یہ چھوٹی چھوٹی ہزیمتیں ‘جن کا سامنا عمران خان کو کرنا پڑ رہا ہے‘ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ سیاست میں ایسے امتحانات آتے ہی رہتے ہیں۔ چند سیٹیں کم زیادہ ہونے سے کسی بھی عوامی سیاستدان کو فرق نہیں پڑتا۔ اہمیت اس لہر کو حاصل ہے‘ جو عوام پر مسلط کردہ جبر کے نظام سے بغاوت کا اظہار کر رہی ہے۔ جن چھوٹی چھوٹی ٹھوکروں کو عمران خان کی شکست قرار دے کر‘ حکمران ٹولے نعرے بازیاں کر رہے ہیں‘ انہیں خاطر میں لانا بھی تضیع اوقات ہے۔ اقتدار پر قابض ٹولہ انہی چھوٹے چھوٹے واقعات کو اپنی طاقت کی نشانی تصور کرتا ہے اور چھوٹے چھوٹے معرکوں میں اپنے آپ کو کامیاب قرار دے کر سمجھ رہا ہے کہ اس نے عمران خان کو پسپائی سے دوچار کر دیا۔ یہ لوگ اس لائق ہی نہیں کہ عمران انہیں سیاست میں حریف سمجھیں۔ جو سیاست وہ کر رہے ہیں‘ وہ کاروباری حیلہ سازیاں‘ فریب کاریاں‘ حتیٰ کہ ایک دکاندار کی طرح روزسودا بیچ کر بِکری اٹھانے سے زیادہ کچھ نہیں۔ عمران نے جس راستے پر قدم رکھا ہے‘ وہ تبدیلی کا راستہ ہے۔ حکمران اس راستے کے مسافر ہی نہیں۔ وہ بیرون ملک تجارتی ڈیڈز میں اپنا مستقبل تلاش کرتے ہیں۔ ناجائز دولت کے ذریعوں کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر انحصار کر کے‘ یہ تصور کر لیتے ہیں کہ اقتدار پر ان کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ عمران خان خود اس کا تجربہ کر چکے ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا‘ جب حکمران سب اچھا کی تکرار کرتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے مالِ غنیمت لوٹ رہے تھے‘ اور عوامی طاقتوں پر اپنی گرفت مضبوط سمجھ کر من مانیاں کر رہے تھے‘ لیکن جیسے ہی چند دھرنے معرض وجود میں آئے‘ حکمران فاتحین کی حالت دیدنی تھی۔ دھرنوں کی طاقت کا اظہار صرف اسلام آباد میں ہو رہا تھا۔ یہ مہم اور کسی شہر میں نہیں تھی۔ اس کے باوجود اسلام آباد کا ایک چھوٹا سا یومیہ جلسہ اس حکومت کے لئے خوف کی علامت بن گیا۔ حکومتی سربراہ روزانہ دھرنوں پر کان لگا کر بیٹھ جاتے اور ان کی رات اسی پیچ و تاب میں گزرتی کہ اگر دھرنا کامیاب ہو گیا‘ تو کیا ہو گا؟ حالانکہ کچھ بھی نہیں ہو رہا تھا۔ عوام صرف لوٹ کھسوٹ کے رائج الوقت طریقوں کے خلاف بغاوت کا اظہار کر رہے تھے۔ یہ صرف ''اظہار‘‘ تھا۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں‘ لیکن جھوٹ اور کرپشن کے بل بوتے پر چلنے والی حکومت میں کبھی اعتماد نہیں ہوتا۔ اسے ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اس کا وجود کسی بھی وقت خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح جوڑتوڑ‘ سازش اور فریب کاری کے ذریعے ایسی حکومتیں قائم ہوتی ہیں‘ انہیں کبھی دوام نہیں مل سکتا‘ کیونکہ عوام کے دل ایسی حکومتوں کے ساتھ نہیں ہوتے۔ یہ بات حکمرانوں کو بھی معلوم ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ جس بے رحمی اور ڈھٹائی کے ساتھ کرپشن کر کے‘ دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہے ہیں‘ کسی بھی طرح عوام کی حمایت حاصل نہیں کر سکتے۔ جبر اور مجبوری کا نام وفا نہیں ہوتا۔ عوام صرف وقت گزاری کرتے ہیں اور اس انتظار میں رہتے ہیں‘ جب تک وہ لوٹ مار کرنے والے حکمرانوں کے شکنجے سے نکلنے کی طاقت مہیا نہیں کر لیتے۔ایک لمحے میں وہ عمران خان پر طنز کے تیر چلاتے ہیں اور دوسرے لمحے اپنے بچائو کے لئے سہارے کہاںڈھونڈتے ہیں؟ ڈیڑھ شہر کی پارٹی کے پاس؟ بنیادی طور پر قومی اسمبلی کی ایک درجن سے بھی کم نشستوں والی پارٹی کے پاس؟ 342کے ایوان میں دو اڑھائی درجن تنکوں کا سہارا کس کام آ سکتا ہے؟ اسی سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس حکومت کی پائیداری کا انحصار کس چیز پر ہے۔ جن دو پارٹیوں کی طرف سے موجودہ حکومت اپنی بقا کے لئے سہارے کی امید سے دیکھ رہی ہے‘ وہ تو سرحد اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کا بھی کچھ بگاڑنے کے لائق نہیں۔ اس طرح کے انتظامات سے چلنے والی حکومتوں کا حال اندر سے کیا ہوتا ہے؟ اسے دیکھ کر ہی ہنسی آتی ہے۔ یہ جو دوچار لیڈر اور ایک چادر بردار مداری‘ موقع بہ موقع سینے پر ہاتھ مار کر
موجودہ حکومت کی حمایت اور ساتھ دینے کا وعدہ کرتے ہیں‘ ان کی اپنی طاقت کیا ہے؟ کسی بھی حکومت کی طاقت کو دیکھنا ہو‘ تو ان ستونوں کی طرف دیکھنا چاہیے‘ جن کے سہارے وہ کھڑی ہوتی ہے۔ میں نے معمولی سے اشارے کر کے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ جن سہاروں پر یہ حکومت کھڑی ہے‘ وہ نہ مضبوط ہیں‘ نہ پائیدار اور نہ قابل اعتماد۔ جس پیپلزپارٹی نے پورے بحران میں اس حکومت کو بچایا ہے‘ وہ تو خود موجودہ حکومت کی حریف ہے۔ ان میں اعتماد کا وہ رشتہ ہرگز موجود نہیں‘ جس پر بھروسہ کیا جا سکے۔ یہ حکومت اتفاقات اور حادثات پر چل رہی ہے۔ یہ آج بھی عمران کے چند دھرنوں کی مار ہے۔ عمران کے خلاف اس حکومت کا قہر وغضب اور غم و غصہ پرِکاہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔ جو میڈیا اس حکومت کی طاقت اور مضبوطی سے عمران خان کو ہراساں کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ اسے یہی معلوم نہیں کہ چھوٹے چھوٹے واقعات پر بڑے بڑے نعرے ‘ حکومت کی طاقت اور مضبوطی کی علامت نہیں‘ خوف دور کرنے کی آسان کوششیں ہیں۔ جس طرح سناٹے اور ویرانی سے گھبرایا ہوا اکیلا شخص‘ شور مچا کر اپنے آپ کو سہارا دیتا اور ڈر سے نجات حاصل کرتا ہے‘ وہی حالت اس حکومت کی بھی ہے۔ اس کے کھوکھلے حواری شور مچا کے یہ سمجھتے ہیں کہ ان حرکتوں سے عمران خان گھبرا جائے گا‘ تو وہ غلط فہمی میں ہیں۔ عمران خان اپنی دھن میں ‘ اپنے راستے پر اطمینان سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اس کے حریفوں کے پاس اعتماد کی وہ طاقت ہی نہیں‘ جو سیاست کے میدان میں کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔ عمران خان کو اگر احتیاط کی ضرورت ہے‘ تو وہ موجودہ حکمران ٹولے سے کسی خطرے کے باعث نہیں بلکہ انہیں چاہیے کہ اپنے گھر پہ توجہ دیں۔ میں سیاسی جماعتوں کے
اندرونی معاملات کو اہمیت نہیں دیتا‘ کیونکہ جو کچھ باہر آتا ہے‘ اسی سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ اندر کی حالت کیا ہے؟ اس معاملے میں عمران کو دیکھ کر دھوکا بھی ہوتا ہے۔ اس کا ذاتی اعتماد اور کامیابی کا یقین دیکھ کر کسی کو پتہ نہیں چل سکتا کہ عمران کی پارٹی میں لوگوں کے اعتماد کی کیا حالت ہے‘ لیکن جو روایتی میٹریل ان کے پاس ہے‘ وہ موجودہ حالات میں کبھی مطمئن اور پُراعتماد نہیں ہو سکتا۔ ان کے ساتھیوں کی اکثریت ڈرتی اور ٹھٹھکتی رہے گی۔شاہ محمود قریشی جیسے روایتی گروہ سے آپ طویل اور صبرآزما جدوجہد کی توقع نہیں رکھ سکتے۔ عمران کے پاس جو اصل طاقت ہے‘ وہ ان کی ایمانداری اور اچھی ساکھ رکھنے والے ساتھیوں کی وجہ سے ہے۔ چوہدری سرور ایمانداری اور مخلصانہ جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ جہانگیرترین روایتی سیاست میں تو رہے ہیں‘ لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھی آزمائشوں پر پورا اترنے کی کوشش کریں گے‘ جبکہ اسحق خاکوانی سیاسی میدان کی آزمائی ہوئی شخصیت ہیں۔ وہ اونچ نیچ سے گھبرانے والے نہیں۔ ایسے ہی لوگ پارٹیوں کی طاقت ہوتے ہیں۔ عوام کو بھی عمران خان کے ساتھ ہجوم کی ضرورت نہیں۔ ایسا ہجوم ہر تماشا کرنے والے کے ساتھ لگ جاتا ہے۔ ٹھوس کام کرنے والوں کو تماشا لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اطمینان سے عوام کے اندر کام کرتے ہیں اور ٹھوس نتائج حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ٹھوس نتیجہ یہ ہے کہ حریفوں کے شور سے زیادہ تیزی کے ساتھ ان کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام موجودہ حکمرانوں سے اس قدر تنگ ہیں کہ عمران کو ان کے خلاف کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ صرف اپنا تنبو لگا کر بیٹھے رہیں۔ ان کے حامی جوق در جوق ان کے ساتھ آئیں گے اور جب بھی انتخابی معرکہ برپا ہوا‘ عمران کا راستہ کوئی نہیں روک پائے گا۔ گزشتہ کالموں کے دوران مجھے متعدد قارئین کے خطوط ملے۔ ہر کوئی جوڑتوڑ کرنے والے خوفزدہ سیاستدانوں کا تمسخر اڑا رہا ہے۔ ایک قاری نے تو حسین شہید سہروردی کی مثال بھی دی‘ جو پاکستان کے انتہائی طاقتور سیاستدان تھے۔ مغربی پاکستان کے بونے‘ ان کے خلاف جو سازشیں کرتے رہے ہیں‘ ان میں سے ایک بیہودہ کوشش وہ بھی تھی‘ جو آج کل کی جا رہی ہے۔ انہیں بھی مارچ 1949ء میں قومی اسمبلی کی نشست سے ایک قرارداد کے ذریعے محروم کیا گیا۔ ایوان میں ایک ہنگامے کے دوران شور مچا دیا گیا کہ سہروردی کو ایوان میں ایک قرارداد کے ذریعے ڈی سیٹ کر دیا گیا ہے‘ لیکن محققین نے جب ریکارڈ دیکھا‘ تو وہاں کچھ بھی موجود نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے‘ شورشرابے سے قرارداد منظور کرا کے پاکستان کے اس عظیم لیڈر کو نشست سے محروم کر دیا گیا ہو لیکن بعد میں بارِندامت سے بچنے کے لئے ریکارڈ سے غائب کر دیا گیا ہو۔ جو لوگ ان دنوں یہی گندا کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ وہ بھی آخر میں اپنے اس کالے کارنامے پر‘ اپنا منہ اور اسمبلی کا ریکارڈ چھپاتے پھریں گے۔ عوام کے کسی مقبول لیڈر کوقراردادوں کے ذریعے منظر سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔ تاریخ کے فیصلے درودیوار پر لکھے ہوتے ہیں اور عمران کے بارے میں تاریخ کا فیصلہ ہر زاویئے سے نظر آ رہا ہے۔