کے بلاجواز انفرادی فعل کو ناپسند کرتے ہوئے ان کی برطرفی کا فیصلہ کیا گیا۔ چیف جسٹس کو ہٹانے کے قواعد و قوانین انتہائی پیچیدہ ہیں۔ جنرل مشرف نے طویل قانونی کشمکش سے جان چھڑانے کی خاطر‘افتخار چوہدری کو زبانی کہہ دیا کہ وہ ملازمت سے فارغ ہو جائیں تو بہتر ہو گا۔اعلیٰ ترین منصب پر فائز شخصیت کو ضابطے کی کارروائیوں سے بچانے کے لئے یہی آبرومندانہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے جبکہ افتخار چوہدری نوکری بچانے کے لئے لڑنے مرنے پر اتر آئے۔ انہوں نے اپنی نوکری کے سوال کو آمریت کے خلاف اپنی بغاوت میں بدل کے رکھ دیا۔ ضرورت مند سیاستدان‘ آمر کے ہاتھوں بے بس تھے اور کسی بھی سیاسی لیڈر میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ عوامی طاقت کا مظاہرہ کر سکے۔ افتخار چوہدری نے سیاستدانوں کی اس مجبوری کا پورافائدہ اٹھایا اور خود عوامی جذبات کے ترجمان بن کر میدان میں کود پڑے۔ وکلا کی منظم تحریک پہلے سے موجود تھی۔ بعض سینئر وکلا‘ جن کی ذاتی ساکھ بڑی اچھی تھی‘ وہ اس ''جنگ‘‘ میں افتخار چوہدری کے آلہ کار بن گئے۔ ساکھ وکلا کی تھی اور فائدہ افتخار چوہدری اٹھا رہے تھے۔ عجیب وقت تھا کہ عوامی مقبولیت رکھنے والے سیاستدان‘ اپنی جگہ چھوڑ کر ‘ افتخار چوہدری کے ساتھ لگ گئے اور انہوں نے جی بھر کے موقع کا فائدہ اٹھایا۔ ان کا خیال تھا کہ نوکری بچانے کے ساتھ ساتھ وہ لیڈری ہتھیانے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے میدان افتخار چوہدری کے لئے کھلا چھوڑ دیا۔ انہوں نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا۔ آصف زرداری کے سامنے دو ہی راستے رہ گئے ‘ یا تو وہ اپنی حکومت سے افتخار چوہدری کو بحال کرائیں یا خود بطور صدر اپنی پوزیشن دائو پر لگا کر چیف جسٹس کے خصوصی اختیارات کے وار سے بچیں۔ان کے وزیراعظم نے حلف اٹھاتے ہی افتخار چوہدری کو بحال کر دیا لیکن ان کی سیاسی خواہشات پوری نہ ہو سکیں۔ ادھر نوازشریف ‘ آصف زرداری کی سیاسی طاقت ختم کرنے کے لئے بے چین تھے۔ انہوں نے آصف زرداری کو زچ کرنے کی خاطر لانگ مارچ کا اعلان کر دیا‘ جس کا مطالبہ یہ تھا کہ چیف جسٹس کو بحال کرو۔ آصف زرداری کو ہراساں کرنے کے لئے نوازشریف اور افتخارچوہدری ‘ ایک ہی مقصد پر اکٹھے ہو گئے اور وہ یہ کہ صدر زرداری کو حصار میں لیا جائے۔ نوازشریف اس وقت حکومت مخالف تحریک چلانے سے مصلحتاً گریزاں تھے۔ انہیں ایک اچھا طریقہ ہاتھ آ گیا کہ مطالبہ افتخار چوہدری کی بحالی کا ہو اور دبائو آصف زرداری پر ڈالا جائے۔ یہ حربہ کامیاب رہا۔ انہوں نے جی ٹی روڈ پر لانگ مارچ کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی جنرل کیانی کو اپنے کھیل میں شامل کر لیا۔ جنرل کیانی نے نوازشریف کو تمام آسانیاں فراہم کر کے لانگ مارچ کامیاب بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ یہ کامیاب نہ ہوئی‘ تو لانگ مارچ کو گوجرانوالہ کے قریب رات گزارنے کا موقع دیا گیا۔ اسی رات کے دوران ‘جنرل کیانی نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نوازشریف کا مطالبہ ماننے پر مجبور کر دیا۔ اس مرحلے پر نوازشریف اپنے اصل سیاسی سفر کی طرف متوجہ ہو گئے اور افتخار چوہدری نے دائوگھات کے ذریعے بچائی ہوئی نوکری سے‘ دل کے ارمان نکالنے شروع کر دیئے۔ انہوں نے حکومت کو جی بھر کے ہراساں کیا۔ آصف زرداری کے سر پر مسلسل تلوار اٹھائے رکھی۔ صدر کا واحد سہارا‘ آئین میں درج تحفظات تھے۔ جب صدر کے وکلا ان آئینی تحفظات کا حوالہ دیتے تو افتخار چوہدری کی طرف سے جواب آتا کہ ''ان تحفظات کی تصدیق ہم سے کرائو‘‘ یعنی انہوں نے اپنے آپ کو ہی آئین کا نعم البدل بنا کر یہ عجیب و غریب بات منوانے کی کوشش کی کہ آئین میں درج تحفظات بھی اسی وقت کارآمد ہیں‘ جب سپریم کورٹ ان کی منظوری دے۔ ظاہر ہے کہ یہ عدالتی اختیارات کا غلط استعمال تھا‘ لیکن سیاستدان مجبور تھے اور افتخار چوہدری ان مجبوریوں سے جی بھر کے فائدے اٹھا رہے تھے۔
2013ء کے انتخابات کا وقت آیا تو افتخار چوہدری نے انتخابی عمل پرناجائز قبضہ کر کے‘ آنے والی حکومت کے ساتھ سودے بازی کی کوشش کی۔ چیف الیکشن کمشنر نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو انتخابی عمل پر قابض ہوتے دیکھ کرگھر کا راستہ لیا۔ وہ کراچی جا کر بیٹھ گئے۔ افتخار چوہدری نے ایک عجیب و غریب حکم جاری کر کے چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات اپنے ہاتھ میں کرلئے۔ انہوں نے ایک ایسا حکم جاری کیا جس کے وہ مجاز ہی نہیں تھے۔ حکم یہ تھا کہ انتخابی عمل کی نگرانی کے لئے ریٹرننگ آفیسرز عدلیہ سے لئے جائیں۔ اس طرح تمام ریٹرننگ آفیسرز‘ افتخار چوہدری کے ماتحت ہو گئے۔ انتخابی عمل افتخار چوہدری کے کنٹرول میں آ گیا۔ آراوز کا تعلق عدلیہ سے تھا۔وہ اپنے چیف جسٹس کے اشارہ ابرو کے محتاج تھے۔ انتخابی نتائج آنے پر آصف زرداری نے ایک ہی جملے میں ساری کہانی بیان کر دی۔ انہوں نے کہا ''یہ آر اوز کے الیکشن تھے۔‘‘ نوازشریف فیصلہ کن اکثریت حاصل کر کے ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ افتخار چوہدری نے سیاسی آرزوئیں پوری کرنے کے لئے جو گندا کھیل کھیلا‘ اس کا وہ کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ خاموشی سے ریٹائـر ہو کر گھر جانا پڑا۔ مگر اس سے پہلے ان کا بھرم ملک ریاض حسین نے کھول کر رکھ دیا تھا۔چوہدری صاحب کا اصل چہرہ‘ عوام کے سامنے بے نقاب ہو گیا۔ یہ بھی اپنے دور کی واحد مثال ہے کہ ایک عام شہری نے سپریم کورٹ کے بدمست جج کی من مانیوں کے سامنے سرجھکانے سے انکار کر دیا‘ جو صدر اور جنرلوں کو اپنی مرضی سے چلاتا آ رہا تھا۔
جج صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد ‘بہت کوشش کی کہ نوازشریف انہیں سیاست میں داخلے کا موقع فراہم کر دیں۔ ان کی ہوس کار نظریں ‘ملک کے اعلیٰ ترین مناصب میں سے کسی ایک پر جمی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ نوازشریف انہیں اپنی پسند کا منصب عطا فرمائیں گے‘ لیکن ایسی کوئی پیشکش نہ ہوئی۔ آخرکار انتظار کرتے کرتے وہ بیزار ہو گئے اور وزیراعظم کو یہ درخواست پہنچائی کہ وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ موصوف کا خیال تھا کہ نوازشریف انہیںعزت و احترام کے ساتھ ‘ دھوم دھام سے اپنی پارٹی میں شامل کریں گے اور ہو سکتا ہے ایک باقاعدہ پریس کانفرنس میں اس کا اعلان کیا جائے۔ ادھر سے کوئی جواب ہی نہیں ملا۔ اپنی دانست میں بھرپور عوامی مقبولیت رکھنے والے افتخار چوہدری اس امید میں تھے کہ وہ مسلم لیگ میں آ کر سیاسی منظر پر چھا جائیں گے‘ مگر ان کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی اور مایوسی کی حالت میں انہوں نے اپنی پارٹی قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ انہیں اپنے جس سیاسی شعور پرناز تھا‘ وہ اسی وقت تک کام آیا‘ جب تک چیف جسٹس کی طاقت افتخار چوہدری کے پاس تھی‘ جیسے ہی وہ اس عہدے سے ریٹائر ہوئے‘ سارے ٹھاٹ باٹ ختم ہو گئے‘ رعب اور دبدبہ ہوا میں اڑ گیا اور اب وہ اپنے لئے مراعات مانگنے والے ایک عام ریٹائرڈ سرکاری نوکر کی طرح ‘دست سوال دراز کرتے نظر آئے۔ ''مجھے کار دے دو۔ وہ کار بلٹ پروف ہو۔ مجھے 18گارڈز دے دو۔ مجھے اعزازی ٹیلیفون لائنز دی جائیں۔ ‘‘اللہ جانے سرکاری خرچ پر وہ کیا کچھ حاصل کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں؟ اور ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کے چیمپئن‘ افتخار چوہدری خود سرکاری مراعات حاصل کرتے ہوئے‘ میدان سیاست میں اتر آئے ہیں۔ سیاستدانوں نے ان کا معنی خیز انداز میں خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا ''اب انہیں معلوم ہو گا کہ سیاست کیا ہوتی ہے؟‘‘ سیاست یہ ہوتی ہے ۔ اب حکومت سے مطالبہ کیا جائے گا کہ'' ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم کو‘ جوحکومتی مراعات سے استفادہ کر رہا ہو‘ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔جج صاحب پہلے بلٹ پروف کار اور 18گارڈزکی سہولتوں سے دستبردار ہوں‘ اس کے بعد آگے سیاست کے مزے اڑائیں۔‘‘ یقینا وہ اس خیال میں ہوں گے کہ انہوں نے ن لیگ کی جتنی خدمات انجام دی ہیں‘ ان کے صلے میں نوازشریف‘ انہیں اپنے بعد اعلیٰ ترین سیاسی عہدہ پیش کریں گے۔ دیکھیں اب عدالتی طاقت اور کروفر سے محروم ہونے کے بعد ‘ان کے پاس کتنی عزت رہ گئی ہے؟ کچھ بچا بھی ہے یا انہیں راہ گیروں کو ترچھی نظروں سے دیکھتے ہوئے سلام کرنے والوں کی تلاش رہا کرے گی؟