"NNC" (space) message & send to 7575

وہ کس طرف تھے؟

ایک طرف تو مشاہد اللہ خان کی خفیہ معلومات کا یہ عالم ہے کہ نوازشریف اور جنرل راحیل شریف کے خلاف ہونے والی سازش کی جزئیات تک کی خبر رکھتے ہیں اور دوسری طرف یہ حالت کہ ان کے بھائی نے پی آئی اے میں جو کارنامے انجام دیئے‘ ان کے بارے میں وہ کچھ بھی نہیں جانتے‘ ورنہ انہیں معلوم ہوتا‘ تو یقینی طور پر وہ اپنی رائے کا اظہار کرتے۔ آئی ایس آئی کے ڈی جی کی جس سازش کا انہوں نے انکشاف کیا‘ اس کی تفصیلات ان کی زبانی سننے اور پڑھنے کے بعد‘ تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ سازشیوں کے ساتھ تھے یا وزیراعظم کے ساتھ؟ دونوں جانب سے انہوں نے اپنے باخبر ہونے کا جو تاثر دیا‘ اس سے تو یہی سمجھنے میں مشکل پڑتی ہے کہ اصل میں وہ تھے کس کے ساتھ؟ اور سب سے بڑی بات یہ کہ جب ان کی بیان کردہ مبینہ سازش کبھی کی دم توڑ چکی ہے‘ آج انہوں نے وہ پراسرار کہانی کیوں بیان کی؟ کہیں اس کہانی کا سلسلہ پھر سے توشروع نہیں ہو رہا؟میرے ذہن میں یہ سوال اس وجہ سے پیدا ہوا کہ جو بات ختم ہو گئی‘ اس کے بارے میں ایک عالمی نشریاتی ادارے کو تفصیلی انٹرویو دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ جس طرح انہوں نے کہانی کی جزئیات پیش کی ہیں‘ اس میں وہ صرف ایک طرف کے نظر نہیں آتے۔ ان کے پاس دونوں طرف کی خفیہ خبریں موجود ہیں۔ مثلاً یہ بات ان کے علم میں تھی کہ کلاشنکوفوں سے بھری ہوئی دو گاڑیاں وزیراعظم ہائوس کی طرف جاتے پکڑی گئی تھیں۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ان کلاشنکوفوں کو استعمال کرنے کے لئے شوٹر پہلے سے وزیراعظم ہائوس پہنچائے جا چکے تھے۔ ظاہر ہے‘ یہ خبر وزیراعظم ہائوس میں کیسے جاتی؟اس کا سراغ تو بہت بعد میں لگا ہو گا جبکہ مشاہد اللہ خان عین موقع واردات کا منظرنامہ بیان کرتے ہیں۔ خان صاحب کا یہ انٹرویو محض آڈیو نہیں ویڈیو ہے۔ اس کے کچھ حصے بھی ویب سائٹ پر ڈال دیئے گئے ہیں۔تردید کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی گئی۔جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم نوازشریف یقینی طور پر یہ ویڈیو دیکھ چکے ہوں گے۔ ٹی وی کے عام ناظرین اور ویب سائٹ کے قارئین کو بھی شاید پورا متن پڑھنے کا موقع نہ ملا ہو۔ تفصیل پیش خدمت ہے تاکہ اصل انٹرویو کے منتخب حصے پاکستانی ناظرین اور قارئین بھی ملاحظہ کر سکیں۔
''وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ کے اہم رکن اور قریبی ساتھی مشاہداللہ خان نے کہا ہے کہ پچھلے سال اسلام آباد میں تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے دوران پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام عباسی نے ایک سازش تیار کی تھی جس کے ذریعے وہ فوجی اور سول قیادت کو ہٹا کر ملک پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔مشاہد اللہ خان کے بقول اس سازش کا انکشاف اس وقت ہوا جب پاکستان کے سویلین انٹیلی جنس ادارے انٹیلی جنس بیورو نے لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام عباسی کی ٹیلی فونک گفتگو ٹیپ کی ‘جس میں وہ مختلف لوگوں کو ہدایات دے رہے تھے کہ دھرنے کے دوران کس طرح افراتفری پھیلانی ہے اور وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کرنا ہے۔ مشاہد اللہ خان نے اس دھرنے کے ایک سال مکمل ہونے پر بی بی سی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ 28 اگست کی شام وزیر اعظم نواز شریف نے بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے دوران یہ آڈیو ٹیپ انہیں سنائی۔
وفاقی وزیر نے کہا' 'جنرل راحیل شریف یہ ٹیپ سن کر حیران رہ گئے۔ انہوں نے اسی وقت جنرل ظہیر الاسلام عباسی کو اسی میٹنگ میں وزیر اعظم کے سامنے طلب کر کے‘ وہی ٹیپ دوبارہ چلوائی اور ان سے پوچھا کہ کیا یہ آواز آپ ہی کی ہے؟ اور جنرل عباسی کی جانب سے اس تصدیق کے بعد کہ یہ آواز انہی کی ہے، جنرل راحیل نے جنرل عباسی کو میٹنگ سے چلے جانے کو کہا۔‘‘مشاہد اللہ خان نے کہا کہ یہ ٹیپ اور اس کے علاوہ بھی اس وقت حکومت کو مختلف ذرائع سے جو اطلاعات مل رہی تھیں وہ بہت خوفناک تھیں اور اس وقت تیار ہونے والی سازش کے نتیجے میں بہت تباہی ہونی تھی۔''اس ٹیپ میں کھلی سازش تیار کی جا رہی تھی کہ کیا کرنا ہے، کیسے کرنا ہے، وزیراعظم ہاؤس پر قبضے کی بھی بات کی گئی تھی، یعنی اس سب کے نتیجے میں بہت ہی زیادہ بگاڑ تھا۔ اس وقت کچھ بھی ہو سکتا تھا۔‘‘ مشاہد اللہ کے بقول اس وقت جو سازش تیار کی جا رہی تھی اس کا نشانہ صرف سول حکومت یا وزیراعظم نواز شریف نہیں تھے بلکہ یہ سازش بری فوج کے سربراہ کے خلاف بھی تھی۔ ''اس سازش کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کے درمیان اتنی خلیج اور اختلافات پیدا کر دیے جائیں کہ نواز شریف کو مجبور کر دیا جائے کہ وہ جنرل راحیل کے خلاف کوئی ایکشن لیں اور جب وہ ایکشن لیں تو اس وقت کچھ لوگ حرکت میں آئیں اور اقتدار پر قابض ہو جائیں۔‘‘اس سوال پر کہ جب اسلام آباد میں اتنی سنگین سازش تیار ہو رہی تھی اور اس پر عمل کرنے کی کوشش ہو رہی تھی عین اس وقت وزیراعظم نواز شریف اچانک وزیراعظم ہاؤس چھوڑ کر اپنے اہل خانہ سمیت لاہور کیوں چلے گئے؟مشاہد اللہ نے کہا کہ وزیراعظم کو ایوان وزیراعظم سے باہر نکالنے کا فیصلہ بھی ایک سازش سے بچنے کے لیے کیا گیا تھا۔اس کی تفصیل بتاتے ہوئے مشاہد اللہ نے کہا کہ 31 اگست کے روز انٹیلی جنس بیورو اور بعض دیگر ذرائع سے حکومت کو خبر ملی کہ اسلحے سے بھری دو گاڑیاں وزیراعظم ہاؤس کی طرف آ رہی ہیں۔ اس وقت تک پی ٹی وی پر قبضہ ہو چکا تھا اور لوگ سیکرٹریٹ اور وزیراعظم ہاؤس کی طرف بڑھ رہے تھے۔''ایسے میں حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا کہ وزیراعظم کو وہاں سے نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کر دیا جائے۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ فوج ہی کے ایک افسر نے دو گاڑیوں کو پکڑا جو وزیراعظم ہاؤس جانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ان گاڑیوں میں پچیس پچیس کلاشنکوفیں تھیں۔‘‘ اس سوال پر کہ یہ بندوقیں کس نے اور کہاں استعمال کرنی تھیں؟ مشاہد اللہ خان نے کہا''جب میں نے اس بارے میں دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ ان کے کچھ لوگ وہاں (وزیراعظم ہاؤس) پہلے ہی پہنچ چکے تھے جنہوں نے ان کلاشنکوفوں کو استعمال کرنا تھا۔ بس یہ اسلحہ اندر لانے کی دیر تھی۔‘‘جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک طرف آپ بعض فوجی جرنیلوں پر حکومت کے خلاف سازش کا الزام لگا رہے ہیں اور دوسری طرف وزیراعظم ہاؤس اور دیگر اہم عمارات کی حفاظت کی ذمہ داری بھی فوج ہی کو دے دی گئی؟ مشاہد اللہ نے کہا کہ فوج بطور ادارہ حکومت کے خلاف اس سازش میں شامل نہیں تھی۔''بعض بہت موثر اور سینئرجرنیل اس سازش میں ملوث تھے، جن میں لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام بھی شامل ہیں۔ لیکن جنرل راحیل اور پاکستانی فوج ایک ادارے کے طور پر اس سازش میں شامل نہیں تھی۔‘‘مشاہد اللہ نے کہا کہ اگر جنرل راحیل حکومت ختم کرنے کی خواہش رکھتے تو پھر دھرنوں وغیرہ کی ضرورت ہی نہیں پیش آنی تھی۔اس سوال پر کہ حکومت کو اس دھرنے کی آڑ میں ہونے والی اس مبینہ سازش کا علم کب ہوا؟ تو مشاہداللہ خان نے کہا کہ حکومت کو پہلے دن سے اس سازش کا علم تھا۔''ہمیں پتہ تھا کہ لندن میں طاہر القادری اور عمران خان کے درمیان ہونے والی ملاقات میں آئی ایس آئی کے کچھ لوگ بھی موجود تھے۔ ہم یہ بھی جانتے تھے کہ اس ملاقات میں کیا کچھ طے ہوا کہ کس نے لاہور سے کب چلنا ہے، کہاں پہنچنا ہے، کیا کرنا ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے دن ہی سے یہ تہیہ کر رکھا تھا کہ کسی بھی قیمت پر ان لوگوں کے خلاف طاقت استعمال نہیں کرنی کیونکہ بعض طاقتیں یہی چاہتی تھیں کہ حکومت طاقت استعمال کرے اور ان کی سازش پر عمل کا راستہ ہموار ہو جائے۔اس مبینہ سازش میں ملوث ہونے پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ ظہیر الاسلام عباسی کے خلاف کارروائی کے امکانات کے بارے میں ایک سوال پر مشاہد اللہ نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت ابھی اتنی طاقتور نہیں کہ اس طرح کی کارروائی کر سکے۔ ''گو کہ ہماری حکومت نے جنرل مشرف کے خلاف مقدمہ تو درج کیا لیکن ہم ان کے خلاف بھی اس طرح کی کارروائی نہیں کر سکے جیسی کہ کی جانی چاہیے تھی۔ وزیراعظم کی ساری توجہ ملکی استحکام اور اسے آگے لے جانے پر مرکوز ہے۔ ایسے موقع پر وہ اس قسم کی انکوائری یا کارروائی کا فیصلہ نہیں کرنا چاہتے۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں