آج یوم آزادی کے موقع پر مجھے اس سے بہتر کوئی کام نظر نہیں آیا کہ میں برصغیر میں ہندو مسلم تعلقات کی پیچیدہ نوعیت کا ایک خاکہ پیش کروں‘جو ''بی بی سی اردو ڈاٹ کام‘‘ پر دیکھا۔قائداعظمؒ نے جب پاکستان حاصل کرنے کا فیصلہ کیا‘ تو اس عظیم مدبر کے ذہن میں وہ پاکستان تھا ہی نہیں‘ جو آج ہم بنا بیٹھے ہیں۔ قائدؒ کے ذہن میں مذہبی نفرت کا شائبہ تک نہیں تھا۔ اگر آپ ان کی زندگی کے واقعات پڑھیں‘ تو ان کی جدوجہد کا ایک ہی مقصد نظر آتا ہے کہ متعصب اور تنگ نظر ہندو اکثریت کے ساتھ رہنے کے بجائے اگر مسلمانوں کو جمہوری اصولوں کے تحت اپنے اپنے اکثریتی علاقوں میں ایک آزاد اور خودمختار ملک حاصل کر دیا جائے‘ تو مسلمان‘ ہندو ذہنیت کے غلبے سے محفوظ رہ کر‘ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں‘ جہاں مذہبی تنگ نظری اور ذات پات پر مبنی بدبودار کلچر سے علیحدہ ہو کر‘ وہ فراخدلانہ مسلم تہذیب کی روشنی میں ایک ایسا معاشرہ تعمیر کریں ‘ جہاں انسان مذہب یا ذات پات کی بنا پر نفرتوں کا شکار نہ ہوں۔ جس معاشرے میں انسانی رشتوں کو خطبہ حجتہ الوداع کی روشنی میں تشکیل دیا گیا ہو جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا''لوگو! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے بہت سے قبیلے اور خاندان بنا دیئے ہیں تاکہ تم پہچانے جا سکو۔ یعنی باہم ایک دوسرے کو شناخت کرسکو۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔ کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر فضیلت اور برتری نہیں ہے اور نہ کسی کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر فضیلت۔ برتری صرف پرہیز گاری کی بنیاد پر ہے۔ تم سب لوگ آدمؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ مٹی سے پیدا کئے گئے۔ ‘‘ اور میرے رب کے محبوبﷺ نے فرمایا ''اے گروہ قریش! قیامت کے دن ایسا نہ ہو کہ تم دنیا کا بوجھ اپنی گردنوں پر اٹھائے ہوئے آئو اور لوگ آخرت کا سامان لے کر آئیں۔ یادرکھو! اگر ایسا ہوا تو میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکوں گا۔‘‘ اسلام کے نام پر ہم نے اپنے معاشرے کو جیسا بنا لیا ہے‘ اس کے بارے میں اللہ کے محبوبﷺ نے فرما دیا ہے ''اگر ایسا ہوا‘ تو میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکوں گا۔‘‘
میں نے بھارت کے بارے میں درج ذیل رپورٹ دیکھی‘ تو لرز کر رہ گیا کہ ہم تو وہی بن چکے ہیں جیسا کافر معاشرہ ہوتا ہے اور جس سے علیحدہ ہو کر ہم نے اپنا وطن بنایا تھا۔ مگر ہم تو وہی بن گئے جنہیںہمارے رسول ﷺ نے انتباہ فرمایا کہ ''میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکوں گا۔‘‘ مذکورہ رپورٹ میں لکھا ہے۔
''گزشتہ ایک سال سے جب سے بھارت میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعت بی جے پی نے حکمرانی سنبھالی ہے ‘ان خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ ملک میں مذہبی تشدد بھی بڑھ رہا ہے۔
کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ بی جے پی نے اقلیتوں کے خلاف عدم برداشت کے رجحان کو ہوا دی ہے اور اس کی وجہ سے ہندو حلقے بھی کھل کر بات کرنے سے ڈرے ہوئے ہیں۔کرسمس کے تہوار سے کچھ ہی دن پہلے دہلی کے سباسچیئن چرچ کو آگ لگا دی گئی۔ یہ گزشتہ سال ہندوستان میں حملے کا نشانہ بننے والے پانچ گرجا گھروں میں سے ایک ہے۔چرچ کے پادری انتھونی فرانسس کا کہنا ہے کہ انھیں پولیس کے اس بیان پر یقین نہیں کہ آگ شارٹ شرکٹ کی وجہ سے لگی۔ اس لئے انھوں نے خود ہی شواہد اکٹھا کرنا شروع کر دیئے۔انتھونی فرانسس کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے پولیس افسران کو آگ بجھانے کے لیے استعمال کئے گئے پانی پر تیل کی تہہ دکھائی‘ تب ہی اس کیس کی تحقیقات آتشزنی کے واقعے کے طور پر شروع کی گئیں۔لیکن ابھی تک نہ تو اس چرچ اور نہ ہی باقی چار گرجا گھروں پر حملوں کے سلسلے میں کوئی گرفتاری عمل میں آئی ہے اور سینٹ سباسچیئن چرچ میں ہونے والی مذہبی رسومات‘ اب قریبی کمیونٹی سنٹر میں پلاسٹک کی چادر تلے ادا کی جا رہی ہیں۔
بھارت کی ایک بڑی اقلیت مسلمان بھی‘ اس سلسلے میں دباؤ کا شکارہے۔پچھلے سال انتخابات کے بعد‘ آنے والے مہینوں میں دارالحکومت دہلی سے صرف 100 کلومیٹر دور واقع قصبے مظفر نگر میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے جن میں 60 سے زائد لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔حالانکہ اس کے بعد سے اب تک کوئی بڑا فساد نہیں ہوا ہے مگر اس نوعیت کے چھوٹے چھوٹے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔محمد جمشید ‘جن کے برادرِ نسبتی دین محمد اس سال مئی میں مظفر نگر کے قریبی گاؤں کیرانہ میں‘ فسادات کے نتیجے میں فالج کا شکار ہوگئے تھے کا کہنا تھا کہ ''اب ہندو مسلمانوں کو گاؤں سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ ان کے مستقل حملوں نے وہاں خوف کی فضا پیدا کردی ہے۔‘‘18 سالہ دین محمد کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ یہ حادثہ تب پیش آیا جب وہ مسلمانوں پر تشدد کے خلاف پولیس کارروائی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرے کے قریب سے گزر رہے تھے۔ ''میں مظاہرہ دیکھنے کے لیے وہیں رک گیا کہ اس دوران پولیس کی گاڑی سے ایک گولی آ کر مجھے لگی۔ مجھے لگا میرا جسم سن ہوگیا ہے۔ میں چند قدم آگے چلا اور گرگیا۔ اس کے بعد مجھے خون کی الٹی آنے لگی۔‘‘ دین محمد کو ڈر ہے کہ وہ اب کبھی دوبارہ نہیں چل سکے گا۔پولیس کا کہنا ہے کہ دین محمد کے جسم سے برآمد ہونے والی گولی پولیس استعمال نہیں کرتی لیکن وہ تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا پولیس نے اس دن ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا تھا۔گزشتہ ماہ ایک 26 سالہ مسلمان مزدور فیضان دہلی سے بذریعہ ٹرین قریبی گاؤں شاملی جارہا تھا کہ تقریباً دس کے قریب ہندوؤں نے اسے بری طرح مارا پیٹا۔ اس کی داڑھی نوچ ڈالی اور پھر اس کے پاس موجود رقم لے کر فرار ہو گئے۔ فیضان کا کہنا ہے کہ ''پولیس نے ابھی تک سوائے شکایت درج کرنے کے اورکچھ نہیں کیا اور مجھے ڈر ہے کہ ایسا واقعہ دوبارہ رونما نہ ہوجائے۔‘‘بھارتی میڈیا بھی اس طرح کے واقعات پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتا اور اس طرح کے واقعات مزید پریشان کن لگتے ہیں‘ جب ان کے ساتھ ساتھ حکمران جماعت بی جے پی کے رہنماؤں کے اقلیتوں کے متعلق متعصبانہ بیانات سامنے آتے ہیں۔بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ساکشی مہاراج کا کہنا ہے کہ' 'ہندوؤں کی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے ہر ہندو عورت کو چار بچے پیدا کرنے چاہئیں۔‘‘ایک اور رکن پارلیمنٹ گریراج سنگھ نے کہا ہے کہ ''جو لوگ مودی کے خلاف ہیں انہیں پاکستان جانا ہوگا۔‘ ‘اس بیان کے بعد ہی انھیں وزیر کا عہدہ دے دیا گیا۔لیکن بھارت میں اقلیتوں کے وزیر مختار عباس نقوی کے مطابق ''آپ تشدد کے کچھ واقعات اور وزرا کے ذاتی حیثیت میں دیے گئے کچھ بیانات سے پوری حکومت کی سوچ کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔‘‘نریندر مودی نے خود بھی وزیر اعظم بننے کی بعد ہندو قوم پرستی کا ایک اعتدال پسند رخ پیش کیا ہے۔نریندر مودی نے فروری میں گرجا گھروں پر حملے کے بعد دباؤ میں آ کر کہا تھا کہ' 'ہماری حکومت اکثریت یا اقلیت سے تعلق رکھنے والے کسی بھی مذہبی گروہ کو‘ دوسرے فرقے کے خلاف کھلے عام یا درپردہ نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں دے گی۔‘‘لیکن حال ہی میں جاری ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں 2015 ء کے پہلے چھ ماہ میں فرقہ وارانہ تصادم میں پچھلے سال کے مقابلے میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس سال ہونے والے 330 فرقہ وارانہ حملوں میں 51 جان لیوا تھے جبکہ پچھلے سال انھی مہینوں میں اس قسم کے کل 252 حملوں میں 33 جان لیوا تھے۔نریندر مودی کے موجودہ دور حکومت میں مظفر نگر کے فسادات‘ 2002ء میں گجرات میں ہونے والے خونی فسادات سے کم تباہ کن تھے جب نریندر مودی وہاں کے وزیر اعلیٰ تھے۔گجرات میں تقریباً 1000 سے زیادہ افراد جن میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی‘ لقمہ اجل بنے۔ گجرات فسادات‘ ٹرین میں آگ لگنے کی وجہ سے 60 ہندو زائرین کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئے۔
تشدد کے علاوہ تعصب کی اور بھی بہت سی شکلیں ہیں جن کی پیمائش ممکن نہیں۔بکر پرائز حاصل کرنے والی بھارتی مصنفہ اروندھتی رائے کا کہنا ہے کہ ''تعصب یہ نہیں کہ آپ مسلمانوں کو جان سے ماردیں یا ان کے پیچھے پڑجائیں یا آپ کسی کا گھر جلا ڈالیں بلکہ تعصب یہ ہے کہ انہیں نوکریاں نہیں دی جائیں یا ان کو رہنے کی جگہ نہ دی جائے ‘جس کی وجہ سے وہ خوف کا شکار ہیں۔‘‘اروندھتی رائے کا کہنا تھا کہ ان کی طرح کی شہری مڈل کلاس بھی اب ہندو قوم پرستی کے نئے نظریے سے خوفزدہ ہے۔ ''یہ صرف مسلمانوں اور ہندوؤں کا سوال نہیں ہے بلکہ شاید ان لوگوں کا ہے جن سے وہ سب سے زیادہ نفرت کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا کو ایک مختلف نظریے سے دیکھتے ہیں، اور اسی لیے انہیں خاموش کرایا جا رہا ہے۔‘‘
فادر انتھونی کا کہنا ہے کہ چرچ کا جلنا 'بھارت کے آئین کے جلنے کے مترادف ہے‘ جو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔''مجھے ڈر ہے کہ اگر یہ ملک ایک ہندو قوم بن گیا تو پاکستان کے نقش قدم پر چلنے لگے کا اور توہین مذہب جیسے قوانین کے ذریعے اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاسکے گا۔ ہم یہ کس قسم کا ملک بنانے جا رہے ہیں؟‘‘