(دوسری قسط)
پاکستانی حکمرانوں نے اندرون اور بیرون ملک اتنی زیادہ دشمنیاں پال رکھی ہیں کہ وہ اپنی جگہ غالباً مطمئن ہو چکے ہیں کہ اب پاکستان کے مفادات کو تحفظ دینے والی قوتیں کمزور پڑ چکی ہیں۔ وہ آسانی سے قومی خزانے کو بھی لوٹ سکیں گے اور ہر عوامی مزاحمت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب انہوں نے بے فکری سے لوٹ مار شروع کر دی تھی۔ کھلم کھلا مال بٹورا جاتا۔ جو کچھ ملک میں لوٹا جاتا‘ اسے منی لانڈرنگ کے ذریعے ‘بغیر کسی پردے اور جھجک کے بیرون ملک منتقل کیا جا رہا تھا۔ نقدی سے بھری ہوئی لانچ‘ دبئی جاتے ہوئے سمندر میں ڈوبنے کی اطلاع تو آپ نے بھی سنی ہو گی۔ روایت کے مطابق اس لانچ میں اربوں روپے کی پاکستانی کرنسی تھی۔ یہ دیدہ دلیریاں ‘اس وجہ سے تھیں کہ سابق حکمران ٹولے کو یقین ہو چکا تھا کہ اب پاکستانی ریاست کی مزاحمتی طاقتیں اور اسے تحفظ دینے والے سارے ادارے منقسم ہو چکے ہیں۔ ملک و قوم کے مفادات کو تحفظ دینے کے لئے قومی یکجہتی کے ‘دور دور تک آثار نہیں پائے جاتے اور لٹیروں کی مخالفت میں عوامی رائے کو غیرموثر کرنے میں بھی انہیں کوئی مشکل درپیش نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ عوامی خزانے کی لوٹ مار کرنے والے ‘خم ٹھونک کر جرائم میں ملوث تھے۔ ان کے سامنے پاکستان ایک بیمار مریض کی طرح تھا۔ جس کی جیب کے اندر ہاتھ ڈال کر بھی ‘اس کا پیسہ نکالا جا سکتا تھا اور ایسا ہی کیا جا رہا تھا۔ دہشت گردوں کے خفیہ مراکز اتنے طاقتور ہو چکے تھے کہ بڑے سے بڑے عوامی یا سرکاری عہدے پر فائز کوئی شخص اگر لوٹ مار کے اس سلسلے کو روکنے کی کوشش کرتا‘ تو اسے بری طرح گھیر کے بے بس کر دیا جاتا اور ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ جن بااثر لوگوں نے اس لوٹ مار کو روکنے کی کوشش کی‘ انہیں قتل اور دھمکیوں کے ذریعے راستے سے ہٹا دیا جاتا۔
جب گزشتہ سال پاک فوج نے اس کھلی لوٹ مار کے مناظر دیکھے‘ تو اسے پتہ چلا کہ یہ سلسلہ سب سے زیادہ کراچی میں چل رہا ہے۔ چنانچہ فوج نے صوبائی حکومت پر دبائو ڈالا کہ وہ کراچی میں لاقانونیت پر قابو پانے کے لئے ‘فوج کی مدد سے آپریشن کرے۔ حکومت ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی۔ مختلف فوجی اور غیر فوجی اداروں کی طرف سے کرپشن کو روکنے کے لئے جو بھی دبائو آیا‘ حکومت اسے بے اثر بنا کے رکھ دیتی۔
پاکستان کی دفاعی طاقت کو ‘دہشت گردوں کے سامنے بے بس بنا کر‘ رکھ دیا گیا تھا اور عوام میں یہ تاثر پیدا ہونے لگا تھا کہ اب تو ‘فوج بھی چاہے تو لوٹ مار کا یہ نظام ختم نہیں کر سکتی۔ کراچی میں ابتدائی مراحل پر رینجرز کو جتنی ناکامیاں ہوئیں‘ انہیں دیکھ کر عوام کے حوصلے مزید پست ہو گئے اور ابھی تک حالت یہ ہے کہ رینجرز‘ جسے اب باضابطہ قانونی طور سے جرائم پر قابو پانے کے لئے مامور کیا گیا ہے‘ وہ بھی ابھی تک کسی بڑی کارروائی میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ واقعات اتنے زیادہ ہیں کہ اخبار کا ایک عام قاری بھی فوری طور پر نمایاں مثالیں یاد کر سکتا ہے۔ خصوصاً ایم کیو ایم کے جرائم پیشہ عناصر ‘جن سے خود الطاف حسین نے لاتعلقی کا اعلان کر رکھا ہے‘ ان پر بھی جب ہاتھ پڑتا ہے‘ تو ایم کیو ایم کا نام استعمال کر کے‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہراساں کر دیا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت بڑی احتیاط سے اس صورتحال کا سامنا کر رہی ہے۔ کراچی آپریشن کو بہت سوچ سمجھ کر آگے بڑھایا جا رہا ہے تاکہ کوئی ہنگامی ردعمل پیدا نہ ہو۔ الطاف بھائی کو سوچنا ہو گا کہ یہ سلسلہ کب تک چل سکے گا؟ ان کے سامنے تمام راستے کھلے ہیں۔ وہ ایم کیو ایم کو ایک سیاسی طاقت کی حیثیت میں زیادہ موثر بنا سکتے ہیں ۔ سندھ کے شہری حلقوں میں منظم ووٹ کی سب سے بڑی طاقت ایم کیو ایم کے پاس ہے۔ وہ چاہیں‘ تو اس طاقت کو
مثبت کارروائیوں کے لئے استعمال کرنے کی راہ پر یکسوئی سے گامزن ہوسکتے ہیں۔ اس صورت میں نہ صرف انہیں فوج کی بھرپور مدد ملے گی بلکہ عوام بھی بغیر بلائے‘ بھرپور تعاون کے لئے میدان میں اتر آئیں گے۔ سچی بات ہے‘ الطاف بھائی کو کافی دنوں سے اپنی دیرینہ مقبولیت برقرار رکھنے کے لئے‘ مختلف جتن کرنا پڑ رہے ہیں۔ جن میں سے رابطہ کمیٹی کی بار بار توڑ پھوڑ ‘ استعفے کی دھمکیاںاور بعض اوقات فوج اور ریاستی اداروں کو دھمکانا۔ ظاہر ہے‘ یہ نارمل باتیں نہیں ہیں۔ اس طرح کے ہنگامی فیصلے‘ جھلاہٹ کے عالم میں کرنا پڑتے ہیں۔ اگر الطاف بھائی‘ ایم کیو ایم کی سیاسی طاقت کو بروئے کار لا کرعوامی مسائل حل کرنے کی راہ پر چل نکلیں‘ تو ریاستی ادارے کے نیک نیت عناصر ‘ان کے مددگار بن جائیں گے اور جو کام سیاسی حکومت کی بناوٹی پالیسیوں اور رینجرز کی طاقت سے ‘ابھی تک پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچائے جا سکے‘ الطاف بھائی کی سیاسی قوت میسر آتے ہی ‘دیکھتے ہی دیکھتے ‘کراچی میں وقت بدلنا شروع ہو جائے گا۔ نہ جانے مجھے ابھی تک اس بات پر ‘کیوںیقین نہیں آ رہا کہ ایم کیو ایم کے ساتھ محاذآرائی کر کے‘ سندھ کے حالات معمول پر نہیں لائے جا سکتے۔ اس کا سیاسی راستہ نکالنا ہو گا۔اب فوج بھی کرپشن کا مرض ختم کرنے کا پختہ عزم کر چکی ہے ۔ بیورو کریسی اور حکومت کے جو بڑے بڑے طاقتور افراد‘کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں‘ ان کے حوصلے جلد جواب دینے لگیں گے۔ مگر جب تک ایم کیو ایم کا حتمی کردار نتیجہ خیز نہیں ہوتا‘ کراچی میں امن کا خواب پورا کرنا مشکل ہو گا۔ ایم کیو ایم کے ساتھ محاذ آرائی کسی کے لئے بھی سازگار نہیں۔ اس کا نتیجہ ہر صورت میں تباہی کا تسلسل ہے۔
ایک بنیادی تبدیلی جو پاکستان کے اندر رونما ہو چکی ہے‘ اس کا صحیح اندازہ امریکہ اور بھارت کو ہے۔ چین پاکستان کی اقتصادی ترقی میں حصے دار یا سٹیک ہولڈر بن کے‘ اب پاکستان دشمن قوتوں سے مقابلہ کرنے میں ‘عملی طور پر ہمارا مددگار بن چکا ہے۔ چین نے اقتصادی کوریڈور کے انفراسٹرکچر کی تعمیر کا عمل شروع کر دیا ہے اور 45ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ابتدا ہو چکی ہے۔ ملکوں کے تعلقات ‘ہر حالت میں اقتصادی ہوتے ہیں۔ امریکہ جب ہمیں فوجی معاہدوں میں اپنا ساتھی بنا کر امداد کے نام پر قرضے دیا کرتا تھا‘ وہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف تھا۔ یہ قرضے درحقیقت ‘ہمارے ملک کے اندر مغربی سرمایہ داروں کی لوٹ مار کو تحفظ اور توسیع دینے کی خاطر کام آیا کرتے تھے۔ جتنی ملٹی نیشنل کمپنیاں ‘پاکستان میں عوام کو براہ راست لوٹنے میں مصروف ہیں‘ انہیں اپنے اپنے ملکوں کی بھرپور مدد حاصل ہے۔ جہاں پاکستان کی بیوروکریسی‘ ان کمپنیوں کی مرضی کے مطابق ہماری داخلی پالیسیوں میں ردوبدل نہیں کرتی‘ سرمایہ دار حکومتوں کا دبائو پاکستانی پالیسی سازوں پر بڑھتا رہتا ہے۔ حد یہ ہے کہ ہمارے ہاں ٹیکس کا نظام بھی ان کی منشا سے بنایا جاتا ہے۔ پاکستان پر یہ سارا کنٹرول ‘انہی معاہدوں کی آڑ میں قائم کیا گیا‘ جنہیں ہم مشترکہ دفاع یا فوجی معاہدے کہا کرتے تھے۔ اصل میں یہ پاکستانی عوام کی اقتصادی لوٹ مار کے معاہدے تھے۔ آئی ایم ایف سے‘ جو قرضے پاکستان لے رہا ہے‘ ان کی وصولیوں کی ضمانت سرمایہ دار ملکوں نے دے رکھی ہے۔ ہماری پالیسیاں تیل اور گیس کی مغربی کمپنیوں کی لوٹ مار کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ہمارے پالیسی سازوں کو ‘اربوں روپے کے اس کھیل میں ‘چند ارب روپے کی گھوس بھی دے دی جاتی ہے ‘ جسے وہ شکریے کے ساتھ وصول کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہر بجٹ کے ساتھ جو نئے نئے اور بھاری ٹیکس عائد کر کے‘ غریب کی جیب پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے‘ وہ عالمی ساہوکاروں کی سہولت کے لئے ہوتا ہے۔میں نے چند مندرجہ بالا اشارے یہ واضح کرنے کی خاطر کئے ہیں کہ دفاعی معاہدوں اور فوجی تعاون کی فریب کاریاں محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے تھیں۔ خصوصاً فوج میں بھی یہ تاثر پھیلایا جاتا تھا کہ مغربی ممالک ‘ہمارے دوست ہیں اور وہ ہماری مدد کے لئے بہت کچھ کرتے ہیں۔ اسی کی وجہ سے فوج کو جدید ترین اسلحہ مہیا ہوتا ہے‘ جس سے ہمارے دفاع کو تقویت ملتی ہے۔ فوج اب خود بھی اپنا خون بہا کر یہ سبق سیکھ چکی ہے کہ اسے ‘مدد دینے والے درحقیقت اس کی رگوں کا خون نچوڑ رہے تھے اور مغربی امداد سے ہمارا دفاع مضبوط ہونے کے بجائے‘ کمزور سے کمزور ہوتا گیا اور اس وقت حالت یہ ہو چکی ہے کہ مودی ‘ کشمیر میں جنگ بندی لائن کی کھلی خلاف ورزیاں کر کے‘ اپنے آپ کو ہر طرح کے عالمی ردعمل سے محفوظ سمجھ رہا ہے اور یہ غلط بھی نہیں۔(جاری)