"NNC" (space) message & send to 7575

ایک جنرل‘ ایک مدبر

جنرل حمیدگل کو مرحوم لکھتے ہوئے قلم رک رہا ہے۔ اتنے زندہ آدمی کے مرنے کا یقین کرنا مشکل ہوتا ہے۔ وہ ایک تھنکنگ جنرل تھے۔ سپاہی بھی کمال کے اور مدبر بھی اعلیٰ پائے کے۔ وہ مجھ سے اختلاف کرنے والے بہترین دوست تھے۔ اتنے وسیع الاحباب کہ شمار کرنا مشکل ہے۔ وہ اکیلے دوست نہیں بنتے تھے، جس سے بھی دوستی ہوتی‘ پورے خاندان کے ساتھ ہوتی۔ ان کے دونوں بیٹوں اور بیٹی عظمیٰ گل سے صرف ٹیلی فون پر باتیں ہوتیں، مگر یوں جیسے میں اپنے بچوں سے بات کر رہا ہوں۔ بیگم صاحبہ کو صرف ایک مرتبہ دیکھا ہے، ان کے چہرے پر اپنائیت جھلکتی تھی۔ ان کے اور میرے تعلقات ربع صدی پر پھیلے تھے۔شاید ہی کوئی کالم نویس ہو‘ جسے وہ باقاعدگی سے نہ پڑھتے ہوں اور اگرکالم کے موضوع پر کسی رائے کا اظہار کرنا ضروری ہوتا‘ تو اسی وقت فون کرتے اور بلاتکلف اپنی رائے کا اظہار کر دیتے۔ مجھ سے کبھی اتفاق نہیں کیا۔ ان کی آواز سنتے ہی میں سمجھ لیتا کہ اب کیا کہنے والے ہیں؟ وہ متعلقہ موضوع پر اپنے خیالات کا وضاحت سے اظہار کرتے اور ساتھ مشورہ بھی دیتے کہ میں اپنی بات دوسرے انداز میں کرتا‘ تو کالم کی افادیت میں اضافہ ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ بات چیت اتنے پیار بھرے انداز میں ہوتی کہ ان کے ساتھ محبت کا رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ کوئی ہماری باتیں سن کر یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ہمارے خیالات میں بعدالمشرقین ہے۔ میں افغان پالیسی کا شدید مخالف اور وہ اس کے بنانے والے۔ میں مجاہدین کو نام نہاد لکھتا اور وہ انہیں اسلام کا سپاہی قرار دیتے۔ کئی بار تو ایسا ہوتا کہ وہ براہ راست گفتگو کے لئے ملنا ضروری سمجھتے۔ کبھی وہ خود لاہور تشریف لے آتے اور کبھی مجھے ملتان یااسلام آباد جانا پڑتا۔ بات ہمیشہ سچی اور کھری کرتے۔ 
نوازشریف 1990ء کا الیکشن جیتے‘ تو جنرل حمیدگل کے ان سے انتہائی قریبی تعلقات تھے۔ وہ انہیں برادرانہ مشورے بھی دیا کرتے۔ جب حکومت سازی پر مشاورت ہو رہی تھی‘ تو ایک بار انہوں نے تینوں باپ بیٹوں کو ایک ساتھ بٹھایا اور مشورہ دیا کہ آپ اپنے کاروبار سے الگ تھلگ ہو جائیں۔ انتظامات کو آپ کا سٹاف چلائے اور فیملی کا کوئی رکن انتظامی معاملات پر نظر رکھے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ آپ ٹرسٹ بنا کر اپنا کاروبار چلاتے رہیں اور جب تک حکومت میں رہیں‘ کسی لین دین میں حصہ نہ لیں۔ نوازشریف تو فوراً ہی آمادہ ہو گئے، لیکن ان کے والد مرحوم اپنے مزاج کے آدمی تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنا کاروبار ایمانداری سے چلاتے ہیںاور میرے نزدیک ہماری تجارتی اہلیت سے ملکی صنعت کو فائدہ ہوتا ہے‘ تو یہ ملک و قوم کی خدمت ہے، ہم اسے نہیں چھوڑ سکتے۔ شنید ہے کہ شہبازشریف بھی اپنے والد صاحب کے ہم خیال تھے جبکہ نوازشریف‘ ذہنی طور پر اس مشورے پر عمل کرنے کی طرف مائل تھے، لیکن والد صاحب کے احترام میں چپ سادھ لی۔ اپنا ذاتی خیال انہوں نے کافی عرصے کے بعد دہرایا‘ جب منظوروٹو ‘ میاں صاحب کے گھر کے سامنے ملاقاتیوں کے لئے بنائی گئی‘ انتظار گاہ پر بلڈوزر چلا رہے تھے اور اس عمل میں گھریلو بجلی کی تاریں اور گیس کے پائپ بھی ٹوٹ پھوٹ گئے۔ مئی کے حبس اور گرد بھرے دنوں میں میرازیادہ وقت میاں صاحب کے ڈرائنگ روم میں‘ ان کے ساتھ بیٹھے گزرتا۔ ایسے مواقع پر ہر طرح کی باتیں ہوتی ہیں۔ ایک بار وہ اپنا آئندہ کا پروگرام بتا رہے تھے کہ ''میں تو یہ سوچ رہا ہوں ‘ اب ایک ویلفیئر ٹرسٹ بنا دوں، جس میں سے ضروریات کے مطابق اپنے تمام خاندانوں کے اخراجات لیتا رہوں اور باقی منافع ضرورت مندوں کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کر دیا جائے۔‘‘ بعد میں غالباً ان کے ذہن سے یہ خیال نکل گیا۔ ان کے والد محترم اور شہبازشریف کاروبار کی طرف متوجہ رہے، لیکن نوازشریف سیاست میں ایسا مگن ہوئے کہ کاروبار سے ان کا تعلق ہی نہیں رہ گیا تھا۔ الزام تراشیاں تو لوگ اس وقت بھی کرتے تھے، لیکن مجھے اتنا علم ضرور ہے کہ نوازشریف کاروباری معاملات سے لاتعلق تھے۔ اب قطر کے ساتھ گیس ڈیل کی کہانی سن کرمحسوس ہوتا ہے کہ نوازشریف بھی کاروبار کی طرف توجہ دینے لگے ہیں۔ جس طریقے سے یہ ڈیل کی گئی ہے‘ وزیراعظم کی دلچسپی کے بغیر‘ اس طرح نہیں ہو سکتی تھی۔ اس قصے کو یہیں چھوڑتے ہیں۔ بات جنرل حمیدگل کے مشورے کی ہو رہی تھی۔ وہ جب بھی اس طرح کا کوئی سکینڈل سنتے‘ تو ہمیشہ یاد کرتے کہ کاش! یہ باپ بیٹے میری بات مان لیتے‘ تو ان کے عزت و وقار میں بے حد اضافہ ہوتا اور ان کا شمار ملک کے عظیم سیاسی قائدین میںہونے لگتا۔ شہبازشریف اور ان کے ترجمانوں کو مختلف الزامات کے جواب میں باربار وضاحتیں نہ کرنا پڑتیں۔ 
جنرل حمیدگل کی تمام سوچوں کا مرکز صرف پاکستان اور عالم اسلام تھا۔ وہ اپنے ملک کے لئے ہی نہیں‘ اسلامی دنیا کے لئے بھی سوچا کرتے تھے ۔ اگر ان کے سوچے ہوئے منصوبے حقیقت میں ڈھل جاتے‘ تو اسلامی دنیا ایک بڑی طاقت بن سکتی تھی، لیکن جو حالت مسلمان ملکوں کی ہے‘ ان سے یہ امید کرنا کہ وہ اجتماعی مفادات کے لئے مل کر کام کر لیں گے‘ محض ایک خیالِ خام ہے۔ بھارت پر جنرل صاحب کی ہمیشہ توجہ رہتی۔ ان کے تصور میں ایک ایسا خاکہ تھا‘ جس کے مطابق سارک کے تمام اراکین‘ ایک متحدہ محاذ بنا کر‘ بھارت کی بالادستی کے خوابوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ وسطی ایشیا کے مسلمان ملک‘ اپنی ایک تنظیم بنا کر متحد ہو جاتے اور کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں سب مل کر اپنا حصہ ڈالتے‘ تو بھارت کو کشمیری عوام کے ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کوئی فیصلہ کرنا پڑتا۔ میرا ذہن خوابوں پر مبنی ان تصورات کو ماننے سے قاصر تھا۔ جیسے دلکش انداز میں وہ اپنے خواب بیان کیا کرتے‘ انہیں سن کر میرا دل ضرور خوش ہوتا، بلکہ یہ خواہش پیدا ہونے لگتی کہ کاش! ایسا ممکن ہو سکے۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہ دوران گفتگو اکثر قرآن پاک کے حوالے دیتے لیکن وہ ملا ہرگز نہیں تھے۔ان کے نزدیک فرقہ بندیوں نے مسلمانوں کے اتحاد کو شدید نقصان پہنچایا۔ مگر انہیں یقین تھا کہ وہ ان سارے تفرقوں کو مٹا کر ‘ مسلمانوں میں اتحاد اور اتفاق پیدا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے بہترین عہدوں پر رہتے ہوئے کبھی امانت میں خیانت نہیں کی۔ جس زمانے میں انہیں آئی ایس آئی کی سربراہی ملی‘ اس وقت مجاہدین میں بانٹنے کے لئے ڈالروں سے بھرے سوٹ کیس آیا کرتے تھے۔ ڈالر تقسیم کرنے کی ذمہ داری آئی ایس آئی کی ہوتی۔ جب سے جنرل حمید گل نے چارج لیا‘ انہوں نے پوری کی پوری رقم نہ صرف ایمانداری سے تقسیم کی بلکہ اس کا حساب کتاب بھی چیف آف آرمی سٹاف کو بھیجنا شروع کر دیا۔ ان سے پہلے نہ تو اس طرح کا حساب رکھا جاتا اور نہ کسی کو بھیجا جاتا۔ باقی آپ خود قیاس کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس جنرل حمیدگل کو اپنے آزادانہ خیالات کی قیمت ہمیشہ ادا کرنا پڑی۔ یہاں تک کہ ان کے بچوں نے بھی کوئی کاروبار کیا‘ تو سرکاری مشینری استعمال کر کے‘ اس کاروبار کونہیں چلنے دیا گیا۔ ان کی صاحبزادی عظمیٰ گل کی ٹرانسپورٹ کمپنی‘ واران بس سروس کو مالی نقصان پہنچا کر دیوالیہ کر دیا گیا۔ یہ اس دور میں عالمی معیار کی سروس مہیا کرتی تھی۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہری انتہائی خوش تھے کیونکہ نہایت عمدہ بسیں‘ اتنی ہی عمدہ سروس مہیا کرتیں۔ بسیں وقت پر چلتیں اور مسافروں کو وقت پر ہی ان کے سٹاپ تک پہنچا دیتیں۔ کرائے بہت تھوڑے رکھے گئے تھے۔ دیگر ٹرانسپورٹرز نے متحدہ محاذ بنا کر اس کمپنی کے خلاف مہم چلائی۔ حکومت نے اس پروپیگنڈے کا بہانہ بنا کر بسوں کو طرح طرح سے روکنا شروع کر دیا اور آخر میں تمام کی تمام بسیں بند کر کے کھڑی کر دی گئیں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ حکومت کے بدنیتی پر مبنی حربوں سے‘ اپنی بیٹی کے کاروبار کو بچانے کے لئے وہ بات کریں گے، لیکن اس اللہ کے بندے نے کسی کو ٹیلیفون کرنا بھی گوارا نہ کیا؛ البتہ میڈیا میں اس ظلم کی رپورٹیں ضرور شائع ہوئیں اور اگر کسی صحافی نے جنرل صاحب سے سوال کیاتو وہ حقائق ضرور بتا دیتے لیکن اپنی طرف سے کبھی کوئی اپیل نہیں کی۔ حکومتوں کا کام عوام کو سہولتیں پہنچانا ہوتا ہے جبکہ اس ٹرانسپورٹ کمپنی کو بدنیتی سے ناکام بنا کر‘ عوام کو دستیاب سہولتیں بھی چھین لی گئیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ افغانستان کی جنگ کے فیصلے حمید گل کو کرنے دیئے جاتے‘ تو شایدیہ جنگ پاکستان کے لئے اس قدر تباہ کن ثابت نہ ہوتی۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی مشکلات پر حمید گل کوہمیشہ فکرمند اور تکلیف میں دیکھا۔ وہ زبانی کلامی نہیں‘ سچے دل سے پاکستانی تھے۔مجھے ان کے خیالات سے اختلاف ضرور رہتا، مگر ان کی نیک نیتی ‘میری نظر میں شک و شبہ سے بالاتر تھی۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں