"NNC" (space) message & send to 7575

سفاکی میں دل کہاں؟

امریکہ‘ برطانیہ‘ چین‘ ہانگ کانگ‘ عرب ممالک اور نہ جانے کہاں کہاں سے مجھے مسلسل ٹیلیفون موصول ہو رہے ہیں ‘ جن میں ہر پاکستانی تازہ ترین جنسی سکینڈل کے بارے میںگہرے دکھ کا اظہار کر رہا تھا۔ اس بار فون کرنے والے افریقہ اور آسٹریلیا سے بھی تھے۔ شکاگو سے عامر صاحب نے تو تھوڑی دیر میں دو ٹیلیفون کر ڈالے۔ ان کا اصرار تھا کہ ان سیاستدانوں اور صحافیوں پر تنقید کرتے ہوئے ان سے یہ پوچھوںکہ اگر ان کی اپنی اولاد کے ساتھ یہی کچھ ہواہوتا اور وہ اپنا دکھ بیان کرتے اور سننے والے ‘ مجرموں کو بچانے کے لئے حالات کی من گھڑت تشریحات کرتے اور ان کے دکھوں کا مذاق اڑاتے‘ تو ان کے دلوں پر کیا گزرتی؟ عامر نے کہا ''میں یہاں امریکہ میں بیٹھا ہوں۔ میرے بچے اللہ کے فضل و کرم سے محفوظ ہیں۔ لیکن میں ان پاکستانی بچوں کا درد اسی طرح محسوس کر رہا ہوں‘ جیسے جنسی دہشت گردوں کا ہدف بننے والے بچوں کے والدین محسوس کر رہے ہیں۔‘‘ ان کے شدید اصرار پر میں نے کہا کہ اگر میں اپنے اخبار میں آپ کے جذبات کی ترجمانی کر دوں گا‘ تو پھر مجھے نوکری سے نکلنا پڑے گا۔ عامر صاحب اتنے جذباتی ہو رہے تھے کہ انہوں نے بار بار مجھے یقین دہانی کرائی کہ آپ ایک مرتبہ لکھ کے مظلوموں کا قرض اتار دیں۔ باقی رہ گئی نوکری کی بات‘ تو جتنی تنخواہ آپ لیتے ہیں‘ اس سے دوگنا تنخواہ آپ ہمیشہ مجھ سے لیتے رہیں۔ یہ ہے وہ شدت جذبات جس کا اظہار پاکستان میں ہی نہیں‘ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی بھی کر رہے ہیں۔ کال کرنے والے بہت سے حضرات و خواتین کم و بیش ایک ہی بات کر رہے تھے کہ ہم اس ملک میں رہ کر ‘ اپنے پاکستانی بہن بھائیوں کے سامنے آنکھ اٹھا کے بات نہیں کر پا رہے۔ ہماری آنکھیں جھکی ہیںاور ہمارے پاس کہنے کو الفاظ نہیں۔ مجھے اس صورتحال کا اندازہ تھا۔ اسی لئے میں بار بار اصرار کر رہا تھا کہ اس سانحے پر پردہ ڈالنے کی روایتی کوششیںکرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ ایسی لایعنی کوشش سے فائدہ تو کچھ نہیں ہو گا‘ البتہ ہماری مزید تذلیل ہو جائے گی۔ 
میں جانتا تھا کہ اتنا بڑا سکینڈل‘ دنیا کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو سکتا۔ ہمارے جتنے لوگ بھی اس گناہ عظیم کو چھپانے کی کوشش کریں گے‘ اسی قدر ان کی ذلت اور توہینِ انسانیت کا ارتکاب ابھر کے سامنے آئے گا اور وہی ہوا۔ آج جب میں نے عالمی میڈیا پر ایک نگاہ ڈالی‘ تو اس میں اس واقعہ کی اتنی تفصیلات بلکہ جزئیات تک موجود تھیں کہ ہم پاکستانیوں نے کیا لکھا ہو گا؟ بی بی سی کا نامہ نگار اشرف جاوید‘ مجھ سے زیادہ حقیقت پسند تھا۔ اس نے مقامی انتظامیہ‘ علاقے کے منتخب اراکین اور صوبائی حکومت کی طرف سے سامنے آنے والے ردعمل پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ''میں زیادہ پُرامید نہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کے گھنائونے ترین سکینڈل میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا مل سکے یا انہیں عبرت کی مثال بنایا جا سکے۔ بدقسمتی سے میں زیادہ پُرامید نہیں ہوں۔‘‘ اشرف جاوید نے حیرت کے ساتھ کہا ''ڈی پی او ازخود اعتراف کر چکے ہیں کہ کافی سے زیادہ ثبوت موجود ہیں۔ لیکن صوبائی وزیرقانون اسے زمین کے تنازعے سے جوڑ رہے ہیں۔ حالانکہ بچوں کی فحش فلمیں تیار کرنا ایسا جرم ہے‘ جس کا تعلق خواہ کسی جھگڑے یا تنازعے سے ہو یا نہ ہو‘ اس کی سنگینی میں فرق نہیں آتا۔‘‘ بی بی سی رپورٹ کے مطابق اس واقعہ کے بارے میں نہ صرف پولیس حکام بلکہ سیاسی رہنمائوں کو بھی علم تھا اور وہ اس کو دوسرے اہم واقعات کی طرح سیاسی چالبازیوں سے حل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ بدقسمتی سے اندازہ نہیں ہو سکا کہ یہ بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات ہیں اور ان کی ویڈیوز موجود ہیں۔ انہیں نزاکت کا اندازہ ہی نہیں۔ اشرف جاوید کو یہ سکینڈل منظرعام پر لانے کے بعد دبائو کا سامنا ہے اور انہیں ایسے پیغامات موصول ہوئے ہیں جن کے بارے میں وہ یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ اس میں کچھ بڑے اور بااثر ہاتھ بھی ملوث ہیں یا نہیں؟ انہوں نے پورے یقین سے بتایا کہ ملزمان کی طرف سے پولیس کو رقوم موصول ہوتی تھیں اور مقامی نمائندے معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اشرف جاوید نے رپورٹ کیا کہ 4ہزار کے قریب لوگ احتجاج کرتے ہوئے لاہور جانا چاہتے تھے۔ پولیس انہیں روک رہی تھی۔ اس موقع پر تشدد بھی ہوا۔ پولیس نے مظاہرین پر لاٹھیاں برسائیں اور جواب میں انہوں نے پتھرائو کیا۔ نیویارک ٹائمز نے بھی اس واقعہ کی تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے اور متعدد بیرونی اخباروں نے ایک ہی واقعہ لکھا ہے کہ حوالات میں بند مبینہ ملزموںکے ایک وکیل نے قریب سے گزرتے اخبار نویسوں کو دیکھ کر باآواز بلندکہا '' ہمیں پھنسایا جا رہا ہے۔ ہمارا ان واقعات سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ڈیلی ٹیلیگراف ‘ واشنگٹن پوسٹ اور کرسچین سائنس مانیٹر کی رپورٹیں ملتی جلتی ہیں۔ کرسچین سائنس مانیٹر نے پورا جائزہ لیتے ہوئے‘ پاکستانی معاشرے کی یہ بدنما حقیقت بھی بیان کی کہ پاکستان میں بچوں کو خوفناک تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ غریب خاندان اپنے پانچ سال کے بچے کو بھی بیچ دیتے ہیں‘ جنہیں کہیں گھریلو ملازم کے طور پہ رکھا جاتا ہے۔ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اکثر حالات میں ان کے ساتھ جنسی تشدد بھی ہوتا ہے۔ قصور میں حسین والا خان گائوں میں ہونے والے جنسی تشدد کا شکار صرف لڑکے ہی نہیں لڑکیاں بھی ہیں۔ جہاں پر بچوں کے ساتھ یہ ظلم کیا جاتا تھا‘ وہاں سے غنودگی طاری کرنے والی دوائیں بھی برآمد ہوئی ہیں۔ جن کے استعمال سے بچے کے ہوش و حواس گم ہو جاتے تھے۔بظاہر وہ صحیح نظر آتا تھا لیکن وہ محسوس کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ زیادہ تر بچوں کی ویڈیو اسی حالت میں بنائی گئی۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گناہوں کے مرکز سے اکثر اوقات بچوں کی دردناک چیخیں بھی سنائی دیا کرتیں۔ بعض رپورٹوں میں لاہور اور کراچی کے پرانے واقعات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے‘ جن میں گھروں میں ملازمت کرنے والے لڑکے لڑکیوں کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا اور قاتل سزائوں سے محفوظ رہے۔ جب چھوٹے چھوٹے مجرمانہ واقعات ہوتے رہیں‘ تو قصور جیسا میگا المیہ ان سب کی یادیں تازہ کر دیتا ہے اور جب ان سارے واقعات کو ملا کر پڑھا جائے‘ تو ہمارے معاشرے اور ملک کے بارے میںجو تصور پیدا ہوتا ہے‘ اس کے آئینے میں دیکھنے والوں کو ہماری شکلیں کیسی نظر آتی ہوں گی؟ جو معززین اس چیختے چنگھاڑتے گناہ عظیم کو چھپانے کے لئے من گھڑت کہانیاں بیان کر کے‘ حقائق کا منہ چڑاتے ہیں‘ ان کی صورتیں مزید بھیانک ہو جاتی ہیں۔یہ واقعات ایسے ہیں کہ ان پر پردہ ڈالا ہی نہیں جا سکتا۔ متاثرین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ہر آٹھ دس آدمیوں میں ایک براہ راست اس گناہ عظیم سے متاثر نکلتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں یہ ایسا جرم ہے‘ جس کا ہدف بننے والوں میں 80سے 90 فیصد اہداف اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ماننے سے ہی انکار کر جاتے ہیں۔ قصور کے گائوں پر کتنی بڑی قیامت گزری ہو گی کہ اتنے زیادہ لوگ‘ ایسے شرمناک سلوک کا چیخ چیخ کر اعتراف کر رہے ہیں؟ دو چار آدمی یا سیاسی لوگ تو اپنے ظلم کا شکار بننے والوں کو جھوٹا ثابت کرنے میں 
کامیاب ہو سکتے ہیں‘ لیکن جب پورے گائوں کے گائوں ‘ جنسی جلادوں کا ہدف بن جائیں‘ تو پھر بڑے سے بڑا سیاستدان بھی انہیں جھوٹا قرار نہیں دے سکتا۔ درجنوں دیہات میں دوردور بسنے والے لوگ‘ ایک ہی ظلم کی دہائی دینے لگیں‘ تو انہیں جھوٹا کہنے والا یا کوئی شقی القلب شخص ہے یا کسی نہ کسی انداز میں مجرموں کا ساتھی یا جرائم کی پردہ پوشی کرنے والا کوئی دریوزہ گر۔ ایسے لوگوں کے لئے شکاگو کے عامر کا ایک ہی پیغام ہے کہ انسانیت کے خلاف ایسے بھیانک جرائم کے بارے میں من گھڑت کہانیاں پھیلا کر‘ ان کے اثرات کمزور کرنے والوں سے کہیے ''اگر آپ کے بیٹے کے ساتھ یہی ہوتا اور آپ کی فریاد کو جھٹلایا جاتا‘ تو آپ کے دل پر کیا گزرتی؟‘‘ ہماری دیہاتی خواتین جو محنت کش اور شرم و حیا کاپیکر ہوتی ہیں‘ جب ان کا سینہ پھٹ جائے اور وہ شرم و حیا کی بھاری چادر اتار کے‘ ایسے مظالم کی تفصیل بتانے لگیں‘ تو وہاںجھوٹ کا گزر نہیں ہو سکتا۔ آخر میں ٹیلیفون کال کرنے والے ایک شخص کی درفنطنی جو اس نے حکومت کے خوشامدیوں کے حوالے سے کہی ‘ پیش ہے۔ ''یہ سب کچھ تو ہمارے ساتھ بھی ہوتا رہا ہے۔ مگر ہم نے جمہوریت کی بقا اور فروغ کے لئے کبھی زبان نہیں کھولی۔‘‘ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں