"NNC" (space) message & send to 7575

اپنے دشمن آپ

میں جب بھی کسی موضوع پر قسط وار کالم شروع کرتا ہوں‘ درمیان میں کوئی نہ کوئی ایسی بات آن پڑتی ہے کہ ایک آدھ قسط روک کر ‘ فوری موضوع پر لکھنا پڑ جاتا ہے۔ آج بھی وہی کیفیت ہے۔ کسی بھی پاکستانی سیاست دان سے بات کریں‘ تو ہر کوئی بڑی شدومد سے جمہوریت کی بالادستی کے حق میں تقریر کرنے لگتا ہے۔ ہونا بھی یہی چاہیے۔ کیونکہ جو درگت پاکستانی سیاستدانوں کی بنائی گئی ہے‘ اس کی مثال بھی دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی۔ طویل انتخابی عمل سے گزرنے کے بعد ‘ اسے حریف امیدواروں سے سخت مقابلہ کر کے ‘ اسمبلی کی سیٹ حاصل ہوتی ہے۔ جب بھی کسی فوجی سربراہ کا دل چاہتا ہے‘وہ چار سپاہی ساتھ لے کر‘ ملک کے انتظامی سربراہ کو گرفتار کر کے‘ کال کوٹھڑی میں ڈال دیتا ہے۔ نہ داد‘ نہ فریاد۔ سب سے پہلے سکندر مرزا کو نکالا گیا۔ باقی اختیارات بھی فیلڈمارشل ایوب خان نے چھین لئے۔ اس کے بعد ‘ ان کی حیثیت صرف ایک لفظ کی رہ گئی تھی کہ ''گو‘‘۔ یہی ہوا۔ ایوب خان کے بھیجے ہوئے دو تین جنرل‘ ہاتھوں میں بھرے پستول لے کر سامنے آئے اور حکم دیا کہ آپ فوری طور سے لندن جا رہے ہیں۔ منتخب صدر کو چند منٹ کا بھی وقفہ نہیں ملا۔ انہیں فوری طور سے جہاز میں بٹھا کر لندن بھیج دیا گیا۔ یہ ایک منتخب سربراہ مملکت کی پہلی برطرفی تھی۔ خود سکندر مرزا بھی ‘ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین اور دیگر متعدد وزرائے اعظم کو سازش کے ذریعے نکالنے کے ذمہ دار تھے۔ ملک کے پہلے وزیراعظم‘ لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں گولی سے شہید کرا کے اقتدار پر قبضہ جما لیا۔ان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور محمد خاں جونیجوکو‘ جنرلوں نے محض دو لفظ کہہ کر نکال باہر کیا۔ آخری سانحہ 12اکتوبر کو ہوا۔ جب ملک کے منتخب وزیراعظم کو ‘انہی کے جنرلوں نے‘ وزیراعظم ہائوس پر قبضہ کر کے گرفتار کر لیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے اذیت ناک منظر تھا۔ ملک کے وزیراعظم کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا‘ جیسا کہ مجرموں اور قاتلوں کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔ مجرموں اور قاتلوں کو تو مراعات مل جاتی ہیں۔ لیکن ہمارے وزیراعظم کو کوئی رعایت نہ ملی اور انہیں انتہائی تکلیف دہ جیل کاٹ کر جلاوطنی اختیار کرنے کو ترجیح دینا پڑی۔ 
اس تلخ تجربے کے بعد‘ پاکستانی سیاستدانوں نے عہد کر لیا کہ وہ باہمی اختلافات کی بنیاد پر کسی کو یہ حق نہیں دیں گے کہ وہ ملک کی نمائندہ حکومت اور منتخب نمائندوں کی اس حیثیت کو ختم کر دے‘ جو انہیں عوام کے ووٹوں کی بنیاد پر حاصل ہوئی ہے۔ قید اور جلاوطنی کی تکلیف دہ زندگی کے بعد اب وہ پھر ایک مرتبہ وزیراعظم بنے ہیں‘ تو غیر معمولی احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ انہیں اشتعال بھی دلایا گیا۔ چیلنج بھی کیا گیا اور اقتدار سے باہر کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ لیکن خلاف توقع انہوں نے اپنے مزاج اور فطری رحجانات پر قابو پاتے ہوئے‘ اس بات کا ثبوت فراہم کیا کہ وہ تلخ تجربات سے گزرنے کے بعد ‘ عوامی نمائندگی کے حق سے کسی کو محروم نہیں کریں گے۔ وہ ہر مسئلے سے صلح صفائی اور بات چیت کے ذریعے نمٹ رہے ہیں اور یہی جمہوری طریقہ کار ہوتا ہے۔ منتخب ایوان کا ہر رکن‘ عوامی نمائندے کی حیثیت میں قابل احترام تصور کیا جاتا ہے اور وزیراعظم نوازشریف تو انتہائی تکلیف دہ حالات سے گزرنے کے بعد‘ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ عوامی نمائندگی کا حق رکھنے والا کوئی بھی رکن اسمبلی‘ یکساں عزت و احترام کا مستحق ہوتاہے۔ لیکن ان دنوں حالات نے وزیراعظم کو ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ ایک طرف تو انہیں عوامی نمائندے کی حیثیت اور احترام کا خیال ہے۔ جبکہ وہ حریفوں کے حملوں کا سامنا بھی کرتے ہیں۔ ابھی تک ان پر آزمائشوں کے جو دو تین مواقع آئے ہیں‘ انہوں نے اپنا سکون اور ایک مدبر کا باوقار انداز برقرار رکھا۔
پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ان کے بہت سے ساتھی‘ ان دنوں بڑے جوش و خروش میں ہیں۔ ان کا بس نہیں چل رہا کہ تحریک انصاف کے منتخب اراکین اسمبلی کوبے توقیر کر کے ایوانوں سے نکالیں اور ہو سکے تو انہیں سڑکوں پر گھسیٹیں۔ تحریک انصاف سے اگر کسی کو شکایت ہو سکتی ہے‘ تو وہ صرف وزیراعظم ہیں۔ وہ صبروتحمل سے کام لے رہے ہیں۔ جبکہ چھوٹی چھوٹی چھوٹی جماعتوں کے دولیڈر‘ آپے سے باہر ہو کر‘ تحریک انصاف والوں کو دانتوں سے نوچنے کے لئے بے تاب ہیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ مولانا فصل الرحمن کا بس چلے‘ تو تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کو‘ ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیں اور الطاف بھائی کا بس چلے‘ تو شاید وہ انہیں ایوان سے نکالتے ہی نائن زیرو پر لے جا کر قید کر دیں۔ اگر کہیںکوئی ٹارچل سیل باقی ہے‘ تو شاید اس سے بھی کام لے لیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ مذکورہ لیڈر‘ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے منتخب اراکین کے خون کے اتنے پیاسے کیوں ہیں؟ مولانا فضل الرحمن کا غصہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ انہیں اتنے بھی ووٹ نہیں ملے کہ وہ اپنے صوبے میں حکومت بنا سکیں۔ ان کا یہ غصہ موجودہ اسمبلیوں کے اختتام تک بڑھتا ہی رہے گا۔ ان کی تسلی صرف ایک صورت میں ہو سکتی ہے کہ تحریک انصاف کے تمام اراکین کو ایوانوں سے نکال کر‘ سڑک پر پھینک دیں۔ سوال یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر سیاست کرنے والے یہ حضرات‘ اس غیرمعمولی عدم برداشت کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں؟ ایک منتخب رکن پارلیمنٹ ہونے کی حیثیت میں تحریک انصاف والے بھی اسی عزت و وقار کے مستحق ہیں ‘جو کسی دوسری جماعت سے تعلق رکھنے والے ممبر کو ملتا ہے۔ دنیا میں شاید ہی کہیں اپنے منتخب ساتھیوں کو‘ انہی کے ہم نشین اتنے توہین آمیز اور گھٹیا سلوک کا سزاوار سمجھتے ہوں۔ تحریک انصاف کے مخالف اراکین اسمبلی کے غم و غصے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ ہر حال میں انہیں اسمبلیوں سے نکلوا کر دم لیں گے اور اگر سپیکر صاحب نے کچھ نہ کیا‘ تو الطاف بھائی اور مولانا‘ دونوں مل کر عمران خان کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے‘ ان کے ساتھیوں کو دھکے دے کر ایوانوں سے نکالیں گے۔ مولانا کی خواہش تو ہو گی کہ یہ کار خیر انجام دینے کا سہرا صرف انہی کے سر بندھے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ ان کے ممبروں کی تعداد کم ہے اور تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد‘ مولانا کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ شاید اسی لئے وہ ‘ الطاف بھائی سے مدد مانگ رہے ہیں۔ جس تیزرفتاری اور بے صبری سے مولانا اور بھائی ‘ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کو باہر دھکیلنے پر تلے ہیں‘ اس سے تو لگتا ہے کہ عمران خان نے نوازشریف کو نہیں‘ ان دونوں کو تکلیف پہنچائی ہے۔ حالانکہ ان میں نہ کوئی وزیراعظم ہے‘ نہ کوئی وزیر اور نہ مشیر۔ پھر یہ اچھل اچھل کے‘ تحریک انصاف والوں کی گردنیں پکڑنے پر کیوں مچل رہے ہیں؟ 
پارلیمنٹ کو ساورن کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ پارلیمنٹ ازخود کوئی ساورن چیز ہے۔ عام انتخابات میں عوامی ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہونے والا ہر منتخب نمائندہ اپنی جگہ ساورن ہوتا ہے۔ نہ تو اسے کوئی حکومت منصب جلیلہ عطا فرماتی ہے اور نہ کوئی لیڈر۔ عوام کی رائے سے اسمبلیوں میں جانے والے یہ افراد ‘ درحقیقت عوام ہی کی ساورنٹی کے امین ہوتے ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی ساورنٹیز مل کر ہی ایک بڑی ساورنٹی کو تشکیل دیتی ہیں۔ اسی کو جمہوریت کہتے ہیں اور ساورنٹی وہ چیز ہے‘ جسے کوئی دوسرا فرد کسی بھی حالت میں نہیں چھین سکتا اور نہ ہی اسے ختم کیا جا سکتا ہے۔ جو منتخب نمائندے ‘ ملک کے ایک ایک ووٹر سے مینڈیٹ لے کر‘ منتخب ایوان میں آتے ہیں‘ ان سب کی ساورنٹی ‘ ایوان کا حصہ بن کر‘ اس کی طاقت میں شامل ہو جاتی ہے۔ تحریک انصاف کے مخالفین جتنا زور چاہیں لگا لیں‘ ہائوس کی ساورنٹی کا جو حصہ عوامی ووٹوں کے ذریعے گزشتہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کو ملا ہے‘ وہ پورے ایوان کی مشترکہ ذمہ داری بن جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کا ایک رکن یا ایک سے زیادہ اراکین‘ پورے ایوان کو ساتھ ملا کر بھی‘ تحریک انصاف کے ایک منتخب نمائندے کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ہر منتخب رکن اسمبلی‘ اپنے ایوان کی ساورنٹی کا امین ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ منتخب رکن ‘ دیگر منتخب اراکین کی ساورنٹی کے ساتھ مل کر پورے ہائوس کو تشکیل دیتے ہیں اور پھر یہ مشترکہ طور پر پارلیمنٹ کی ساورنٹی بنتی ہے۔ جسے کوئی نہیں چھین سکتا۔ یہ تحریک انصاف کے خلاف ‘ٹکریں مارمار مار کے ہلکان ہونے کا وقت نہیں۔اس پارلیمنٹ کی توقیر کا سوال ہے‘ جو تمام اراکین کے مشترکہ عزت و وقار کی علامت ہے۔ اگر ہم ‘فوجیوں کو پارلیمنٹ توڑنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں‘ تو خود ہائوس کے چند اراکین کو یہ حق کہاں سے مل گیا کہ وہ پارلیمنٹ کے ایک حصے کو کاٹ کر باہر پھینک دیں؟ اگر پارلیمنٹ کو یوں ٹکڑے ٹکڑے کر کے‘ پھینکنا جائز ہے‘ تو پھر پوری پارلیمنٹ کو اٹھا کرباہر پھینکنا کیسے غلط کہلائے گا؟آج اگر کچھ اراکین یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کل وہ پارلیمنٹ کے ایک ٹکڑے کو کاٹ کر باہر پھینک دیں گے‘ تو پتہ نہیں پھر کس کس کا ہاتھ پارلیمنٹ کے دامن کی طرف بڑھنے لگے گا؟ ابھی تک اپنے ساتھیوں کو ایوان سے نکال پھینکنے کے لئے سرگرم پارٹیوں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ امید رکھنا چاہیے کہ جو فیصلہ بھی ہو گا‘ اس سے پارلیمنٹ کی ساورنٹی کو تحفظ ملے گا۔ جس پارلیمنٹ کی وجہ سے ‘ موجودہ منتخب اراکین کا وجود ہے‘ اس کا ایک ایک ٹکڑا کاٹ کر پھینک دینے کا اختیار کسی فرد یا گروہ کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ مناسب یہی ہو گا کہ پارلیمنٹ قائم رہے اور پوری کی پوری قائم رہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں